کلثوم نواز آمریت کے خلاف جدوجہد کا ایک باب بند
بیگم کلثوم نواز کی وفات سے پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد کا ایک اور باب بند ہوگیا مگر وہ ہمیشہ زندہ وجاوید رہیں گی۔
آہ ! آج کلثوم نواز ہم میں نہیں۔''کلُ نفس ذائقۃالموت'' ہر جان کوموت کا مزہ چکھنا ہے۔ (القران) اور یہی حقیقت ہے مگر نا جانے ہم کیوں یہ بات بھول جاتے ہیں؟جب سے دنیا بنی ہے اربوں اورکھربوں لوگ پید ا ہوئے اور اتنے ہی لوگ دنیا سے کوچ کرگئے، جب تک دنیا ہے۔
آنے اور جانے کے ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان اربوں اور کھربوں لوگوں میں وہ کون ہے جو مرنے کے بعد بھی انسانوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے۔اس موضوع پر بات کی جائے تو بحث بہت آگے بڑھ جائے اور میں اپنے اصل موضوع پر سے ہٹ جاؤں گا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی وفات سے پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد کا ایک اور باب بند ہوگیا مگر وہ ہمیشہ زندہ وجاوید رہیں گی۔انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا ء کا اس وقت بہادری اور جرات سے مقابلہ کیا جب بڑے بڑے سورما سیاستدان گھروں میں بیٹھ گئے تھے یا پھر راتوں رات اپنی وفاداری تبدیل کر چکے تھے۔ اس وقت کلثوم نواز نے آمریت کے خلاف جمہوریت کا علم بلند کیا ۔
یہ ایک عجیب بات ہے جب بھی آمریت نے ملک میں گرہن لگایا ہے ایک آمرکا مقابلہ ایک خاتون نے ہی کیا۔اس فہرست میں صف اول میں محترمہ فاطمہ جناح، بینظیر بھٹو اورکلثوم نوازکی جدوجہد کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا، جس طرح ہم تحریک پاکستان میں شامل خواتین کی لازوال قربانیوں کا ذکرکرتے ہیں، اسی طرح طرح فاطمہ جناح، بینظیر بھٹو اور بیگم کلثوم نواز تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ ایسی خواتین سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں روز اول سے سیاسی سماجی اور فلاحی سرگرمیوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بلکہ تحریک آزادی کے طویل اورکٹھن سفر میں ہمیشہ باہمت اور جرات مند عورت ہونے کا ثبوت دیا۔
ان خواتین نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لے کر اپنی فہم وفراست، سیاسی شعور، روشن خیالی، وسیع القلبی، خوش مزاجی، بلند حوصلے اور باکردار ہونے کا ثبوت فراہم کیا ۔ خواتین میں آزادی کا جذبہ بیدارکرنے کا سہرا بی اماں، امجدی بیگم ،نشاط النساء بیگم ،خورشید آرا بیگم ، بیگم خورشید حفیظ، فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت، لیڈی ہدایت اللہ ' لیڈی ہارون' صغرا ہدایت اللہ 'بیگم حسین شہید سہروردی اور بیگم شمس النساء محمود کو جاتا ہے۔اس کے علاوہ ڈھاکہ میں بیگم شہاب الدین' کلکتہ سے بیگم اصفہانی اور بھوپال سے بیگم بھوپال۔ جب کہ بیگم عبد اللہ اور بیگم شائستہ اکرام اللہ نے دہلی میں مسلم خواتین میں زبردست سیاسی شعور بیدارکیا۔
سندھ میں بیگم صغریٰ ، بیگم ہدایت اللہ 'بیگم نصرت عبد اللہ ، لیڈی ہارون ، مر یم زمانی بیگم اور مسز جی الانہ(جینو بائی)مسلم خواتین ونگ کی روح رواں تھیں، جنہوں نے مسلمان خواتین میں دو قومی نظریہ اور تقسیم ہندکے تصورکو دلوں میں روشن اور ذہنوں میں بیدارکیا۔
