’بلوچستان‘ پانی کی بدترین قلت سے دوچار صوبہ

بے تحاشہ ٹیوب ویل لگانے کے باعث زیرزمین پانی کی سطح کو بحال کرنے میں 300 برس لگیں گے۔

بے تحاشہ ٹیوب ویل لگانے کے باعث زیرزمین پانی کی سطح کو بحال کرنے میں 300 برس لگیں گے۔ فوٹو: فائل

بلوچستان رقبے کے اعتبار سے ملک کے مجموعی رقبے کا 43% ہے اور آبادی کے تناسب سے پاکستان کی کل آبادی میں اس کا حصہ صرف چھ فیصد ہے، یعنی رقبہ بہت وسیع اور آبادی کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہاں پانی کی قلت رہی ہے۔ یہاں سارا سال بہنے والے دریا نہ ہونے کے برابر ہیں۔

صرف نصیر آباد ، جعفر آباد اور کچھی کے اضلاع میں دریائے سندھ سے نکالی جانے والی نہروں سے آبپاشی کی جاتی ہے۔ اگرچہ دنیا کی ساڑھے سات ارب آبادی میں سے چالیس فیصد سے کچھ زیادہ آبادی بلوچستان جیسے بارانی خطوں میں آباد ہے لیکن خصوصاً ترقی یافتہ بارانی ملکوں یا ان کے بارانی علاقوں کو قلتِ آب کے ایسے شدید مسائل درپیش نہیں جن کا سامنا آج بلوچستان کے عوام کو ہے۔

اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ یہاں سماجی شعور اور خواندگی کی کمی ہے تو دوسری جانب ماضی میں اس حوالے سے اہل اقتدار نے مجرمانہ غفلت برتی اور پانی کو ذخیرہ کرنے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے پانی کے قدرتی ذرائع اور وسائل کو مستحکم اور پائیدار بنانے پر توجہ نہیں۔ اور خصوصاً زیرِ زمین پانی کو اس بے دردی سے استعمال کیا کہ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں پانی کی سطح تیس ، چالیس فٹ سے گر کر ایک ہزار فٹ سے زیادہ نیچے چلی گئی۔

یہ صورتحال ساٹھ برسو ں کی مختصر مدت میں پیدا ہوئی یعنی ہم نے صدیوں بلکہ ہزاروں برسوں سے زیرِ زمین پانی کے ذخائر اور اس کو ری چارج کرنے کے قدرتی نظام کو بھی نقصان پہنچایا اور اس نقصان کا طویل عرصہ تک احساس بھی نہیں کیا۔1951 کی پہلی مردم شماری میں بلوچستان کی کل آبادی ساڑھے گیارہ لاکھ تھی۔ اگر چہ اس وقت آ بادی کی اکثریت کو حصولِ آب کے مسائل تھے لیکن آبی ذخائر موجود تھے۔



آج صوبے کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب ہے اور1951 کے مقابلے میں عام طور پر 90% عوام کو پانی کی سہولت تو میسر ہے مگر زیرِ زمین پانی کے ذخائر انتہائی تشویشناک حد تک کم ہوتے ہوئے اب بالکل ختم ہونے کے قریب ہیں۔ پانی کی قلت کے انتہائی تشویشناک مسئلے کو بہت تاخیر سے سہی اس بار سیاسی رہنمائوں نے اپنی انتخابی مہم میں اجاگرکیا ۔اور یہ کامیابی ہے ان ذمہ دار سرکارعہدیداروں اور ماہرین کی ریسرچ اور کوششوں کی جو وہ طویل عرصے سے کر رہے ہیں اور انہی میں ایک اہم نام جواں سال سیکرٹری پبلک ہیلتھ انجینئرنگ زاہد سلیم ہیں، وہ جس شعبے میں بھی جاتے ہیں وہاں مسائل کے حل اور ترقی کے لیے وہ کم ازکم توجہ ضرور مبذول کراتے ہیں۔

گذشتہ دنوںصوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں حکومت بلوچستان محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے زیر اہتمام "Water Scarcity in Balochistan and Way Forward Through Strategic Action Conservation and Public Awareness" کے عنوان سے ایک اہم سیمینار منعقد ہوا۔ اس سیمینار کے دو سیشن ہوئے۔ سیمینار کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ سیمینار میں پانی سے متعلق قومی اور بین الاقوامی شہرت کے ماہرین نے شرکت کی۔

