اپنا اور پرایا دیس

رہائشی علاقے میں کوئی ٹریفک نہیں ہوتی مکمل خاموشی کی وجہ سے صرف اپنے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔

h.sethi@hotmail.com

جن خوشحال لوگوں کے بچے حصول تعلیم یا روزگار کے لیے پاکستان سے بیرون ملک جاتے اور پھر اسی ملک کی شہریت حاصل کر کے وہیں سکونت اختیار کر لیتے ہیں' ان کے والدین کاروباری ہوں تو اکثر اور اگر ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہوں تو سال دو سال کے بعد چند ماہ کے لیے بچوں کے پاس رہنے کے لیے جاتے رہتے ہیں اور جن کے بچے والدین کو زیادہ عرصہ تک اپنے پاس رکھ کر گھر کی رونق بڑھانا چاہتے ہوں ان کا گرمیوں کا موسم بچوں کے پاس گزارنا ہر سال کا معمول بن جاتا ہے' ایسے کئی والدین میرے علم میں ہیں جن کے ہوائی ٹکٹوں کی خریداری چھ چھ ماہ قبل بچے بیرون ملک سے کر لیتے ہیں اور ایسے بھی دیکھے ہیں جو بچوں کے پاس جانے کے لیے کئی کئی سال ترستے ہیں۔

اب پاکستان میں رہائش پذیر بزرگوں اور بیرون ملک جا کر Settle ہو جانے والے بچوں یعنی Split فیملیز کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے۔ پاکستان میں بھی پرانا Joint Family سسٹم آہستہ آہستہ زوال پذیر ہے جن گھرانوں میں تعلیم اور خوشحالی آ رہی ہے وہاں شادی کے بعد نئے جوڑوں کا لائف اسٹائل Modernize ہو جانے کی وجہ سے Independence کا تقاضا کرتا ہے اور آزادی مانگتا ہے، یہ تبدیلی جائنٹ فیملی سسٹم میں اکثر جگہ پابندیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے بغاوت کی شکل اختیار کرنے لگی ہے جس کا حل علیحدہ رہائش کی آزادی ہے جس کا عمل شروع ہے۔

ایک صاحب جو بیگم کے ساتھ پاکستان میں اکیلے رہ گئے تھے، ہر چھ ماہ کے بعد اپنے دو بچوں سے ملنے دو ہفتے کے لیے بیرون ملک ایک ہی شہر میں جاتے ہیں۔ کسی نے پوچھا آپ دوڑے دوڑے اتنا خرچ کر کے جاتے اور دوڑے دوڑے دو ہفتے بعد واپس چلے آتے ہیں' وہاں زیادہ دن رہ کر پورا مزہ کیوں نہیں لیتے۔ وہ ہنسے اور کہنے لگے ''وہاں ہر کوئی مصروف ہوتا ہے ،کسی کے پاس گپ شپ کرنے اور کمپنی دینے کے لیے فالتو وقت نہیں ہوتا، ہر کوئی دوڑ دوڑ کر اپنے کام نمٹا رہا ہوتا ہے۔

ہمارے بچے اور ان کے بچے بھی صبح چھ بجے ناشتہ کر کے کام اور اسکول کے لیے روانہ ہو رہے ہوتے اور رات کا کھانا بھی سات بجے سے پہلے کھا چکتے ہیں ان کے پاس ہفتہ اتوار کی دو چھٹیاں بھی ذاتی کاموں اور گروسری وغیرہ کی خریداری میں خرچ ہو جاتی ہیں، انھی دو دنوں میں وہ ہمیں کہیں گھمانے لے جاتے ہیں۔ کسی ریستوران میں کھانا کھلاتے یا ہمارے پاس بیٹھنے میں گزارتے ہیں۔ دن کے وقت جب ہمارے بچے کام پر اور ان کے بچے اسکول کالج گئے ہوتے ہیں' میں سیر کے لیے نکل جاتا ہوں اکثر فٹ پاتھ پر اکیلا ہی جا رہا ہوتا ہوں' کبھی کبھی کوئی خاتون خود سے بھی زیادہ خوبصورت ڈوگی کو ہمراہ لیے یا اس کی زنجیر پکڑے آتی جاتی نظر آتی ہے۔

رہائشی علاقے میں کوئی ٹریفک نہیں ہوتی مکمل خاموشی کی وجہ سے صرف اپنے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ چاروں طرف ہریالی یا گھروں کے آگے رنگ برنگے پھولوں کے پودے نظر آتے ہیں۔ بچوں کے واپس آنے تک بیگم کے علاوہ ٹیلیویژن ہوتا ہے یا موبائل فون اس لیے دو ہفتے کا وزٹ طویل عرصہ محسوس ہوتا ہے۔

