کرومائٹ کان سے منڈی تک کا سفر
ضلع قلعہ سیف اﷲ اس قیمتی معدنی پیدوار کا اہم مرکز ہے.
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان بنجر زمینوں، سنگلاخ چٹانوں اور صحراؤں کا مالک صوبہ ہے۔
پورے بلوچستان کی آبادی شہر لاہور کی نصف آبادی کے برابر بھی نہیں۔ پاکستان میں اگر صوبہ پنجاب زرخیز زمینوں، صوبہ سندھ کراچی کے ساحلوں اور خیبر پختونخوا سرسبز تفریحی مقامات کے مشہور ہیں تو صوبہ بلوچستان کو قدرت نے معدنیات کی بے تحاشا دولت سے مالامال کیا ہے۔ بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں سے کوئلہ، قیمتی پتھر، کرومائٹ، میگناسائٹ، جپسم، سونا، اور توانائی کا اہم ذریعہ سوئی گیس نکالی جاتی ہے۔ یہ تمام معدنیات قدرت کا تحفہ ہیں اور پاکستان کی معیشت کے لیے بہت بڑا سہارا بھی۔ بلوچستان کا ضلع قلعہ سیف اﷲ کی سرزمین کرومائٹ سے مالامال ہے۔
٭ضلع قلعہ سیف اﷲ پر ایک نظر
اس ضلع کا نام سیف اﷲ قلعہ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ 1988میں ضلع ژوب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور قلعہ سیف اﷲ الگ ضلع بن گیا۔ اس کی دو تحصیلیں قلعہ سیف اﷲ اور مسلم باغ ہیں۔ ضلع قلعہ سیف اﷲ کے شمال میں ضلع ژوب، جنوب میں ضلع لورالائی اور ضلع پشین ہیں۔ مشرق میں ضلع ژوب، مغرب میں ملک افغانستان اور ضلع پشین ہیں۔ ضلع کا زیادہ تر علاقہ پہاڑی ہے۔ اس میں کوہ توبہ کاکڑی اور اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔ کوہ تورغر، کوہ سپن غر، کوہ کند اور کوہ سرغنڈ اہم پہاڑ ہیں۔ ضلع میں چھوٹے چھوٹے دریا اور ندی نالے ہیں ان میں پانی زیادہ تر برسات کے دنوں آتا ہے۔
دریائے ژوب اور دریائے جوگیزئی مشہور ہیں۔ کان مہترزئی، مسلم باغ، قلعہ سیف اﷲ اور شرن جوگیزئی زرخیز وادیاں ہیں، کئی چھوٹے چھوٹے میدانی علاقے بھی ہیں۔ موسم سرما میں زیادہ سردی پڑتی ہے۔ مسلم باغ اور کان مہترزئی میں کئی کئی فٹ برف پڑتی ہے۔ درجۂ حرارت صفر سینٹی گریڈ سے بھی نیچے گرجاتا ہے۔ اس موسم میں بارشیں بھی ہوتی ہیں۔ موسم بہار میں یہاں کا موسم انتہائی خوش گوار ہوتا ہے۔ باغات ہرے بھرے ہوتے ہیں۔ موسم گرما میں گرمی بڑھ جاتی ہے۔ درجۂ حرارت 40 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ تاہم راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔
ضلع میں آب پاشی کے قدرتی ذرائع بارش اور برف ہیں ٹیوب ویل، کاریز، بند اور چشموں سے کھیتوں اور باغوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔ زرعی پیداوار میں گندم، مکئی، تمباکو اور زہرہ ضلع کی اہم فصلیں ہیں۔ سبزیاں کم مقدار میں پیدا ہوتی ہیں۔ پھلوں کے حوالے سے یہ ضلع اچھی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں پر سیب ، زردآلو، انگور، آلوچہ اور انجیر وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔
ضلع قلعہ سیف اﷲ کی خاص اہمیت قدرتی معدنیات کے سبب ہے اس ضلع کو قدرت نے معدنیات کا بہت بڑا تحفہ کرومائٹ کی شکل میں دیا ہے۔ یہ ایک ایسا تحفہ ہے جس کی مانگ پوری دنیا میں ہے۔ خصوصاً نئی ابھرتی ہوئی معیشت چین کو اس عنصر کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا میں چین ہی اس کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ چوںکہ یہ عنصر اسلحہ سازی، جہاز سازی، ادویات اور لوہا سازی میں استعمال میں لایا جاتا ہے، اسی لیے چین جو اقتصادی قوت کے طور پر عالمی منڈی میں تیزی سے پیش رفت کر رہا ہے، وہاں ہزاروں فیکٹریوں میں یہ استعمال میں لایا جارہا ہے۔
قلعہ سیف اﷲ کا ضلع بلوچستان میں کرومائٹ کی پیداوار کے سبب بین الااقوامی سطح پر اپنی پہچان رکھتا ہے۔ یہاں کانوں سے نکالا جانے والا کرومائٹ چین اور یورپی ممالک تک پہنچتا ہے۔ یہاں کے مختلف علاقوں سے کانکنی کے ذریعے سے نکالا جانے والا کرومائٹ کا 80 فی صد کا خریدار چین ہے، جب کہ 20 فی صد کے قریب کرومائٹ یورپی ممالک خریدتے ہیں۔ ضلع قلعہ سیف اﷲ میں مسلم باغ، سولا، وچھٹاکی، خواجہ مران اور پلنہ خوڑہ وہ علاقے ہیں جہاں پر کرومائٹ کے ذخائر موجود ہیں۔