پانی کی قلت کے مسئلے پر منعقد سیمینار میں صوبائی اور قومی سطح کے پانی سے متعلق اہم ترین ماہرین کو مدعو کیا گیا تھا جن میں ڈاکٹر شاہد احمد ، ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر مقصود احمدکے علاوہ محکمہ اری گیشن کے افتخار میر اور پی ایچ ای کے چیف انجینئر جاوید احمد شامل تھے۔ بطور اسٹیج سیکرٹری میزبانی کے فرائض خود سیکرٹری پی ایچ ای زاہد سلیم نے انجام دئیے۔ سیمینار کے آغاز پر مہمان خصوصی صوبائی چیف سیکرٹری ڈاکٹر اختر نظیر نے افتتاحی خطاب میں سیمینارکی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی۔

اس سیمینار کے توسط سے ملک اور بالخصوص بلوچستان کے اندر پانی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا حقیقی معنوں میں اندازہ ہوا۔ نئے ڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے انتہائی خراب صورتحال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںاور پھر موجودہ وزیراعظم نے خود بھی اس خطرے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہنگای حالت کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لیا ہے ۔

جس سے اس مسئلے پر حکومت کی دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس سیمینار کا ذکر ہو رہا ہے اس میں پیش کیے جانے والے حقائق ہمارے قارئین کو اس گھمبیر مسئلے کے بارے میں غیرمعمولی آگاہی فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

اس موقع پر سیمینار کے آغاز پر مقامی ماہرین نے بتایا کہ دنیا میں 1935 سے بڑے بڑے ڈیمز بنانے کا رجحان شروع ہوا مگر اب اس کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے سائز کے ڈیمز بنانے کا رجحان زیادہ ہے کہ بڑے ڈیمز کی مینٹینس کے بہت مسائل ہوتے ہیں، اس لیے بلوچستان میں چھوٹے اور درمیانے ڈیمز کی جانب زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ انہوں نے دریائے سندھ سے بلوچستان کے حصے کی بات بھی کی، ساتھ ہی اس پر بھی زور دیا کہ صوبے میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مزید اور بہتر انتظامات کرنے ہوں گے۔

زیر ِ زمین پانی کی سطح کے تشویشناک حد تک مسلسل گرنے کے حوالے سے کہا گیا کہ اس کے لیے ایک جانب ڈیلے ایکشن ڈیمز کی طرف توجہ دی جائے تو ساتھ ہی ساتھ صوبے کی رینج لینڈ اور پہاڑوں پر جھاڑیوں اور درختوں کے لگانے اور افزائش پر زور دیا جائے اور اس کے لیے دیگر صوبائی محکموں خصوصاً پی ایچ ای ،محکمہ جنگلات، زراعت اور آبپاشی کا آپس میں بہترین انداز کا رابطہ ہو کیو نکہ اس طرح زیر زمین پانی کی سطح میں بتدریج بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ پانی کے استعمال سے متعلق شعور کی بیداری کی تحریک چلائی جائے۔



ہمارے ہاں اس قیمتی پانی سے کاروں کو دھویا جاتا ہے۔ آج دنیا کی باشعور قوموں اور ملکوں میں کہیں ایسا نہیں ہوتا بس کپڑا گیلا کر کے کچھ کیمیکل استعمال کرکے کاروں اورگاڑیوں کو صاف کیا جاتا ہے ، چمکایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اب اس رجحان پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ اسی طرح لیٹرینوں میں فلش اور باتھ روموں میں ہم ضرورت سے کہیں زیادہ پانی ضائع کرتے ہیں۔ اس رجحا ن کی حوصلہ شکنی کرنی ہو گیْ

