حوالات وزارت عظمیٰ اور عالم بقا
امین اللہ چوہدری جب بھی ہمارے ساتھ گالف کورس پر ہوتے تو میرے ذہن میں اکثر ایک تکون جنم لیتی جس کے ایک کونے پر پرویز۔۔۔
امین اللہ چوہدری جب بھی ہمارے ساتھ گالف کورس پر ہوتے تو میرے ذہن میں اکثر ایک تکون جنم لیتی جس کے ایک کونے پر پرویز مشرف، دوسرے پر نواز شریف اور تیسرے کونے پر چوہدری صاحب خود ہوتے۔ کبھی کبھار ہم ثانی الذکر سے جن کے ساتھ عموماً دو گھنٹے کا ساتھ ہوتا، 12 اکتوبر 1999ء کے منحوس واقعے کا ذکر چھیڑ دیتے اور چوہدری امین اللہ اپنے مخصوص جچے تلے انداز میں کمنٹ دیتے۔ وہ چونکہ دانشور، پڑھے لکھے، جہاندیدہ، سابق سول سرونٹ اور پی آئی اے کے جہاز PK-805 کی مبینہ HIJACKING کے وقت سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل ہونے کے علاوہ جنرل مشرف کے Take Over کے عینی شاہد ہی نہیں، نواز شریف یعنی وقت کے پرائم منسٹر کی دو ٹیلی فون کالیں لینے کے بعد آرمی کی حراست میں چلے جانے کا تجربہ بھی رکھتے تھے۔ اس لیے ہمیں 12 اکتوبر کے واقعے کی تفصیل سے آگاہی تھی۔
چوہدری امین اللہ دسمبر 2013ء سے پہلے تک باوجود کینسر کی تشخیص ہو جانے کے میڈیکل ٹیسٹ بھی کراتے، اپنے بیٹوں سے ملنے برطانیہ و امریکا بھی جاتے رہتے اور ہمارے گالف پارٹنر بھی رہے۔ کینسر کے مرض سے وہ حوصلے اور بہادری سے لڑتے رہے۔
جہاں میاں نواز شریف نے اپنے دور وزارت اعلیٰ میںبہت سے افراد کو پلاٹوں سے نوازا وہاں شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے اراضی فراہم کر کے مستحسن اقدام بھی کیا۔ بعض غلط کاموں کے گناہوں کو رب رحیم نیکی کے اقدام میں ڈھانپ کر پھر سے موقع فراہم کرتا ہے۔ جو اس بات کی گہرائی کا سراغ پا لے، نیک نام کماتا اور درجات کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے۔ اس بار رحمت خداوندی پھر سے اپنے بندوں کو آزمانے پر تلی بیٹھی ہے۔ نظر تو ایسے ہی آ رہا ہے۔
پانچ ماہ قبل میں ایک بیمار عزیز کی میڈیکل رپورٹس لے کر شوکت خانم کے فرخ عزیز کے توسط سے وہاں کے ایک سینئر ڈاکٹر سے ملا اور رپورٹس دکھا کر مریض کو اسپتال میں داخل کر لینے کی استدعا کی۔ ڈاکٹر نے توجہ سے تمام رپورٹیں ملاحظہ کیں لیکن مریض کو اسپتال میں داخل کرنے بلکہ مزید ٹیسٹ کرنے سے بھی معذرت کر لی کہ وہ کسی قابل علاج مریض کا حق نہیں مارنا چاہتے۔ ان کے انکار کے چار دن بعد وہ مریض اللہ کو پیارا ہو گیا۔
کینسر کے مرض کی تشخیص میں دیر ہو جائے تو بھی برا ہے لیکن اگر یہ بیماری اچھے بھلے باحیثیت فرد کو اچانک آ لے تو بھی منشائے الٰہی پوری ہو کر رہتی ہے۔ سردار سمیع وہ نیک باحیثیت اور ظاہری طور پر صحت مند انسان تھا جو ہر قسم کا علاج افورڈ کر سکتا تھا۔ لوگ اس کی خوش مزاجی، نرم دلی، عبادت گزاری کے شاہد ہیں اور اس نے بھی SKMRH کے علاوہ دیگر شفاخانوں سے بھی رجوع کیا لیکن کیا حکمت تھی کہ کسی طریق علاج نے شفا نہ دی۔
