بیٹا نہ بیٹی
پیش گوئیاں کرنے والوں میں ایک اور نام ناسٹر ڈیمس کا ہے جس نے ایک ہزار پیش گوئیاں کیں اور وہ صحیح ثابت ہوئی ہیں۔
میری بات ہی سچ ثابت ہوگی، جو میں نے بتایا تھا وہی ہوا۔ اس حادثے کے ہونے سے پہلے میں نے ایک سال پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔ میں نے کل ایک خواب دیکھا! میری چڑیل۔ میری چڑیا۔
یہی نہیں بلکہ اس طرح کے کیے ہوئے اندازے پیش گوئیوں سے ہمارے عوام حیرت میں پڑنے کے بجائے لطف اندوز ہوتے نظر آرہے ہیں اور تو اور ایسی پیش گوئیوں اور اندازوں کو ہر عام و خاص اپنے دماغ اور کن دماغ اس پر بحث مباحثے، تبصرے یا تو پھر مذاق اڑا کر اپنی ہی قوم کو نہ جانے دوسری اقوام کے سامنے کہاں کھڑا کردیتے ہیں، جس میں اکثر دوسروں تک کوئی سچائی صداقت نہیں ہوتی۔
ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان، اسلامی نظریے کی رو سے اور اسلامی ملک کے اعتبار سے دوسرے ممالک سے نمایاں نظر آتا ہے۔ ثقافت، کھیل، ادب کے ذریعے سرفہرست کارکردگی رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ سیاست کے حوالے سے ہمارا ملک جن ادوار سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے، چاہے وہ برے اور اچھے حالات کیوں نہ ہوں، ایک خاص نظر سے دیکھا جاتا ہے اور یہاں کی ہر خبر بریکنگ نیوز ہی ہوتی ہے۔
چاہے وہ کسی بھی نوعیت کی ہو۔ کسی طبقے اور زبان سے ہی کیوں نہ ہو، بس پاکستان کے بارے میں ہو، یہاں کی ہر خبر پر نظر ہی نہیں دلچسپی بھی لی جاتی رہی ہے۔ اسی بنا پر کسی کا کردار بلند کیا جاتا ہے تو کسی کی کردار کشی کی جاتی ہے۔بس فقط کسی کے بارے میں بات چھیڑنے کی دیر ہوتی ہے۔ سننے والے، پڑھنے والوں میں سے بہت سے طبقے بال کی کھال نکالنے میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں علم نجوم کا جیسے ایک عام سا قول ہے اور کہیں اسے بہت خاص سمجھا جاتا ہے۔ اس علم کو ایک خاص اکثریت نے اہمیت دی ہے اور اپنے آنے والے کل کی پہلے سے خبر لینے میں دلچسپی لیتی ہے۔
دنیا میں مختلف زبانوں میں علم نجوم پر کام کیا گیا ہے اور یہ مختلف طور طریقوں سے بڑھتا چلا گیا ہے، ہاتھ کی لکیریں، ٹیروکارڈ، زائچے، علم رمل، علم جفر، مختلف اقوام اس علم میں خود بھی دلچسپی لیتی ہیں، اس حوالے سے بہت سے رسائل تک شایع ہوتے رہتے ہیں، جن سے عام لوگ استفادہ کرتے ہیں۔
اس سال پاکستان میں علم نجوم سے تعلق رکھنے والوں نے جتنی توجہ حاصل کی اتنی شاید ہی کسی فیلڈ نے کی ہو۔ میر اشارہ الیکشن سے پہلے، ان پیش گوئیوں اور کیے ہوئے ان اندازوں پر ہے جنھوں نے ملک کے عام و خاص باشندے کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہوا تھا۔ ہمارے ملک پاکستان کی خبریں اور اس کے متعلق مستقبل کے حوالے سے پیش گوئیوں میں غیر ممالک بھی دلچسپی لیتے رہے ہیں۔
اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں بہت سے نامی گرامی علم نجوم سے وابستہ نجومی نظر آئے، جنھوں نے نام کمایا ہے اور لوگ انھیں مانتے بھی ہیں اور ان ہی کی بتائی ہوئی پیش گوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔
بابا وانگا ایک ایسی خاتون تھیں جو بینائی سے محروم رہی لیکن ان کی پیش گوئیوں نے دنیاکے ممالک میں ہلچل مچادی۔ 1911 میں پیدا ہونے والی، جس کا تعلق بلغاریہ سے تھا، اس نے اپنی پیش گوئیوں میں واضح طور پر کہا امریکی لوگ خوف میں مبتلا ہوں گے جب ان پر آہنی پرندے حملہ کریں گے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے علاوہ سونامی جیسے بڑے حادثے کی پیش گوئی کی۔ جب کہ 2018 میں چین دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور بن جائے گا۔
اس طرح کی پیش گوئیاں کرنے والوں میں ایک اور نام ناسٹر ڈیمس کا ہے جس نے ایک ہزار پیش گوئیاں کیں اور وہ صحیح ثابت ہوئی ہیں۔ یہ فرانس کے حکمت دان تھے، نپولین اور ہٹلر کی آمد اور دنیا میں مستقبل میں معاشی اور تھرڈ ورلڈ وار کی واضح طور پر پیش گوئی کرچکے ہیں۔
مذکورہ بالا پیش گوئی کرنے والے یقیناً اپنے کام میں کمال کرنے والے اور اپنے کام میں سنجیدگی کا تاثر لے کر چلے، جس کی بنا پر ہی اکثریت ان کی پیش گوئیوں کو اہمیت دیتی آئی ہے، جس کے بعد ہی مباحثے شروع ہوتے ہیں۔
علم نجوم کی کئی شاخیں ہیں، مستقبل کا پتہ لگانے کے لیے مختلف علم ہیں لیکن ان سب کا تعلق بھی انسان کے اندر روحانی طاقت سے تعلق رکھتا ہے، کچھ لوگوں میں یہ حس ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے اندازہ لگالیتے ہیں۔
میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ علامہ اقبال کی علالت اور وصال کے سلسلے میں ان کے فرزند جاوید اقبال کا بیان ہے کہ معمول تھا کہ سونے سے پہلے منیرہ ڈاکٹر اقبال کی پانچ سالہ دختر ذرا دیر کے لیے ان کے پاس جالیٹی تھی، اس رات لیٹی تو مسز ڈورس کے بار بار کہنے کے باوجود دیر تک نہیں اٹھی۔ کہتی رہی ذرا دیر اور، ذرا دیر اور۔ اس پر علامہ اقبال نے مسز ڈورس سے انگریزی میں کہاکہ اس کی چھٹی حس اس کو آگاہ کررہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے اور واقعی منیرہ کی باپ سے وہ آخری ملاقات تھی۔ اس بات سے یہ اہم بات ثابت ہوئی کہ اقبال جیسے عظیم شاعر اور فلسفی بھی اس نظریہ کو تسلیم کرتے تھے کہ چھٹی حس کا وجود انسان تسلیم کرتا ہے اور کہیں وہ اظہار بھی کردیتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسان کا دماغ ایک پیچیدہ حصہ ہے، وہی تعلق روح کا جسم سے ہے۔ روح اور دماغ سے واقعتاً کام لیا جائے تو یہ ایک طاقتور کیفیت بن کر ابھرتی ہے۔ یہی کیفیت انسان کو ہر علم سکھانے میں مدد دیتی ہے، حتیٰ کہ علم نجوم کے تانے بانے نفسیات سے جاکر ملتے ہیں اور نفسیات کے ساتھ کھیلنا اور کسی کے نفس کو قابو کرنے کے علم انسان اسی کیفیت کی بنا پر کرتا ہے اور اس علم کے اکثر ماننے والوں کی تعداد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے عقیدے کمزور ہوتے ہیں۔