انہوں نے بے تحاشہ ٹیوب ویلوں کے استعمال پر بھی شدید تنقید کی اور کہا کہ اس کے لیے بھی فوری اقدامات کی ضرورت ہے، اس حوالے سے انہوں نے صوبے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کو ایک نعمت قرار دیا کہ کم از کم اس دوران ٹیوب ویلوں سے زیر ِ زمین پانی تو نہیں نکالاجا تا۔ ماہرین کی ریسرچ اور اعداد وشمار نے اب سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ بلوچستان میں پانی کی قلت کو کس طرح دور کیا جائے۔ بلوچستان کے ماہرین نے کہا کہ قلت ِ آب کے مسائل کے حل کی خاطر ہماری طرف سے جو بھی ممکن تعاون کی صورت ہے وہ ہمیشہ حاضر ر ہے گی۔

دوسرے سیشن میں بھی میزبان ماہرین نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ آج کم ازکم ہم سنجید گی سے یہاں جمع ہو کر پانی کے مسائل پر سوچ تو رہے ہیں اور سب یہ جانتے ہیں کہ ہم نے کس بیدردی سے ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیرِزمین پانی نکالا ہے، کوئٹہ کے ہمسایہ ڈسٹرکٹ مستونگ کے حو الے سے بتایا گیا کہ یہاں ہمارے سامنے 350 کا ریزیں خشک ہوگئیں کہ یہاں ٹیوب ویلوں سے واٹر مائیننگ کی گئی اور اب مستونگ میں زیرزمین پانی کی سطح اکثر مقامات پر 1200 فٹ نیچے جا چکی ہے۔

یہاں یہ ا نکشاف بھی کیا گیا کہ بدقسمتی سے اس مالی سال 2018-19 کا پی ایس ڈی پی دیکھیں تو اس میں 3500 ٹیوب ویل ڈالے گئے تھے، اس موقع پر بتایا گیا کہ پانی کی مد میں سندھ 110 ارب روپے بلوچستان کا مقروض ہے اور دریا ئے سندھ سے ہمارا پانی کا حصہ نہیں مل رہا۔ پانی کی قلت بلوچستان جیسے بارانی صوبے میں بڑھتی جا رہی ہے جو اس لیے زیادہ تشویش ناک ہے کہ آج تک اس صورتحا ل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ریسرچ اور ٹیکنالوجی سے فوری استفادہ کیا جائے۔ اس وقت امریکہ، چین اور اسرائیل نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنے بارانی علاقوں میں پانی کے بحران پر قابو پایا ہے اس لیے ہمیں بھی ان کے ماڈلز کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

مقامی ماہرین کے مطابق کہ پانی کی قلت کے باوجود اگر ہم پانی کے استعمال میں کفایت شعاری نہیں کرتے تو یہ ہماری اجتماعی غفلت کی انتہا ہے ہمیں ایک جانب آبپاشی کے لیے قطراتی نظام ِ آبپاشی کو اپنا نا ہو گا تو ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا ہوگا، آج کے دور میں تو بادلوں کو کھینچ کر لا کر بارش کرائی جاتی ہے، گذشتہ حکومت نے اپنے آخری دنوں میں کسی ملک سے اس اعتبار سے کو ئی معاہدہ بھی کیا تھا اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس حد تک مستقل مزاجی سے پانی کے بحران کے حل کے لیے کام کرتے ہیں۔ جاوید احمد اس وقت پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں منصوبہ بندی اور تعمیرات میں چیف انجینئر ہیں اور ان کا تجربہ، مشاہدہ اور علم بلوچستان میں پانی کے ذخائر اور پانی کی قلت اور اس کے لیے منصوبہ بندی اور تعمیروترقی کے لحاظ سے زیادہ ہے۔



اُن کا کہنا ہے کہ اس وقت محکمہ کی جانب سے پورے بلوچستان کی 73% آبادی کو پینے کا صاف معیاری پانی فراہم کیا جا رہا ہے اور ان میں سے 91% شہری آبادی کو اور69% دیہی آبادی کو یہ سہولت حاصل ہے اس کے لیے پی ایچ ای کی طرف سے 3509 واٹر سپلائی کی اسکیمیں مکمل کیں، عام قارئین کے لیے پہلے کچھ اصطلاحات کی وضاحت ضروری ہے۔