ان تمام علاقوں میں سے بہت سے اعلیٰ معیار کی کرومائٹ سولا اور وچھٹاکی اور بوستان کے علاقوں میں واقع پہاڑی سلسلوں میں پائی جاتی ہے۔ ان علاقوں سے نکالا جانے والا کرومائٹ 52 فی صد والی شرح کا ہے۔ یہاں یہ امر واضع رہے کہ قلعہ سیف اﷲ کے مختلف علاقوں میں کانکنی کی صورت میں پہاڑوں سے نکالا جانے والے کرومائٹ کو یہاں کی تاجر برادری نے مختلف کیٹگریز میں رکھا ہے۔
سب سے اعلیٰ قسم کی کرومائٹ 52+ فیصد والی ہے، جب کہ فی صد کی شرح کے لحاظ سے یہاں پر کرومائٹ 24 فی صد، جو کہ کم ترین تصور کیا جاتا ہے سے شروع ہوکر 52+فی صد تک پہنچتی ہے، جس بھی علاقے میں تناسب کے اعتبار کے لحاظ سے بہتر کرومائٹ نکل آتا ہے تو تاجر برادری بھی اُسی علاقے میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دیتے ہیں اور متعلقہ علاقے کو بڑی قدرومنزلت حاصل ہوجاتی ہے۔ کرومائٹ کی کانکنی سے لے کر اسے چین اور یورپی ممالک کی عالمی منڈیوں تک پہنچانے میں یہاں کے ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں۔ ان میں مقامی اور غیر مقامی دونوں شامل ہیں۔
٭کرومائٹ کانکنی سے مارکیٹ تک
کرومائٹ کو مارکیٹ تک لانے کے لیے پہلا مرحلہ اُس خاص مقام کا تعین کرنا جہاں سے یہ اُمید ہو کہ کرومائٹ مل سکتا ہے، چوں کہ ضلع قلعہ سیف اللہ کے لوگ جدید دور کی جدید مشینری سے محروم ہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر ان کی کوئی معاونت ہوتی ہے، لہٰذا یہاں کے لوگ اندازوں سے کام چلاتے ہیں۔ جیالوجیکل ڈپارٹمنٹ کا کوئی بھی تعاون یہاں ہوتا نظر نہیں آتا لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کانکنی کا آغاز کرتے ہیں، چوں کہ کسی کان پر کام شروع کرنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں، جس کی بنیادی وجہ وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہاں کے لوگوں نے اس کا طریقۂ کار کچھ یوں بنایا ہے کہ تین یا چار لوگ مل کر ایک کان پر کام شروع کردیتے ہیں، جس کا فائدہ انھیں اس صورت میں کم وسائل میں کام کا آغاز کی صورت میں ہوتا ہے۔
یہاں پر کام محض اندازوں کے بل بوتے پر کیا جاتا ہے۔ جدید مشینری دست یاب نہیں لہٰذا اکثر اوقات ایسے مواقع بھی آئے ہیں کہ متعلقہ کان سے سوائے پتھروں کے کچھ نہیں نکل آتا۔ لہٰذا لیبر وغیرہ کی مد میں آنے والے اخراجات مالکان کے لیے نقصان کا سبب بن جاتے ہیں۔ کانکنی کے لیے استعمال ہونے والے جدید اوزاروں کا یہاں کوئی تصور نہیں روایتی طورطریقوں کو اپنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ایک کا پر اچھی خاصی رقم صرف ہوتی ہے۔
یہ علاقہ چوں کہ قبائلی ہے اور آمدورفت کے بھی کچھ خاص ذرائع میسر نہیں اس لیے یہاں پر لیبر کی بہت بڑی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ کانکنی میں اکثر لیبر کا تعلق افغانستان اور کے پی سے ہے۔ یہ لوگ کان کے مالک کی ہدایات کے سخت پابند ہوتے ہیں۔ کان کے قریب مالک ان کے لیے ڈیرے کا بندوبست کرکے ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے۔ ان لیبر کو ماہانہ کی بنیاد پر 10ہزار سے لے کر 20 ہزار تک تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں، جب کہ ان کی خوراک کے اخراجات الگ ہیں۔ کرومائٹ کو کان سے باہر لانے کے لیے بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چوں کہ یہاں پر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام چلاتے ہیں، لہٰذا اگر کان کی اندرونی سطح ہموار ہے، تو گدے پر کرومائٹ کو لادا جاتا ہے اور اگر کان کی اندرونی سطح پیچیدہ ہے تو یہاں لوگوں کو کٹھن صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کرومائٹ کے کانوں میں کسی ایمرجینسی یا پھر خدانخواستہ کسی کان کے منہدم ہونے کی صورت میں ریسکیو کا کوئی ذریعہ موجود نہیں اور ماضی میں ایسے کئی حادثات رونما بھی ہوچکے ہیں، جن میں اکثر کانوں سے لاشیں نکالنا ناممکن رہا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں مالکان بھی اپنی عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ منہدم کان کو ویسے ہی رہنے دیا جائے۔
