یہ پچاس لاکھ گھر
ایسا نہیں کہ پاکستان میں کوئی حکمران پہلی بار غریبوں کے سر پے چھت دیکھنا چاہتا ہے۔
پچاس لاکھ گھر پانچ برس میں اور وہ بھی ان کے لیے جو فی زمانہ یا تو خواب میں گھر بنا سکتے ہیں یا بعد از مرگ جنت الفردوس میں مقامِ محمود عطا ہونے کی دعا کرتے کرتے آنکھیں موند لیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ پاکستان میں سالانہ کم ازکم ایک ملین گھروں کی ضرورت ہے ، بلڈنگ سیکٹر فی الحال ساڑھے چار لاکھ سالانہ تک ہاؤسنگ یونٹ بنا پا رہا ہے چنانچہ برس ہا برس کے اس '' گھریلو خسارے '' کے سبب آج کی تاریخ میں اگر ہر پاکستانی کو باعزت چھت دینا ہے تو کم ازکم گیارہ ملین ہاؤسنگ یونٹ فوراً اور چھ لاکھ یونٹ سالانہ بنتے رہنے چاہئیں۔
ایسا نہیں کہ پاکستان میں کوئی حکمران پہلی بار غریبوں کے سر پے چھت دیکھنا چاہتا ہے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں جو ادارے ٹاؤن پلاننگ ، زمین کی فراہمی ، تکنیکی مدد اور ہاؤسنگ کے لیے امدادی قرضوں کا بندوبست کرنے پر مامور تھے خود وہ ادارے رفتہ رفتہ بے چھت ، غیر متعلق یا پھر بے بنیاد ہوتے چلے گئے۔
اس ملک میں مزدوروں کو سستی رہائش فراہم کرنے کی پہلی سنجیدہ کوشش انیس سو چون میں لانڈھی انڈسٹریل اسٹیٹ ٹاؤن شپ کے ذریعے ہوئی۔جو لوگ قیامِ پاکستان کے بعد سے کراچی کے مرکزی علاقوں میں جھگیوں میں رہائش پذیر تھے ان کے لیے انیس سو انسٹھ میں کورنگی ٹاؤن شپ کا افتتاح ہوا۔اسی دوران نیو کراچی میں بھی سرکار نے غریبوں کے لیے کوارٹر بنانے تھے۔پھر کسی نے کہا کہ گھر بنا کے دینے میں خرچہ بہت ہے لہذا کیوں نہ رہائشی اسکیمیں شروع کی جائیں۔
جس میں صرف پلاٹ ہوں۔جہاں کم آمدنی والے لوگ آہستہ آہستہ کمرہ در کمرہ گھر بناتے چلے جائیں۔ان کو امدادی قرضوں یا ہوم موڈگیج فنانسنگ کا سہارا دینے کے لیے انیس سو باسٹھ میں ایوب خان نے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن بنائی ۔مگر مغرب کے برعکس پاکستان میں موڈگیج فنانس کا کلچر چھپن برس میں بھی خاص پروان نہ چڑھ سکا۔ آج بھی نوے فیصد لوگ ذاتی رقم جوڑ جوڑ کر گھر بناتے ہیں ، آٹھ فیصد دوستوں رشتے داروں سے ادھار پکڑ لیتے ہیں اور صرف دو فیصد مکین ایسے ہیں جو موڈگیج فنانسنگ کے لیے ہاؤس بلڈنگ یا پھر بینکنگ سیکٹر سے مدد لیتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ گھر کا خواب بینکوں نے مڈل کلاس کو اور سیاسی جماعتوں نے غریبوں کو خوب خوب بیچا۔ بھٹو صاحب کے منشور کا بنیادی نعرہ ہی روٹی کپڑا اور مکان تھا۔مشہور ہے کہ بھٹو صاحب نے سندھ کے وزیرِ بلدیات سے کہا ''جام صادق قائدِ اعظم کا مزار چھوڑ دینا''۔