ایم ڈی جی ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز
یہ نئے ہزارئے یعنی2000 میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے تحت صحت، تعلیم ، ماحولیات وغیرہ سے متعلق شعبوں میں اہداف مقر ر کئے گئے تھے جن کو 2010 تک حاصل کرنا تھا اس کے بعد 2015ء سے 2030 ء تک اب ایس ڈی جی یعنی سسٹین ایبل گولز جس کو اردو میں یو ں کہہ سکتے ہیں کہ مستحکم اور پائیدار تعمیروترقی کے اہداف، ان میں بنیادی صحت کے لیے ضروری ہے کہ تمام آ بادی کو2030 تک محفوظ صاف پینے کا پانی فراہم کیا جائے گا، واضح رہے کہ پاکستان ایس ڈی جی پر دستخط کر چکا ہے، یوں اس وقت ان گولز کے حصول کے لیے بلوچستان کی 1 کروڑ 23 لاکھ 40 ہزار آبادی جو 3331100 گھرانوں پر مشتمل ہے ان کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہے۔

جاوید احمد نے بتایا کہ بلوچستان میں 15719 دیہات ہیں 73% کو پی ایچ ای کی جانب سے یعنی 11000 دیہاتوں کو محفوظ اور صاف پانی فراہم کیا جا رہا ہے اور 4719 دیہاتوں کو ہم نے 2030 تک پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہے۔ جب ہم پانی کی قلت کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا پیمانہ عالمی ادارہ صحت کا ہے کہ روزانہ فی کس کم از کم 30 گیلن صاف پانی مہیا کیا جائے، بلوچستان کے دیہی اور شہری آبادی کو یومیہ فی کس 10 سے13 گیلن پانی ملتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں اسلام آباد 45 گیلن فی کس روزانہ اور کراچی، فیصل آباد اور لاہور کو30 گیلن پانی فی کس روزانہ ملتا ہے اس وقت کوئٹہ میں فی کس 10 سے13 گیلن روزانہ پانی میسر ہے۔

30 لاکھ آبادی کے شہر کوئٹہ کی پانی کی ضرورت 48 ملین گیلن روزانہ سالانہ 5% اضافے کے ساتھ ہے، بلوچستان میں پانی کی قلت ہمیشہ سے رہی ہے، بلوچستان میں پانی کی قلت کے اسباب میں صوبے کے جغرافیائی مقام،کم اوسط بارش سالانہ، جغرافیائی ماحولیاتی کردار، علاقائی موسمیاتی عمل،گلو بل وارمنگ کلائمیٹ چینج اور ان کے اثرات جو خشک سالی اور سیلاب اور سطح سمندر میں اضافہ، باربار کی قدرتی آفات خشک سالی، زلزلے اور سیلاب، پانی کی غیرمعیاری مینجمنٹ، زیر ِزمین پانی کی پمپنگ، پانی کے لیے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد میں کمزوری،آبادی میں تیز رفتاری سے اضافہ اور ایک اہم سبب عوام میں پانی کے استعمال میں شعور نہ ہونا ہے۔


بلوچستان کے جن اضلاع میں پانی کی قلت ہے ان میں ضلع گوادر میں گوادر، پسنی اور جیوانی، ضلع لسبیلہ میں حب اور گڈانی ٹائون، ضلع کچھی میں بھاگ، ضلع چاغی میں نوکنڈی ، ضلع مستونگ میں مستونگ شہر، لو رالائی شہر اور ڈیرہ بگٹی میں سوئی شامل ہیں۔ پانی کی فراہمی کے ساتھ معیاری پانی کی ضرورت بھی بہت اہم ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہمارے ہاں پانی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں پر سالانہ 14 ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں یونیسف کے مطابق ہسپتالوں کے 40% بستر پانی سے ہونے والی بیماریوں کے مریضوں کے استعمال میں ہیں، یو نیسف ہی کے مطابق ہمارے ہاں 33% اموات ہیپا ٹاٹس ، ٹائیفائیڈ، ہیضہ اوردستوں سے ہوتی ہیں جو غیر معیاری پانی کے استعمال کی وجہ سے ہو تی ہیں۔

