اقتدار کی تقدیر
عمربھر نازونعم میں پلی بڑھی اپنی اولادکو زندگی کی بہترین آسائشیں فراہم کیں یہ علم ہی نہیں کہ دولت کتنی ہے اورکہاں ہے۔
میاں نواز شریف نے وہ تمام راستے بند کر لیے تھے جن سے گزر کر کوئی ان کی حکومت تک پہنچ جاتا اور ان کے اقتدار کو نقصان پہنچاتا مگر ایک راستہ انھوں نے خود ہی کھلا رکھا اور وہ راستہ ان کی عمر بھر کی کمائی کی طرف جاتا تھا تا کہ وہ جب چاہئیں اس راستے سے گزر کر اپنی یہ دولت استعمال کر سکیں لیکن برا ہو حکومت کے مخالفین کا جنھیں میاں نواز شریف کے اس خفیہ راستے کی بھنک پڑ گئی اور وہ اس راستے سے حکومت کے ایوانوں میں بھونچال پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
ایک ایسا بھونچال جو کہ بالآخر میاں صاحب کی مضبوط ترین حکومت کے باوجود ان کے اقتدار کی کرسی سے خاتمے پر منتج ہوا۔ میاں صاحب کی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی ان کو اور ان کے ساتھیوں کو حکومتی معاملات چلانے کا کئی برسوں پر محیط تجربہ بھی حاصل تھا۔ وہ ا س سے پہلے بھی دو دفعہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے اور دو نوں دفعہ جس طرح حکومت سے رخصت ہوئے یہ بات بھی ان کے تجربے میں شامل تھی لہذا یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ حکومت کے ایوان اور ان ایوانوں میں پرورش پانے اور گردش کرنے والی سازشیں ان کے لیے نئی نہیں تھیں وہ پہلے بھی انہی ایوانوں میں سازشوں کا مقابلہ بھی کرتے رہے اور ان سازشوں کا شکار بھی ہو تے رہے۔
ان کے ارد گرد ماضی میں بھی وہی لوگ تھے اور اب بھی وہی لوگ تھے جو ان کے زوال کا باعث بنے۔ بادشاہ کے ساتھی اور مشیر اگر عقلمند ہوں اور بادشاہ سے ہمدردی بھی رکھتے ہوں تو پھر بادشاہ کی بادشاہی کے لیے ستے خیراں ہوتی ہیں۔ لیکن اگر ارد گرد نااہل اور نالائق اور صرف واہ واہ کرنے والے لوگ ہی اکٹھے کر لیے جائیں تو پھر بادشاہ کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے جو میاں نواز شریف کے ساتھ اقتدار کی تیسری بار بیت گیا۔
میں میاں صاحب کی پاکستانیت طرز کی سیاست کا ہمیشہ قائل رہا ہوں اور جب تک وہ پاکستانیت کی سیاست کا دم بھرتے رہے اور مشورے سنتے رہے ہم مقدور بھر سمجھ بوجھ کے مطابق ان کو مشورے بھی دیتے رہے۔ لیکن بعد میں انھوں نے اپنے ارد گرد ایسے لوگ اکٹھے کر لیے جو کہ پاکستان کے وجود سے ہی انکاری تھے اس لیے ہم نے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ان کی سیاسی مخالف جماعت پیپلز پارٹی کے ہم شروع سے نظریاتی مخالف رہے ہیں جب کہ میاں صاحب نے گزشتہ برس سیاسی میدان میں اپنے نظریاتی ہونے کا اعلان کیا۔
ماضی میں وہ لندن میں اپنے سیاسی مخالفوں کے ساتھ غیر فطری اتحاد بناتے رہے اور معاہدے کرتے رہے جسے ان کے پاکستان میں حمائتی مشکوک نظروں سے دیکھتے رہے لیکن وہی ہوا جو غیر فطری اتحادوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے کہ وہ معاہدہ بھی ٹوٹ گیا اور اب یہ عالم ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی سیاسی مخالف جماعت تحریک انصاف کے ترازو میں اپنا وزن ڈالے ہوئے ہے یعنی میاں صاحب کو اکیلا کر دیا گیا ہے اور وہ اپنے تمام تر سیاسی تجربے کے باوجود اس وقت اڈیالہ جیل کے ایک سیل میں اپنی اسیری کے دن کاٹ رہے ہیں ۔ مجھے یہ جان کر بھی انتہائی دکھ ہوا کہ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کو اسیری کے پہلے دن فرش پر سلایا گیا ۔ ان کے ساتھ ان کی صاحبزادی اور داماد بھی قید میں ہیں۔
