آمریت کے خاتمے کیلیے کلثوم نواز کا کردار

ابتدائی دنوں میں حکومتی کارکردگی غیر تسلی بخش، سفارتی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی، رہنما اے این پی

پاکستان، افغانستان آپس میں اعتماد کی باڑ لگائیں، سیکیورٹی تھریٹس ہیں، اے این پی رہنما کی امیر بہادر ہوتی، عمر گردیزی کیساتھ گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

گزشتہ روز ''ایکسپریس فورم'' پر گفتگو کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے مشترکہ فیصلے کی وجہ سے پارلیمنٹ گئے، اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات نہ ہوتے تو صدر، وزیر اعظم اور اسپیکر کے انتخابات کی صورتحال مختلف ہوتی۔ ابتدائی دنوں میں حکومت کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہے جبکہ سفارتی سطح پر بھی جگ ہنسائی ہوئی ہے، پاکستانی خواتین نے آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی مضبوطی ک لیے اہم کردار ادا کیا، اس حوالے سے بیگم کلثوم نواز کا کردار اہم رہا ہے، دعا ہے اللہ ان کے درجات بلند اور شریف خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

اس موقع پر اے این پی پنجاب کے ترجمان امیر بہادر خان ہوتی اور اے این پی پنجاب کے قائم مقام صدر عمر خان گردیزی بھی موجود تھے جبکہ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔

میاں افتخار حسین نے مزید کہا کہ محترمہ فاطمہ جناحؒ، بیگم نسیم ولی خان، بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو اور بیگم کلثوم نواز نے مشکل ترین حالات میں آمریت کے خلاف جدوجہد کی اور ملکی سیاست میں مثالی کردار ادا کرتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط کیا، بیگم کلثوم نواز نے دیار غیر میں اپنے خاوند اور بیٹی کے بغیر زندگی کی بازی ہار دی، ان کی وفات بڑا نقصان ہے، اللہ ان کے درجات کی بلند اور شریف خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔


انھوں نے کہا کہ اگر مستقبل میں اپوزیشن صحیح معنوں میں متحد ہوگئی تو حکومت کے لیے چلنا مشکل ہوجائے گا۔ فرانسیسی صدر کی کال کا ڈرامہ، نریندر مودی کی مبارکباد کی فون کال کو مذاکرات کی خواہش کا رنگ اور امریکی وزیر خارجہ کی کال پر بھی عجیب صورتحال رہی جبکہ امریکی وزیرخارجہ کے دورہ پاکستان سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا، ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہونا وزارت خارجہ کی ناکامی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ڈیم کی تعمیر کیلیے حکومت فنڈز کی اپیل کر رہی ہے، نواز شریف کی حکومت نے اس ڈیم کیلیے نہ صرف 120 ارب روپے خرچ کیے بلکہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں جھگڑا ختم کرکے زمین بھی خریدی مگر آج ان کا کوئی نام نہیں لے رہاافغانستان میں طالبان سرگرم ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں داعش کو کھڑا کیا جارہا ہے، اس لڑائی کے نتیجے میں ہمیں نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

امریکہ، بھارت اور افغانستان جبکہ روس، چین اور ایران پر مشتمل دو الگ الگ بلاک بن رہے ہیں، ہمیں ممکنہ خطرات کے پیش نظر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام بیرونی مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہوگا، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ معمولی سی غلطی تیسری عالمی جنگ کروا سکتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو آپس میں اعتماد کی باڑ لگانی چاہیے۔ تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات قائم ہونے چاہئیں لہٰذا حکومت کو سنجیدگی سے معاملات کو آگے بڑھانے چاہئیں۔
Load Next Story