2012 ء کے حکومت بلوچستان کے قواعد وضوابط کے مطابق پبلک ہیلتھ انجینئرنگ بلوچستان میں پینے کے پانی کی فراہمی اس کے معیار کی بہتری کے فرائض انجام دے رہا ہے اور ان تمام امور میںمحکمے کی واٹر سپلائی اسکیموں پر عملدرآمد اور نگرانی، پینے کے صاف پانی کی سہولت عوام تک پہنچانا، پینے کے صاف پانی کے ذرائع کی تعمیر و ترقی،گھروں تک پائپ لائن کے ذریعے صاف پانی کی فراہمی، واٹر فلٹریش پلانٹوں کی ڈیزائننگ اور تعمیر، پی ایچ ای کی جانب سے واٹر سپلائی اسکیموں کی تعمیر، پانی کے نرخوں کے لیے نو ٹیفیکیشن جاری کرتا ہے۔

چیف انجینئر جاوید احمد نے بلو چستان میں واٹر سپلائی اسکیموںکا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے بتا یا کہ 1970ء میں واٹر سپلائی اسکیموں کی تعداد صرف 18 تھی پھرصوبائی محکمہ آبپاشی کے تحت صوبے میں یعنی 1970 تا 1987 بڑھ کر یہ تعداد 285 ہوگئی، 1987 تا 1992میں پی ایچ ای کے زیر نگرانی تعداد 701 ہو گئی۔ 1997 تک یہ واٹر سپلائی اسکیمیں1407 تک پہنچ گئیں اور جون 2017 تک ہمارے صوبے میں پی ایچ ای کی واٹر سپلا ئی اسکیموں کی کل تعداد 3509 ہو گئی۔



اس وقت پی ایچ ای بلو چستان کی 73% آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کررہا ہے، جب کہ ہم نے 2025-2030 تک صوبے کی تمام آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کر ناہے۔ پی ایچ ای کی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا احوال کچھ اس طرح ہے کہ 1996ء میں 560.00 ملین روپے کی لاگت سے گوادر کے لیے آکرا کورڈیم مکمل ہوا،2002 میں 76.30 ملین روپے سے نوکنڈی واٹر سپلائی اسکیم تکمیل کو پہنچی، 2010 میں کچھی پلان فیز 1 ون 280.00 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا، 2014 ء میں بو نب دریا سے خاران شہر کو پینے کے پانی کی فراہمی کی اسکیم 118.00 ملین روپے سے مکمل کی گئی، اور 2015 سے2018 تک 500.00 ملین روپے کی لاگت سے کو ئٹہ، نوشکی ، لورالائی، قلعہ سیف اللہ ، لسبیلہ ،قلات، پنجگور اور موسیٰ خیل کو پینے کے صاف پانی کی بہتر سپلائی کے لیے 10 چھو ٹے ڈیمز تعمیر کئے گئے۔

جاوید احمد نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی پینے کے پانی کے ضرورت کے اعتبار سے صورتحال کا جائز ہ لیتے ہو ئے بتا یا کہ اس وقت شہر کی 25 لاکھ آبادی کے ضرورت 5 کروڑ گیلن پانی روزانہ ہے جبکہ ہم 3 کروڑ 20 لاکھ 10 ہزار گیلن پانی یومیہ فراہم کر رہے ہیں اور اس وقت پانی کی سپلائی میں روزانہ 1 کروڑ 80 لاکھ گیلن کی کمی ہے، اندازے کے مطابق 2030 تک کو ئٹہ شہر کی پینے کے صاف پانی کی طلب بڑھ کر 6 کروڑ 60 لاکھ گیلن روزانہ ہو گی اور 2050ء میں کوئٹہ شہر کو پینے کے صاف پانی کی ضرورت 9 کروڑ 40 لاکھ گیلن روزانہ ہو جائے گی۔

اس وقت اگر چہ پینے کے صاف پانی کی ضرورت تو تقریباً پورے بلو چستان کو ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ سب سے تشویشناک صورتحال صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور بلوچستان میں ڈیپ سی پورٹ گوادر اور اس سے مربوط سی پیک پروگرام کے لحاظ سے گوادر شہر کی صورتحال بھی تشویشناک ہے اور یہ بلوچستان اور اس کے صوبائی محکمہ پی ایچ ای کے لیے بہت بڑے چیلنج ہیں۔ کوئٹہ اور گوادر کے لیے کلیدی اقدامات کئے جا رہے ہیں جو فوری، درمیانی اور طویل مدت کے اعتبار سے ہیں۔