گزشتہ جمعہ 31 مئی کو میرے ذہن میں موجود تکون جس کے ایک کونے پر موجود جہاز PK-805 کی ہائی جیکنگ کے مبینہ ملزم نواز شریف چند روز بعد ملک کے وزیر اعظم ہوں گے۔ سن 1999ء میں اقتدار پر شب خون مار کر تکون کے دوسرے کونے پر موجود جرنیل جس نے اعلانیہ کہا کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتا، مقررہ ٹرم سے ڈیڑھ گنا عرصہ اقتدار کے ایوانوں میں دندناتا رہا۔ اس وقت پولیس کی حراست میں اپنے ملک میں واپس آ کر اقتدار کی دوڑ میں حصہ لینے کا مشورہ دینے والوں کو کوس رہا ہے لیکن اس واقعہ کا ایک کردار جو قابل سول سرونٹ تھا کینسر کے مرض سے 31 مئی تک لڑنے کے بعد خالق حقیقی کے پاس پہنچ گیا۔ جنوری 2013ء تک وہ ہر شام گالف کورس پر اپنی مہارت دکھاتا رہا۔ صرف پانچ ماہ میں چھ فٹ لمبا، مضبوط جسم اور اعصاب کا مالک بے بس ہو کر بیوی، بچوں اور دوستوں کی دعاؤں کے باوجود بے بسی میں اکیلا رخصت ہو گیا کہ اکیلا ہی اس جہاں میں آیا تھا۔
اب آئیے اور دیکھیے ان تینوں میں ہائی جیکر کون تھا۔ پرویز مشرف، نواز شریف یا امین اللہ چوہدری۔ نواز شریف کے خلاف چارج شیٹ میں تین الزام تھے۔ طیارہ اغوا کرنا، دہشت گردی اور ملک کے خلاف جنگ و جدل، مشرف کی قائم کردہ عدالت نے نواز شریف کو پہلے دو جرائم کا مرتکب پایا اور دو بار عمر قید کی سزا سنائی، اپیل میں دو کی بجائے ایک بار عمر کی سزا دی۔ سزائے موت کا حکم بھی تھا جو ختم کر دیا گیا۔ دنیا میں طیارے اغوا کرنے کے بے شمار کیس ہوئے ہیں لیکن ان میں طیارہ اترنے کی جگہ تبدیل کرنے کی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔
اس طیارہ کیس میں جہاز ملک سے باہر اتارنے کے حکم پر مجبوری طیارے میں تیل کی کمی بتائی گئی جو ازاں بعد غلط ثابت ہوئی۔ دراصل مشرف پلان خدشے کے پیش نظر پہلے سے تیار شدہ تھا اور DG کی ایئر پورٹ پر موجودگی ہی میں فوج ایئر پورٹ پر قبضہ کر چکی تھی اور طیارہ کراچی ہی میں اترا جب کہ اسلام آباد میں ٹیلیویژن اسٹیشن کے علاوہ PM ہائوس پر قبضہ کے علاوہ PM نواز شریف کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ پرویز مشرف کاک پٹ سے گرائونڈ فورسز کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یوں اصل ہائی جیکر تو وہ خود ہوئے۔