قیام پاکستان کے بعد بھی محترمہ فاطمہ جناح اور رانا لیاقت علی خان کی قیادت میں خواتین نے پاکستان کی تعمیرو ترقی کے ساتھ ساتھ خواتین کی فلاح و بہبود میں بھی اپنا کردار ادا کیا، لیکن بانی پاکستان قائد اعظم کے انتقال کے بعد صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہوگئی ۔ وطن عزیز میں جمہوریت کوکمزورکیا گیا اور آمریت کو در پردہ پروان چڑھایا گیا۔
فاطمہ جناح نے پاکستان میں آمریت کے بڑھتے ہوئے قدموں کی چاپ سن لی تھی تب ہی قائداعظم کی ساتویں برسی کے موقعے پر خطاب کرتے ہوئے انھوں نے واضح الفاظ میں کہا ''بحرانوں کا ایک سلسلہ ہے جو ملک کی بنیادوں کو ہلائے دے رہا ہے اور جس کے ذریعے ہمارے قومی کردار کا امتحان لیا جارہا ہے۔''ایوب خان نے 1958ء میں پاکستان میں فوجی حکومت قائم کر کے مارشل لا لگایا۔ اس وقت مادرِ ملت فاطمہ جناح ہی تھیں جو ایک آمر اور جابر کے مقابلے پر کھڑی ہوئی تھیں بلکہ ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں حصہ لے کر ایک آمرکو بھرپور انداز میں چیلنج کیا۔
جنرل ضیا ء الحق نے 1977ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا ء لگایا اور بعد ازاں صدارت کا عہدہ سنبھالاتو اس کے مدمقابل محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شکل میں دو باہمت خواتین تھیں جنہوں نے ایک جانب اپوزیشن کا متحد کیا اور دوسری طرف جنرل ضیا ء کے خلاف بھر پور تحریک چلائی۔ انھوں نے قید وبند کی مشکلات بھی جھیلیں، جلاوطن بھی رہیں اور پھر اپنے باپ کی میت وصول کی۔ بینظیر بھٹو نے جمہوریت کی بالادستی کے لیے جو جدوجہدکی وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔
جمہوریت کی بات کرنے والے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہے اور خود بھی شہادت پاتے رہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان ہوں، جنرل ضیا الحق ہوں یا پرویز مشرف تمام آمروں کی سوچ ایک جیسی اور آمریت کے ظلم و ستم ایک ہی جیساہوتا ہے وہ بانی قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح ہوں، ذوالفقارعلی بھٹوکی بیٹی بینظیر بھٹو ہوں ، نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز ہوں۔ان خواتین کے خلاف انتہائی درجے کا سلوک روا رکھا گیا، ان جیسی با ہمت خواتین کے بارے میں حبیب جالبؔ کہہ گئے کہ۔
ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے
ڈرے ہوئے ہیں، مرے ہوئے ہیں لرزیدہ لرزیدہ ہیں
ملّا، تاجر' جنرل جیالے ایک نہتی لڑکی سے
یہ ظلم اور بے حسی کی انتہا تھی ایک خاتون کینسر کے موذی مرض میں موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی تو دوسری طرف سو کالڈ دانشور اور ٹی وی اینکرز ان کی بیماری کو لے کر پروگرام کر رہے تھے، ایسے ایسے جملے اور الفاظ استعمال کر رہے تھے ۔ بحیثیت انسان کوئی شخص کسی بیمار شخص کے بارے میں کہتے ہوئے بھی ڈرتا ہے، جوکل تک کلثوم نواز کی بیماری کو ڈراما کہہ رہے تھے آج وہ ان کی سیاسی جدوجہد کی تعریف کر رہے ہیں ۔ شاید یہی ہمارا مزاج بن گیا ہے۔
زندگی میں کیچڑ اچھالتے ہیں اور مرنے کے بعد اْس کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ۔ ہمارا حال یہ ہوگیا ہے جو بھوک سے مرتا ہے،اسی کے نام پر خیرات کرتے ہیں ۔ جو بے گھری کے غم میں مرتا ہے اس کی یاد گاریں بناتے ہیں۔ جو پیاسا مرتا ہے اس کے نام پرسبیل بناتے ہیں ۔ یہاں زندوں کی نہیں بلکہ مْردوں کی قدر ہوتی ہے ۔ اْف! کیا ظلم ہے کہ کلثوم نوازکو اپنی بیماری کا یقین دلانے کے لیے مرنا ہی پڑا ۔ یہی آج کی دنیا کا دستور ہے۔کیا ہم واقعی بنیادی طور پر بحیثیت قوم مردہ ہوچکے ہیں؟ر