پھر کسی حکومت نے ڈھائی مرلہ ، کسی نے پانچ تو کسی نے آٹھ مرلہ اسکیمیں شروع کیں ، فیصل آباد ، ملتان ، لاہور اور پشاور میں لیبر کالونیاں بھی بنیں ، سرکاری ریٹس پر پلاٹ بھی دستیاب ہوئے اور گذشتہ حکومت کے دور میں آشیانہ اسکیم بھی پروان چڑھی اور فوت ہو گئی۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مذکورہ بالا کوئی اسکیم بھی بہت دور تک نہ جا سکی ، ہر اسکیم اعلان کرنے والی حکومت کی زندگی تک زندہ رہی اور پھر اگلی حکومت نے پچھلی اسکیم کی قبر پر ایک نئی اسکیم چڑھا دی۔
ہزاروں ہاؤسنگ یونٹ غریبوں کے لیے بنے ضرور مگر ان پر دوسرے قابض ہو گئے یا پھر پرچی و رشوت کے بل پر دو نمبر غریبوں کو الاٹ ہو گئے اور ایک نمبر غریب وضو کرتے رہ گئے۔یہ بھی ہوا کہ جن کچی آبادیوں کے مکینوں کو شہر سے دور پلاٹ دیے گئے وہ ان پلاٹوں کو بیچ کر پھر اسی کچی آبادی میں آ کر بس گئے جہاں سے نکالے گئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ جنگل میں پلاٹ تو الاٹ ہو گئے مگر نہ پانی کا انتظام، نہ بجلی کا اور نہ نوکری پر جانے کے لیے سستی ٹرانسپورٹ کا آسرا۔چنانچہ ایسی اسکیمیں الاٹمنٹ کے باوجود یا تو غیر آباد رہیں یا پھر رفتہ رفتہ موقع پرست خانہ بدوشوں اور مقامی بااثروں نے ہتھیا لیں اور ایک نئی کچی بستی ظہور میں آ گئی۔
ملک و قوم کا درد رکھنے والے کچھ بااختیار افسروں نے اپنے تئیں بھی تجربات کرنے کی کوشش کی مگر اوپر والوں کی سرپرستی نہ ملنے یا عدم دلچسپی کے سبب رہائشی تجربات کے ان سستے پودوں کو حوصلہ افزائی کا پانی نہ مل سکا۔مثلاً سندھ حکومت میں ایک افسر تھے تسنیم صدیقی۔ جب وہ ہاؤسنگ کے سیکریٹری بنے تو انھوں نے حیدرآباد اور جام شورو کے درمیان اور کراچی میں سرجانی ٹاؤن کے علاقے میں '' ِخدا کی بستی '' کے نام سے رہائشی اسکیم شروع کی۔
مستحق افراد کو سرکاری ریٹ پر اسی مربع گز تک کے رہائشی پلاٹ اس شرط پر دیے گئے کہ دس برس کے اندر گھر بناؤ گے تو مالکانہ حقوق کے کاغذات ملیں گے۔یہ پابندی اس لیے لگائی گئی کہ کہیں بے چھت غریب چار نقد پیسوں کے لالچ میں پلاٹ کسی غیر مستحق کو بیچ کر آگے نہ نکل لیں۔اسکیم خاصی حد تک کامیاب بھی رہی مگر پھر آس پاس چائنا کٹنگ کا جنگل اگنا شروع ہوگیا۔
کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( کے ڈی اے ) ٹاؤن پلاننگ کا زمہ دار اور فعال ادارہ تھا اور اس نے شروع شروع میں بالکل اسی طرح رہائشی اسکیمیں متعارف کرائیں جو طریقہ بعد میں سی ڈی اے نے اختیار کیا۔ان رہائشی اسکیموں سے سفید پوش و ملازمت پیشہ طبقات کو اچھا خاصا فائدہ پہنچا۔تاہم اس سلسلے کا آخری منصوبہ اسکیم تینتیس کے نام سے چالیس برس پہلے بنایا گیا۔اسکیم تینتیس کے بارے میں دعوی کیا گیا کہ یہ ایشیا کی سب سے بڑی ہاؤسنگ اسکیم ہو گی۔