بی اے پی اور تحریک انصاف میں اختلافات کی شدت کم ہو گئی
تحریک انصاف اور بی اے پی کے درمیان بیانات کی حد تک شروع ہونے والی جنگ میں اب کچھ ٹھہرائو سا دکھائی دے رہا ہے۔
بلوچستان کابینہ میں مزید توسیع کرتے ہوئے دو نئے وزراء اور3 مشیروں کا تقرر کردیا گیا ہے۔
نئے وزراء نے حلف لے لیا ہے جن سے حلف قائم مقام گورنر میر عبدالقدوس بزنجو نے لیا۔ جبکہ نئے وزراء اور مشیروں کو ان کے محکموں کے قلمدان بھی سونپ دیئے گئے ہیں، نئے وزراء کے حلف لینے کے بعد کابینہ کا سائز12 ہوگیا ہے جبکہ18 ویں ترمیم کے تحت بلوچستان کی کابینہ میں14 وزراء اور5 مشیر لئے جاسکتے ہیں ۔ اس طرح ابھی تک12 وزراء اور4 مشیر لئے گئے ہیں، 2 وزراء اور ایک مشیر آئندہ چند روز میں مزید لئے جائیں گے۔
نئے وزراء میں بی این پی عوامی کے میر اسد بلوچ اور بی اے پی کے سردار عبدالرحمان کھیتران شامل ہیں جبکہ مقرر کئے گئے3 مشیروں میں بی اے پی کے عبدالرئوف رند، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے ملک نعیم بازئی شامل ہیں جبکہ دو وزراء اور ایک مشیر کی نامزدگی فی الحال تحریک انصاف کے ساتھ مشاورت کے بعد کی جائے گی کیونکہ تحریک انصاف بلوچستان نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے رویئے کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے اسلام آباد میں وزیراعظم اور پارٹی کے چیئرمین عمران خان سے تقریباً45 منٹ ملاقات کی جس میں اُنہوں نے اپنے اور پارٹی کے تحفظات سے اُنہیں آگاہ کیا اور بلوچستان کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
سیاسی حلقے ان کی اس ملاقات کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں اسی طرح تحریک انصاف اور بی اے پی کے درمیان بیانات کی حد تک شروع ہونے والی جنگ میں اب کچھ ٹھہرائو سا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ گذشتہ دنوں دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اس دوران بعض سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ ابھی بلوچستان میں مخلوط حکومت کے قیام کو ایک ماہ کا عرصہ ہوا ہے اور اختلافات نے شدت کے ساتھ سر اُٹھا لیا ہے۔
تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کے لہجے میں بھی کافی سختی بڑھتی دکھائی دے رہی تھی اور وہ مخلوط حکومت خصوصاً وزیر اعلیٰ جام کمال سے سخت نالاں نظر آرہے تھے۔ اور یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ بی اے پی اور تحریک انصاف کا بلوچستان میں ایک ساتھ چلنا محال ہوگیا تھا۔ تاہم حال ہی میں اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف بلوچستان میں غصے کی جو لہر تھی اُس کی شدت میں کمی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ بلوچستان میں سینٹ کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف جس کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ سیٹ اُن کے ممبر کی خالی شدہ ہے اور اُس پر پہلا حق بھی تحریک انصاف کا بنتا ہے لہٰذا بلوچستان عوامی پارٹی اس نشست پر ان کی حمایت کرے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے اس نشست کیلئے سرفراز بگٹی کو اپنا اُمیدوار نامزد کیا تھا۔
