معاشی ماہرین منی بجٹ کے حامی صنعتکار مخالف
900 ارب کی غلط پروجیکشن تھی، معیشت کو ریسکیو کیا، ایف بی آرکی ری اسٹرکچرنگ کریں گے، وزیر مملکت حماد اظہر
ملک بھر کے معروف معاشی ماہرین نے منی بجٹ کو وقت کی ضرورت اور ملکی معاشی ترقی کیلیے اہم قرار دیا ہے جبکہ صنعتکاروں نے بجٹ کو ناقابل عمل اور ملک میں مہنگائی کی نئی لہر کاباعث قرار دیا ہے۔
وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے ملکی معیشت کو ریسکیو کرنے کیلیے فنانس ترمیمی بل متعارف کرایا ہے۔
معاشی تجزیہ کار شہر یار عزیز نے کہاگزشتہ حکومت نے جلد بازی میں بجٹ متعارف کرایا تھا جس پر نظر ثانی کی ضرورت تھی۔اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عامر وحید نے کہامنی بجٹ میں عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالا گیا۔
راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بارایسوسی ایشن کے چیئرمین سید تنصیر بخاری نے کہا منی بجٹ سے ریونیو بڑھنے کے بجائے مزیدکم ہوگا۔
وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے کہاکہ فنانس سپلمنٹری بل کے بعدایف بی آرکی ری سٹرکچرنگ کی جائیگی اور یہ عمل ایک سے ڈیڑھ سال میں مکمل ہوگا، ٹیکس ریٹرن فارم کو سادہ و آسان بنایا جائیگا۔نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلیے جدید نوعیت کا اسٹیٹ آف دی آرٹ ڈیٹا بینک قائم کیا جائے،گزشتہ حکومت کا بجٹ غیر حقیقت پسندانہ تھا جس میں800 سے900 ارب کی غلط پروجیکشن تھی ، حکومت برآمدات کے فروغ کیلیے پیداواری لاگت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہی ہے۔
شیخ عامر وحید نے کہا بجٹ میں عام عوام کا خیال نہیں رکھا گیا ، بالواسطہ ٹیکسوںکا بوجھ عوام پر ڈالا گیا، درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا دی گئی اس سے کاروباری لاگت بڑھے گی ،گیس قیمتیں بڑھنے سے بھی کاروباری لاگت میں اضافہ ہوگا ، ٹیکس سلیب میں ردو بدل کرکے حکومت نے اچھا نہیں کیا ،اس سے ریونیو بڑھنے کے بجائے مزیدکم ہو گا ،حکومت نے اقتدار میں آنے کی صورت میں 50لاکھ گھر بناکر دینے کا وعدہ کیا تھا تاہم منی بجٹ میں 10ہزارگھر بنانے کا اعلان کیا گیا۔وزیر خزانہ نے تقریر میں گردشی قرضے1200ارب تک پہنچنے کا ذکرکیا ، گردشی قرضے کم کرنے کیلیے لائن لاسز پرکنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ،حکومت نے صنعتکاروں اور تاجروں سے بڑے وعدے کیے جو پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
سید تنصیر بخاری نے کہا حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 227سی کا خاتمہ غلط ہے، اس اقدام سے ٹیکس دہندگان کا دائرہ وسیع نہیں ہو سکے گا ، اب جو شخص 8 سے 10لاکھ کی گاڑی خرید سکتا ہے وہ صاحب حیثیت ہے، اب اس کو معافی مل گئی ہے،ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی سے روزگار کے مواقع کیسے پیدا ہونگے۔ حکومت ایف بی آرکو ضلعی سطح تک لائے، سب کچھ آٹومیشن کے ذریعے درست نہیں ہو سکتا ،ایف بی آرکا انفراسٹرکچر تبدیل کرنا چاہیے ، ملک میں 1394 ادارے ایسے ہیں جو ملک کا 92فیصد سے زائد ٹیکس دے رہے ہیں ، اس میں اضافے کیلیے سابقہ حکومت نے جو اقدامات کیے تھے وہ ختم کر دیے گئے ہیں۔
معاشی تجزیہ کار شہر یار عزیز نے کہاکہ گزشتہ حکومت نے جلد بازی میں بجٹ بنایا اور اس بجٹ سے ریونیو جنریشن کے اقدامات ختم کر دیے تھے، ای او بی آئی پنشنرزکو بہت کم پنشن ملتی ہے، ان کی پنشن میں10فیصد اضافہ اچھا قدم ہے، بجٹ میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی صرف ریونیو اقدامات لیے گئے ہیں،موجودہ حکومت ایف بی آر پر توجہ دے اور ٹیکس ریٹ میں اضافہ کی بجائے ٹیکس کے دائرہ کار میں اضافہ پر زور دیا جائے ۔ملک میں صرف 12لاکھ ٹیکس فائلر ہیں ، ان میں اضافہ کیلئے ایف بی آرکے نظام میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ،انہوں نے کہا ابھی تک سی پیک کے تحت بننے والے اقتصادی زون صرف کاغذوں تک محدود ہیں، حکومت ملکی معاشی ترقی اور برآمدات میں اضافے کیلئے جلد ازجلد اقتصادی زون کو عملی جامع پہنائے، افغانستان ، انڈیا سمیت دیگر ہمسایہ ممالک سے تجار ت کے فروغ کیلیے اقدامات کیے جائیں۔
وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے ملکی معیشت کو ریسکیو کرنے کیلیے فنانس ترمیمی بل متعارف کرایا ہے۔
معاشی تجزیہ کار شہر یار عزیز نے کہاگزشتہ حکومت نے جلد بازی میں بجٹ متعارف کرایا تھا جس پر نظر ثانی کی ضرورت تھی۔اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عامر وحید نے کہامنی بجٹ میں عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالا گیا۔
راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بارایسوسی ایشن کے چیئرمین سید تنصیر بخاری نے کہا منی بجٹ سے ریونیو بڑھنے کے بجائے مزیدکم ہوگا۔
وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے کہاکہ فنانس سپلمنٹری بل کے بعدایف بی آرکی ری سٹرکچرنگ کی جائیگی اور یہ عمل ایک سے ڈیڑھ سال میں مکمل ہوگا، ٹیکس ریٹرن فارم کو سادہ و آسان بنایا جائیگا۔نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلیے جدید نوعیت کا اسٹیٹ آف دی آرٹ ڈیٹا بینک قائم کیا جائے،گزشتہ حکومت کا بجٹ غیر حقیقت پسندانہ تھا جس میں800 سے900 ارب کی غلط پروجیکشن تھی ، حکومت برآمدات کے فروغ کیلیے پیداواری لاگت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہی ہے۔
شیخ عامر وحید نے کہا بجٹ میں عام عوام کا خیال نہیں رکھا گیا ، بالواسطہ ٹیکسوںکا بوجھ عوام پر ڈالا گیا، درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا دی گئی اس سے کاروباری لاگت بڑھے گی ،گیس قیمتیں بڑھنے سے بھی کاروباری لاگت میں اضافہ ہوگا ، ٹیکس سلیب میں ردو بدل کرکے حکومت نے اچھا نہیں کیا ،اس سے ریونیو بڑھنے کے بجائے مزیدکم ہو گا ،حکومت نے اقتدار میں آنے کی صورت میں 50لاکھ گھر بناکر دینے کا وعدہ کیا تھا تاہم منی بجٹ میں 10ہزارگھر بنانے کا اعلان کیا گیا۔وزیر خزانہ نے تقریر میں گردشی قرضے1200ارب تک پہنچنے کا ذکرکیا ، گردشی قرضے کم کرنے کیلیے لائن لاسز پرکنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ،حکومت نے صنعتکاروں اور تاجروں سے بڑے وعدے کیے جو پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
سید تنصیر بخاری نے کہا حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 227سی کا خاتمہ غلط ہے، اس اقدام سے ٹیکس دہندگان کا دائرہ وسیع نہیں ہو سکے گا ، اب جو شخص 8 سے 10لاکھ کی گاڑی خرید سکتا ہے وہ صاحب حیثیت ہے، اب اس کو معافی مل گئی ہے،ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی سے روزگار کے مواقع کیسے پیدا ہونگے۔ حکومت ایف بی آرکو ضلعی سطح تک لائے، سب کچھ آٹومیشن کے ذریعے درست نہیں ہو سکتا ،ایف بی آرکا انفراسٹرکچر تبدیل کرنا چاہیے ، ملک میں 1394 ادارے ایسے ہیں جو ملک کا 92فیصد سے زائد ٹیکس دے رہے ہیں ، اس میں اضافے کیلیے سابقہ حکومت نے جو اقدامات کیے تھے وہ ختم کر دیے گئے ہیں۔
معاشی تجزیہ کار شہر یار عزیز نے کہاکہ گزشتہ حکومت نے جلد بازی میں بجٹ بنایا اور اس بجٹ سے ریونیو جنریشن کے اقدامات ختم کر دیے تھے، ای او بی آئی پنشنرزکو بہت کم پنشن ملتی ہے، ان کی پنشن میں10فیصد اضافہ اچھا قدم ہے، بجٹ میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی صرف ریونیو اقدامات لیے گئے ہیں،موجودہ حکومت ایف بی آر پر توجہ دے اور ٹیکس ریٹ میں اضافہ کی بجائے ٹیکس کے دائرہ کار میں اضافہ پر زور دیا جائے ۔ملک میں صرف 12لاکھ ٹیکس فائلر ہیں ، ان میں اضافہ کیلئے ایف بی آرکے نظام میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ،انہوں نے کہا ابھی تک سی پیک کے تحت بننے والے اقتصادی زون صرف کاغذوں تک محدود ہیں، حکومت ملکی معاشی ترقی اور برآمدات میں اضافے کیلئے جلد ازجلد اقتصادی زون کو عملی جامع پہنائے، افغانستان ، انڈیا سمیت دیگر ہمسایہ ممالک سے تجار ت کے فروغ کیلیے اقدامات کیے جائیں۔