اجیتا شاہ بھارت کے دیہی علاقوں کے لیے روشنی اور امید کی نئی کرن
اجیتا مغربی دنیا میں پلنے بڑھنے کے باوجود اپنے ہم وطنوں کی خوش حالی کے لیے کوشاں ہیں
اجیتا شاہ امریکا کے شہر نیو یارک میں پیدا ہوئی۔ وہیں پرورش پائی، لیکن اپنے کاروبار کا آغاز اپنے آبائی شہر راجستھان سے کیا۔ یہ ایک خاص دل چسپ داستان ہے۔
اجیتا کے والدین کا تعلق بھارت کے شہر راجستھان سے ہے۔ جین برادری سے تعلق رکھنے والے اجیتا کے والد برادری کے ہمراہ کئی برس قبل نیو یارک منتقل ہوگئے تھے اور وہاں مغربی دنیا کے ساتھ اپنا روایتی طرز زندگی گزارتے رہے۔اجیتا شاہ نے مساچیو سٹس کی ٹفٹس یونی ورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔ انھوں نے انڈیا میں چھوٹی سرمایہ کاری کے شعبے میں کام کیا ہے۔ ان کو معروف بین الاقوامی رسالے Forbes نے 2014 میں 30 برس سے کم عمر والے 30 کاروباری پیشہ ور افراد میں شامل کیا۔
اجیتا شاہ فرنٹیئر مارکیٹس کی بانی اور سی ای او ہیں۔ راجستھان میں واقع یہ کمپنی شمسی توانائی سے متعلق ساز و سامان بیچتی ہے۔ دیہی خواتین پر اس کی خصوصی توجہ ہوتی ہے۔ کمپنی یہ کام دیہی علاقوں میں واقع دکانوں کے ساتھ شمسی سہیلیوں (خواتین) کی مدد سے کرتی ہے جنھیں سامان بیچنے کے عوض اجرت دی جاتی ہے۔ یہ مقامی کاروباری پیشہ ور افراد کے ساتھ شراکت داری بھی کرتی ہے۔
شراکت داری کے نتیجے میں مصنوعات فروخت کی جاتی ہیں۔ گھروں میں شمسی بجلی کی موجودگی سے خواتین نمایاں طور پر مستفید ہوتی ہیں۔ نظام شمسی سے حاصل کردہ توانائی سے کھانا بنانے، مطالعہ کرنے اور مویشیوں کی حفاظت کا کام کم خرچ میں کیا جاسکتا ہے۔ اجیتا شاہ نے دوران تعلیم اور کام میں خصوصی چیلنجوں سے نمٹنے میں جو تجربات حاصل کیے، بھارت میں کاروبار کے دوران ان کا بھرپور استعمال بھی کیا۔
انھوں نے شمسی توانائی سے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ چوں کہ اجیتا ہندوستانی پس منظر رکھنے کے ساتھ ہندی بولنے، پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں، اس لیے ان کو کسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کچھ الگ کر دکھانا، لوگوں کو سمجھ کر ان کی زندگی سے تعلق جوڑنا اور مشکلات سے نمٹنے کے لیے تیار ہونا اجیتا کا جنون ہے، اسی لیے انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اپنی تنظیم کے آغاز کے لیے ان کا اپنا ملک بہترین جگہ ہے۔
ان کی تنظیم اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اگر صارفین کی آواز کو راہ نما کے طور پر استعمال کیا جائے تو ان کے مطالبات پورے کیے جاسکتے ہیں۔ تنظیم کے صارفین میں 70 فی صد خواتین ہیں۔ ان خواتین میں اکثریت دور دراز علاقوں میں مقیم ہے۔ اس تنظیم نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ خواتین صارفین کا اعتماد حاصل کرنے، انہیں اپنی طرف راغب کرنے، ان کی بصیرت کا تجزیہ کرنے، اس کا اطلاق کرنے اور دیہی بازار کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہیں۔
آخری مقام تک تقسیم کے لیے ایک کاروباری نقطۂ نظر استعمال کرنے کے سلسلے میں یہ تنظیم قائدانہ کردار ادا کرتی ہے۔ یہ تنظیم شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کے ذریعے خواتین کی آمدنی میں اضافہ کرنے کی خواہاں ہے۔
