شام میں ہلاکتیں بدستور جاری ہیں

شام کے بحران کا ابھی تک کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا جب کہ اندرون ملک لاشیں گرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

ایران اور حزب اللہ کی طرف سے شام کے لیے ہتھیار بھی بہم پہنچائے جا رہے ہیں، جان کیری فوٹو: رائٹرز

شام کے بحران کا ابھی تک کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا جب کہ اندرون ملک لاشیں گرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ سرکاری فوجوں اور باغیوں کے درمیان جھڑپوں میں بے گناہ افراد بھی مارے جا رہے ہیں۔ شام کے بحران نے پورے مشرق وسطیٰ کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ عرب لیگ اس بحران کو حل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکی ۔ خانہ جنگی کی وجہ سے شام کے عوام سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ہزاروں خاندان دوسرے ملکوں کی جانب ہجرت کر چکے ہیں۔

ادھر عالمی طاقتیں اس خطے میں اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ خانہ جنگی ختم کرانے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ روسی فیڈریشن شام کی حکومت کو ایس 300 ایئر ڈیفنس میزائل دے رہی ہے۔ روس بھی اس بحران کا ایک اہم کھلاڑی ہے' امریکا اور یورپ بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔روس کی طرف سے شام کے لیے ایس 300 ایئر ڈیفنس میزائل فراہم کرنے کی اطلاعات پر امریکا نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے واشنگٹن میں اعلان کیا ہے کہ روسی میزائل شام کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے لہٰذا شام میں قیام امن کی خاطر کوئی جامع حکمت عملی تشکیل دی جانی چاہیے۔


جان کیری نے اس خیال کا اظہار اپنے جرمن ہم منصب گوئیڈو ویسٹرویلی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا جب کہ ویسٹرویلی آئندہ ہفتے جنیوا میں ہونے والی شام امن کانفرنس میں شرکت سے قبل صلاح مشورے کے لیے واشنگٹن پہنچے تھے۔ امن کانفرنس میں امریکا اور روس کی طرف سے کسی مشترکہ امن منصوبے کی پیش کش کی توقع کی جا رہی ہے۔ کیری نے کہا کہ جنیوا میں ہم یہ دیکھیں گے کہ روس شام میں قیام امن کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہے۔ اگرچہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اس حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کر چکے ہیں لیکن جب آپ خطے میں قیام امن کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف ایس 300 میزائل اس علاقے میں بھجوا رہے ہوں تو ایسی صورت میں امن کی توقع بھلا کس طرح پوری ہو سکتی ہے۔

جان کیری نے مزید کہا کہ شام میں روسی میزائلوں کے علاوہ اور بھی بہت سی کمک سپلائی کی جا رہی ہیں بلکہ ایران اور حزب اللہ کی طرف سے شام کے لیے ہتھیار بھی بہم پہنچائے جا رہے ہیں۔ جرمن وزیر خارجہ ویسٹرویلی نے بھی اسی قسم کی تشویش کا اظہار کیا اور کہا صدر بشار الاسد کو طیارہ شکن میزائلوں کی فراہمی خطے کے امن کو اور زیادہ متاثر کرے گی۔ بشار الاسد اس سے قبل اعلان کر چکے ہیں کہ ان کی حکومت کو ایڈوانسڈ ایئر ڈیفنس میزائل مل چکا ہے۔

اصل معاملہ یہ ہے کہ شام میں بڑی طاقتیں اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور یہاں قیام امن کے لیے کوئی سنجیدہ نظر نہیں آتا۔ اس صورت حال کا سب سے زیادہ نقصان شام کے شہریوں کو ہو رہا ہے۔ شام میں برسرپیکار متحارب فریقین کو عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے بجائے اپنے وطن کی سالمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے خود بھی کسی حل کی جانب بڑھنا چاہیے تاکہ اس خطے کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
Load Next Story