ناقابل فراموش انقلابی
ایک ہیں جہانگیر آزاد جو 90 برس کے ہونے کو ہیں،26 سال تک ٹیکسٹائل مل میں مزدوری کی اور مزدوروں کی یونین بناتے رہے۔
RAWALPINDI:
ویسے تو اکثر مشہور، مقبول، معروف، کسی تنظیم یا کسی جماعت کے عہدیداروں کے رہنمائوں کا ہی تذکرہ اور تعریف ہوتی ہے۔ عام کارکنان یا غیر معروف لوگوں کا کم ہی تذکرہ ہوتا ہے۔ آج ہم ایسے لوگوں کا تذکرہ کرنے جا رہے ہیں جنھوں نے ساری زندگی محنت کشوں کے حقوق کے حصول کے لیے جد وجہد کی اور کررہے ہیں۔ انھیں سب جانتے ہیں لیکن لوگوں میں ان کا چرچا نہیں ہے۔ جیسا کہ بابو لادو۔ اب وہ 65 برس کے تو ہوںگے، آبا واجداد راجستھان کے ہیں۔ ان کا تعلق خاکروب خاندان سے ہے۔
انھیں دلت بھی کہا جاتا ہے، بابو مسلسل اور بلا امتیاز محنت کش عوام کے لیے جدوجہد کرتے آرہے ہیں، کبھی جلوس میں تو کبھی مظاہرے میں، کبھی بھوک ہڑتالیوں کے ساتھ، کبھی اسپتال میں مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے اورکبھی دکھی انسانیت جیسا کہ استادوں، نرسوں، مزدوروں، لاپتہ افراد کے لواحقین اورکسانوں کے ساتھ جدوجہد میں نظر آئیںگے۔ انھیں اس بات کا کوئی سروکار نہیں کہ یہ مظاہرین کس جماعت یا گروہ کے ہیں، انھیں تو غرض ہوتی ہے کہ کس مسئلے پر لڑ رہے ہیں۔ فوراً ہاتھ جھاڑ کر بابو لادو جدوجہد میں شریک ہوجاتے ہیں۔کراچی اور ملک بھرکے بائیں بازو کے ہر دلعزیز اور مقبول کامریڈ ہیں۔
ایک ہیں جہانگیر آزاد جو 90 برس کے ہونے کو ہیں،26 سال تک ٹیکسٹائل مل میں مزدوری کی اور مزدوروں کی یونین بناتے رہے، ان کا بیشتر کام لانڈھی کورنگی میں ہے۔ بابو کی طرح جہانگیر بھی لکھے پڑھے نہیں ہیں لیکن یہ دونوں سماجی، سیاسی اور معاشی شعور سے لبریز ہیں۔ تعلیم یافتہ حضرات بھی طبقاتی جدوجہد میں ان سے بہت پیچھے ہیں۔ جہانگیر آزاد کو میں 1976 سے جانتا ہوں۔ 1952 کی طلبہ تحریک، 1972 اور 73 کی لانڈھی اور سائٹ کی مزدور تحریک میں براہ راست شریک تھے۔ معروف انقلابی شاعر اور دانشور خالد علیگ کے پڑوسی بھی ہیں۔ وہ جہانگیر آزاد سے بہت پیار کرتے تھے۔ آج کل وہ اپنی شدید بیماری میں بھی مزدوروں سے ملتے ہیں اور ان کے مسائل پر بات کرتے ہیں اور اس کے دکھ درد میں شامل بھی ہوتے ہیں۔
ہم سب کے ساتھی اور استاد محمد میاں، لندن سے پڑھے ہوئے اعلیٰ طبقے کے ہونے کے باوجود مزدوروں اور کسانوں سے اپنا طبقاتی رشتہ جوڑ لیا۔ وہ دمشق میں شعبہ نفسیات کے استاد اور لیبیا میں ٹریبون اخبار کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ پاکستان میں مختلف اخباروں میں کالم نگار اور ایک روزنامہ کے ڈپٹی ایڈیٹر رہے۔ 1973 کی ہشت نگر کسان تحریک میں شریک رہے، شیکسپیئر کی نظم '' دولت کی دیوی'' اور مزدوروں کا ''انٹرنیشنل ترانہ'' ترجمہ کیا ہے وہ انقلابی شاعری بھی کرتے ہیں اور ترنم میں جلسوں میں پڑھتے ہیں۔ انقلابی ترانے کا ایک شعر کچھ یوں ہے۔
کروڑوں کا ملک جو ہو انقلاب
نہ ٹھہریںگے میداں میں عزت مآب
کہو انقلاب، انقلاب، انقلاب
طفیلی ہر اول کا خانہ خراب