کرومائٹ کے کانوں میں کام کرنے والے لیبر کی نہ کوئی رجسٹریشن ہے اور نہ ہی اسی حوالے سے کوئی مستعد نظام موجود ہے، لہٰذا یہاں پر کام اندازوں سے چلایا جاتا ہے۔ یہاں کانکنی سے وابستہ 20 ہزار کے قریب لوگ لیبر کی صورت میں کام کررہے ہیں، جب کہ کانکنی سے وابستہ مالکان کی تعداد سینکڑوں میں بتائی جاتی ہے۔
کرومائٹ کو کان سے مارکیٹ تک لانے کے لیے بھی کوئی خاص سسٹم موجود نہیں اگر جدید دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھا جائے تو یہاں پر بڑی بڑی مشینوں کو استعمال میں لایا جانا چاہیے تھا، لیکن یہاں بھی انسانی جسم کو بطور مشین استعمال میں لایا جاتا ہے۔ کرومائٹ چوںکہ دھات ہے لہذا اسے لوڈ کرنے میں لیبر کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیبر کرومائٹ کو اپنے ہاتھوں اور بیلچوں کے ذریعے ٹرکوں میں ڈالتے ہیں اور اُتارتے ہیں۔ مقامی مارکیٹ جہاں پر کرومائٹ کے ٹرک خالی اور لوڈ کیے جاتے ہیں یہاں کے مقامی لوگ اُسے ڈومان (منڈی) کہتے ہیں۔
ڈومان میں اربوں روپے کا کرومائٹ پڑا رہتا ہے۔ یہاں پر اس کی پرسنٹیج کی شرح اور قیمتوں کا تعین ہوتا رہتا ہے۔ یہاں کی مارکیٹ ساکت نہیں رہتی اُتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے۔ کرومائٹ کی تجارت کے یہاں ٹن کا پیمانہ استعمال ہوتا ہے۔ وہ بھی ناپ تول کے بغیر بس اندازوں سے کام لیا جاتا ہے۔ کرمائٹ کی اوسط قیمت فی ٹن 35000 روپے ہیں۔ تاجر منڈی میں ایک دوسرے سے خرید و فروخت کے عمل سے گزار کر متعلقہ کرومائٹ شہر کراچی کے علاقوں یوسف گوٹھ اور ماڑی پور میں موجود گوداموں تک پہنچاتے ہیں، جہاں سے یہ کرومائٹ چین اور یورپی ممالک کی منڈیوں میں پہنچتا ہے۔
ضلع قلعہ سیف اﷲ میں مختلف تاجروں کی آراء کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر 5 ہزار ٹن کے قریب کرومائٹ کانوں سے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ ماہانہ بنیادوں پر 60 سے 70کروڑ روپے کے لگ بھگ کرومائٹ کا کاروبار ہوتا ہے۔ اگر سالانہ بنیادوں پر یہ شرح نکالی جائے تو یہ رقم 8ارب تک پہنچ جاتی ہے۔
اتنے وسیع پیمانے پر ہونے والی تجارت کے علاقے میں امن وامان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ تاجر برادری اس حوالے سے بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں ہر لمحہ اپنے مال کی فکر رہتی ہے چند تاجروں کی آراء جاننے کے بعد یہ امر واضع ہوگیا کہ حکومت نے انھیں کبھی بھی کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔ اور نہ ہی انھیں کرومائٹ کی پیداوار بڑھانے اور اعلیٰ پیمانے پر لانے میں کوئی سہولت دی ہے۔
٭تاجر برادری کو درپیش مشکلات
کرومائٹ کی کانکنی کے لیے جدید مشینری کی عدم دست یابی۔
ٹرانسپورٹ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر اور جو دست یاب ہیں اُن کے کرایوں کا زیادہ ہونا۔
کرومائٹ کی پرسنٹیج معلوم کرنے کے لیے کوئی سسٹم موجود نہیں
امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے حکومتی اداروں کا کردار سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
کانکنی کے لیے بجلی کی اشد ضرورت ہے لیکن بجلی ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔
انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی جو اس وقت ہر لحاظ سے ناممکن ہے۔
حکومتی سطح پر کوئی بھی ایسا طریقۂ کار موجود نہیں کہ کانکنی کے احاطوں کا تعین ہو یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ یہاں ہر وقت مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ڈی ایم ڈی ریالٹی کی صورت میں فی ٹن 200 روپے وصول کیے جاتے ہیں جو کافی زیادہ ہیں، حالاں کہ حکومت نے کوئی سہولت بھی نہیں دی ہے۔
