صدر محض سے صدر محض تک
عارف علوی کی بطور صدر کامیابی کا اعلان ہوا تو خوشی سے ان کی ہنسی تھمنے میں نہیں آ رہی تھی۔
ن لیگ کے ممنون حسین اپنی مدت صدارت مکمل کر کے جاچکے اور اب ان کی جگہ تحریک انصاف کے عارف علوی ہیں۔دونوں میں پہلی قدرمشترک یہ ہے کہ دونوں کراچی سے ہیں۔ دوسری قدرمشترک یہ ہے کہ جس طرح ممنون حسین صدارت کے لیے اپنے پارٹی لیڈر نوازشریف کے ممنون احسان تھے، اسی طرح عارف علوی بھی اپنے پارٹی قائد عمران خان کے ممنون احسان ہیں۔
جب کہ تیسری اور اہم ترین قدرمشترک وہی ہے، جو 1973ء کے آئین کے تحت سب ہی 'جمہوری صدور مملکت' میں رہی ہے کہ بے اختیارمحض ہیں۔آصف زرداری کی پوزیشن قدرے مختلف یوں تھی کہ صدر ہوتے ہوئے وہ چونکہ پارٹی چیئرمین بھی تھے، لہٰذاآئینی طور پر بے اختیار ہونے کے باوجود عملی طور پر بے اختیار نہیں تھے،بلکہ جب تک وہ صدر رہے، حکومتی امور میں ان کی رائے کی وقعت وزیراعظم کی رائے پر بھی فوقیت رکھتی تھی۔ اس پس منظر میںیہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ایوان صدرایک ممنون حسین گئے ہیں تو دوسرے ممنون حسین آ گئے ہیں، حقیقتاً کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی ہے۔
1973ء کے آئین کے تحت اگرچہ صدر مملکت وفاق کی علامت ہیں اور رسمی طور پر تمام تر ریاستی احکامات انھی کے نام سے جاری ہوتے ہیں، حتیٰ کہ ان کو سپریم کورٹ کی طرف سے کی گئی سزا میں تخفیف، معافی یا اس میں ردوبدل کرنے کا اختیار بھی تفویض کیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود ریاستی امور میں ان کی حیثیت بے اختیار محض ایک کل پرزے کی ہے، جس کی پارلیمنٹ سے سالانہ خطاب کے سوا کوئی قابل ذکر مصروفیت نظر نہیں آتی۔ یہ بات مگر اپنی جگہ بڑی دلچسپ ہے کہ بے اختیارمحض ہونے کے باوجود 'پارٹی قائدین' کے سوا تقریباً سبھی سیاستدانوں کو اس میں ایک گونا کشش محسوس ہوتی ہے۔
حالیہ الیکشن میں اعتزازاحسن اور فضل الرحمن جیسے نامور پارلیمنٹیرین صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شامل تھے۔ فضل الرحمن نے باوجود اس کے کہ ان کے صدر منتخب ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا، ایوان صدر پہنچنے کی سرتوڑ کوشش کی بلکہ اس کے لیے آصف زرداری کی منت سماجت کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ اسی طرح جب عارف علوی کی بطور صدر کامیابی کا اعلان ہوا تو خوشی سے ان کی ہنسی تھمنے میں نہیں آ رہی تھی، حالاں کہ اس سے پہلے یہی عارف علوی، ممنون حسین کو نوازشریف کا ممنون محض اور' بے حس وحرکت' صدر قرار دے کر ان کا تمسخر اڑایا کرتے تھے۔
'جمہوری صدر'کے بے اختیار محض ہونے کا ذکر ہو اور فضل الٰہی چوہدری کا ذکر نہ ہو، ممکن نہیںکہ اس ضمن میں ان کا نام اور شخصیت علامتی رنگ اختیار کر چکے ہیں۔ حالاں کہ صدر محض بننے سے پہلے وہ ایک عوامی سیاستدان تھے، بلکہ پاکستان بننے سے پیشتر1946ء کے الیکشن میں بھی رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف ادوار میں بھی کامیابی حاصل کی۔1970ء کے الیکشن میں بھی بھاری اکثریت سے جیتے، لیکن جیسے ہی اس طرح کے بے دست وپا صدر بنے، عوام کی نظر میں ان کی حیثیت یہ ہو گئی کہ ایوان صدر کی دیوار پر کسی ستم ظریف نے یہ تک لکھ دیا تھا کہ ''صدر کو رہا کرو۔'' اور بھی بے شمار لطیفے مشہور ہیں۔