امین اللہ چوہدری جن کا انتقال 31 مئی کو صبح چار بجے ہوا مندرجہ بالا باتیں ہمیں گالف کورس پر بتا چکے تھے۔ وہ اپنی گرفتاری اور بعد میں مشرف کے حق میں بیان دینے کی مجبوری بیان کرتے ہوئے سنجیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ انھوں نے دو کتب لکھیں اور بہت سے مضامین تحریر کیے۔ وہ ایک قابل اور بہادر سول سرونٹ تھے اور ان کے مطابق طیارہ اغوا کرنے کا مقدمہ دراصل پرویز مشرف کے خلاف بنتا تھا نہ کہ نواز شریف کے خلاف۔ بھٹو صاحب کی غلطی تو قبل از وقت الیکشن کرانے، اپنے درجن بھر ساتھی بلا مقابلہ منتخب کرانے اور مولویوں پر سبقت لے جانے کی کوشش کی تھی لیکن پرویز مشرف پر تو ایسے الزامات ہیں جن میں موت کی سزا تک شامل ہے۔ امین اللہ تو ملک بقا جا چکے، ہم سب عرصۂ فنا میں ہیں۔
چوہدری امین اللہ دسمبر 2013ء سے پہلے تک باوجود کینسر کی تشخیص ہو جانے کے میڈیکل ٹیسٹ بھی کراتے، اپنے بیٹوں سے ملنے برطانیہ و امریکا بھی جاتے رہتے اور ہمارے گالف پارٹنر بھی رہے۔ کینسر کے مرض سے وہ حوصلے اور بہادری سے لڑتے رہے۔
جہاں میاں نواز شریف نے اپنے دور وزارت اعلیٰ میںبہت سے افراد کو پلاٹوں سے نوازا وہاں شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے اراضی فراہم کر کے مستحسن اقدام بھی کیا۔ بعض غلط کاموں کے گناہوں کو رب رحیم نیکی کے اقدام میں ڈھانپ کر پھر سے موقع فراہم کرتا ہے۔ جو اس بات کی گہرائی کا سراغ پا لے، نیک نام کماتا اور درجات کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے۔ اس بار رحمت خداوندی پھر سے اپنے بندوں کو آزمانے پر تلی بیٹھی ہے۔ نظر تو ایسے ہی آ رہا ہے۔
پانچ ماہ قبل میں ایک بیمار عزیز کی میڈیکل رپورٹس لے کر شوکت خانم کے فرخ عزیز کے توسط سے وہاں کے ایک سینئر ڈاکٹر سے ملا اور رپورٹس دکھا کر مریض کو اسپتال میں داخل کر لینے کی استدعا کی۔ ڈاکٹر نے توجہ سے تمام رپورٹیں ملاحظہ کیں لیکن مریض کو اسپتال میں داخل کرنے بلکہ مزید ٹیسٹ کرنے سے بھی معذرت کر لی کہ وہ کسی قابل علاج مریض کا حق نہیں مارنا چاہتے۔ ان کے انکار کے چار دن بعد وہ مریض اللہ کو پیارا ہو گیا۔
کینسر کے مرض کی تشخیص میں دیر ہو جائے تو بھی برا ہے لیکن اگر یہ بیماری اچھے بھلے باحیثیت فرد کو اچانک آ لے تو بھی منشائے الٰہی پوری ہو کر رہتی ہے۔ سردار سمیع وہ نیک باحیثیت اور ظاہری طور پر صحت مند انسان تھا جو ہر قسم کا علاج افورڈ کر سکتا تھا۔ لوگ اس کی خوش مزاجی، نرم دلی، عبادت گزاری کے شاہد ہیں اور اس نے بھی SKMRH کے علاوہ دیگر شفاخانوں سے بھی رجوع کیا لیکن کیا حکمت تھی کہ کسی طریق علاج نے شفا نہ دی۔