جیل سے جو خبریں اخبارات کے توسط سے مجھ تک پہنچتی ہیں وہ یہ ہیں کہ میاں صاحب نے کتابیں پڑھنا بھی شروع کر دی ہیں اور پہلی کتاب وہ غلاف کعبہ کی تاریخ پڑھ رہے ہیں ۔ اور اب تو انھوں نے اپنے ملاقاتیوں میں قرآن پاک کے نسخے بھی باٹنا شروع کر دیے ہیں۔ میں اپنی صحت کی مجبوریوں کی وجہ سے میاں صاحب سے ان کی بیگم کی وفات کی تعزیت کرنے بھی حاضر نہیں ہو سکا اس لیے صرف اخباری سہارا لے کر ان سے تعزیت بھی کی لیکن میں کوئی ایسا دوست ڈھونڈ رہا ہوں جس کے ہاتھ میں چند کتابیں بجھوا کر جیل میں ملاقات کی حاضری لگوا سکوں۔
اگر میاں نواز شریف نے کتابیں پڑھنا شروع ہی کر دی ہیں تو ان کو سب سے پہلے اس پڑھائی کا آغاز خلفائے راشدین کی تاریخ سے کرنا چاہیے جن کی زندگیاں اور انداز حکومت ہمارے آج کے حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی حکمرانی سے شروع ہونے والا سفر حضرت عمر بن خطابؓ پھر حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علی ؓ کی زندگیاں مسلم طرز حکمرانی کی نمائندہ اور بنیاد ہیں ۔ دنیا بھر آج بھی عمرؓ کے قانون لاگو ہیں اور ان کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔ان چاروں خلفائے راشدین کے بعد اگر کوئی مسلمان حکمران آیا تو وہ عمر بن عبد العزیز تھے انھوں نے اسلامی حکمر انی کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔
میاں نواز شریف کی اہلیہ کی بچھڑنے کا صدمہ ابھی تازہ ہے حکومت نے روائت سے ہٹ کر ان کو پیرول پر رہا کیا ہے عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ قیدیوں کو ان کے قریب ترین عزیزوں کے جنازہ میں شرکت کی اجازت ہی دی جاتی ہے لیکن میاں صاحب کے ساتھ ان کے سیاسی مخالفین نے خاص مہربانی کی ہے ان کو ٹی وی پر دیکھ کر ان کی صحت کی خرابی کا اندازہ ہوا۔ کل کا وزیراعظم آج کا اسیر ہے اپنی بیٹی اور داماد کے ہمراہ اس عمر میں قید کاٹ رہا ہے، جب عمر بھر کی کمائی پر عیش کرنے کے دن ہوتے ہیں لیکن برا ہو ہوسِ اقتدار کا جس نے دنیا کا نظام درہم برہم کر رکھا ہے ۔
اس بات سے قطع نظر کہ میاں نواز شریف کو کس جرم میں سزا دی گئی سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمر بھر نازو نعم میں پلی بڑھی اپنی اولاد کو زندگی کی بہترین آسائشیں فراہم کیں یہ علم ہی نہیں کہ دولت کتنی ہے اور کہاں ہے لیکن جب آرام اور عمر بھر کی کمائی پر عیش کرنے کے دن آئے ہیں توان دنوں میاں صاحب اڈیالہ جیل میں ہیں ۔تقدیر کے تماشے!
مرے عروج کی لکھی تھی داستاں جس میں
مرے زوال کا قصہ بھی اسی کتاب میں تھا
ایک ایسا بھونچال جو کہ بالآخر میاں صاحب کی مضبوط ترین حکومت کے باوجود ان کے اقتدار کی کرسی سے خاتمے پر منتج ہوا۔ میاں صاحب کی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی ان کو اور ان کے ساتھیوں کو حکومتی معاملات چلانے کا کئی برسوں پر محیط تجربہ بھی حاصل تھا۔ وہ ا س سے پہلے بھی دو دفعہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے اور دو نوں دفعہ جس طرح حکومت سے رخصت ہوئے یہ بات بھی ان کے تجربے میں شامل تھی لہذا یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ حکومت کے ایوان اور ان ایوانوں میں پرورش پانے اور گردش کرنے والی سازشیں ان کے لیے نئی نہیں تھیں وہ پہلے بھی انہی ایوانوں میں سازشوں کا مقابلہ بھی کرتے رہے اور ان سازشوں کا شکار بھی ہو تے رہے۔
ان کے ارد گرد ماضی میں بھی وہی لوگ تھے اور اب بھی وہی لوگ تھے جو ان کے زوال کا باعث بنے۔ بادشاہ کے ساتھی اور مشیر اگر عقلمند ہوں اور بادشاہ سے ہمدردی بھی رکھتے ہوں تو پھر بادشاہ کی بادشاہی کے لیے ستے خیراں ہوتی ہیں۔ لیکن اگر ارد گرد نااہل اور نالائق اور صرف واہ واہ کرنے والے لوگ ہی اکٹھے کر لیے جائیں تو پھر بادشاہ کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے جو میاں نواز شریف کے ساتھ اقتدار کی تیسری بار بیت گیا۔
