بلوچستان میں سوشل میڈیا تبدیلی کا محرک

کوئٹہ کے سوا بلوچستان کا کوئی ایسا شہر نہیں جہاں معمول میں بھی بارہ گھنٹے سے زیادہ بجلی میسر ہوتی ہو۔

khanabadosh81@gmail.com

'عرب بہار' میں سوشل میڈیا کے کردار کے بعد پاکستان میں بھی یہ بحث چل نکلی ہے کہ کیا تیسری دنیا اور بالخصوص ایشیا میں سوشل میڈیا تبدیلی کا محرک بن سکتا ہے؟ کچھ عرصہ قبل بعینہ یہی بحث بلوچستان میں بھی اسی رخ پہ چل نکلی۔ سوشل میڈیا سے وابستہ احباب تو یقیناً اس کے حق میں ہیں۔ تبدیلی کی خواہش مند نوجوان نسل کا تو خیال ہے کہ تبدیلی کا واحد محرک اب یہی رہ گیا ہے۔ واشنگٹن میں بیٹھے ہمارے ایک دوست نے تو اس کے توسط سے عرب ریاستوں میں آنے والی تبدیلی کی طرز پر بلوچستان میں بھی انقلاب کی نوید سنا ڈالی۔

مہردر انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن نے جب گزشتہ برس جولائی کے پہلے ہفتے میں کوئٹہ پریس کلب میں اسی موضوع پر سیمینار منعقد کیا تو وہاں وسعت اﷲ خان سے اسی بابت پوچھے گئے سوال کے جواب میں پاکستان کی سطح پر انھوں نے اس امکان کو بالکل ہی رد کردیا۔ میں خود ذاتی طور پر بلوچستان میں اب تک سوشل میڈیا کو تبدیلی کے محرک کے طور پر نہیں دیکھتا، ظاہر ہے میرے پاس اس کے لیے کچھ دلائل بھی ہیں۔

بلوچستان صحیح معنوں میں اب تک شہری سماج نہیں ہے، حتیٰ کہ اس کا سب سے بڑا شہر اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ، شہروں کے عالمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اس کے باوجود اگر آپ تیسری دنیا کے ممالک کی نسبت سے اس کے بعض علاقوں کو شہرکا درجہ دے بھی دیں، تو کوئٹہ کے علاوہ تربت، خضدار، گوادر، پنجگور، نوشکی، سبی، حب اور پشتون علاقوں میں سے ژوب اور لورالائی سمیت صوبہ بھر سے بمشکل دس سے بارہ شہر آپ کو ملیں گے جو بلوچستان کی مجموعی آبادی کا نصف بھی نہیں۔

دوسری طرف خواندگی کا معیار دیکھ لیجیے۔ سرکاری اعدادوشمار (جو کسی صورت قابلِ اعتبار نہیں ہیں) کے مطابق صوبے کی چونتیس سے چالیس فیصد آبادی خواندہ ہے۔ واضح رہے کہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو محض اپنا نام لکھنا یا اخبار پڑھنا جانتے ہوں۔ غیرسرکاری اعدادوشمار پہ اعتبار کریں تو یہ تعداد اس کا نصف بھی نہیں بنتی، یعنی بلوچستان کی حقیقی خواندہ آبادی، کل آبادی کا بیس فیصد بنتی ہے۔

جہاں تک آبادی کے سوشل میڈیا تک رسائی کا معاملہ ہے، اس بابت گو کہ ہمارے پاس مستند اعدادوشمار تو نہیں، لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق صوبے کی کل آبادی کا محض پانچ فیصد سوشل میڈیا کے ذرایع تک رسائی رکھتا ہے۔ (حال ہی میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا چار فیصد فیس بک استعمال کرتا ہے) واضح رہے کہ بلوچستان کا تیس فیصد کے قریب حصہ آج بھی بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔

علاوہ ازیں کوئٹہ کے سوا بلوچستان کا کوئی ایسا شہر نہیں جہاں معمول میں بھی بارہ گھنٹے سے زیادہ بجلی میسر ہوتی ہو۔ ہمیں گزشتہ برس جنوری کے مہینے میں بک فیئر کے سلسلے میں نوشکی جانے کا اتفاق ہوا، جہاں جنوری کے سرد موسم میں بھی بجلی سات سے آٹھ گھنٹے میسر تھی۔ اس دوران دفتری کارکن فائلیں بنانے اور سیو کرنے جب کہ عام آدمی موبائل چارج کرنے میں محو نظر آتے ہیں۔ ایسے میں سوشل میڈیا کا استعمال اور اس سے استفادہ کارِ سہل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی فیس بک پہ آپ کو اندرونِ بلوچستان کے نوجوان انتہائی قلیل تعداد میں نظرآئیں گے۔ ان کی ایک آدھ ایکٹویٹی تو شایدآپ کو نظر آجائے، یہ آپ کو 'آن لائن' بمشکل ہی ملیں گے۔