مگر کے ڈی اے نے خود پلاٹ دینے کے بجائے نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو بڑے بڑے قطعاتِ اراضی الاٹ کر دیے۔کچھ سوسائٹیاں پھل پھول گئیں کچھ سوکھ گئیں اور اسکیم تینتیس آدھا تیتر آدھا بیٹر ہو کر شکم پروری کا سامان ہو گئی۔کے ڈی اے بھی اس دوران سرکاری اداروں میں ضم ہو گئی اور ملیر اور لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹیز وجود میں آ گئیں۔
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی بہت پہلے سے موجود تھی۔اس کی دیکھا دیکھی دیگر ہم پلہ اداروں نے بھی اپنی بے کار زمینوں کو کمرشلانا شروع کر دیا۔مختصر یہ کہ کراچی سمیت پورے ملک میں سرکار نے رفتہ رفتہ چھت فراہم کرنے کے کاروبار سے بھی ہاتھ اٹھا لیا اور یہ سیکٹر مکمل طور پر کارپوریٹ بلڈرز اور مقتدر اداروں کے ہاتھ میں آ گیا۔نوے کی دہائی میں نئی ''گریٹ پلاٹ گیم '' مڈل کلاس ہاؤسنگ سے شروع ہو کر اشرافیہ کی گیٹڈ کمیونٹی پر ختم ہو گئی۔غریب درمیان میں سے خود ہی نکل گیا کیونکہ پلاٹ پہلے صرف زمین کا ٹکڑا تھا اب سیاسی لیور ہے ، شطرنج کا مہرہ ہے ، سٹے کی بازی ہے اور لاکھوں لوگوں کی محرومی کی بساط پر بچھائی گئی اس گیم میں کچھ لوگوں کے لیے اس قدر منافع ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ کا دھندا بھی پانی بھرے۔
ایک انتہا یہ کہ بظاہر ریاست سے بھی زیادہ طاقتور لوگوں کو سرکاری زمین مارکیٹ ریٹ کے مقابلے میں کوڑیوں کے دام بخش دی جاتی ہے۔ دوسری انتہا یہ کہ ملک کا سب سے بڑا شہر اور ترقی کا انجن جہاں چند برس پہلے کسی بے گھر کو پناہ دینے کے لیے کچی آبادیاں بھی کافی تھیں اب ان کا حوصلہ بھی شائد ختم ہو چکا ہے اور رات کو شہر کی فٹ پاتھوں پر لوگ سوتے ہوئے مل جائیں گے۔یعنی کراچی شنگھائی بنے نہ بنے ممبئی ضرور بن رہا ہے۔
اس تناظر میں عمران حکومت کی جانب سے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا فیصلہ ایک اچھا آغاز ہے۔بس کچھ چیزوں کا دھیان رکھئے گا۔ڈزائیننگ اورتعمیراتی ٹینڈرز صرف سستے یا شفاف نہیں بلکہ قابلِ عمل اور پائیدار بھی ہونے چاہئیں۔ایک پاکستانی خاندان اوسطاً چھ افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔پچاس لاکھ ہاؤسنگ یونٹوں کا مطلب ہے کہ ان میں تین کروڑ لوگ بسیں گے۔ان تین کروڑ لوگوں کو پانی ، بجلی ، گیس ، سڑک ، پارک ، اسکول ، اسپتال اور ٹرانسپورٹ بھی درکار ہو گی۔اگر واقعی یہ دیوہیکل مشین چل پڑے تو جتنے ان پچاس لاکھ مکانات میں رہیں گے اتنے ہی ان کے طفیل مختلف تعمیراتی و زیلی منصوبوں کے زریعے روزگار بھی پا لیں گے۔یوں ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے میں سے کم ازکم آدھا تو پورا ہو ہی جائے گا۔