کو ئٹہ کے لیے فوری اقدامات میں چٹانوں کے نیچے بہت زیادہ گہرائی میں ٹیوب ویلوں کے ذریعے پانی نکالنے کی اسٹڈی،کیو ڈبلیو ای ایس آئی پی پروجیکٹ کی تکمیل جس میں واٹر سپلائی اسکیموںکا نیٹ ورک قائم کرنا، پانی کے ذخائر کو پائیدار بنا نا، سبزل روڈ پر ٹریٹمنٹ پلانٹ ، محکمہ پی ایچ آئی اور واسا کی جاب سے 58 ڈرال کردہ ٹیوب ویلوں کی تکمیل، واٹر فلٹریش پلانٹوں کی یقین دہانی،درمیانی مدت کے اقدامات میںکو ئٹہ کے لیے منگی ڈیم کی تعمیر جس سے80 لاکھ گیلن پانی روزانہ کی سپلائی کی توقع ہے۔

سیوریج پلانٹ سمنگلی کا آغاز، باقی ماندہ واٹر سپلائی کی تکمیل اور سیوریج کا کام جو کیو ڈبلیو ایس ای آئی پروجیکٹ اور سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ بلوچستان یونیورسٹی کی تکمیل،کو ئٹہ شہر میں مزید واٹر فلٹریشن پلانٹوں کا لگانا تاکہ شہر یوں کے لیے پینے کے صاف پانی کی سپلا ئی کو یقینی بنایا جائے، واسا کے استعداد کار میں اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ پانی کی سپلائی کو مزید بہتر بنایا جائے۔

کو ئٹہ شہر کو اس کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کی ضرورت کے مطابق مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر پانی کی فراہمی کو یقینی بنا نے کے لیے جو طویل مدتی منصوبے ہیں ان میںحلق ڈیم، برج ئے عزیز ڈیم اور ببر کچ ڈیم کی تعمیر اور ان سے پانی کی سپلائی کا نظام شامل ہے۔ ان تینوں ڈیموں سے کوئٹہ کو یومیہ 107 ملین گیلن پانی فراہم ہو گا، پٹ فیڈر نہر سے کو ئٹہ شہر دریائے سندھ کے پانی کی سپلائی کا منصوبہ اس سے کوئٹہ کو روزانہ00 6 ملین گیلن پانی فراہم کیا جائے گا، مستقبل کی ضرورت کے مطابق سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ اور فلٹریشن پلانٹ نصب کئے جائیں گے۔

پانی کو اسٹور کرنے کی اس کی تقسیم کے موجودہ نظام کو بتدریج اور مستقبل کی ضرورت کے مطابق کیا جائے گا، پانی کے بلوں کی وصولی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اس کے نظام کو جدید کرتے ہوئے قابل عمل اور پائیدار بنایا جائے گا۔ اسی طرح گوادر سے متعلق جو منصوبہ بندی سامنے آئی ہے اس کے مطابق گوادر میں ایف ڈبلیو او کی جانب سے نصب کئے گئے۔ ڈی سالینیشن پلانٹ سے 8.85 روپے فی گیلن 20 لاکھ گیلن پانی یو میہ خریدا جا ئے گا

اسی طرح گوادر کے لیے یہاں چائنا اوور سیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی سے 80 پیسے فی گیلن کے حساب سے یومیہ تین سے پانچ لاکھ گیلن پانی خرید ا جائے گا، 20 گیلن یومیہ پانی صاف کرنے کے کاروات پلانٹ کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جائے گا، جیوانی میں دودو لاکھ گیلن روزانہ سمندری پانی کو صاف کرنے کے پلانٹ نصب کئے جائیں گے۔ 2017-18 مالی سال کے پی ایس ڈی پی رکھے گئے۔