فضل الٰہی چوہدری کے بعد اس طرح صدر محض کی شہرت جسٹس ( ر ) رفیق احمد تا رڑ نے حاصل کی۔ان کو نوازشریف کے والد گرامی میاں محمد شریف نے صدارت کے لیے منتخب کیا تھا اور اس کی واحد وجہ ان کا نوازشریف فیملی کا وفادار ہونا تھا۔ ان کا ایک اورکارنامہ نوازشریف کے ایما پرچیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف کوئٹہ بنچ کو متحرک کرنا تھا۔ اس قصہ کا ذکر چیف جسٹس سجاد رعلی شاہ نے اپنی یادداشتوں میں بھی کیا ہے۔میں نے جب ایک بار تارڑ صاحب سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ نوازشریف نے رفیق تارڑ کو اس عہدہ کے لیے کس طرح منتخب کیا اورکس طر ح ان کو اس کی اطلاع دی، اس کی روداد بے حد دلچسپ ہے۔
یہ رودادانھوں نے ایک بار اپنے جوہر ٹاون والے گھر میں مجھے خود سنائی، کہنے لگے، جس رات مجھے پاکستان کی صدارت کے لیے نامزد کیا گیا؛ اس دن صبح کو میں پینشن وصول کرنے بینک گیا ہوا تھا۔ جب میں فارغ ہوا تو دیکھا کہ گیٹ پرمولانا امین احسن اصلاحی کے انتقال کی اطلاع دی گئی ہے۔ مگر میں ان کی عالمانہ حیثیت کامعترف ہوں۔ وہ بہت بڑے عالم دین اوربے بدل مفسرقران تھے۔ اس لیے ٹھیک دوبجے مولانا کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے ڈیفنس مسجد پہنچ گیا۔
شہباز شریف، احسن اقبال اور مجیب الرحمان شامی بھی موجود ہیں۔یہاں سے فارغ ہوکر میں اپنی بیٹی کے گھر چلاگیا، جو ڈیفنس ہی میں رہتی ہے۔ وہاںگاوں سے میرے بھائی بھی آئے ہوئے ہیں۔ ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اچانک وہیں میری اہلیہ کا فون آگیا، جسے پہلے میری بھتیجی نے سنا۔ اہلیہ نے کہا، تمھارے چچاصبح سے نکلے ہوئے ہیں اورکہیں سے ان کا پتہ نہیں چل رہا۔میری بھتیجی نے ریسور مجھے تھما دیا۔ اہلیہ نے کہا، آپ کے گھر سے نکلنے کے لگ بھگ پندرہ منٹ بعد پرائم منسٹر ہاوس سے آپ کے لیے ٹیلے فون آیاتھا۔ آپریٹر کہہ رہاتھا، وزیراعظم صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔اس کے بعد بھی تین چار بار فون آیاہے۔ میں نے جواباً پرائم منسٹر ہاوس فون کیا۔پرائم منسٹر صاحب سے بات ہوئی توانھوں نے کہا، آپ فوری طورپراسلام آباد پہنچ جائیں،نہایت ہی ضروری معاملے میں مشورہ لینا ہے۔
میں رات ساڑھے نو بجے پرائم منسٹر سیکریٹریٹ پہنچا۔ میاں صاحب مجھے لے کرسیکریٹریٹ کے برآمدوں، لابیوں میں پھرتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ میں نے سوچا، مجھے تو فوری طورپر اسلام آباد پہنچنے کے لیے پیغا م ملا تھا۔ میں اسی شش وپنج میں تھا کہ دوران گفتگو میاںصاحب نے اچانک کہا، میں نے پاکستان کی صدارت کے لیے آپ کو مسلم لیگ کی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے تارڑ صاحب کی آنکھوں میں اس وقت کی تمام تر حیرت امڈ آئی، کہنے لگے،سچی بات عبداللہ صاحب، مجھے گمان ہواکہ میں نے میاں صاحب کی بات کو صحیح طور پر نہیں سنا۔چنانچہ میں نے کہا،''میاںصاحب، یہ ملک کاسب سے بڑا منصب ہے۔ آپ اس کے لیے کوئی بہترین آدمی تلاش کریں۔میاں صاحب نے جواباًکہا ، '' میں نے اپنی طرف سے تو یہی کیا ہے۔