کرومائٹ کو صاف کرنے کے لیے جدید مشینری اور پانی کی شدید قلت ہے۔
کانکنی پر تیز کام کرنے کے لیے بارود کی عدم دست یابی
تیز آمد ورفت کے لیے ہوائی سہولت موجود ہے نہ ریل گاڑی کی سہولت میسر ہے۔
اگر حکومتی سطح پر قلعہ سیف اﷲ کی تاجر برادری کے ساتھ تعاون کا سلسلہ شروع کیا جائے تو ضلع قلعہ سیف اﷲ انتہائی قلیل عرصے میں ملک کی مجموعی ترقی میں بہت بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ضلع قلعہ سیف اﷲ کی کرومائٹ کی صنعت ملکی معیشت کو کافی حد تک سہارا دے سکتی ہے اور ملک کے ہزاروں بے روزگار افراد کو روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرسکتی ہے۔
جدید مشینری کو اس علاقے میں لانے سے کرومائٹ کی یہ تجارت کافی تیزہوسکتی ہے، جس کی وجہ سے یہاں زندگی کا ہر شعبہ ترقی پاسکتا ہے۔ خصوصاً تعلیمی میدان میں بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے، جس کی بدولت ضلع قلعہ سیف اﷲ میں جیالوجیکل ڈپارٹمنٹ کے بہت سے لوگ سامنے آسکتے ہیں۔ لہٰذا نئی بننے والی صوبائی اور وفاقی حکومت اپنی ترجیحات میں ضلع قلعہ سیف اﷲ کو شامل کریں اور اس علاقے کو ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کردے۔
معدنیات، کچھ حقائق
دنیا میں تین ہزار قسم کی معدنیات موجود ہیں۔ فطری طور پر پایا جانے والا کوئی بھی کیمیکل یا مرکب، نامیاتی مادوں کے گلنے سڑے سے بننے والا پیٹرولیم اور کوئلہ اصطلاح کے درست ترین مفہوم میں معدنیات نہیں ہیں۔ دوٹوک انداز میں بات کی جائے تو تمام 'معدنیات' کانکنی کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں۔ انگریزی لفظ "Minerals"کا یہی مفہوم بنتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی غیرنامیاتی جوہروں کو بھی معدنیات کہا جاتا ہے۔ کانکنی میں عموماً زمین کی بیرونی تہہ میں کھدائی کرنا شامل ہوتا ہے۔ اگرچہ چند معدنیات مثلاً سونا کبھی کبھار فطری طور پر سطح تک آجاتے ہیں اور دریاؤں یا سمندروں کے کنارے پر ملتے ہیں۔ دھاتیں، قیمتی اور نیم قیمتی پتھر، سلفر اور نمک جیسے معدنیات سبھی کانکنی کے ذریعے نکالے جاتے ہیں۔
کانکنی کو سستا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ معدنیات ایک ہی جگہ پر کثیر مقدار میں موجود ہوں۔ کبھی کبھی وہ تہوں میں ملتی ہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار کی چٹانیں سطح سے قریب ترین ہیں۔ اس طرح ماہرین معدنیات کو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کے نیچے معدنیات موجود ہوں گی۔ عملی اعتبار سے صرف کرۂ ارض کا بیرونی خول ہی معدنیات کا واحد منبع ہے۔ یقیناً زمین کی بہت زیادہ گہرائی اور خلا میں بھی معدنیات موجود ہیں، لیکن فی الحال ان تک پہنچنا اور انہیں استعمال میں لانا ممکن نہیں۔
اگرچہ کرۂ ارض کے بیرونی خول میں لوہے اور ایلومینیم کے وسیع و عریض ذخائر موجود ہیں لیکن دیگر دھاتوں مثلاً جست، سیسے، چاندی، زنک، مرکری اور پلاٹینیم کی مقدار بہت زیادہ نہیں۔ ان دھاتوں کے کچھ مزید ذرائع دنیا کو معلوم ہیں لیکن فی الحال ان تک پہنچنا بہت منہگا ثابت ہورہا ہے۔ ماہرین کے خیال میں ان دھاتوں کو ری سائیکل کرنا یا ان کی جگہ دیگر دھاتوں کو استعمال میں لانا ممکن نہیں۔
کُھلی کانیں اس وقت بنائی جاتی ہیں جب معدنیات کے ذخائر بہت زیادہ گہرے نہ ہوں۔ بالائی مٹی اور پتھروں کو مشین سے ہٹایا یا پانی سے بہایا جاتا ہے۔ اگر چہ کھلی کانیں عام بند کانوں کی نسبت سستی ہیں، لیکن کچھ لوگ اس طریقۂ کار کو ماحولیات کے لیے بہت نقصان دہ خیال کرتے ہیں، کیوں کہ اس طرح بہت بڑے علاقے جنگلی حیات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ آج کل کسی کھلی کان میں کام ختم ہونے کے بعد علاقے کو دوبارہ نئی شکل دینے پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ متعدد سابقہ کانوں کو پارکوں یا جنگلی حیات کی پناہ گاہوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ لوہے اور میگنیشم کے بعد ایلومینیم سب سے عام ملنے والا معدن ہے۔