محمد میاں نے ساری زندگی سچائی، ایمانداری اور خلوص سے کمیونسٹ سماج کے قیام کے لیے جد وجہد کی۔آج کل شدید علیل ہیں گھر سے باہر نہیں نکل پاتے ۔ دوستوں کے ملنے کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ہمارے ایک اور ساتھی محمد احمد وارثی جوکہ آج کل شدید علیل ہیں۔ ان کی عمراس وقت 78 برس کی ہے۔ وہ پوسٹ ماسٹرکے عہدے پر فائز رہے۔ وہ مسلسل مزدوروں، کسانوں اور پیداواری قوتوں کے مسائل پر جدوجہد کرتے آرہے ہیں۔ وارثی اپنی سرکاری ملازمت کے دوران بھی محنت کشوں کی صدق دل سے خدمت کرتے رہے۔ وارثی محنت کشوں کے اجتماعات میں شرکت کے لیے کبھی لاہور تو کبھی کشمیر تو کبھی کوئٹہ تو کبھی پشاور یعنی کہ ملک کے ہرگوشے میں جاتے رہے،کراچی میں شاید ہی کوئی مظاہرہ، جلوس، جلسے یا سیمینار میں نہ گئے ہوں۔ یہ اپنی کمیونسٹ نظریات پر ہمیشہ سختی سے قائم ہیں۔
شمس الحق کی عمر لگ بھگ 80 برس سے زیادہ ہے وہ بھی آج کل بیمار ہی رہتے ہیں۔ انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی کی تقریباً ساری نظمیں انھیں زبانی یاد ہیں، وہ ان کے دوستوں میں سے ہیں۔ شمس نے نیشنل شپنگ کارپوریشن میں ملازمت کی اس لیے ساری دنیا کو دیکھا ہوا ہے میں انھیں 1977 سے جانتا ہوں ۔ ذوالفقارعلی بھٹو بھی ان کے گھر سعود آباد ملیر آئے تھے ان کے گھر پر سو کے لگ بھگ تنظیمی اجلاس ہوچکے ہیں،اس ضعیفی میں اب بھی شاعری کرتے ہیں۔ حال ہی میں اپنی ایک نظم نواز شریف کو بھی ارسال کی ہے۔ اب وہ گھر سے باہر بھی دوستوں سے ملنے جاتے ہیں اور اس عمر میں بھی سیاسی طور پر اپ ڈیٹ ہیں۔
یہ تو تذکرہ تھا کچھ دوستوں کا، جنھوں نے اپنی ساری زندگی محنت کشوں کے لیے اور انقلاب کے لیے صرف کی ۔ امداد باہمی والے سماج کی تعمیر وتشکیل کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ ان پر ہم جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ ایسے ہی بے شمار کارکنان کی جد وجہد کے نتیجے میں پاکستان میں مزدوروں کو بونس، پانچ فی صد گریجویٹی، سالانہ چھٹی، اتفاقی چھٹی، میڈیکل چھٹی، اولڈ ایج بینفٹ وغیرہ حاصل ہوئے ہیں اور ملک کے کچھ حصوں میں تھوڑی بہت زمینیں بھی کسانوں میں تقسیم ہوئی ہیں اور کسانوں نے قبضہ بھی کیا ہے۔
اس سے قطع نظر کہ یہ کون،کس پارٹی یا گروہ سے تعلق ہے یا کس کو اپنا رہنما مانتے ہیں بلکہ ان سب میں ایک مشترکہ مقصد یہ تھا کہ مزدور طبقے کی قیادت میں اس ملک اور دنیا بھر میں کمیونسٹ انقلاب یا امداد باہمی کا معاشرہ قائم کیا جائے۔ انھوں نے اور ان جیسے ہزاروں کارکنوں نے ہی پاکستان کے محنت کشوں کے خون گرمائے رکھا ہے اور انھیں کے کاوشوں سے نوجوان کامریڈز پیدا ہورہے ہیں۔ اب بائیں بازو کے درجنوں نوجوان نے عام انتخابات میں حصہ بھی لیا اور دو علی وزیر اور محسن داوڑ قومی اسمبلی کا الیکشن جیت بھی گئے یہ بحیثیت مجموعی محنت کش طبقے کے لیے باعث فخر بھی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان برصغیر اور دنیا بھر کے لڑنے والے محنت کش اپنا کمیونسٹ سماج کے قیام کا ہدف پورا کرنے میں برسر پیکار ہیں ۔