بلوچستان میں اس وقت تک سوشل میڈیا کے اہم ذرایع فیس بک اور یوٹیوب ہیں، جنھیں نسبتاََ شہری علاقوں (جن میں نوے فیصد کوئٹہ سے وابستہ) کے نوجوان استعمال کر رہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کچھ بھی منظم نہیں ہے۔ ہر یوزر کے پاس چار پانچ سو فرینڈز جمع ہیں۔ ہر آدمی دن میں ایک آدھ ایکٹویٹی بھی کرے تو آپ کے پاس اتنا وقت نہیں ہوگا کہ آپ سب کی ایکٹویٹی کو دیکھ سکیں اور اسے ریسپانڈ بھی کرسکیں۔ ایک طریقہ بلاگنگ کا ہے، یا اپنا کوئی پیج بنالیں۔ یوں آپ کم از کم اپنے ہم خیال دوست ایک جگہ جمع کر سکتے ہیں۔ بلاگ کا معاملہ دیکھیں تو پورے بلوچستان سے آپ کو ایسے دس لوگ بھی نہیں ملیں گے جو باقاعدگی سے بلاگ لکھ رہے ہوں۔ صحافیوں کی تو اکثریت بلاگ کے طریقہ کار سے ہی ناواقف ہے۔ البتہ یوٹیوب کو سیاسی مقاصد کے لیے خاصی کامیابی سے استعمال کیاگیا ہے۔ لیکن وہاں بھی مسئلہ رسائی کا ہے۔ آپ بلوچستان سے متعلق کسی بھی ویڈیو کو اوپن کرلیں، آپ کو ویورز کی تعداد چار ڈیجٹس سے اوپر نہیں ملے گی۔

لے دے کر بلوچستان میں اب تک سوشل میڈیا کا اہم ترین ٹولtool سیل فون رہ جاتا ہے۔ یہ وہ واحد ٹول ہے جو آپ کو دیہات کے وڈیرے کے ہاتھ میں بھی ملے گا تو عین موبائل کا وہی ماڈل اسی گائوں کے اَن پڑھ ہاری اور مزدور کے ہاتھ میں بھی ہوگا۔ بلوچستان کے چھوٹے سے چھوٹے قصبے میں کسی نوجوان کی جیب میں بھلے چائے پینے کے پیسے نہ ہوں لیکن آڈیو ویڈیو ریکارڈر اور ہائی میگا پکسل کیمرہ کا حامل سیل فون ضرور ہوگا۔ اس لیے کسی تحریکی تبدیلی کے لیے اس ٹیکنالوجی کو محرک بنایا جاسکتا ہے، اور بلوچستان میں اس کا خاطرخواہ استعمال ہو رہا ہے۔ ایک طرف اگر کئی افراد اسی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث پکڑے گئے ہیں۔ گویا معاملہ ٹیکنالوجی کا نہیں، اس کے درست استعمال کا ہے۔

سیل فون ٹیکنالوجی کے باعث ہی سوشل میڈیا میں بلوچ نوجوانوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ بالخصوص فیس بک اور ٹویٹر پہ کافی عرصہ سے بلوچ نوجوانوں اور مختلف گروپس میں بلوچستان کی مسلح تحریک سے متعلق مباحث میں خاصی تیزی آئی۔ گو کہ یہ مباحث اب ذاتی تنقید اور غداری کے فتوؤں سے نکل کر مدلل ہونے کی جانب پیش قدمی کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ سوال ہنوز توجہ طلب ہے کہ زیر زمین تنظیموں کی قیادت اور کارگردگی سے متعلق سوشل میڈیا پر ہونے والے مباحث کن اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں؟ نیز ان کا حتمی فائدہ اور نقصان کس کے حق میں اور کس کے خلاف ہو گا!

ایک اہم معاملہ فکری بے ہنگم پن کا بھی ہے۔ ہم سب ہی مجموعی طور پر فکری بے ہنگم پن کا شکار ہیں۔ نوجوان فوری تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ فیس بک استعمال کرنے والا ہر تبدیلی پسند نوجوان اپنا اکائونٹ کلوز کرتے وقت یہ سوچتا ہے کہ اگلے روز جب وہ اسے اوپن کرے گا تو سماج تبدیل ہوچکا ہوگا۔ یعنی ہم عملی طور پر تبدیلی کے عمل میں شرکت کیے بنا معاشرے میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ نیز سب سے بڑا المیہ یہ کہ اس تبدیلی کی کوئی واضح سمت بھی معلوم نہیں۔ بس فوری خواہش موجودہ صورت حال سے نکلنے کی ہے۔ دراصل ہم ایک ناسور کا علاج کسی معمولی پین کلر سے کرنا چاہ رہے ہیں، جس سے ہمیں فوری ریلیف تو مل جاتا ہے، لیکن رفتہ رفتہ یہی ناسور ایک دن پورے وجود کو ناکارہ بنادیتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے تبدیلی کے محرکات کو فکری بنیادوں پر سمجھا جائے اور پھر اس کے لیے سوشل میڈیا کو بطور ٹول استعمال کیا جائے۔ تبدیلی خواہ سماجی ہی کیوں نہ ہو، ایک ٹھوس سیاسی عمل ہے۔ اس لیے سیاسی عمل میں شریک ہوئے بغیر، محض لیپ ٹاپ پر بیٹھ کر اسٹوری فائل کرنے یا انقلابی خیالات کی شیئرنگ سے انقلاب کی راہ ہموار نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سوشل میڈیا تبدیلی کا ایک محرک تو ہو سکتا ہے لیکن محض انفرادی طور پر کسی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔

ایک آخری بات یہ کہ بلوچستان وہ دلچسپ خطہ ہے، جہاں کسی بھی وقت اچانک ہونے والا ایک واقعہ، ہمارے تمام تر تجزئیات کو خاک میں ملا سکتا ہے۔ اس لیے یہاں کچھ بھی بعید از امکان نہیں کہا جاسکتا۔
Load Next Story