بس ایک احتیاط کیجیے۔عجلت مت کیجیے۔اتنی بڑی تعمیراتی اسکیم شروع کرنے سے پہلے سری لنکا اور جنوبی افریقہ کے تجربات سے ضرور کچھ سیکھ لیجیے۔ورنہ انتہائی خوش نیتی سے شروع ہونے والی اسکیم کو سستی روٹی اسکیم بنتے ہوئے دیر تھوڑا لگتی ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
ایسا نہیں کہ پاکستان میں کوئی حکمران پہلی بار غریبوں کے سر پے چھت دیکھنا چاہتا ہے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں جو ادارے ٹاؤن پلاننگ ، زمین کی فراہمی ، تکنیکی مدد اور ہاؤسنگ کے لیے امدادی قرضوں کا بندوبست کرنے پر مامور تھے خود وہ ادارے رفتہ رفتہ بے چھت ، غیر متعلق یا پھر بے بنیاد ہوتے چلے گئے۔
اس ملک میں مزدوروں کو سستی رہائش فراہم کرنے کی پہلی سنجیدہ کوشش انیس سو چون میں لانڈھی انڈسٹریل اسٹیٹ ٹاؤن شپ کے ذریعے ہوئی۔جو لوگ قیامِ پاکستان کے بعد سے کراچی کے مرکزی علاقوں میں جھگیوں میں رہائش پذیر تھے ان کے لیے انیس سو انسٹھ میں کورنگی ٹاؤن شپ کا افتتاح ہوا۔اسی دوران نیو کراچی میں بھی سرکار نے غریبوں کے لیے کوارٹر بنانے تھے۔پھر کسی نے کہا کہ گھر بنا کے دینے میں خرچہ بہت ہے لہذا کیوں نہ رہائشی اسکیمیں شروع کی جائیں۔
جس میں صرف پلاٹ ہوں۔جہاں کم آمدنی والے لوگ آہستہ آہستہ کمرہ در کمرہ گھر بناتے چلے جائیں۔ان کو امدادی قرضوں یا ہوم موڈگیج فنانسنگ کا سہارا دینے کے لیے انیس سو باسٹھ میں ایوب خان نے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن بنائی ۔مگر مغرب کے برعکس پاکستان میں موڈگیج فنانس کا کلچر چھپن برس میں بھی خاص پروان نہ چڑھ سکا۔ آج بھی نوے فیصد لوگ ذاتی رقم جوڑ جوڑ کر گھر بناتے ہیں ، آٹھ فیصد دوستوں رشتے داروں سے ادھار پکڑ لیتے ہیں اور صرف دو فیصد مکین ایسے ہیں جو موڈگیج فنانسنگ کے لیے ہاؤس بلڈنگ یا پھر بینکنگ سیکٹر سے مدد لیتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ گھر کا خواب بینکوں نے مڈل کلاس کو اور سیاسی جماعتوں نے غریبوں کو خوب خوب بیچا۔ بھٹو صاحب کے منشور کا بنیادی نعرہ ہی روٹی کپڑا اور مکان تھا۔مشہور ہے کہ بھٹو صاحب نے سندھ کے وزیرِ بلدیات سے کہا ''جام صادق قائدِ اعظم کا مزار چھوڑ دینا''۔پھر کسی حکومت نے ڈھائی مرلہ ، کسی نے پانچ تو کسی نے آٹھ مرلہ اسکیمیں شروع کیں ، فیصل آباد ، ملتان ، لاہور اور پشاور میں لیبر کالونیاں بھی بنیں ، سرکاری ریٹس پر پلاٹ بھی دستیاب ہوئے اور گذشتہ حکومت کے دور میں آشیانہ اسکیم بھی پروان چڑھی اور فوت ہو گئی۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مذکورہ بالا کوئی اسکیم بھی بہت دور تک نہ جا سکی ، ہر اسکیم اعلان کرنے والی حکومت کی زندگی تک زندہ رہی اور پھر اگلی حکومت نے پچھلی اسکیم کی قبر پر ایک نئی اسکیم چڑھا دی۔