آنے اور جانے کے ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان اربوں اور کھربوں لوگوں میں وہ کون ہے جو مرنے کے بعد بھی انسانوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے۔اس موضوع پر بات کی جائے تو بحث بہت آگے بڑھ جائے اور میں اپنے اصل موضوع پر سے ہٹ جاؤں گا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی وفات سے پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد کا ایک اور باب بند ہوگیا مگر وہ ہمیشہ زندہ وجاوید رہیں گی۔انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا ء کا اس وقت بہادری اور جرات سے مقابلہ کیا جب بڑے بڑے سورما سیاستدان گھروں میں بیٹھ گئے تھے یا پھر راتوں رات اپنی وفاداری تبدیل کر چکے تھے۔ اس وقت کلثوم نواز نے آمریت کے خلاف جمہوریت کا علم بلند کیا ۔
یہ ایک عجیب بات ہے جب بھی آمریت نے ملک میں گرہن لگایا ہے ایک آمرکا مقابلہ ایک خاتون نے ہی کیا۔اس فہرست میں صف اول میں محترمہ فاطمہ جناح، بینظیر بھٹو اورکلثوم نوازکی جدوجہد کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا، جس طرح ہم تحریک پاکستان میں شامل خواتین کی لازوال قربانیوں کا ذکرکرتے ہیں، اسی طرح طرح فاطمہ جناح، بینظیر بھٹو اور بیگم کلثوم نواز تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ ایسی خواتین سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں روز اول سے سیاسی سماجی اور فلاحی سرگرمیوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بلکہ تحریک آزادی کے طویل اورکٹھن سفر میں ہمیشہ باہمت اور جرات مند عورت ہونے کا ثبوت دیا۔
ان خواتین نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لے کر اپنی فہم وفراست، سیاسی شعور، روشن خیالی، وسیع القلبی، خوش مزاجی، بلند حوصلے اور باکردار ہونے کا ثبوت فراہم کیا ۔ خواتین میں آزادی کا جذبہ بیدارکرنے کا سہرا بی اماں، امجدی بیگم ،نشاط النساء بیگم ،خورشید آرا بیگم ، بیگم خورشید حفیظ، فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت، لیڈی ہدایت اللہ ' لیڈی ہارون' صغرا ہدایت اللہ 'بیگم حسین شہید سہروردی اور بیگم شمس النساء محمود کو جاتا ہے۔اس کے علاوہ ڈھاکہ میں بیگم شہاب الدین' کلکتہ سے بیگم اصفہانی اور بھوپال سے بیگم بھوپال۔ جب کہ بیگم عبد اللہ اور بیگم شائستہ اکرام اللہ نے دہلی میں مسلم خواتین میں زبردست سیاسی شعور بیدارکیا۔
سندھ میں بیگم صغریٰ ، بیگم ہدایت اللہ 'بیگم نصرت عبد اللہ ، لیڈی ہارون ، مر یم زمانی بیگم اور مسز جی الانہ(جینو بائی)مسلم خواتین ونگ کی روح رواں تھیں، جنہوں نے مسلمان خواتین میں دو قومی نظریہ اور تقسیم ہندکے تصورکو دلوں میں روشن اور ذہنوں میں بیدارکیا۔
قیام پاکستان کے بعد بھی محترمہ فاطمہ جناح اور رانا لیاقت علی خان کی قیادت میں خواتین نے پاکستان کی تعمیرو ترقی کے ساتھ ساتھ خواتین کی فلاح و بہبود میں بھی اپنا کردار ادا کیا، لیکن بانی پاکستان قائد اعظم کے انتقال کے بعد صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہوگئی ۔ وطن عزیز میں جمہوریت کوکمزورکیا گیا اور آمریت کو در پردہ پروان چڑھایا گیا۔