پورے بلوچستان کی آبادی شہر لاہور کی نصف آبادی کے برابر بھی نہیں۔ پاکستان میں اگر صوبہ پنجاب زرخیز زمینوں، صوبہ سندھ کراچی کے ساحلوں اور خیبر پختونخوا سرسبز تفریحی مقامات کے مشہور ہیں تو صوبہ بلوچستان کو قدرت نے معدنیات کی بے تحاشا دولت سے مالامال کیا ہے۔ بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں سے کوئلہ، قیمتی پتھر، کرومائٹ، میگناسائٹ، جپسم، سونا، اور توانائی کا اہم ذریعہ سوئی گیس نکالی جاتی ہے۔ یہ تمام معدنیات قدرت کا تحفہ ہیں اور پاکستان کی معیشت کے لیے بہت بڑا سہارا بھی۔ بلوچستان کا ضلع قلعہ سیف اﷲ کی سرزمین کرومائٹ سے مالامال ہے۔
٭ضلع قلعہ سیف اﷲ پر ایک نظر
اس ضلع کا نام سیف اﷲ قلعہ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ 1988میں ضلع ژوب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور قلعہ سیف اﷲ الگ ضلع بن گیا۔ اس کی دو تحصیلیں قلعہ سیف اﷲ اور مسلم باغ ہیں۔ ضلع قلعہ سیف اﷲ کے شمال میں ضلع ژوب، جنوب میں ضلع لورالائی اور ضلع پشین ہیں۔ مشرق میں ضلع ژوب، مغرب میں ملک افغانستان اور ضلع پشین ہیں۔ ضلع کا زیادہ تر علاقہ پہاڑی ہے۔ اس میں کوہ توبہ کاکڑی اور اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔ کوہ تورغر، کوہ سپن غر، کوہ کند اور کوہ سرغنڈ اہم پہاڑ ہیں۔ ضلع میں چھوٹے چھوٹے دریا اور ندی نالے ہیں ان میں پانی زیادہ تر برسات کے دنوں آتا ہے۔
دریائے ژوب اور دریائے جوگیزئی مشہور ہیں۔ کان مہترزئی، مسلم باغ، قلعہ سیف اﷲ اور شرن جوگیزئی زرخیز وادیاں ہیں، کئی چھوٹے چھوٹے میدانی علاقے بھی ہیں۔ موسم سرما میں زیادہ سردی پڑتی ہے۔ مسلم باغ اور کان مہترزئی میں کئی کئی فٹ برف پڑتی ہے۔ درجۂ حرارت صفر سینٹی گریڈ سے بھی نیچے گرجاتا ہے۔ اس موسم میں بارشیں بھی ہوتی ہیں۔ موسم بہار میں یہاں کا موسم انتہائی خوش گوار ہوتا ہے۔ باغات ہرے بھرے ہوتے ہیں۔ موسم گرما میں گرمی بڑھ جاتی ہے۔ درجۂ حرارت 40 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ تاہم راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔
ضلع میں آب پاشی کے قدرتی ذرائع بارش اور برف ہیں ٹیوب ویل، کاریز، بند اور چشموں سے کھیتوں اور باغوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔ زرعی پیداوار میں گندم، مکئی، تمباکو اور زہرہ ضلع کی اہم فصلیں ہیں۔ سبزیاں کم مقدار میں پیدا ہوتی ہیں۔ پھلوں کے حوالے سے یہ ضلع اچھی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں پر سیب ، زردآلو، انگور، آلوچہ اور انجیر وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔
ضلع قلعہ سیف اﷲ کی خاص اہمیت قدرتی معدنیات کے سبب ہے اس ضلع کو قدرت نے معدنیات کا بہت بڑا تحفہ کرومائٹ کی شکل میں دیا ہے۔ یہ ایک ایسا تحفہ ہے جس کی مانگ پوری دنیا میں ہے۔ خصوصاً نئی ابھرتی ہوئی معیشت چین کو اس عنصر کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا میں چین ہی اس کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ چوںکہ یہ عنصر اسلحہ سازی، جہاز سازی، ادویات اور لوہا سازی میں استعمال میں لایا جاتا ہے، اسی لیے چین جو اقتصادی قوت کے طور پر عالمی منڈی میں تیزی سے پیش رفت کر رہا ہے، وہاں ہزاروں فیکٹریوں میں یہ استعمال میں لایا جارہا ہے۔
قلعہ سیف اﷲ کا ضلع بلوچستان میں کرومائٹ کی پیداوار کے سبب بین الااقوامی سطح پر اپنی پہچان رکھتا ہے۔ یہاں کانوں سے نکالا جانے والا کرومائٹ چین اور یورپی ممالک تک پہنچتا ہے۔ یہاں کے مختلف علاقوں سے کانکنی کے ذریعے سے نکالا جانے والا کرومائٹ کا 80 فی صد کا خریدار چین ہے، جب کہ 20 فی صد کے قریب کرومائٹ یورپی ممالک خریدتے ہیں۔ ضلع قلعہ سیف اﷲ میں مسلم باغ، سولا، وچھٹاکی، خواجہ مران اور پلنہ خوڑہ وہ علاقے ہیں جہاں پر کرومائٹ کے ذخائر موجود ہیں۔