ہزاروں ہاؤسنگ یونٹ غریبوں کے لیے بنے ضرور مگر ان پر دوسرے قابض ہو گئے یا پھر پرچی و رشوت کے بل پر دو نمبر غریبوں کو الاٹ ہو گئے اور ایک نمبر غریب وضو کرتے رہ گئے۔یہ بھی ہوا کہ جن کچی آبادیوں کے مکینوں کو شہر سے دور پلاٹ دیے گئے وہ ان پلاٹوں کو بیچ کر پھر اسی کچی آبادی میں آ کر بس گئے جہاں سے نکالے گئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ جنگل میں پلاٹ تو الاٹ ہو گئے مگر نہ پانی کا انتظام، نہ بجلی کا اور نہ نوکری پر جانے کے لیے سستی ٹرانسپورٹ کا آسرا۔چنانچہ ایسی اسکیمیں الاٹمنٹ کے باوجود یا تو غیر آباد رہیں یا پھر رفتہ رفتہ موقع پرست خانہ بدوشوں اور مقامی بااثروں نے ہتھیا لیں اور ایک نئی کچی بستی ظہور میں آ گئی۔
ملک و قوم کا درد رکھنے والے کچھ بااختیار افسروں نے اپنے تئیں بھی تجربات کرنے کی کوشش کی مگر اوپر والوں کی سرپرستی نہ ملنے یا عدم دلچسپی کے سبب رہائشی تجربات کے ان سستے پودوں کو حوصلہ افزائی کا پانی نہ مل سکا۔مثلاً سندھ حکومت میں ایک افسر تھے تسنیم صدیقی۔ جب وہ ہاؤسنگ کے سیکریٹری بنے تو انھوں نے حیدرآباد اور جام شورو کے درمیان اور کراچی میں سرجانی ٹاؤن کے علاقے میں '' ِخدا کی بستی '' کے نام سے رہائشی اسکیم شروع کی۔
مستحق افراد کو سرکاری ریٹ پر اسی مربع گز تک کے رہائشی پلاٹ اس شرط پر دیے گئے کہ دس برس کے اندر گھر بناؤ گے تو مالکانہ حقوق کے کاغذات ملیں گے۔یہ پابندی اس لیے لگائی گئی کہ کہیں بے چھت غریب چار نقد پیسوں کے لالچ میں پلاٹ کسی غیر مستحق کو بیچ کر آگے نہ نکل لیں۔اسکیم خاصی حد تک کامیاب بھی رہی مگر پھر آس پاس چائنا کٹنگ کا جنگل اگنا شروع ہوگیا۔
کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( کے ڈی اے ) ٹاؤن پلاننگ کا زمہ دار اور فعال ادارہ تھا اور اس نے شروع شروع میں بالکل اسی طرح رہائشی اسکیمیں متعارف کرائیں جو طریقہ بعد میں سی ڈی اے نے اختیار کیا۔ان رہائشی اسکیموں سے سفید پوش و ملازمت پیشہ طبقات کو اچھا خاصا فائدہ پہنچا۔تاہم اس سلسلے کا آخری منصوبہ اسکیم تینتیس کے نام سے چالیس برس پہلے بنایا گیا۔اسکیم تینتیس کے بارے میں دعوی کیا گیا کہ یہ ایشیا کی سب سے بڑی ہاؤسنگ اسکیم ہو گی۔مگر کے ڈی اے نے خود پلاٹ دینے کے بجائے نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو بڑے بڑے قطعاتِ اراضی الاٹ کر دیے۔کچھ سوسائٹیاں پھل پھول گئیں کچھ سوکھ گئیں اور اسکیم تینتیس آدھا تیتر آدھا بیٹر ہو کر شکم پروری کا سامان ہو گئی۔کے ڈی اے بھی اس دوران سرکاری اداروں میں ضم ہو گئی اور ملیر اور لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹیز وجود میں آ گئیں۔