اجیتا شاہ نے در اصل خواتین کی ضروریات پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے دیہی راجستھان میں شمسی توانائی تک رسائی کے مقصد کے ساتھ کمپنی قائم کی تھی۔ وہ راجستھان کے اندھیروں میں روشنی بکھیرنے کے ساتھ خواتین کے معاشی استحکام کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ لیکن یہ اتنا آسان نہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے مقامی دکانوں سے اپنی مصنوعات کی فروخت کا آغاز کیا، تاکہ مقامی افراد کو ان کی موجودگی کا علم ہو، ان کی تنظیم فروخت کے بعد کی خدمات بھی مہیا کرتی ہے۔
اجیتا شاہ کی تنظیم نے دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر ایسی خواتین کو جن کے اندر نہ صرف مصنوعات بیچنے بلکہ ایجنٹ بننے کے بھی صلاحیت تھی، انہیں سولر سہیلی یا شمسی فرینڈ بنایا۔ سولر سہیلیوں کو ساز و سامان فروخت کرنے، ممکنہ صارفین کو شمسی توانائی کے فوائد بتانے، نئے گاہک بنانے، ڈیٹا اکھٹا کرنے، مصنوعات کی فروخت کے بعد کی خدمات فراہم کرنے اور مرمت کے کام کے لیے رابطے کی پہلی جگہ فراہم کرنے کی اجرت کے ساتھ کمیشن بھی دیا جاتا ہے۔ اس طرح انھوں نے ہزار کاروباری پیشہ ور خواتین کو اپنے ساتھ کام میں لگایا ۔
جنھوں نے راجستھان میں کامیابی سے تین لاکھ تریسٹھ ہزار گھروں میں شمسی توانائی سے گھروں کو روشن کرنے والی مصنوعات، شمسی توانائی سے چلنے والے زرعی اوزار و آلات اور شمسی توانائی سے کھانا پکانے والی مصنوعات بیچیں جن سے بے شمار لوگ فیض یاب ہوئے۔ اس طرح دس ہزار ایسے گھرانے جو صرف زراعت پر انحصار کرتے تھے، ان کی مدد کی جاسکی۔
شمسی توانائی سے بجلی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج کو بھی روکا جاسکتا ہے، لہٰذا اجیتا شاہ نے اپنی شمسی توانائی کے پھیلاؤ کی کام یابی کے ضمن میں بتایاکہ ایک تخمینے کے مطابق اب تک ان کی کوششوں سے فضا میں نو لاکھ پچاس ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج کو روکا جاسکا ہے۔
اجیتا شاہ نے 2017 میں حیدر آباد دکن میں global Entrepreneurship Summit 2017(GSE) منعقد ہونے والی عالمی کاروباری پیشہ ور افراد کی چوٹی کانفرنس میں شرکت کی اور وہاں انھوں نے جی آئی ایس ٹی کیٹیلسٹ پچ کمپیٹیشن GIST Catalyst Pitch Competition جیتا۔ یہ کامیابی ان کی محنت کا نتیجہ تھی۔ اس مقابلے کی تیاری کے سلسلے میں جی آئی ایس ٹی ٹیم شرکا کو یہ سمجھاتی ہے کہ کسی طرح تین منٹ میں اپنے کام کو تقسیم کیا جائے جو معاشرتی شعبے سے متعلق زیادہ تر کاروباری پیشے کے افراد کے لیے نیا ہوتا ہے۔
اس کانفرنس میں دنیا بھر سے ماہرین کو جمع کیا گیا تھا یعنی تمام شرکا اپنے شعبوں میں ماہر اور عمدہ کام کررہے تھے۔ کانفرنس کا موضوع تھا : خواتین پہلے، خوش حالی سب کے لیے سے ہمارے کام کا ایک اہم رشتہ تھے۔اس کانفرنس میں ہونے والے مقابلے میں کامیابی ان کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ اس کے نتیجے میں ان کو امیزون، گوگل، ڈیل اور دیگر تنظیموں سے مدد ملنے والی ہے۔
اجیتا شاہ کی خواہش ہے کہ بھارت میں ان کوششوں سے 2020 تک پانچ ہزار خواتین صنعت کاروں اور دس لاکھ افراد کو فائدہ پہنچے۔ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ اپنے ہدف کے کامیاب حصول کے لیے پر عزم ہیں اور چاہتی ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک بھی ان کے تجربات سے فیض یاب ہوں۔
در حقیقت اجیتا شاہ تمام خواتین کے لیے ایک مثال ہیں کہ وہ مغربی دنیا میں پلنے بڑھنے کے باوجود اپنے ہم وطنوں کی خوش حالی کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر تمام خواتین اپنی تعلیم و تربیت اور اپنی صلاحیتوں کو اپنے وطن کی خوش حالی کے لیے استعمال کریں تو یہ لوگ دن دونی رات چوگنی ترقی کرسکتی ہیں۔