ان تمام علاقوں میں سے بہت سے اعلیٰ معیار کی کرومائٹ سولا اور وچھٹاکی اور بوستان کے علاقوں میں واقع پہاڑی سلسلوں میں پائی جاتی ہے۔ ان علاقوں سے نکالا جانے والا کرومائٹ 52 فی صد والی شرح کا ہے۔ یہاں یہ امر واضع رہے کہ قلعہ سیف اﷲ کے مختلف علاقوں میں کانکنی کی صورت میں پہاڑوں سے نکالا جانے والے کرومائٹ کو یہاں کی تاجر برادری نے مختلف کیٹگریز میں رکھا ہے۔
سب سے اعلیٰ قسم کی کرومائٹ 52+ فیصد والی ہے، جب کہ فی صد کی شرح کے لحاظ سے یہاں پر کرومائٹ 24 فی صد، جو کہ کم ترین تصور کیا جاتا ہے سے شروع ہوکر 52+فی صد تک پہنچتی ہے، جس بھی علاقے میں تناسب کے اعتبار کے لحاظ سے بہتر کرومائٹ نکل آتا ہے تو تاجر برادری بھی اُسی علاقے میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دیتے ہیں اور متعلقہ علاقے کو بڑی قدرومنزلت حاصل ہوجاتی ہے۔ کرومائٹ کی کانکنی سے لے کر اسے چین اور یورپی ممالک کی عالمی منڈیوں تک پہنچانے میں یہاں کے ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں۔ ان میں مقامی اور غیر مقامی دونوں شامل ہیں۔
٭کرومائٹ کانکنی سے مارکیٹ تک
کرومائٹ کو مارکیٹ تک لانے کے لیے پہلا مرحلہ اُس خاص مقام کا تعین کرنا جہاں سے یہ اُمید ہو کہ کرومائٹ مل سکتا ہے، چوں کہ ضلع قلعہ سیف اللہ کے لوگ جدید دور کی جدید مشینری سے محروم ہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر ان کی کوئی معاونت ہوتی ہے، لہٰذا یہاں کے لوگ اندازوں سے کام چلاتے ہیں۔ جیالوجیکل ڈپارٹمنٹ کا کوئی بھی تعاون یہاں ہوتا نظر نہیں آتا لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کانکنی کا آغاز کرتے ہیں، چوں کہ کسی کان پر کام شروع کرنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں، جس کی بنیادی وجہ وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہاں کے لوگوں نے اس کا طریقۂ کار کچھ یوں بنایا ہے کہ تین یا چار لوگ مل کر ایک کان پر کام شروع کردیتے ہیں، جس کا فائدہ انھیں اس صورت میں کم وسائل میں کام کا آغاز کی صورت میں ہوتا ہے۔
یہاں پر کام محض اندازوں کے بل بوتے پر کیا جاتا ہے۔ جدید مشینری دست یاب نہیں لہٰذا اکثر اوقات ایسے مواقع بھی آئے ہیں کہ متعلقہ کان سے سوائے پتھروں کے کچھ نہیں نکل آتا۔ لہٰذا لیبر وغیرہ کی مد میں آنے والے اخراجات مالکان کے لیے نقصان کا سبب بن جاتے ہیں۔ کانکنی کے لیے استعمال ہونے والے جدید اوزاروں کا یہاں کوئی تصور نہیں روایتی طورطریقوں کو اپنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ایک کا پر اچھی خاصی رقم صرف ہوتی ہے۔
یہ علاقہ چوں کہ قبائلی ہے اور آمدورفت کے بھی کچھ خاص ذرائع میسر نہیں اس لیے یہاں پر لیبر کی بہت بڑی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ کانکنی میں اکثر لیبر کا تعلق افغانستان اور کے پی سے ہے۔ یہ لوگ کان کے مالک کی ہدایات کے سخت پابند ہوتے ہیں۔ کان کے قریب مالک ان کے لیے ڈیرے کا بندوبست کرکے ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے۔ ان لیبر کو ماہانہ کی بنیاد پر 10ہزار سے لے کر 20 ہزار تک تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں، جب کہ ان کی خوراک کے اخراجات الگ ہیں۔ کرومائٹ کو کان سے باہر لانے کے لیے بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چوں کہ یہاں پر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام چلاتے ہیں، لہٰذا اگر کان کی اندرونی سطح ہموار ہے، تو گدے پر کرومائٹ کو لادا جاتا ہے اور اگر کان کی اندرونی سطح پیچیدہ ہے تو یہاں لوگوں کو کٹھن صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کرومائٹ کے کانوں میں کسی ایمرجینسی یا پھر خدانخواستہ کسی کان کے منہدم ہونے کی صورت میں ریسکیو کا کوئی ذریعہ موجود نہیں اور ماضی میں ایسے کئی حادثات رونما بھی ہوچکے ہیں، جن میں اکثر کانوں سے لاشیں نکالنا ناممکن رہا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں مالکان بھی اپنی عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ منہدم کان کو ویسے ہی رہنے دیا جائے۔