بطور صدر رفیق احمد تارڑ کس درجہ شریف فیملی کے زیراثر تھے، یہ بھی انھی کی زبانی سنئیے۔کہنے لگے،'12 اکتوبرکی رات میں نے لاہور کے اپنے ایک عزیزکو پیغام بھجوایا کہ وہ کسی ذریعہ سے میاں شریف سے رابطہ قائم کرے اوران سے پوچھے کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ یہ میں نے اس لیے کیا کہ ایک بار میں نے میاں نوازشریف سے کہا کہ آپ میاں محمداظہرکے ساتھ اپنا اختلاف ختم کیوں نہیں کر لیتے؟ میاں صاحب نے کہا، ہم نے میاں اظہرکو گورنر بنایا، مگرجب ہمیں ان کی ضرورت تھی تو وہ ہمیں بتائے بغیر استعفا دے کرگورنر ہاوس سے گھر چلے گئے۔ یہ واقعہ چونکہ میرے ذہن میں تھا، اس لیے میں نے میاں شریف کے مشورے کے بغیر فوراً استعفا دینا مناسب نہ سمجھا۔
اس پس منظر میں جب 2013ء میں نوازشریف نے ممنون حسین کو صدر منتخب کیا تو یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ وہ بھی ایک طرح سے رفیق احمد تارڑ ہی کا تسلسل ہیں۔ تارڑ صاحب کے برعکس ممنون حسین اگرچہ متمول آدمی تھے، لیکن بقول شیخ رشید کے، جن دنوں وہ بھی ن لیگ میں تھے، کراچی میں نوازشریف کی آمد پر ان کی واحد ''پولیٹیکل ایکٹیوٹی'' قائد محترم کے لیے لذت کام کا بندوبست کرنا ہونا تھا۔
ممنون حسین نے بھی اگرچہ تارڑ صاحب کی طرح بڑی تابعداری اورخاموشی سے اپنی مدت صدارت مکمل کی، تاہم پاناما لیکس منظر عام آنے کے بعد ان کا ایک ذومعنی بیان بہت مشہور ہوا، جس میں انھوں نے پاناما لیکس کو اللہ کی پکڑ قرار دیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کہ کیا صدر مملکت کی حیثیت سے وہ اپنے تئیں عمران خان کا ''ممنون'' ہونے کی نفسیات سے نجات حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں۔ شاعر نے کہا تھا ،
فضل وہنر بڑوں کے گر تم میں ہوں تو جانیں
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں
جب کہ تیسری اور اہم ترین قدرمشترک وہی ہے، جو 1973ء کے آئین کے تحت سب ہی 'جمہوری صدور مملکت' میں رہی ہے کہ بے اختیارمحض ہیں۔آصف زرداری کی پوزیشن قدرے مختلف یوں تھی کہ صدر ہوتے ہوئے وہ چونکہ پارٹی چیئرمین بھی تھے، لہٰذاآئینی طور پر بے اختیار ہونے کے باوجود عملی طور پر بے اختیار نہیں تھے،بلکہ جب تک وہ صدر رہے، حکومتی امور میں ان کی رائے کی وقعت وزیراعظم کی رائے پر بھی فوقیت رکھتی تھی۔ اس پس منظر میںیہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ایوان صدرایک ممنون حسین گئے ہیں تو دوسرے ممنون حسین آ گئے ہیں، حقیقتاً کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی ہے۔
1973ء کے آئین کے تحت اگرچہ صدر مملکت وفاق کی علامت ہیں اور رسمی طور پر تمام تر ریاستی احکامات انھی کے نام سے جاری ہوتے ہیں، حتیٰ کہ ان کو سپریم کورٹ کی طرف سے کی گئی سزا میں تخفیف، معافی یا اس میں ردوبدل کرنے کا اختیار بھی تفویض کیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود ریاستی امور میں ان کی حیثیت بے اختیار محض ایک کل پرزے کی ہے، جس کی پارلیمنٹ سے سالانہ خطاب کے سوا کوئی قابل ذکر مصروفیت نظر نہیں آتی۔ یہ بات مگر اپنی جگہ بڑی دلچسپ ہے کہ بے اختیارمحض ہونے کے باوجود 'پارٹی قائدین' کے سوا تقریباً سبھی سیاستدانوں کو اس میں ایک گونا کشش محسوس ہوتی ہے۔