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی بہت پہلے سے موجود تھی۔اس کی دیکھا دیکھی دیگر ہم پلہ اداروں نے بھی اپنی بے کار زمینوں کو کمرشلانا شروع کر دیا۔مختصر یہ کہ کراچی سمیت پورے ملک میں سرکار نے رفتہ رفتہ چھت فراہم کرنے کے کاروبار سے بھی ہاتھ اٹھا لیا اور یہ سیکٹر مکمل طور پر کارپوریٹ بلڈرز اور مقتدر اداروں کے ہاتھ میں آ گیا۔نوے کی دہائی میں نئی ''گریٹ پلاٹ گیم '' مڈل کلاس ہاؤسنگ سے شروع ہو کر اشرافیہ کی گیٹڈ کمیونٹی پر ختم ہو گئی۔غریب درمیان میں سے خود ہی نکل گیا کیونکہ پلاٹ پہلے صرف زمین کا ٹکڑا تھا اب سیاسی لیور ہے ، شطرنج کا مہرہ ہے ، سٹے کی بازی ہے اور لاکھوں لوگوں کی محرومی کی بساط پر بچھائی گئی اس گیم میں کچھ لوگوں کے لیے اس قدر منافع ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ کا دھندا بھی پانی بھرے۔
ایک انتہا یہ کہ بظاہر ریاست سے بھی زیادہ طاقتور لوگوں کو سرکاری زمین مارکیٹ ریٹ کے مقابلے میں کوڑیوں کے دام بخش دی جاتی ہے۔ دوسری انتہا یہ کہ ملک کا سب سے بڑا شہر اور ترقی کا انجن جہاں چند برس پہلے کسی بے گھر کو پناہ دینے کے لیے کچی آبادیاں بھی کافی تھیں اب ان کا حوصلہ بھی شائد ختم ہو چکا ہے اور رات کو شہر کی فٹ پاتھوں پر لوگ سوتے ہوئے مل جائیں گے۔یعنی کراچی شنگھائی بنے نہ بنے ممبئی ضرور بن رہا ہے۔
اس تناظر میں عمران حکومت کی جانب سے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا فیصلہ ایک اچھا آغاز ہے۔بس کچھ چیزوں کا دھیان رکھئے گا۔ڈزائیننگ اورتعمیراتی ٹینڈرز صرف سستے یا شفاف نہیں بلکہ قابلِ عمل اور پائیدار بھی ہونے چاہئیں۔ایک پاکستانی خاندان اوسطاً چھ افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔پچاس لاکھ ہاؤسنگ یونٹوں کا مطلب ہے کہ ان میں تین کروڑ لوگ بسیں گے۔ان تین کروڑ لوگوں کو پانی ، بجلی ، گیس ، سڑک ، پارک ، اسکول ، اسپتال اور ٹرانسپورٹ بھی درکار ہو گی۔اگر واقعی یہ دیوہیکل مشین چل پڑے تو جتنے ان پچاس لاکھ مکانات میں رہیں گے اتنے ہی ان کے طفیل مختلف تعمیراتی و زیلی منصوبوں کے زریعے روزگار بھی پا لیں گے۔یوں ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے میں سے کم ازکم آدھا تو پورا ہو ہی جائے گا۔
بس ایک احتیاط کیجیے۔عجلت مت کیجیے۔اتنی بڑی تعمیراتی اسکیم شروع کرنے سے پہلے سری لنکا اور جنوبی افریقہ کے تجربات سے ضرور کچھ سیکھ لیجیے۔ورنہ انتہائی خوش نیتی سے شروع ہونے والی اسکیم کو سستی روٹی اسکیم بنتے ہوئے دیر تھوڑا لگتی ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)