گزشتہ جمعہ 31 مئی کو میرے ذہن میں موجود تکون جس کے ایک کونے پر موجود جہاز PK-805 کی ہائی جیکنگ کے مبینہ ملزم نواز شریف چند روز بعد ملک کے وزیر اعظم ہوں گے۔ سن 1999ء میں اقتدار پر شب خون مار کر تکون کے دوسرے کونے پر موجود جرنیل جس نے اعلانیہ کہا کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتا، مقررہ ٹرم سے ڈیڑھ گنا عرصہ اقتدار کے ایوانوں میں دندناتا رہا۔ اس وقت پولیس کی حراست میں اپنے ملک میں واپس آ کر اقتدار کی دوڑ میں حصہ لینے کا مشورہ دینے والوں کو کوس رہا ہے لیکن اس واقعہ کا ایک کردار جو قابل سول سرونٹ تھا کینسر کے مرض سے 31 مئی تک لڑنے کے بعد خالق حقیقی کے پاس پہنچ گیا۔ جنوری 2013ء تک وہ ہر شام گالف کورس پر اپنی مہارت دکھاتا رہا۔ صرف پانچ ماہ میں چھ فٹ لمبا، مضبوط جسم اور اعصاب کا مالک بے بس ہو کر بیوی، بچوں اور دوستوں کی دعاؤں کے باوجود بے بسی میں اکیلا رخصت ہو گیا کہ اکیلا ہی اس جہاں میں آیا تھا۔
اب آئیے اور دیکھیے ان تینوں میں ہائی جیکر کون تھا۔ پرویز مشرف، نواز شریف یا امین اللہ چوہدری۔ نواز شریف کے خلاف چارج شیٹ میں تین الزام تھے۔ طیارہ اغوا کرنا، دہشت گردی اور ملک کے خلاف جنگ و جدل، مشرف کی قائم کردہ عدالت نے نواز شریف کو پہلے دو جرائم کا مرتکب پایا اور دو بار عمر قید کی سزا سنائی، اپیل میں دو کی بجائے ایک بار عمر کی سزا دی۔ سزائے موت کا حکم بھی تھا جو ختم کر دیا گیا۔ دنیا میں طیارے اغوا کرنے کے بے شمار کیس ہوئے ہیں لیکن ان میں طیارہ اترنے کی جگہ تبدیل کرنے کی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔
اس طیارہ کیس میں جہاز ملک سے باہر اتارنے کے حکم پر مجبوری طیارے میں تیل کی کمی بتائی گئی جو ازاں بعد غلط ثابت ہوئی۔ دراصل مشرف پلان خدشے کے پیش نظر پہلے سے تیار شدہ تھا اور DG کی ایئر پورٹ پر موجودگی ہی میں فوج ایئر پورٹ پر قبضہ کر چکی تھی اور طیارہ کراچی ہی میں اترا جب کہ اسلام آباد میں ٹیلیویژن اسٹیشن کے علاوہ PM ہائوس پر قبضہ کے علاوہ PM نواز شریف کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ پرویز مشرف کاک پٹ سے گرائونڈ فورسز کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یوں اصل ہائی جیکر تو وہ خود ہوئے۔
امین اللہ چوہدری جن کا انتقال 31 مئی کو صبح چار بجے ہوا مندرجہ بالا باتیں ہمیں گالف کورس پر بتا چکے تھے۔ وہ اپنی گرفتاری اور بعد میں مشرف کے حق میں بیان دینے کی مجبوری بیان کرتے ہوئے سنجیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ انھوں نے دو کتب لکھیں اور بہت سے مضامین تحریر کیے۔ وہ ایک قابل اور بہادر سول سرونٹ تھے اور ان کے مطابق طیارہ اغوا کرنے کا مقدمہ دراصل پرویز مشرف کے خلاف بنتا تھا نہ کہ نواز شریف کے خلاف۔ بھٹو صاحب کی غلطی تو قبل از وقت الیکشن کرانے، اپنے درجن بھر ساتھی بلا مقابلہ منتخب کرانے اور مولویوں پر سبقت لے جانے کی کوشش کی تھی لیکن پرویز مشرف پر تو ایسے الزامات ہیں جن میں موت کی سزا تک شامل ہے۔ امین اللہ تو ملک بقا جا چکے، ہم سب عرصۂ فنا میں ہیں۔