حالیہ الیکشن میں اعتزازاحسن اور فضل الرحمن جیسے نامور پارلیمنٹیرین صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شامل تھے۔ فضل الرحمن نے باوجود اس کے کہ ان کے صدر منتخب ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا، ایوان صدر پہنچنے کی سرتوڑ کوشش کی بلکہ اس کے لیے آصف زرداری کی منت سماجت کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ اسی طرح جب عارف علوی کی بطور صدر کامیابی کا اعلان ہوا تو خوشی سے ان کی ہنسی تھمنے میں نہیں آ رہی تھی، حالاں کہ اس سے پہلے یہی عارف علوی، ممنون حسین کو نوازشریف کا ممنون محض اور' بے حس وحرکت' صدر قرار دے کر ان کا تمسخر اڑایا کرتے تھے۔
'جمہوری صدر'کے بے اختیار محض ہونے کا ذکر ہو اور فضل الٰہی چوہدری کا ذکر نہ ہو، ممکن نہیںکہ اس ضمن میں ان کا نام اور شخصیت علامتی رنگ اختیار کر چکے ہیں۔ حالاں کہ صدر محض بننے سے پہلے وہ ایک عوامی سیاستدان تھے، بلکہ پاکستان بننے سے پیشتر1946ء کے الیکشن میں بھی رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف ادوار میں بھی کامیابی حاصل کی۔1970ء کے الیکشن میں بھی بھاری اکثریت سے جیتے، لیکن جیسے ہی اس طرح کے بے دست وپا صدر بنے، عوام کی نظر میں ان کی حیثیت یہ ہو گئی کہ ایوان صدر کی دیوار پر کسی ستم ظریف نے یہ تک لکھ دیا تھا کہ ''صدر کو رہا کرو۔'' اور بھی بے شمار لطیفے مشہور ہیں۔
فضل الٰہی چوہدری کے بعد اس طرح صدر محض کی شہرت جسٹس ( ر ) رفیق احمد تا رڑ نے حاصل کی۔ان کو نوازشریف کے والد گرامی میاں محمد شریف نے صدارت کے لیے منتخب کیا تھا اور اس کی واحد وجہ ان کا نوازشریف فیملی کا وفادار ہونا تھا۔ ان کا ایک اورکارنامہ نوازشریف کے ایما پرچیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف کوئٹہ بنچ کو متحرک کرنا تھا۔ اس قصہ کا ذکر چیف جسٹس سجاد رعلی شاہ نے اپنی یادداشتوں میں بھی کیا ہے۔میں نے جب ایک بار تارڑ صاحب سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ نوازشریف نے رفیق تارڑ کو اس عہدہ کے لیے کس طرح منتخب کیا اورکس طر ح ان کو اس کی اطلاع دی، اس کی روداد بے حد دلچسپ ہے۔
یہ رودادانھوں نے ایک بار اپنے جوہر ٹاون والے گھر میں مجھے خود سنائی، کہنے لگے، جس رات مجھے پاکستان کی صدارت کے لیے نامزد کیا گیا؛ اس دن صبح کو میں پینشن وصول کرنے بینک گیا ہوا تھا۔ جب میں فارغ ہوا تو دیکھا کہ گیٹ پرمولانا امین احسن اصلاحی کے انتقال کی اطلاع دی گئی ہے۔ مگر میں ان کی عالمانہ حیثیت کامعترف ہوں۔ وہ بہت بڑے عالم دین اوربے بدل مفسرقران تھے۔ اس لیے ٹھیک دوبجے مولانا کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے ڈیفنس مسجد پہنچ گیا۔