اجیتا کے والدین کا تعلق بھارت کے شہر راجستھان سے ہے۔ جین برادری سے تعلق رکھنے والے اجیتا کے والد برادری کے ہمراہ کئی برس قبل نیو یارک منتقل ہوگئے تھے اور وہاں مغربی دنیا کے ساتھ اپنا روایتی طرز زندگی گزارتے رہے۔اجیتا شاہ نے مساچیو سٹس کی ٹفٹس یونی ورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔ انھوں نے انڈیا میں چھوٹی سرمایہ کاری کے شعبے میں کام کیا ہے۔ ان کو معروف بین الاقوامی رسالے Forbes نے 2014 میں 30 برس سے کم عمر والے 30 کاروباری پیشہ ور افراد میں شامل کیا۔
اجیتا شاہ فرنٹیئر مارکیٹس کی بانی اور سی ای او ہیں۔ راجستھان میں واقع یہ کمپنی شمسی توانائی سے متعلق ساز و سامان بیچتی ہے۔ دیہی خواتین پر اس کی خصوصی توجہ ہوتی ہے۔ کمپنی یہ کام دیہی علاقوں میں واقع دکانوں کے ساتھ شمسی سہیلیوں (خواتین) کی مدد سے کرتی ہے جنھیں سامان بیچنے کے عوض اجرت دی جاتی ہے۔ یہ مقامی کاروباری پیشہ ور افراد کے ساتھ شراکت داری بھی کرتی ہے۔
شراکت داری کے نتیجے میں مصنوعات فروخت کی جاتی ہیں۔ گھروں میں شمسی بجلی کی موجودگی سے خواتین نمایاں طور پر مستفید ہوتی ہیں۔ نظام شمسی سے حاصل کردہ توانائی سے کھانا بنانے، مطالعہ کرنے اور مویشیوں کی حفاظت کا کام کم خرچ میں کیا جاسکتا ہے۔ اجیتا شاہ نے دوران تعلیم اور کام میں خصوصی چیلنجوں سے نمٹنے میں جو تجربات حاصل کیے، بھارت میں کاروبار کے دوران ان کا بھرپور استعمال بھی کیا۔
انھوں نے شمسی توانائی سے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ چوں کہ اجیتا ہندوستانی پس منظر رکھنے کے ساتھ ہندی بولنے، پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں، اس لیے ان کو کسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کچھ الگ کر دکھانا، لوگوں کو سمجھ کر ان کی زندگی سے تعلق جوڑنا اور مشکلات سے نمٹنے کے لیے تیار ہونا اجیتا کا جنون ہے، اسی لیے انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اپنی تنظیم کے آغاز کے لیے ان کا اپنا ملک بہترین جگہ ہے۔
ان کی تنظیم اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اگر صارفین کی آواز کو راہ نما کے طور پر استعمال کیا جائے تو ان کے مطالبات پورے کیے جاسکتے ہیں۔ تنظیم کے صارفین میں 70 فی صد خواتین ہیں۔ ان خواتین میں اکثریت دور دراز علاقوں میں مقیم ہے۔ اس تنظیم نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ خواتین صارفین کا اعتماد حاصل کرنے، انہیں اپنی طرف راغب کرنے، ان کی بصیرت کا تجزیہ کرنے، اس کا اطلاق کرنے اور دیہی بازار کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہیں۔
آخری مقام تک تقسیم کے لیے ایک کاروباری نقطۂ نظر استعمال کرنے کے سلسلے میں یہ تنظیم قائدانہ کردار ادا کرتی ہے۔ یہ تنظیم شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کے ذریعے خواتین کی آمدنی میں اضافہ کرنے کی خواہاں ہے۔
اجیتا شاہ نے در اصل خواتین کی ضروریات پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے دیہی راجستھان میں شمسی توانائی تک رسائی کے مقصد کے ساتھ کمپنی قائم کی تھی۔ وہ راجستھان کے اندھیروں میں روشنی بکھیرنے کے ساتھ خواتین کے معاشی استحکام کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ لیکن یہ اتنا آسان نہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے مقامی دکانوں سے اپنی مصنوعات کی فروخت کا آغاز کیا، تاکہ مقامی افراد کو ان کی موجودگی کا علم ہو، ان کی تنظیم فروخت کے بعد کی خدمات بھی مہیا کرتی ہے۔
