نچلے طبقے کو اوپر لائیں گے

ہمارا معاشی اورمعاشرتی نظام صدیوں سے اشرافیائی برتری پر قائم ہے اوراس ذہنیت کو سرمایہ دارانہ نظام نے اورمستحکم کیا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

وزیر اعظم عمران خان نے اکنامک ایڈوائزری کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نچلے طبقے کو اوپر لائیں گے ۔ ملکی ترقی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک معاشرے کے ہر فرد کو معاشی نظام اور ترقی کے عمل میں شراکت دار نہیں بنایا جائے گا وزیر اعظم نے ممتاز ماہرین معیشت کی اکنامک ایڈوائزری کونسل میں شرکت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تجربات اور سفارشات سے ملکی معیشت کو درپیش مسائل پر قابو پانے، حکومتی اصلاحاتی ایجنڈے اور نئی سوچ کو عملی جامہ پہنانے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔

وزیر اعظم عمران خان اپنی انتخابی مہم کے دور ہی سے یہ بات تسلسل کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو نچلے طبقات کو اوپر لائیں گے۔ اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ حکمران طبقات نے اپنے دور حکومت میں نچلے طبقات کو اوپر لانے کی کوشش توکجا کبھی نچلے طبقات کو اوپر لانے کی بات بھی زبان پر نہیں لائے۔ کیونکہ ان کا اشرافیائی غرور اس قسم کی باتیں کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اشرافیہ یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اس قسم کی باتیں کرنے سے نچلے طبقات کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں اور وہ اوپر آنے کی خواہش کرنے لگتے ہیں۔

عمران خان مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ایک کرکٹر ہیں ، ان کی عملی زندگی کا آغاز کرکٹ ہی سے ہوا ہے اور فطری طور پر ان میں پلیئرز کی اسپرٹ ہی ہوسکتی ہے کرکٹ کی دنیا میں بھی یہ کھلاڑی کامیاب رہا ۔اب سیاسی دنیا میں بھی کامیابی کی جدوجہد کر رہا ہے ۔ مڈل کلاس سے تعلق ہونے کی وجہ سے عمران خان نچلے طبقات کی قابل رحم زندگی اور مسائل سے واقف ہیں اور یہ بات بڑی منفرد ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد سابقہ حاکموں کی طرح ان کی توجہ حصول دولت پر مرکوز نہیں رہی بلکہ وہ غریب عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کی سوچ پر قائم ہیں۔

ہمارا معاشی اور معاشرتی نظام صدیوں سے اشرافیائی برتری پر قائم ہے اور اس ذہنیت کو سرمایہ دارانہ نظام نے اور مستحکم کیا ہے۔ صدیوں پر پھیلے ہوئے اس طبقاتی نظام میں نچلے طبقات کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ، اس قسم کے کلچر میں کسی حکمران کا نچلے طبقات کو اوپر اٹھانے کی بات کرنا ہی تعجب خیز لگتا ہے، لیکن عمران خان کی فطرت میں ناداروں کی خدمت کرنا شامل ہے جس کا ثبوت شوکت خانم کینسر اسپتال کی شکل میں ہمارے سامنے ہے پاکستان میں غریبوں کی عام بیماریوں کا علاج ہی مشکل ہے ایسی صورت میں کینسر اسپتال قائم کرنا اور ضرورت مندوں کا مفت یا رعایتی داموں پر علاج کرنا ایک قابل تعریف کارنامہ ہی کہلایا جاسکتا ہے۔ عمران خان بڑی آسانی سے نچلے طبقات کو اوپر لانے کی بات کر رہے ہیں لیکن شاید انھیں اندازہ نہیں کہ یہ کام کس قدر مشکل ہے اور اس کام کی راہ میں کتنی دشواریاں ہیں۔

یہ بات بلاشبہ انتہائی حوصلہ افزا اور منصفانہ ہے کہ وہ طبقات جو اپنا خون پسینہ بہا کر ملک بھرکے عوام کی ضروریات پوری کرتے ہیں انھیں دو وقت کی روٹی نہیں ملتی اور اشرافیہ ان کی محنت پر عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں۔ یہ ناانصافی نہیں ظلم ہے اور اس ظلم کو ختم ہونا چاہیے۔


عمران خان اس ظلم کو ختم کرنا چاہتے ہیں یہ بڑی اچھی خواہش ہے لیکن اس ظلم کو ختم کرنے کا طریقہ کیا ہوگا ؟ یہ سوال اس قدر اہم ہے کہ اگرکوئی اس سوال کا مثبت اور تسلی بخش جواب ڈھونڈ لے تو نچلے طبقات اوپر آسکتے ہیں۔ غریب طبقات کا معاشی مسئلہ بھوک، افلاس، تعلیم اور علاج سے محرومی وغیرہ ہیں ۔ ہمارے سرمایہ دارانہ نظام میں اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ مزدوروں، ملازمین کی تنخواہوں میں تھوڑا سا اضافہ کردیا جائے۔ ادھر تنخواہوں میں جتنا اضافہ کیا گیا اس سے چار گنا مہنگائی میں اضافہ کردیا گیا۔ بے چارے مزدوروں اور ملازمین کی تنخواہوں میں یہ اضافہ ان کے گلے پڑ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان طبقات کی سماجی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

اس مسئلے کا حل نہ تنخواہوں میں اضافہ ہے نہ مراعات میں اضافہ ہے، ہم نے یہاں مزدوروں اور ملازمین کے مسئلے کا ذکر کیا ہے اگر مزدوروں اور ملازمین کو اوپر لانا ہے تو نمبر 1 ان کی تنخواہوں میں ان کے خرچے کے حساب سے اضافہ کیا جائے اور مالکانہ حقوق میں انھیں شامل کیا جائے اگر ایسا ہوا تو پھر غریب عوام کو نیچے سے اوپر لانے کا مقصد پورا ہوسکتا ہے ورنہ تنخواہوں میں کتنا ہی اضافہ کرلیں سرمایہ دارانہ نظام کی مہنگائی اس اضافے کو ہڑپ کرجائے گی اور مزدور کی سماجی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔

مزدوروں کی تعداد ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ بتائی جاتی ہے کیا قانون ساز اداروں میں ان کی نمایندگی ان کی آبادی کے حساب سے ہے، اگر قانون ساز اداروں میں مزدوروں کی نمایندگی ان کی آبادی کے حساب سے ہو تو پھر ان کے مفادات کا تحفظ ہوسکتا ہے ورنہ ساری باتیں افسانہ ہیں۔

مزدوروں کے ساتھ دوسرا بڑا طبقہ کسانوں، ہاریوں کا ہے جنھیں صدیوں سے زرعی غلام بناکر رکھا گیا ہے۔ کسانوں کا تعلق بھی نچلے طبقات ہی سے ہے بلکہ ان کی سماجی پستی کا عالم یہ ہے کہ یہ طبقہ زرعی غلام بنا ہوا ہے دیہی آبادی کے اس 60 فیصد حصے کو نیچے سے اوپر کس طرح اٹھایا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ ملک میں سخت زرعی اصلاحات کرکے جاگیرداروں، وڈیروں سے نسل در نسل قبضہ کی ہوئی زرعی اراضی کو ان ناجائز قابضین سے چھڑایا جائے اور کسانوں، ہاریوں میں مفت تقسیم کیا جائے۔ اس طرح جہاں ان کی معاشی حالت بہتر ہوگی وہیں ان کا سماجی اسٹیٹس بھی بڑھ جائے گا اور وہ زرعی غلاموں کے اسٹیٹس سے باہر نکل آئیں گے۔

ہم نے یہاں صرف دو نچلے طبقات کو اوپر اٹھانے کا منطقی طریقہ بتایا ہے۔کیا غریب اور نچلے طبقات کو اوپر لانے کے خواہش مند وزیر اعظم عمران خان نیچے سے اوپر اٹھانے کے اس فارمولے سے اتفاق کریں گے؟ کیا ان کی حکومت کے عمائدین نیچے سے اوپر اٹھانے کے اس منطقی طریقے سے اتفاق کریں گے؟
Load Next Story