شہباز شریف، احسن اقبال اور مجیب الرحمان شامی بھی موجود ہیں۔یہاں سے فارغ ہوکر میں اپنی بیٹی کے گھر چلاگیا، جو ڈیفنس ہی میں رہتی ہے۔ وہاںگاوں سے میرے بھائی بھی آئے ہوئے ہیں۔ ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اچانک وہیں میری اہلیہ کا فون آگیا، جسے پہلے میری بھتیجی نے سنا۔ اہلیہ نے کہا، تمھارے چچاصبح سے نکلے ہوئے ہیں اورکہیں سے ان کا پتہ نہیں چل رہا۔میری بھتیجی نے ریسور مجھے تھما دیا۔ اہلیہ نے کہا، آپ کے گھر سے نکلنے کے لگ بھگ پندرہ منٹ بعد پرائم منسٹر ہاوس سے آپ کے لیے ٹیلے فون آیاتھا۔ آپریٹر کہہ رہاتھا، وزیراعظم صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔اس کے بعد بھی تین چار بار فون آیاہے۔ میں نے جواباً پرائم منسٹر ہاوس فون کیا۔پرائم منسٹر صاحب سے بات ہوئی توانھوں نے کہا، آپ فوری طورپراسلام آباد پہنچ جائیں،نہایت ہی ضروری معاملے میں مشورہ لینا ہے۔
میں رات ساڑھے نو بجے پرائم منسٹر سیکریٹریٹ پہنچا۔ میاں صاحب مجھے لے کرسیکریٹریٹ کے برآمدوں، لابیوں میں پھرتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ میں نے سوچا، مجھے تو فوری طورپر اسلام آباد پہنچنے کے لیے پیغا م ملا تھا۔ میں اسی شش وپنج میں تھا کہ دوران گفتگو میاںصاحب نے اچانک کہا، میں نے پاکستان کی صدارت کے لیے آپ کو مسلم لیگ کی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے تارڑ صاحب کی آنکھوں میں اس وقت کی تمام تر حیرت امڈ آئی، کہنے لگے،سچی بات عبداللہ صاحب، مجھے گمان ہواکہ میں نے میاں صاحب کی بات کو صحیح طور پر نہیں سنا۔چنانچہ میں نے کہا،''میاںصاحب، یہ ملک کاسب سے بڑا منصب ہے۔ آپ اس کے لیے کوئی بہترین آدمی تلاش کریں۔میاں صاحب نے جواباًکہا ، '' میں نے اپنی طرف سے تو یہی کیا ہے۔
بطور صدر رفیق احمد تارڑ کس درجہ شریف فیملی کے زیراثر تھے، یہ بھی انھی کی زبانی سنئیے۔کہنے لگے،'12 اکتوبرکی رات میں نے لاہور کے اپنے ایک عزیزکو پیغام بھجوایا کہ وہ کسی ذریعہ سے میاں شریف سے رابطہ قائم کرے اوران سے پوچھے کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ یہ میں نے اس لیے کیا کہ ایک بار میں نے میاں نوازشریف سے کہا کہ آپ میاں محمداظہرکے ساتھ اپنا اختلاف ختم کیوں نہیں کر لیتے؟ میاں صاحب نے کہا، ہم نے میاں اظہرکو گورنر بنایا، مگرجب ہمیں ان کی ضرورت تھی تو وہ ہمیں بتائے بغیر استعفا دے کرگورنر ہاوس سے گھر چلے گئے۔ یہ واقعہ چونکہ میرے ذہن میں تھا، اس لیے میں نے میاں شریف کے مشورے کے بغیر فوراً استعفا دینا مناسب نہ سمجھا۔
اس پس منظر میں جب 2013ء میں نوازشریف نے ممنون حسین کو صدر منتخب کیا تو یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ وہ بھی ایک طرح سے رفیق احمد تارڑ ہی کا تسلسل ہیں۔ تارڑ صاحب کے برعکس ممنون حسین اگرچہ متمول آدمی تھے، لیکن بقول شیخ رشید کے، جن دنوں وہ بھی ن لیگ میں تھے، کراچی میں نوازشریف کی آمد پر ان کی واحد ''پولیٹیکل ایکٹیوٹی'' قائد محترم کے لیے لذت کام کا بندوبست کرنا ہونا تھا۔
ممنون حسین نے بھی اگرچہ تارڑ صاحب کی طرح بڑی تابعداری اورخاموشی سے اپنی مدت صدارت مکمل کی، تاہم پاناما لیکس منظر عام آنے کے بعد ان کا ایک ذومعنی بیان بہت مشہور ہوا، جس میں انھوں نے پاناما لیکس کو اللہ کی پکڑ قرار دیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کہ کیا صدر مملکت کی حیثیت سے وہ اپنے تئیں عمران خان کا ''ممنون'' ہونے کی نفسیات سے نجات حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں۔ شاعر نے کہا تھا ،
فضل وہنر بڑوں کے گر تم میں ہوں تو جانیں
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں