سندھ میں ٹرانسپورٹ کی بدحالی پر سپریم کورٹ کا انتباہ
جناب جسٹس نے کراچی کے شہریوں کو درپیش سفری مشکلات کا بالکل صحیح ادراک کیا ہے۔
سندھ میں پبلک ٹرانسپورٹ کی زبوں حالی اور عوامی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ایک متعلقہ مقدمے میں فل بنچ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد نے بالکل صائب کہا ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولت کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
جسٹس گلزار احمد کے یہ کمنٹس چشم کشا ہیں کہ سندھ حکومت حکم عدولی کر رہی ہے، کراچی میں 1955 ماڈل کی گاڑیاں چل رہی ہیں، 200 نئی گرین بسیں ایک ہفتے میں غائب ہوگئیں، بسوں کو زمین کھا گئی یا سمندر نگل گیا، کراچی میں نہ ٹرین چلی اور نہ ہی بسیں۔
جناب جسٹس نے کراچی کے شہریوں کو درپیش سفری مشکلات کا بالکل صحیح ادراک کیا ہے۔ پاکستان کا معاشی ہب سمجھا جانا والا شہر قائد جس بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے یہاں شہریوں کو اپنے روزگار، تعلیمی اداروں اور دیگر علاقوں میں جانے کے لیے روز میلوں سفر کرنا پڑتا ہے اور اس دوران شہری جس اذیت اور کوفت سے گزرتے ہیں اس کا درست اندازہ خود پر بیتے بنا نہیں ہوسکتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے یہ کمنٹس عوام کے دل کی آواز ہیں کہ 'سیکریٹری ٹرانسپورٹ سے گاڑی لے کر انھیں پبلک ٹرانسپورٹ پر چڑھایا جائے تو ان کو سمجھ آجائے گی'۔ اگر موازنہ کیا جائے تو تمام مسائل کی جڑ بھی یہی ہے کہ اشرافیہ اور حکومتی اداروں میں بڑے عہدوں پر فائز حضرات عوامی حالات سے بے خبر رہتے ہیں۔
یہ امر بھی لائق تعزیر ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے معاملے پر ہمیشہ سیاست چمکائی گئی ہے جب کہ ٹرانسپورٹ مافیا نے باقاعدہ سازش کے تحت گزشتہ صدی سے اس شہر میں سفری سہولیات کو تباہ کرنا شروع کیا۔ ایک وقت تھا جب شہر میں ٹرام، ڈبل ڈیکر بسیں، سرکلر ٹرین چلا کرتی تھیں لیکن رفتہ رفتہ یہ سفری سہولیات ناپید ہوتی گئیں اور آج کی نسل ان کے نام سے بھی ناآشنا ہے، ٹرانسپورٹ مافیا کی پہنچ اور ''دادا گیری'' کا یہ عالم ہے کہ عوام یرغمال ہوکر رہ گئے ہیں اور سندھ حکومت بے بس نظر آتی ہے۔
کیا وجہ ہے کہ ہر دور حکومت میں سفری سہولیات مہیا کرنے کے صرف وعدے و دعوے تو کردیے جاتے ہیں لیکن عملدرآمد دکھائی نہیں دیتا۔ شہر کے لیے منگوائی جانے والی وہ سی این جی اور گرین بسیں کہاں ہیں جس کے دعوے گزشتہ اور موجودہ وزیراعلیٰ سندھ کرتے آئے ہیں؟ لازم ہوگا کہ سندھ خصوصاً کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل اور عوام کے لیے سفری سہولیات مہیا کی جائیں۔
جسٹس گلزار احمد کے یہ کمنٹس چشم کشا ہیں کہ سندھ حکومت حکم عدولی کر رہی ہے، کراچی میں 1955 ماڈل کی گاڑیاں چل رہی ہیں، 200 نئی گرین بسیں ایک ہفتے میں غائب ہوگئیں، بسوں کو زمین کھا گئی یا سمندر نگل گیا، کراچی میں نہ ٹرین چلی اور نہ ہی بسیں۔
جناب جسٹس نے کراچی کے شہریوں کو درپیش سفری مشکلات کا بالکل صحیح ادراک کیا ہے۔ پاکستان کا معاشی ہب سمجھا جانا والا شہر قائد جس بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے یہاں شہریوں کو اپنے روزگار، تعلیمی اداروں اور دیگر علاقوں میں جانے کے لیے روز میلوں سفر کرنا پڑتا ہے اور اس دوران شہری جس اذیت اور کوفت سے گزرتے ہیں اس کا درست اندازہ خود پر بیتے بنا نہیں ہوسکتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے یہ کمنٹس عوام کے دل کی آواز ہیں کہ 'سیکریٹری ٹرانسپورٹ سے گاڑی لے کر انھیں پبلک ٹرانسپورٹ پر چڑھایا جائے تو ان کو سمجھ آجائے گی'۔ اگر موازنہ کیا جائے تو تمام مسائل کی جڑ بھی یہی ہے کہ اشرافیہ اور حکومتی اداروں میں بڑے عہدوں پر فائز حضرات عوامی حالات سے بے خبر رہتے ہیں۔
یہ امر بھی لائق تعزیر ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے معاملے پر ہمیشہ سیاست چمکائی گئی ہے جب کہ ٹرانسپورٹ مافیا نے باقاعدہ سازش کے تحت گزشتہ صدی سے اس شہر میں سفری سہولیات کو تباہ کرنا شروع کیا۔ ایک وقت تھا جب شہر میں ٹرام، ڈبل ڈیکر بسیں، سرکلر ٹرین چلا کرتی تھیں لیکن رفتہ رفتہ یہ سفری سہولیات ناپید ہوتی گئیں اور آج کی نسل ان کے نام سے بھی ناآشنا ہے، ٹرانسپورٹ مافیا کی پہنچ اور ''دادا گیری'' کا یہ عالم ہے کہ عوام یرغمال ہوکر رہ گئے ہیں اور سندھ حکومت بے بس نظر آتی ہے۔
کیا وجہ ہے کہ ہر دور حکومت میں سفری سہولیات مہیا کرنے کے صرف وعدے و دعوے تو کردیے جاتے ہیں لیکن عملدرآمد دکھائی نہیں دیتا۔ شہر کے لیے منگوائی جانے والی وہ سی این جی اور گرین بسیں کہاں ہیں جس کے دعوے گزشتہ اور موجودہ وزیراعلیٰ سندھ کرتے آئے ہیں؟ لازم ہوگا کہ سندھ خصوصاً کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل اور عوام کے لیے سفری سہولیات مہیا کی جائیں۔