اجیتا شاہ کی تنظیم نے دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر ایسی خواتین کو جن کے اندر نہ صرف مصنوعات بیچنے بلکہ ایجنٹ بننے کے بھی صلاحیت تھی، انہیں سولر سہیلی یا شمسی فرینڈ بنایا۔ سولر سہیلیوں کو ساز و سامان فروخت کرنے، ممکنہ صارفین کو شمسی توانائی کے فوائد بتانے، نئے گاہک بنانے، ڈیٹا اکھٹا کرنے، مصنوعات کی فروخت کے بعد کی خدمات فراہم کرنے اور مرمت کے کام کے لیے رابطے کی پہلی جگہ فراہم کرنے کی اجرت کے ساتھ کمیشن بھی دیا جاتا ہے۔ اس طرح انھوں نے ہزار کاروباری پیشہ ور خواتین کو اپنے ساتھ کام میں لگایا ۔
جنھوں نے راجستھان میں کامیابی سے تین لاکھ تریسٹھ ہزار گھروں میں شمسی توانائی سے گھروں کو روشن کرنے والی مصنوعات، شمسی توانائی سے چلنے والے زرعی اوزار و آلات اور شمسی توانائی سے کھانا پکانے والی مصنوعات بیچیں جن سے بے شمار لوگ فیض یاب ہوئے۔ اس طرح دس ہزار ایسے گھرانے جو صرف زراعت پر انحصار کرتے تھے، ان کی مدد کی جاسکی۔
شمسی توانائی سے بجلی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج کو بھی روکا جاسکتا ہے، لہٰذا اجیتا شاہ نے اپنی شمسی توانائی کے پھیلاؤ کی کام یابی کے ضمن میں بتایاکہ ایک تخمینے کے مطابق اب تک ان کی کوششوں سے فضا میں نو لاکھ پچاس ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج کو روکا جاسکا ہے۔
اجیتا شاہ نے 2017 میں حیدر آباد دکن میں global Entrepreneurship Summit 2017(GSE) منعقد ہونے والی عالمی کاروباری پیشہ ور افراد کی چوٹی کانفرنس میں شرکت کی اور وہاں انھوں نے جی آئی ایس ٹی کیٹیلسٹ پچ کمپیٹیشن GIST Catalyst Pitch Competition جیتا۔ یہ کامیابی ان کی محنت کا نتیجہ تھی۔ اس مقابلے کی تیاری کے سلسلے میں جی آئی ایس ٹی ٹیم شرکا کو یہ سمجھاتی ہے کہ کسی طرح تین منٹ میں اپنے کام کو تقسیم کیا جائے جو معاشرتی شعبے سے متعلق زیادہ تر کاروباری پیشے کے افراد کے لیے نیا ہوتا ہے۔
اس کانفرنس میں دنیا بھر سے ماہرین کو جمع کیا گیا تھا یعنی تمام شرکا اپنے شعبوں میں ماہر اور عمدہ کام کررہے تھے۔ کانفرنس کا موضوع تھا : خواتین پہلے، خوش حالی سب کے لیے سے ہمارے کام کا ایک اہم رشتہ تھے۔اس کانفرنس میں ہونے والے مقابلے میں کامیابی ان کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ اس کے نتیجے میں ان کو امیزون، گوگل، ڈیل اور دیگر تنظیموں سے مدد ملنے والی ہے۔
اجیتا شاہ کی خواہش ہے کہ بھارت میں ان کوششوں سے 2020 تک پانچ ہزار خواتین صنعت کاروں اور دس لاکھ افراد کو فائدہ پہنچے۔ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ اپنے ہدف کے کامیاب حصول کے لیے پر عزم ہیں اور چاہتی ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک بھی ان کے تجربات سے فیض یاب ہوں۔
در حقیقت اجیتا شاہ تمام خواتین کے لیے ایک مثال ہیں کہ وہ مغربی دنیا میں پلنے بڑھنے کے باوجود اپنے ہم وطنوں کی خوش حالی کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر تمام خواتین اپنی تعلیم و تربیت اور اپنی صلاحیتوں کو اپنے وطن کی خوش حالی کے لیے استعمال کریں تو یہ لوگ دن دونی رات چوگنی ترقی کرسکتی ہیں۔