فاطمہ جناح نے پاکستان میں آمریت کے بڑھتے ہوئے قدموں کی چاپ سن لی تھی تب ہی قائداعظم کی ساتویں برسی کے موقعے پر خطاب کرتے ہوئے انھوں نے واضح الفاظ میں کہا ''بحرانوں کا ایک سلسلہ ہے جو ملک کی بنیادوں کو ہلائے دے رہا ہے اور جس کے ذریعے ہمارے قومی کردار کا امتحان لیا جارہا ہے۔''ایوب خان نے 1958ء میں پاکستان میں فوجی حکومت قائم کر کے مارشل لا لگایا۔ اس وقت مادرِ ملت فاطمہ جناح ہی تھیں جو ایک آمر اور جابر کے مقابلے پر کھڑی ہوئی تھیں بلکہ ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں حصہ لے کر ایک آمرکو بھرپور انداز میں چیلنج کیا۔
جنرل ضیا ء الحق نے 1977ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا ء لگایا اور بعد ازاں صدارت کا عہدہ سنبھالاتو اس کے مدمقابل محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شکل میں دو باہمت خواتین تھیں جنہوں نے ایک جانب اپوزیشن کا متحد کیا اور دوسری طرف جنرل ضیا ء کے خلاف بھر پور تحریک چلائی۔ انھوں نے قید وبند کی مشکلات بھی جھیلیں، جلاوطن بھی رہیں اور پھر اپنے باپ کی میت وصول کی۔ بینظیر بھٹو نے جمہوریت کی بالادستی کے لیے جو جدوجہدکی وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔
جمہوریت کی بات کرنے والے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہے اور خود بھی شہادت پاتے رہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان ہوں، جنرل ضیا الحق ہوں یا پرویز مشرف تمام آمروں کی سوچ ایک جیسی اور آمریت کے ظلم و ستم ایک ہی جیساہوتا ہے وہ بانی قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح ہوں، ذوالفقارعلی بھٹوکی بیٹی بینظیر بھٹو ہوں ، نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز ہوں۔ان خواتین کے خلاف انتہائی درجے کا سلوک روا رکھا گیا، ان جیسی با ہمت خواتین کے بارے میں حبیب جالبؔ کہہ گئے کہ۔
ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے
ڈرے ہوئے ہیں، مرے ہوئے ہیں لرزیدہ لرزیدہ ہیں
ملّا، تاجر' جنرل جیالے ایک نہتی لڑکی سے
یہ ظلم اور بے حسی کی انتہا تھی ایک خاتون کینسر کے موذی مرض میں موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی تو دوسری طرف سو کالڈ دانشور اور ٹی وی اینکرز ان کی بیماری کو لے کر پروگرام کر رہے تھے، ایسے ایسے جملے اور الفاظ استعمال کر رہے تھے ۔ بحیثیت انسان کوئی شخص کسی بیمار شخص کے بارے میں کہتے ہوئے بھی ڈرتا ہے، جوکل تک کلثوم نواز کی بیماری کو ڈراما کہہ رہے تھے آج وہ ان کی سیاسی جدوجہد کی تعریف کر رہے ہیں ۔ شاید یہی ہمارا مزاج بن گیا ہے۔
زندگی میں کیچڑ اچھالتے ہیں اور مرنے کے بعد اْس کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ۔ ہمارا حال یہ ہوگیا ہے جو بھوک سے مرتا ہے،اسی کے نام پر خیرات کرتے ہیں ۔ جو بے گھری کے غم میں مرتا ہے اس کی یاد گاریں بناتے ہیں۔ جو پیاسا مرتا ہے اس کے نام پرسبیل بناتے ہیں ۔ یہاں زندوں کی نہیں بلکہ مْردوں کی قدر ہوتی ہے ۔ اْف! کیا ظلم ہے کہ کلثوم نوازکو اپنی بیماری کا یقین دلانے کے لیے مرنا ہی پڑا ۔ یہی آج کی دنیا کا دستور ہے۔کیا ہم واقعی بنیادی طور پر بحیثیت قوم مردہ ہوچکے ہیں؟ر