خواتین اس میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں، جن کو اپنے گھر سے مسائل کا سامنا اور گھر سے باہر امور کے مسائل، جو وہ علم نجوم کے کسی بھی چھوٹے یا بڑے نجومی یا پیر کے آستانوں میں چکر لگاتی ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ ایک پیر کے پاس ایک شخص دعا کروانے آیا کہ اسے بیٹا ہو، پیر نے اسے ایک پرچی پر لکھ کر دیا کہ ''بیٹا نہ بیٹی'' اس شخص کو قدرت کی طرف سے بیٹا ہی ہوا۔ وہ شخص پھر پیر کے پاس آیا، پیر نے اسے کہا کہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ بیٹا ہوگا بیٹی نہیں، وہ شخص بہت خوش ہوا اور پیر کو ماننے لگا۔
اسی طرح ایک خاتون بیٹے کے لیے دعا لینے آئی، یہی لکھ کر اس خاتون کو پیر نے دیا۔ خاتون کو بیٹی ہوئی اور پیر کے پاس مایوس ہوکر آئی، پیر نے کہا میں نے اس میں لکھ دیا تھا کہ بیٹا نہیں بیٹی ہوگی۔
''بیٹا نہ بیٹی'' پرچی پر لکھے ہوئے اس ہر دوسرے شخص نے بھی آزمایا اور اس پیر کو وہ بھی ماننے لگے کہ ان کے ہاں کبھی اولاد نہیں ہوئی، ''بیٹا نہ بیٹی'' یعنی اولاد ہی نہیں ہوگی۔ اگر ایک انسان اس لکھے ہوئے کو اپنے طور طریقے سے سمجھ لے تو یہ پیر کے لکھے کو ماننے لگے گا۔ اس بات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان مفروضات کے دلدل سے نکل کر حقیقت پسندی سے کام لے تو بہتر ہے، بجائے ان لوگوں کے پاس جاکر جو انسان کی نفسیات کے ساتھ کھیل کر خود کو پیر و آقا بنالیتے ہیں، خود اعتمادی اور اندر کی کمزوریوں کو ختم کرکے اپنے اس پیچیدہ دماغ کی قوتوں سے استفادہ لیں۔
ہمیشہ سے یہی دیکھا گیا ہے کہ کسی انسان کی قدرتی صلاحیتیں ہوتی ہیں، تو وہ اس صلاحیت کو کس طرح سے بروئے کار لاتا ہے، کوئی بہت صاف شفاف طریقے سے تو کوئی دو نمبر کرکے اس کو کام میں لاتا ہے یا پھر اسی فن کا روپ دھار کر نام کمایا جاتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ اس طرح کے کیے ہوئے اندازے پیش گوئیوں سے ہمارے عوام حیرت میں پڑنے کے بجائے لطف اندوز ہوتے نظر آرہے ہیں اور تو اور ایسی پیش گوئیوں اور اندازوں کو ہر عام و خاص اپنے دماغ اور کن دماغ اس پر بحث مباحثے، تبصرے یا تو پھر مذاق اڑا کر اپنی ہی قوم کو نہ جانے دوسری اقوام کے سامنے کہاں کھڑا کردیتے ہیں، جس میں اکثر دوسروں تک کوئی سچائی صداقت نہیں ہوتی۔
ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان، اسلامی نظریے کی رو سے اور اسلامی ملک کے اعتبار سے دوسرے ممالک سے نمایاں نظر آتا ہے۔ ثقافت، کھیل، ادب کے ذریعے سرفہرست کارکردگی رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ سیاست کے حوالے سے ہمارا ملک جن ادوار سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے، چاہے وہ برے اور اچھے حالات کیوں نہ ہوں، ایک خاص نظر سے دیکھا جاتا ہے اور یہاں کی ہر خبر بریکنگ نیوز ہی ہوتی ہے۔
چاہے وہ کسی بھی نوعیت کی ہو۔ کسی طبقے اور زبان سے ہی کیوں نہ ہو، بس پاکستان کے بارے میں ہو، یہاں کی ہر خبر پر نظر ہی نہیں دلچسپی بھی لی جاتی رہی ہے۔ اسی بنا پر کسی کا کردار بلند کیا جاتا ہے تو کسی کی کردار کشی کی جاتی ہے۔بس فقط کسی کے بارے میں بات چھیڑنے کی دیر ہوتی ہے۔ سننے والے، پڑھنے والوں میں سے بہت سے طبقے بال کی کھال نکالنے میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں علم نجوم کا جیسے ایک عام سا قول ہے اور کہیں اسے بہت خاص سمجھا جاتا ہے۔ اس علم کو ایک خاص اکثریت نے اہمیت دی ہے اور اپنے آنے والے کل کی پہلے سے خبر لینے میں دلچسپی لیتی ہے۔