60 کروڑ روپے گوادر، جیوانی،کا پر، کلمت، سرکی اورماڑ ہ ، جی ڈی اے ہسپتال میں چھوٹے ڈی سالینیشن پلانٹ نصب ہوئے، ساواد کورڈیم سے گوادر تک پائپ لائن بچھائی گئی،گوادر کے لیے طویل مدتی منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ میرانی ڈیم سے گوادر تک پانی لانے کے لیے پائپ لائن بچھائی گئی جس کے لیے مالی سال 2017-18 پی ایس ڈی پی میں یہ پروجیکٹ رکھا گیا تھا،گوادر ڈیویلمپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے یومیہ پچاس لاکھ گیلن نمکین پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ نصب کیا جائے گا،گوادر کو پینے کے پانی کی مزید سپلائی کے لیے شادی کور ڈیم کو پائپ لائن کے ذریعے موجودہ پائپ لائن جو ساواد ڈیم کی ہے اس سے ملا دیا جائے گا۔

محمکہ پی ایچ ای کی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم بلو چستان میں پینے کے پانی کی پالیسی، اسٹریٹجی اور ایکشن پلان تیارکر کے منظور کرا لیا ہے، بلو چستان ڈبلیو اے ایس ایچ سیکٹر پلان تیار کر کے پی اینڈ ڈی کو بھیج دیا ہے، لوگو ں کو پانی کے استعمال کے حوالے سے خود مختار بنا رہے ہیں اور ان میں اس کے لیے شعور بیدار کیا گیا ہے، ایم آئی ایس اور جی آئی ایس سسٹم بنایا، بلوں اور ان کی وصولی کے نظا م کو مستحکم کر رہے ہیں،2030 ء تک کے منصوبے کے مطابق بلوچستان میں ہر شخص تک پانی کی سہو لت پہنچانے کے لیے 22889 ملین روپے سالانہ درکار ہوں گے۔ پی ایچ ای کی جانب سے جو تجاویز سامنے آئیں ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

نمبر1 ۔ زیر ِ زمین پانی کے آرڈیننس پر موثر انداز میں عملدرآمد۔
نمبر2 ۔ زرعی مقاصد کے لیے ٹیوب ویلوں پر مکمل پابندی کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں۔
نمبر3 ۔ متبادل کے طور پر بلوچستان کے وہ علاقے جہاں سطح زمین پر پانی آتا ہے وہاں ڈیمز تعمیر کئے جائیں۔
نمبر4 ۔ زیرِ زمین پانی سے متعلق پوری طرح ریسرچ کی بنیاد پر پانی کے وسائل کی معلومات اور اعداد وشمار اکھٹے کر کے ایک موثر پلان کے تحت زیر ِ زمین پانی کی سطح کو کنٹرول کیا جائے۔
نمبر5 ۔ استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کر کے دوبارہ قابل استعمال بنایا جائے تا کہ زیر ِزمین پانی کے ذخائر اور بیسن پر دبائو کو کم کیا جاسکے۔
نمبر 6 ۔ پانی کے امور سے متعلق تمام شعبوں ، اداروں ، عہدیداروں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار کمیشن قائم کیا جائے جو صورتحال کی مانیٹرینگ کرے ۔ نمبر 7 ۔ ''انٹی گریٹڈ واٹر ریسور مینجمنٹ'' پانی کے تمام وسائل کو مر بوط کرتے ہوئے یہ کیا جائے کہ جو ڈیمز زرعی مقاصد اور آبپاشی کے لیے بنائے گئے ہیں اور جہاں یہ واقع ہیں یہ ڈیمز اس پورے علاقے کو لوگوں پینے کا پانی بھی فراہم کریں۔

پانی سے متعلق امور کے ماہر ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہمارے پاس اب وقت بہت کم ہے ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم کب تک اس صورتحال کو چلائیں گے؟ اب فوری طور پر سیاسی قوت ِفیصلہ کی ضرورت ہے، 40 سال قبل تک یعنی میرے دادا تک کی نسلوں نے ہمارے لیے ہزاروں سال سے پا نی کی حفاظت کی لیکن ہم نے کا ریز سسٹم تباہ کردیا۔