میں میاں صاحب کی پاکستانیت طرز کی سیاست کا ہمیشہ قائل رہا ہوں اور جب تک وہ پاکستانیت کی سیاست کا دم بھرتے رہے اور مشورے سنتے رہے ہم مقدور بھر سمجھ بوجھ کے مطابق ان کو مشورے بھی دیتے رہے۔ لیکن بعد میں انھوں نے اپنے ارد گرد ایسے لوگ اکٹھے کر لیے جو کہ پاکستان کے وجود سے ہی انکاری تھے اس لیے ہم نے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ان کی سیاسی مخالف جماعت پیپلز پارٹی کے ہم شروع سے نظریاتی مخالف رہے ہیں جب کہ میاں صاحب نے گزشتہ برس سیاسی میدان میں اپنے نظریاتی ہونے کا اعلان کیا۔
ماضی میں وہ لندن میں اپنے سیاسی مخالفوں کے ساتھ غیر فطری اتحاد بناتے رہے اور معاہدے کرتے رہے جسے ان کے پاکستان میں حمائتی مشکوک نظروں سے دیکھتے رہے لیکن وہی ہوا جو غیر فطری اتحادوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے کہ وہ معاہدہ بھی ٹوٹ گیا اور اب یہ عالم ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی سیاسی مخالف جماعت تحریک انصاف کے ترازو میں اپنا وزن ڈالے ہوئے ہے یعنی میاں صاحب کو اکیلا کر دیا گیا ہے اور وہ اپنے تمام تر سیاسی تجربے کے باوجود اس وقت اڈیالہ جیل کے ایک سیل میں اپنی اسیری کے دن کاٹ رہے ہیں ۔ مجھے یہ جان کر بھی انتہائی دکھ ہوا کہ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کو اسیری کے پہلے دن فرش پر سلایا گیا ۔ ان کے ساتھ ان کی صاحبزادی اور داماد بھی قید میں ہیں۔
جیل سے جو خبریں اخبارات کے توسط سے مجھ تک پہنچتی ہیں وہ یہ ہیں کہ میاں صاحب نے کتابیں پڑھنا بھی شروع کر دی ہیں اور پہلی کتاب وہ غلاف کعبہ کی تاریخ پڑھ رہے ہیں ۔ اور اب تو انھوں نے اپنے ملاقاتیوں میں قرآن پاک کے نسخے بھی باٹنا شروع کر دیے ہیں۔ میں اپنی صحت کی مجبوریوں کی وجہ سے میاں صاحب سے ان کی بیگم کی وفات کی تعزیت کرنے بھی حاضر نہیں ہو سکا اس لیے صرف اخباری سہارا لے کر ان سے تعزیت بھی کی لیکن میں کوئی ایسا دوست ڈھونڈ رہا ہوں جس کے ہاتھ میں چند کتابیں بجھوا کر جیل میں ملاقات کی حاضری لگوا سکوں۔
اگر میاں نواز شریف نے کتابیں پڑھنا شروع ہی کر دی ہیں تو ان کو سب سے پہلے اس پڑھائی کا آغاز خلفائے راشدین کی تاریخ سے کرنا چاہیے جن کی زندگیاں اور انداز حکومت ہمارے آج کے حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی حکمرانی سے شروع ہونے والا سفر حضرت عمر بن خطابؓ پھر حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علی ؓ کی زندگیاں مسلم طرز حکمرانی کی نمائندہ اور بنیاد ہیں ۔ دنیا بھر آج بھی عمرؓ کے قانون لاگو ہیں اور ان کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔ان چاروں خلفائے راشدین کے بعد اگر کوئی مسلمان حکمران آیا تو وہ عمر بن عبد العزیز تھے انھوں نے اسلامی حکمر انی کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔
میاں نواز شریف کی اہلیہ کی بچھڑنے کا صدمہ ابھی تازہ ہے حکومت نے روائت سے ہٹ کر ان کو پیرول پر رہا کیا ہے عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ قیدیوں کو ان کے قریب ترین عزیزوں کے جنازہ میں شرکت کی اجازت ہی دی جاتی ہے لیکن میاں صاحب کے ساتھ ان کے سیاسی مخالفین نے خاص مہربانی کی ہے ان کو ٹی وی پر دیکھ کر ان کی صحت کی خرابی کا اندازہ ہوا۔ کل کا وزیراعظم آج کا اسیر ہے اپنی بیٹی اور داماد کے ہمراہ اس عمر میں قید کاٹ رہا ہے، جب عمر بھر کی کمائی پر عیش کرنے کے دن ہوتے ہیں لیکن برا ہو ہوسِ اقتدار کا جس نے دنیا کا نظام درہم برہم کر رکھا ہے ۔
اس بات سے قطع نظر کہ میاں نواز شریف کو کس جرم میں سزا دی گئی سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمر بھر نازو نعم میں پلی بڑھی اپنی اولاد کو زندگی کی بہترین آسائشیں فراہم کیں یہ علم ہی نہیں کہ دولت کتنی ہے اور کہاں ہے لیکن جب آرام اور عمر بھر کی کمائی پر عیش کرنے کے دن آئے ہیں توان دنوں میاں صاحب اڈیالہ جیل میں ہیں ۔تقدیر کے تماشے!
مرے عروج کی لکھی تھی داستاں جس میں
مرے زوال کا قصہ بھی اسی کتاب میں تھا