کرومائٹ کے کانوں میں کام کرنے والے لیبر کی نہ کوئی رجسٹریشن ہے اور نہ ہی اسی حوالے سے کوئی مستعد نظام موجود ہے، لہٰذا یہاں پر کام اندازوں سے چلایا جاتا ہے۔ یہاں کانکنی سے وابستہ 20 ہزار کے قریب لوگ لیبر کی صورت میں کام کررہے ہیں، جب کہ کانکنی سے وابستہ مالکان کی تعداد سینکڑوں میں بتائی جاتی ہے۔
کرومائٹ کو کان سے مارکیٹ تک لانے کے لیے بھی کوئی خاص سسٹم موجود نہیں اگر جدید دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھا جائے تو یہاں پر بڑی بڑی مشینوں کو استعمال میں لایا جانا چاہیے تھا، لیکن یہاں بھی انسانی جسم کو بطور مشین استعمال میں لایا جاتا ہے۔ کرومائٹ چوںکہ دھات ہے لہذا اسے لوڈ کرنے میں لیبر کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیبر کرومائٹ کو اپنے ہاتھوں اور بیلچوں کے ذریعے ٹرکوں میں ڈالتے ہیں اور اُتارتے ہیں۔ مقامی مارکیٹ جہاں پر کرومائٹ کے ٹرک خالی اور لوڈ کیے جاتے ہیں یہاں کے مقامی لوگ اُسے ڈومان (منڈی) کہتے ہیں۔
ڈومان میں اربوں روپے کا کرومائٹ پڑا رہتا ہے۔ یہاں پر اس کی پرسنٹیج کی شرح اور قیمتوں کا تعین ہوتا رہتا ہے۔ یہاں کی مارکیٹ ساکت نہیں رہتی اُتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے۔ کرومائٹ کی تجارت کے یہاں ٹن کا پیمانہ استعمال ہوتا ہے۔ وہ بھی ناپ تول کے بغیر بس اندازوں سے کام لیا جاتا ہے۔ کرمائٹ کی اوسط قیمت فی ٹن 35000 روپے ہیں۔ تاجر منڈی میں ایک دوسرے سے خرید و فروخت کے عمل سے گزار کر متعلقہ کرومائٹ شہر کراچی کے علاقوں یوسف گوٹھ اور ماڑی پور میں موجود گوداموں تک پہنچاتے ہیں، جہاں سے یہ کرومائٹ چین اور یورپی ممالک کی منڈیوں میں پہنچتا ہے۔
ضلع قلعہ سیف اﷲ میں مختلف تاجروں کی آراء کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر 5 ہزار ٹن کے قریب کرومائٹ کانوں سے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ ماہانہ بنیادوں پر 60 سے 70کروڑ روپے کے لگ بھگ کرومائٹ کا کاروبار ہوتا ہے۔ اگر سالانہ بنیادوں پر یہ شرح نکالی جائے تو یہ رقم 8ارب تک پہنچ جاتی ہے۔
اتنے وسیع پیمانے پر ہونے والی تجارت کے علاقے میں امن وامان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ تاجر برادری اس حوالے سے بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں ہر لمحہ اپنے مال کی فکر رہتی ہے چند تاجروں کی آراء جاننے کے بعد یہ امر واضع ہوگیا کہ حکومت نے انھیں کبھی بھی کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔ اور نہ ہی انھیں کرومائٹ کی پیداوار بڑھانے اور اعلیٰ پیمانے پر لانے میں کوئی سہولت دی ہے۔
٭تاجر برادری کو درپیش مشکلات
کرومائٹ کی کانکنی کے لیے جدید مشینری کی عدم دست یابی۔
ٹرانسپورٹ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر اور جو دست یاب ہیں اُن کے کرایوں کا زیادہ ہونا۔
کرومائٹ کی پرسنٹیج معلوم کرنے کے لیے کوئی سسٹم موجود نہیں
امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے حکومتی اداروں کا کردار سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
کانکنی کے لیے بجلی کی اشد ضرورت ہے لیکن بجلی ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔
انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی جو اس وقت ہر لحاظ سے ناممکن ہے۔
حکومتی سطح پر کوئی بھی ایسا طریقۂ کار موجود نہیں کہ کانکنی کے احاطوں کا تعین ہو یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ یہاں ہر وقت مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ڈی ایم ڈی ریالٹی کی صورت میں فی ٹن 200 روپے وصول کیے جاتے ہیں جو کافی زیادہ ہیں، حالاں کہ حکومت نے کوئی سہولت بھی نہیں دی ہے۔
کرومائٹ کو صاف کرنے کے لیے جدید مشینری اور پانی کی شدید قلت ہے۔