ٹیوب ویل ٹیکنا لوجی استعمال کی۔ 2006 میں ورلڈ بنک کی ایک اسٹیڈی سے انکشاف ہوا کہ ہم نے چالیس برسوں میں زیر ِ زمین جو پانی استعمال کیا ہے اس کی سطح کو دوبارہ بحال کرنے میں اب صدیاں درکار ہوں نگی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ملک کے رقبے کا 43% ہے، ہر چار سال بعد سیلابی پانی وافر مقدر میں آتا ہے، اس کو ڈیمز میں جھیلوں میں اسٹور کیا جا نا چاہیے، یہ تربیلا ڈیمز سے زیادہ ہے، جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ انہوں نے2006 کی پانی سے متعلق پالیسی کے حوالے سے بتایا کہ سیاسی حکومتیں بھلے تبدیل ہوں مگر پالیسی پر عملدر آمد مستقل مزاجی سے ہو۔ سیمینار کے دوسر ے ماہر اور محقق ڈاکٹر محمد ارشد تھے۔

انہوں نے کہا کہ کرہ ارض پر پانی کے بڑھتے ہوئے مسائل کی بنیاد پر چین، بھارت، پاکستان اور مشرق وسطی کو پانی کے شدید مسائل کا سامنا ہے جس کے لیے ریسرچ کی بنیاد پر واٹر مینجمنٹ کی فوری ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے اور کہیں اپنایا بھی گیا ہے۔ انہوں نے دنیا میں پانی کے محفوظ ذخائر گلیشیروں کے حوالے سے بتایا کہ خشک سالی، سیلاب دونوں ہی قدرتی آفات ہمارے سامنے ہیں اور ماضی قریب کے مقابلے میں ا ن کی شدت اور ان کے درمیان وفقے کا وقت یا مدت کم ہوتی جا رہی ہے، ساتھ ہی آبادی کا اضافہ ہے۔

اب صرف اور صرف ضرورت اس کی ہے کہ ریسرچ، نالج اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم سنجیدگی کے ساتھ فوراً پانی کے ان مسائل کو حل کرنے کے منصوبوں پر عملدرآمدکریں، انہوں نے بتایا کہ ہم نے 2015 ء میںایس ڈی جی ایس دستخط کئے ہیں اور اس کو ہم نے پورا کرنا ہے اور مقررہ مدت تک اپنے تمام عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہے انہوں نے سلام خان کے حوالے سے بلوچستان کی واٹر پالیسی کو اہم قرار دیا۔ محکمہ آبپاشی کے افتخارمیر کے مطابق اس وقت73% لوگوں کو صوبے میں پینے کا صاف پانی فراہم کیا جا رہا ہے اور وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی مدنظر رکھتے ہو ئے ہمیں 2030 ء تک پوری آبادی کو پینے کا پانی فراہم کر نا ہے۔

ورلڈ بنک کے تعاون سے ناڑی اور پورالی بیسن پروجیکٹ کی تفصیلات سے منسلک بعض ملازمین کو فنڈز کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ سے تنخواہیں بھی نہ مل سکیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ متعلقہ محکموں کے درمیان پانی کے مسائل کے حل کے لیے رابطو ں کو مستحکم کیا جائے۔ بلوچستان میں پینے کے پانی کے مسائل پر فوری اور بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر مقصود احمد کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں گذشتہ چالیس برسوں میں صوبائی حکومتوں نے بے تحاشہ ٹیو ب ویلوں کے لگانے اور ان پر سبسیڈی دی جس سے زیر زمین پانی کی پمپینگ کی گئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ اگر تمام ٹیوب ویل روک بھی دیئے جائیں تو کو ئٹہ شہر میں پانی کی جو سطح چالیس سال پہلے تھی اس کی بحالی میں 300 سال لگیں گے، اور اب پورے صوبے میں جہاں بجلی نہیں بھی ہے ۔

وہاں شمسی توانائی سے ٹیوب ویل نصب کئے جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اب حکومت کو اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے عوامی سطح پر غیر مقبول فیصلے کرنے ہو نگے اس کے لیے ضروری ہے کہ صوبائی اسمبلی کے اراکین پانی کے شعبے کے ماہرین سے ملیں ان سے مسئلے کی شدت اور اس کے ممکنہ حل سے متعلق معلومات حاصل کریں اور قانون سازی بھی کریں اور جو قوانین موجود ہیں ان پر عملمدرآمد کو یقینی بنائیں۔
Load Next Story