دنیا میں مختلف زبانوں میں علم نجوم پر کام کیا گیا ہے اور یہ مختلف طور طریقوں سے بڑھتا چلا گیا ہے، ہاتھ کی لکیریں، ٹیروکارڈ، زائچے، علم رمل، علم جفر، مختلف اقوام اس علم میں خود بھی دلچسپی لیتی ہیں، اس حوالے سے بہت سے رسائل تک شایع ہوتے رہتے ہیں، جن سے عام لوگ استفادہ کرتے ہیں۔
اس سال پاکستان میں علم نجوم سے تعلق رکھنے والوں نے جتنی توجہ حاصل کی اتنی شاید ہی کسی فیلڈ نے کی ہو۔ میر اشارہ الیکشن سے پہلے، ان پیش گوئیوں اور کیے ہوئے ان اندازوں پر ہے جنھوں نے ملک کے عام و خاص باشندے کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہوا تھا۔ ہمارے ملک پاکستان کی خبریں اور اس کے متعلق مستقبل کے حوالے سے پیش گوئیوں میں غیر ممالک بھی دلچسپی لیتے رہے ہیں۔
اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں بہت سے نامی گرامی علم نجوم سے وابستہ نجومی نظر آئے، جنھوں نے نام کمایا ہے اور لوگ انھیں مانتے بھی ہیں اور ان ہی کی بتائی ہوئی پیش گوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔
بابا وانگا ایک ایسی خاتون تھیں جو بینائی سے محروم رہی لیکن ان کی پیش گوئیوں نے دنیاکے ممالک میں ہلچل مچادی۔ 1911 میں پیدا ہونے والی، جس کا تعلق بلغاریہ سے تھا، اس نے اپنی پیش گوئیوں میں واضح طور پر کہا امریکی لوگ خوف میں مبتلا ہوں گے جب ان پر آہنی پرندے حملہ کریں گے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے علاوہ سونامی جیسے بڑے حادثے کی پیش گوئی کی۔ جب کہ 2018 میں چین دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور بن جائے گا۔
اس طرح کی پیش گوئیاں کرنے والوں میں ایک اور نام ناسٹر ڈیمس کا ہے جس نے ایک ہزار پیش گوئیاں کیں اور وہ صحیح ثابت ہوئی ہیں۔ یہ فرانس کے حکمت دان تھے، نپولین اور ہٹلر کی آمد اور دنیا میں مستقبل میں معاشی اور تھرڈ ورلڈ وار کی واضح طور پر پیش گوئی کرچکے ہیں۔
مذکورہ بالا پیش گوئی کرنے والے یقیناً اپنے کام میں کمال کرنے والے اور اپنے کام میں سنجیدگی کا تاثر لے کر چلے، جس کی بنا پر ہی اکثریت ان کی پیش گوئیوں کو اہمیت دیتی آئی ہے، جس کے بعد ہی مباحثے شروع ہوتے ہیں۔
علم نجوم کی کئی شاخیں ہیں، مستقبل کا پتہ لگانے کے لیے مختلف علم ہیں لیکن ان سب کا تعلق بھی انسان کے اندر روحانی طاقت سے تعلق رکھتا ہے، کچھ لوگوں میں یہ حس ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے اندازہ لگالیتے ہیں۔
میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ علامہ اقبال کی علالت اور وصال کے سلسلے میں ان کے فرزند جاوید اقبال کا بیان ہے کہ معمول تھا کہ سونے سے پہلے منیرہ ڈاکٹر اقبال کی پانچ سالہ دختر ذرا دیر کے لیے ان کے پاس جالیٹی تھی، اس رات لیٹی تو مسز ڈورس کے بار بار کہنے کے باوجود دیر تک نہیں اٹھی۔ کہتی رہی ذرا دیر اور، ذرا دیر اور۔ اس پر علامہ اقبال نے مسز ڈورس سے انگریزی میں کہاکہ اس کی چھٹی حس اس کو آگاہ کررہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے اور واقعی منیرہ کی باپ سے وہ آخری ملاقات تھی۔ اس بات سے یہ اہم بات ثابت ہوئی کہ اقبال جیسے عظیم شاعر اور فلسفی بھی اس نظریہ کو تسلیم کرتے تھے کہ چھٹی حس کا وجود انسان تسلیم کرتا ہے اور کہیں وہ اظہار بھی کردیتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسان کا دماغ ایک پیچیدہ حصہ ہے، وہی تعلق روح کا جسم سے ہے۔ روح اور دماغ سے واقعتاً کام لیا جائے تو یہ ایک طاقتور کیفیت بن کر ابھرتی ہے۔ یہی کیفیت انسان کو ہر علم سکھانے میں مدد دیتی ہے، حتیٰ کہ علم نجوم کے تانے بانے نفسیات سے جاکر ملتے ہیں اور نفسیات کے ساتھ کھیلنا اور کسی کے نفس کو قابو کرنے کے علم انسان اسی کیفیت کی بنا پر کرتا ہے اور اس علم کے اکثر ماننے والوں کی تعداد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے عقیدے کمزور ہوتے ہیں۔
خواتین اس میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں، جن کو اپنے گھر سے مسائل کا سامنا اور گھر سے باہر امور کے مسائل، جو وہ علم نجوم کے کسی بھی چھوٹے یا بڑے نجومی یا پیر کے آستانوں میں چکر لگاتی ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ ایک پیر کے پاس ایک شخص دعا کروانے آیا کہ اسے بیٹا ہو، پیر نے اسے ایک پرچی پر لکھ کر دیا کہ ''بیٹا نہ بیٹی'' اس شخص کو قدرت کی طرف سے بیٹا ہی ہوا۔ وہ شخص پھر پیر کے پاس آیا، پیر نے اسے کہا کہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ بیٹا ہوگا بیٹی نہیں، وہ شخص بہت خوش ہوا اور پیر کو ماننے لگا۔
اسی طرح ایک خاتون بیٹے کے لیے دعا لینے آئی، یہی لکھ کر اس خاتون کو پیر نے دیا۔ خاتون کو بیٹی ہوئی اور پیر کے پاس مایوس ہوکر آئی، پیر نے کہا میں نے اس میں لکھ دیا تھا کہ بیٹا نہیں بیٹی ہوگی۔
''بیٹا نہ بیٹی'' پرچی پر لکھے ہوئے اس ہر دوسرے شخص نے بھی آزمایا اور اس پیر کو وہ بھی ماننے لگے کہ ان کے ہاں کبھی اولاد نہیں ہوئی، ''بیٹا نہ بیٹی'' یعنی اولاد ہی نہیں ہوگی۔ اگر ایک انسان اس لکھے ہوئے کو اپنے طور طریقے سے سمجھ لے تو یہ پیر کے لکھے کو ماننے لگے گا۔ اس بات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان مفروضات کے دلدل سے نکل کر حقیقت پسندی سے کام لے تو بہتر ہے، بجائے ان لوگوں کے پاس جاکر جو انسان کی نفسیات کے ساتھ کھیل کر خود کو پیر و آقا بنالیتے ہیں، خود اعتمادی اور اندر کی کمزوریوں کو ختم کرکے اپنے اس پیچیدہ دماغ کی قوتوں سے استفادہ لیں۔
ہمیشہ سے یہی دیکھا گیا ہے کہ کسی انسان کی قدرتی صلاحیتیں ہوتی ہیں، تو وہ اس صلاحیت کو کس طرح سے بروئے کار لاتا ہے، کوئی بہت صاف شفاف طریقے سے تو کوئی دو نمبر کرکے اس کو کام میں لاتا ہے یا پھر اسی فن کا روپ دھار کر نام کمایا جاتا ہے۔