بیرون ملک سیر کرنے اور بچوں سے یا دوست احباب سے ملنے جانے والوں کے لیے تبدیلی آب و ہوا تاریخی مقامات' تفریح' شاپنگ وغیرہ کے علاوہ کئی نئی اور انوکھی چیزیں دیکھنا جن کا وجود ان کے اپنے ملک میں نہیں ہوتا خوشگوار اور یادگار تجربہ ہوتا ہے۔

بیرون ملک رہائش پذیر فیملیز Summer Vacation کے دوران آسانی کے ساتھ پاکستان آ سکتی ہیں سب سے پہلے تو وہ شدید گرم موسم میں لوڈشیڈنگ کا مزہ چکھتی ہیں ان کے بچوں کے لیے سابق حکمرانوں نے صرف انڈر پاسز فلائی اوورز میٹرو بسیں' سڑکیں چند بڑے شہروں میں وہ بھی قرض لے کر صرف دکھانے کے لیے بنائی ہیں جن میں اوور سیز پاکستانیوں کو کوئی دلچسپی نہیں، ہمارے ملک کا دورہ کرنے والوں کو صرف کھانے کھلائے جاتے ہیں جب کہ ان کی خواتین کی دلچسپی کپڑوں کی خریداری رنگائی کڑھائی اور سلائی تک محدود رہتی ہے۔ کوئی اچھی تفریح گاہ' میوزیم' پکنک اسپاٹ' اسپورٹس کمپلیکس' ایمیوزیم پارک' شاپنگ ایریا' میوزک ہال یا انوکھی جگہ موجود نہیں جو باہر سے آئے لوگوں کو اپنی طرف کھینچے اور جس کا ذکر وہ واپس جا کر کریں۔ اس کے برعکس یورپ امریکا جانے والے کو ہر بار کوئی نئی چیز یا جگہ دیکھنے کو ملتی ہے جس کا ذکر وہ مزے لے کر کرتا ہے۔


اس بار امریکا کی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں ہنری فورڈ کے نام سے موسوم فورڈ ولیج کا وزٹ یاد گار اور دلچسپ تھا۔ یہاں معروف سائنسدانوں کی تجربہ گاہوں کے ہو بہو ماڈل جن میں آئنسٹائن اور رائٹ برادرز شامل ہیں جمع کیے گئے ہیں۔ ہنری فورڈ ایک زیرک صنعت کار تھا جس نے فورڈ موٹر کاروں اور ٹرکوں کی مینوفیکچرنگ میں نام تو کمایا لیکن تعلیم اور صحت کی فیلڈز میں انقلابی Contribution کی۔ اس کے چند اقوال درج ذیل ہیں۔

-1 وہ کاروبار جو صرف پیسہ پیدا کرتا ہے بڑا گھٹیا کاروبار ہے۔

-2 ایک اچھی سوچ والا انسان وہ ہے جو دوسروں کی بھلائی کے کام کرے۔

-3 نقص مت نکالو ان کا حل تلاش کرو۔

-4 غلطی کامیابی کا رستہ دکھاتی ہے۔

-5 مجھے ایسے بہت سے لوگوں کی ضرورت ہے جن میں یہ خوبی ہو کہ وہ یقین رکھتے ہوں کہ کچھ بھی نا ممکن نہیں۔

یہاں ایک تنظیم نے درختوں بھرے جنگلات میں خود کو محفوظ طریقے سے باندھ کر ایک درخت پر بیس پچیس فٹ کی بلندی پر بنے پلیٹ فارم سے آہنی رسے کے ذریعے پچیس تیس فٹ دور دوسرے درخت تک جا کر اس کے پلیٹ فارم پر اترنا پھر اس دوسرے سے تیسرے تک اڑان بھرنے کا کھیل بنایا جس میں بلند و مضبوط درختوں پر آگے ہی آگے جنگل میں ہوائی سیر کرتے چلے جانا تھا۔ اس ماہرانہ کھیل میں بچے اور بڑے سبھی شامل لطف اٹھا رہے تھے۔ اس Swing کے کھیل میں مہارت اور بہادری دونوں کا امتحان تھا اور درختوں بھرا جنگل بچوں اور بڑوں سے بھرا پڑا تھا۔

اگر پاکستان میں اسپورٹس اور Entertainment کے وسیع اور بھرپور انتظامات ہوں تو بچوں بڑوں میں مسابقت و صحت جسمانی پر توجہ سے لوگوں کی خوشی میں اضافہ اور غلط کاری کی طرف رجحان کم ہو جائے گا۔
Load Next Story