عالمی کرنسی وار چھٹا حصہ

اب دیکھنا ہے عمران خان وزیر اعظم ان چاروں مدوں میں سرمائے کو باہر جانے سے کیسے روکتا ہے؟

k_goraya@yahoo.com

عربوں کے پاس Petro Dollar سے کافی سرمایہ آگیا تھا ۔ انھوں نے اپنے اپنے ملکوں میں ترقیاتی کام شروع کردیے تھے اور پھر ایشیائی ملکوں کے غربت زدہ شہریوں نے عربوں کے ملکوں کی طرف روزی کے لیے جانا شروع کردیا ۔ اس سے ایشیائی ملکوں میں ان مزدوروں نے ڈالرکما کر بھیجنے شروع کر دیے ۔ اس کے بعد پھر 1980ء میں عالمی معاشی بحران پیدا ہوا ۔ جب 30 دسمبر 1979ء سابقہ سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں ، جن کا مقصد کمزور سوشلسٹ حکومت کو مدد کرکے برقرار رکھنا تھا ۔

امریکا نے جنرل ضیا الحق کو استعمال کیا اور ریگن ڈاکٹرائن کے تحت سعودی عرب سے روزانہ تیل کی پیداوار بڑھا کر عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کم کرا کے سوویت یونین کی معیشت کو خسارے میں بدل کر اسے افغانستان سے نکلنے کے لیے مجبورکر دیا گیا۔ پھر نائن الیون میں جنرل پرویز مشرف کے ذریعے امریکی ہی پیدا کردہ جہادی طالبان کو قتل کرنا شروع کر دیتا ہے ۔

امریکا یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اس کی جاگیر ہے، اسے جب چاہے جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ اگرچہ 1999ء میں یورپی ممالک نے یوروکرنسی بنا کر امریکی ڈالرکو لگام ڈال دی ہے لیکن اب بھی دنیا میں تمام ممالک امریکی کاغذی ڈالر کے قید خانے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ 1948-49ء میں 3.308 روپے کا ڈالر تھا۔ 17 جولائی 2018ء کو 129.55 روپے کا ڈالر ہو چکا تھا ۔ روپے کی قیمت میں کمی 3816 فیصد ہو چکی تھی۔ یا 1948-49ء کے مقابلے میں 39 گنا روپے کی قیمت امریکی حکم پر گرائی جا چکی تھی۔ امریکا جہاں جہاں ڈالر میں کاروبار یا لین دین ہو رہا ہے۔ ان ملکوں پر براہ راست سڈ مڈ CDMED کے ذریعے ملکی مجموعی معیشت پر ڈالر ٹیکس لگا رہا ہے۔

(1)۔ ایسے ملکوں کی امپورٹ آئے روز بڑھتی جا رہی ہے۔

(2)۔ ان ملکوں میں صنعتی کلچر کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے جیسے 28 اپریل 2018ء کو شایع ہونے والی خبرکے مطابق 2013ء سے لے کر 2017ء کے آخر تک پاکستان میں ایک ہزار چھوٹی صنعتیں بند ہو گئی تھیں، حکمران آئی ایم ایف کے حکم پر عوام پر ٹیکس لگاتے ہیں ۔ جیسے 26 اپریل 2018ء کو اخباری رپورٹ (ایکسپریس) کے مطابق پاکستان میں معاشی بحران سے نجات کے لیے آئی ایم ایف نے کہا کہ بجلی پر اضافی ٹیکس لگایا جائے اور روپے کی قیمت میں کمی کی جائے۔

عراق پر امریکی عمل دخل کے نتیجے میں یکم ستمبر 2018ء کو عوام نے مہنگائی، بدامنی کے بصرہ میں گورنر ہاؤس کا گھیراؤ کیا۔ ترکی کے صدر اردوان نے 2 ستمبر 2018ء کو کہا کہ امریکا نے ترکی پر معاشی پابندیاں لگا کر جنگلی بھیڑیے کا کردار ادا کیا ہے کسی بھی ملک کی کرنسی کی قیمت میں جوں جوں کمی کی جاتی ہے توں توں اس ملک کا صنعتی کلچر تباہ ہوتا جاتا ہے اور بیرونی تجارت درآمدات کی شکل میں بڑھتی جاتی ہیں اور ساتھ غیر ملکی سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیاں داخل ہو کر پھیلتی جاتی ہیں۔


چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی جاتی ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں مقامی سرمایہ کاروں نے بھی ضرور سرمایہ کاری، شراکت داری کی ہوئی ہے۔ ان کمپنیوں کے ذریعے ضرور ملک کے خلاف کچھ نہ کچھ ہو رہا ہو گا۔ کیونکہ ان کے ساتھ پاکستان میں کام کرنے والے غیر ملکی بینکوں کا کردار بھی دیکھنا ضروری ہے کہ یہ بینک کس قسم کا لین دین کر رہے ہیں؟ اسی طرح ایران پر امریکا نے ''معاشی پابندیاں'' لگائی ہوئی ہیں۔ مورخہ 7 جولائی 2018ء کو سہ سرخی خبر جو کراچی ایکسپریس میں شایع ہوئی اس کے مطابق واشنگٹن کی طرف سے چینی مصنوعات پر 34 ارب ڈالر کا درآمدی ٹیکس لگا دیا گیا اور چین نے بھی جواباً اتنے ہی ٹیکس امریکی مصنوعات پر لگا دیے۔ دراصل یہ کرنسی وار ہے جس کا واحد حل کہ امریکی ڈالروں میں لین دین بند کر کے ایک دوسرے کی کرنسیوں میں برابری کی بنیاد یعنی ایک یونٹ کرنسی برابر ایک یونٹ دوسری کے کاروباری لین دین کیا جائے اور عالمی تنظیم BRICS کو فعال کرنے کے لیے عملاً اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ یاد رہے کہ جس ملک میں عوام سرمایہ داری کے غلام ہوتے ہیں وہ ملک معاشی بدحالی کا شکار اور سامراجیت کے لیے تر لقمہ ہوتے ہیں جیسے کہ آج تمام بحران زدہ ملکوں کے حاکم سامراجی ایجنٹوں کے طور پر کام کر رہے ہیں اور جب تک کسی بھی ملک کا سرمایہ عوام کے تابع نہیں ہو گا اس وقت تک ہر طرح کے بحران آتے رہے ہیں جیسے

(1) ۔ درآمدات کے ذریعے سرمایہ باہر جا رہا ہے۔

(2) ۔ قرضوں کے ذریعے سرمایہ باہر جا رہا ہے۔

(3) ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ اپنے ملکوں کو لے جا رہی ہیں۔

(4) ۔حکمران ملکی سرمایہ لوٹ لوٹ کر باہر لے جا رہے ہیں۔

اب دیکھنا ہے عمران خان وزیر اعظم ان چاروں مدوں میں سرمائے کو باہر جانے سے کیسے روکتا ہے؟
Load Next Story