ویسے تو اکثر مشہور، مقبول، معروف، کسی تنظیم یا کسی جماعت کے عہدیداروں کے رہنمائوں کا ہی تذکرہ اور تعریف ہوتی ہے۔ عام کارکنان یا غیر معروف لوگوں کا کم ہی تذکرہ ہوتا ہے۔ آج ہم ایسے لوگوں کا تذکرہ کرنے جا رہے ہیں جنھوں نے ساری زندگی محنت کشوں کے حقوق کے حصول کے لیے جد وجہد کی اور کررہے ہیں۔ انھیں سب جانتے ہیں لیکن لوگوں میں ان کا چرچا نہیں ہے۔ جیسا کہ بابو لادو۔ اب وہ 65 برس کے تو ہوںگے، آبا واجداد راجستھان کے ہیں۔ ان کا تعلق خاکروب خاندان سے ہے۔
انھیں دلت بھی کہا جاتا ہے، بابو مسلسل اور بلا امتیاز محنت کش عوام کے لیے جدوجہد کرتے آرہے ہیں، کبھی جلوس میں تو کبھی مظاہرے میں، کبھی بھوک ہڑتالیوں کے ساتھ، کبھی اسپتال میں مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے اورکبھی دکھی انسانیت جیسا کہ استادوں، نرسوں، مزدوروں، لاپتہ افراد کے لواحقین اورکسانوں کے ساتھ جدوجہد میں نظر آئیںگے۔ انھیں اس بات کا کوئی سروکار نہیں کہ یہ مظاہرین کس جماعت یا گروہ کے ہیں، انھیں تو غرض ہوتی ہے کہ کس مسئلے پر لڑ رہے ہیں۔ فوراً ہاتھ جھاڑ کر بابو لادو جدوجہد میں شریک ہوجاتے ہیں۔کراچی اور ملک بھرکے بائیں بازو کے ہر دلعزیز اور مقبول کامریڈ ہیں۔
ایک ہیں جہانگیر آزاد جو 90 برس کے ہونے کو ہیں،26 سال تک ٹیکسٹائل مل میں مزدوری کی اور مزدوروں کی یونین بناتے رہے، ان کا بیشتر کام لانڈھی کورنگی میں ہے۔ بابو کی طرح جہانگیر بھی لکھے پڑھے نہیں ہیں لیکن یہ دونوں سماجی، سیاسی اور معاشی شعور سے لبریز ہیں۔ تعلیم یافتہ حضرات بھی طبقاتی جدوجہد میں ان سے بہت پیچھے ہیں۔ جہانگیر آزاد کو میں 1976 سے جانتا ہوں۔ 1952 کی طلبہ تحریک، 1972 اور 73 کی لانڈھی اور سائٹ کی مزدور تحریک میں براہ راست شریک تھے۔ معروف انقلابی شاعر اور دانشور خالد علیگ کے پڑوسی بھی ہیں۔ وہ جہانگیر آزاد سے بہت پیار کرتے تھے۔ آج کل وہ اپنی شدید بیماری میں بھی مزدوروں سے ملتے ہیں اور ان کے مسائل پر بات کرتے ہیں اور اس کے دکھ درد میں شامل بھی ہوتے ہیں۔
ہم سب کے ساتھی اور استاد محمد میاں، لندن سے پڑھے ہوئے اعلیٰ طبقے کے ہونے کے باوجود مزدوروں اور کسانوں سے اپنا طبقاتی رشتہ جوڑ لیا۔ وہ دمشق میں شعبہ نفسیات کے استاد اور لیبیا میں ٹریبون اخبار کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ پاکستان میں مختلف اخباروں میں کالم نگار اور ایک روزنامہ کے ڈپٹی ایڈیٹر رہے۔ 1973 کی ہشت نگر کسان تحریک میں شریک رہے، شیکسپیئر کی نظم '' دولت کی دیوی'' اور مزدوروں کا ''انٹرنیشنل ترانہ'' ترجمہ کیا ہے وہ انقلابی شاعری بھی کرتے ہیں اور ترنم میں جلسوں میں پڑھتے ہیں۔ انقلابی ترانے کا ایک شعر کچھ یوں ہے۔
کروڑوں کا ملک جو ہو انقلاب
نہ ٹھہریںگے میداں میں عزت مآب
کہو انقلاب، انقلاب، انقلاب
طفیلی ہر اول کا خانہ خراب