کانکنی پر تیز کام کرنے کے لیے بارود کی عدم دست یابی
تیز آمد ورفت کے لیے ہوائی سہولت موجود ہے نہ ریل گاڑی کی سہولت میسر ہے۔
اگر حکومتی سطح پر قلعہ سیف اﷲ کی تاجر برادری کے ساتھ تعاون کا سلسلہ شروع کیا جائے تو ضلع قلعہ سیف اﷲ انتہائی قلیل عرصے میں ملک کی مجموعی ترقی میں بہت بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ضلع قلعہ سیف اﷲ کی کرومائٹ کی صنعت ملکی معیشت کو کافی حد تک سہارا دے سکتی ہے اور ملک کے ہزاروں بے روزگار افراد کو روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرسکتی ہے۔
جدید مشینری کو اس علاقے میں لانے سے کرومائٹ کی یہ تجارت کافی تیزہوسکتی ہے، جس کی وجہ سے یہاں زندگی کا ہر شعبہ ترقی پاسکتا ہے۔ خصوصاً تعلیمی میدان میں بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے، جس کی بدولت ضلع قلعہ سیف اﷲ میں جیالوجیکل ڈپارٹمنٹ کے بہت سے لوگ سامنے آسکتے ہیں۔ لہٰذا نئی بننے والی صوبائی اور وفاقی حکومت اپنی ترجیحات میں ضلع قلعہ سیف اﷲ کو شامل کریں اور اس علاقے کو ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کردے۔
معدنیات، کچھ حقائق
دنیا میں تین ہزار قسم کی معدنیات موجود ہیں۔ فطری طور پر پایا جانے والا کوئی بھی کیمیکل یا مرکب، نامیاتی مادوں کے گلنے سڑے سے بننے والا پیٹرولیم اور کوئلہ اصطلاح کے درست ترین مفہوم میں معدنیات نہیں ہیں۔ دوٹوک انداز میں بات کی جائے تو تمام 'معدنیات' کانکنی کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں۔ انگریزی لفظ "Minerals"کا یہی مفہوم بنتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی غیرنامیاتی جوہروں کو بھی معدنیات کہا جاتا ہے۔ کانکنی میں عموماً زمین کی بیرونی تہہ میں کھدائی کرنا شامل ہوتا ہے۔ اگرچہ چند معدنیات مثلاً سونا کبھی کبھار فطری طور پر سطح تک آجاتے ہیں اور دریاؤں یا سمندروں کے کنارے پر ملتے ہیں۔ دھاتیں، قیمتی اور نیم قیمتی پتھر، سلفر اور نمک جیسے معدنیات سبھی کانکنی کے ذریعے نکالے جاتے ہیں۔
کانکنی کو سستا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ معدنیات ایک ہی جگہ پر کثیر مقدار میں موجود ہوں۔ کبھی کبھی وہ تہوں میں ملتی ہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار کی چٹانیں سطح سے قریب ترین ہیں۔ اس طرح ماہرین معدنیات کو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کے نیچے معدنیات موجود ہوں گی۔ عملی اعتبار سے صرف کرۂ ارض کا بیرونی خول ہی معدنیات کا واحد منبع ہے۔ یقیناً زمین کی بہت زیادہ گہرائی اور خلا میں بھی معدنیات موجود ہیں، لیکن فی الحال ان تک پہنچنا اور انہیں استعمال میں لانا ممکن نہیں۔
اگرچہ کرۂ ارض کے بیرونی خول میں لوہے اور ایلومینیم کے وسیع و عریض ذخائر موجود ہیں لیکن دیگر دھاتوں مثلاً جست، سیسے، چاندی، زنک، مرکری اور پلاٹینیم کی مقدار بہت زیادہ نہیں۔ ان دھاتوں کے کچھ مزید ذرائع دنیا کو معلوم ہیں لیکن فی الحال ان تک پہنچنا بہت منہگا ثابت ہورہا ہے۔ ماہرین کے خیال میں ان دھاتوں کو ری سائیکل کرنا یا ان کی جگہ دیگر دھاتوں کو استعمال میں لانا ممکن نہیں۔
کُھلی کانیں اس وقت بنائی جاتی ہیں جب معدنیات کے ذخائر بہت زیادہ گہرے نہ ہوں۔ بالائی مٹی اور پتھروں کو مشین سے ہٹایا یا پانی سے بہایا جاتا ہے۔ اگر چہ کھلی کانیں عام بند کانوں کی نسبت سستی ہیں، لیکن کچھ لوگ اس طریقۂ کار کو ماحولیات کے لیے بہت نقصان دہ خیال کرتے ہیں، کیوں کہ اس طرح بہت بڑے علاقے جنگلی حیات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ آج کل کسی کھلی کان میں کام ختم ہونے کے بعد علاقے کو دوبارہ نئی شکل دینے پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ متعدد سابقہ کانوں کو پارکوں یا جنگلی حیات کی پناہ گاہوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ لوہے اور میگنیشم کے بعد ایلومینیم سب سے عام ملنے والا معدن ہے۔