وزیر خارجہ کے دورہ کابل کا اعلامیہ

اس دورے سے مستقبل میں امن مذاکرات اور باہمی تعلقات میں مزید پیش رفت ہو گی

اس دورے سے مستقبل میں امن مذاکرات اور باہمی تعلقات میں مزید پیش رفت ہو گی۔ فوٹو: فائل

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کابل کے دورے کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی' چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی سے ملاقاتیں کیں جن کے دوران دونوں ممالک کے درمیان مفاہمتی عمل آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا' پاکستان نے افغانستان سے درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی جب کہ جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانہ دوبارہ آپریشنل کرنے اور جوائنٹ اکنامک کمیٹی اور افغانستان پاکستان ایکشن پلان پر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

دفتر خارجہ کی جانب سے وزیر خارجہ شاہ محمود کے دورہ کابل پر جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق شاہ محمود قریشی نے افغان قیادت سے کہا کہ امن کے لیے افغانستان کی زیرقیادت سیاسی عمل کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور ہر کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ وزیر خارجہ نے افغان پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو پاکستان میں ٹریننگ دینے کی پیشکش کی اور دونوں ملکوں کے درمیان معاملات کے بہتر حل کے لیے رابطے جاری رکھنے پر زور بھی دیا ۔ وزیر خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے40ہزار ٹن گندم کے تحفے کا خط افغان صدر کے حوالے کیا۔ شاہ محمود قریشی نے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کا معاملہ بھی افغان قیادت کے سامنے اٹھایا۔ افغانستان کو جذبہ خیر سگالی کے تحت 40 ہزار ٹن گندم تحفہ میں دینے کے موقع پر گندم سے بھری چار گاڑیوں کا پہلا قافلہ پاکستان سے طورخم کے راستے افغانستان روانہ ہو گیا۔

نئی حکومت آنے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ پہلا غیرملکی دورہ ہے' خارجہ سطح پر پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور ہمسایہ ممالک سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کا آغاز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ کابل سے کیا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ون آن ون ملاقات میں دوطرفہ تعلقات اور افغانستان میں امن سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا' اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان افغان صدر اشرف غنی کی سربراہی میں وفود کی سطح پر بھی مذاکرات کا دور ہوا جس میں تمام باتوں پر مثبت انداز میں تفصیلاً بات چیت کی گئی جس میں دوطرفہ تجارتی امور' افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کے کردار' بارڈر مینجمنٹ اور جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے کی بندش سمیت دیگر اہم امور پر بات کی گئی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مذاکرات میں دونوں جانب سے مزید ملاقاتوں اور مذاکرات کا عندیہ دیا گیا۔ وزیر خارجہ کا کابل کا پہلا دورہ پاکستان کی افغانستان اور علاقائی امن کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔


امید ہے کہ اس دورے سے مستقبل میں امن مذاکرات اور باہمی تعلقات میں مزید پیش رفت ہو گی۔ حامد کرزئی کے بعد آنے والی اشرف غنی حکومت نے بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان تعلقات کی راہ میں اپنے مخالفانہ بیانات کے ذریعے مختلف رکاوٹیں پیدا کیں۔ پاکستان کو احساس ہے کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا تب تک اس کے ہاں بھی امن و امان کی صورت حال بہتر نہیں ہو سکتی، اسی احساس کو شاہ محمود قریشی نے افغان حکام سے ملاقات کے دوران اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی یہاں تک کہ دوطرفہ معاملات کو بہتر بنانے کے لیے دونوں اطراف سے علماء کرام کی میٹنگ کی تجویز بھی دی۔

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات مضبوط بنانے کے لیے درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے' جوائنٹ اکنامک کمیٹی تشکیل دینے اور جلال آباد میں بند پڑے پاکستانی قونصل خانے کو دوبارہ آپریشنل کرنے کے لیے جو فیصلے کیے ہیں وہ یقیناً خوش آئند ہیں اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی اور مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔

پاکستان کی طرف سے افغانستان کو جذبہ خیرسگالی کے تحت 40ہزار ٹن گندم تحفے میں دینے پر مختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے' ایک طرف حکومت بار بار یہ واویلا مچا رہی ہے کہ ملکی معاشی نظام کو چلانے کے لیے خزانے میں مطلوبہ رقم اور وسائل موجود نہیں لہٰذا وہ معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے کفایت شعاری اور سادگی کی مہم چلا رہی ہے' اس کے ساتھ ساتھ اس نے مختلف شعبوں میں سبسڈیز ختم کرنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔

ایک طرف معاشی صورت حال انتہائی گمبھیر ہے تو دوسری جانب افغانستان کو 40ہزار ٹن گندم تحفے میں دی جا رہی ہے' اگر یہی گندم سندھ کے علاقے تھرکے غریب لوگوں میں تقسیم کی جاتی تو بہتر ہوتا جہاں ہر سال درجنوں بچے اور افراد بھوک سے نڈھال ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ بہرحال حکومت نے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا جو آغاز کیا ہے، وہ بہتر سمت کی جانب قدم ہے۔
Load Next Story