محمد میاں نے ساری زندگی سچائی، ایمانداری اور خلوص سے کمیونسٹ سماج کے قیام کے لیے جد وجہد کی۔آج کل شدید علیل ہیں گھر سے باہر نہیں نکل پاتے ۔ دوستوں کے ملنے کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ہمارے ایک اور ساتھی محمد احمد وارثی جوکہ آج کل شدید علیل ہیں۔ ان کی عمراس وقت 78 برس کی ہے۔ وہ پوسٹ ماسٹرکے عہدے پر فائز رہے۔ وہ مسلسل مزدوروں، کسانوں اور پیداواری قوتوں کے مسائل پر جدوجہد کرتے آرہے ہیں۔ وارثی اپنی سرکاری ملازمت کے دوران بھی محنت کشوں کی صدق دل سے خدمت کرتے رہے۔ وارثی محنت کشوں کے اجتماعات میں شرکت کے لیے کبھی لاہور تو کبھی کشمیر تو کبھی کوئٹہ تو کبھی پشاور یعنی کہ ملک کے ہرگوشے میں جاتے رہے،کراچی میں شاید ہی کوئی مظاہرہ، جلوس، جلسے یا سیمینار میں نہ گئے ہوں۔ یہ اپنی کمیونسٹ نظریات پر ہمیشہ سختی سے قائم ہیں۔
شمس الحق کی عمر لگ بھگ 80 برس سے زیادہ ہے وہ بھی آج کل بیمار ہی رہتے ہیں۔ انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی کی تقریباً ساری نظمیں انھیں زبانی یاد ہیں، وہ ان کے دوستوں میں سے ہیں۔ شمس نے نیشنل شپنگ کارپوریشن میں ملازمت کی اس لیے ساری دنیا کو دیکھا ہوا ہے میں انھیں 1977 سے جانتا ہوں ۔ ذوالفقارعلی بھٹو بھی ان کے گھر سعود آباد ملیر آئے تھے ان کے گھر پر سو کے لگ بھگ تنظیمی اجلاس ہوچکے ہیں،اس ضعیفی میں اب بھی شاعری کرتے ہیں۔ حال ہی میں اپنی ایک نظم نواز شریف کو بھی ارسال کی ہے۔ اب وہ گھر سے باہر بھی دوستوں سے ملنے جاتے ہیں اور اس عمر میں بھی سیاسی طور پر اپ ڈیٹ ہیں۔
یہ تو تذکرہ تھا کچھ دوستوں کا، جنھوں نے اپنی ساری زندگی محنت کشوں کے لیے اور انقلاب کے لیے صرف کی ۔ امداد باہمی والے سماج کی تعمیر وتشکیل کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ ان پر ہم جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ ایسے ہی بے شمار کارکنان کی جد وجہد کے نتیجے میں پاکستان میں مزدوروں کو بونس، پانچ فی صد گریجویٹی، سالانہ چھٹی، اتفاقی چھٹی، میڈیکل چھٹی، اولڈ ایج بینفٹ وغیرہ حاصل ہوئے ہیں اور ملک کے کچھ حصوں میں تھوڑی بہت زمینیں بھی کسانوں میں تقسیم ہوئی ہیں اور کسانوں نے قبضہ بھی کیا ہے۔
اس سے قطع نظر کہ یہ کون،کس پارٹی یا گروہ سے تعلق ہے یا کس کو اپنا رہنما مانتے ہیں بلکہ ان سب میں ایک مشترکہ مقصد یہ تھا کہ مزدور طبقے کی قیادت میں اس ملک اور دنیا بھر میں کمیونسٹ انقلاب یا امداد باہمی کا معاشرہ قائم کیا جائے۔ انھوں نے اور ان جیسے ہزاروں کارکنوں نے ہی پاکستان کے محنت کشوں کے خون گرمائے رکھا ہے اور انھیں کے کاوشوں سے نوجوان کامریڈز پیدا ہورہے ہیں۔ اب بائیں بازو کے درجنوں نوجوان نے عام انتخابات میں حصہ بھی لیا اور دو علی وزیر اور محسن داوڑ قومی اسمبلی کا الیکشن جیت بھی گئے یہ بحیثیت مجموعی محنت کش طبقے کے لیے باعث فخر بھی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان برصغیر اور دنیا بھر کے لڑنے والے محنت کش اپنا کمیونسٹ سماج کے قیام کا ہدف پورا کرنے میں برسر پیکار ہیں ۔