عمران خان سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے اس نشست پر نہ صرف اپنا اُمیدوار دستبردار کردیا بلکہ اُنہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کے نامزد اُمیدوار سرفراز بگٹی کی حمایت بھی کردی اس حمایت کے بعد سینٹ کے اس ضمنی الیکشن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے نامزد اُمیدوار میر سرفرا زبگٹی نے 57 ووٹوں میں سے اتحادی جماعتوں کے تعاون سے37 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی جبکہ اپوزیشن کے مشترکہ اُمیدوار حاجی رحمت اللہ کاکڑ کے حصے میں بیس ووٹ آئے، چار اراکین اسمبلی جن میں (ن) لیگ کے نواب ثناء اللہ خان زہری، جے ڈبلیو پی کے مہر گہرام بگٹی اور تحریک انصاف کے میر نعمت اللہ زہری اور سردار یار محمد رند (جوکہ بعض ذاتی مصروفیات کی وجہ سے اسلام آباد سے کوئٹہ نہ پہنچ سکے) نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بی اے پی اور تحریک انصاف کے درمیان گو کہ اب بھی کھنچائو والی پوزیشن برقرار ہے اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان فی الحال بیانات کی حد تک جو جنگ جاری تھی اس میں ٹھہرائو آیا ہے لیکن یہ سلسلہ آگے چل کر پھر شروع ہو سکتا ہے؟ کیونکہ بلوچستان کی موجودہ سیاست میں''گرمی ''واپس آگئی ہے اور صوبے کی پارلیمانی سیاست اب کیا رخ اختیار کرتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
دوسری جانب نیب بلوچستان بھی ایکشن میں دکھائی دے رہا ہے جہاں بعض سابق پارلیمنٹرین اور بیورو کریٹس کی فائلیں کھلنے کی باز گشت سنائی دے رہی ہے وہیں نیب بلوچستان نے حال ہی میں کوئٹہ واٹر سپلائی منصوبے میں تاخیر اور غیر تسلی بخش کام کا بھی نوٹس لے لیا ہے۔
کوئٹہ واٹر سپلائی منصوبے کی لاگت7 ارب سے تجاوز کرکے دس ارب روپے تک جا پہنچی ہے، بتایا جاتا ہے کہ اس منصوبے کیلئے اربوں روپے مالیت سے بچھائی گئی1505 کلو میٹر پائپ لائن کے نقشہ جات کا کیوسپ کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں، تعمیراتی کمپنی این سی ایل نے90 فیصد ادائیگی کے باوجود 30 فیصد کام بھی پورا نہیں کیا۔ بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ نیب بلوچستان عوامی مفاد کے ایسے دیگر منصوبوں کی فائلیں بھی کھولے جو کہ صرف کاغذی کارروائی کی حد تک ہورہے ہیں لیکن عملی طور پر اُن پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔
نئے وزراء نے حلف لے لیا ہے جن سے حلف قائم مقام گورنر میر عبدالقدوس بزنجو نے لیا۔ جبکہ نئے وزراء اور مشیروں کو ان کے محکموں کے قلمدان بھی سونپ دیئے گئے ہیں، نئے وزراء کے حلف لینے کے بعد کابینہ کا سائز12 ہوگیا ہے جبکہ18 ویں ترمیم کے تحت بلوچستان کی کابینہ میں14 وزراء اور5 مشیر لئے جاسکتے ہیں ۔ اس طرح ابھی تک12 وزراء اور4 مشیر لئے گئے ہیں، 2 وزراء اور ایک مشیر آئندہ چند روز میں مزید لئے جائیں گے۔
نئے وزراء میں بی این پی عوامی کے میر اسد بلوچ اور بی اے پی کے سردار عبدالرحمان کھیتران شامل ہیں جبکہ مقرر کئے گئے3 مشیروں میں بی اے پی کے عبدالرئوف رند، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے ملک نعیم بازئی شامل ہیں جبکہ دو وزراء اور ایک مشیر کی نامزدگی فی الحال تحریک انصاف کے ساتھ مشاورت کے بعد کی جائے گی کیونکہ تحریک انصاف بلوچستان نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے رویئے کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے اسلام آباد میں وزیراعظم اور پارٹی کے چیئرمین عمران خان سے تقریباً45 منٹ ملاقات کی جس میں اُنہوں نے اپنے اور پارٹی کے تحفظات سے اُنہیں آگاہ کیا اور بلوچستان کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
سیاسی حلقے ان کی اس ملاقات کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں اسی طرح تحریک انصاف اور بی اے پی کے درمیان بیانات کی حد تک شروع ہونے والی جنگ میں اب کچھ ٹھہرائو سا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ گذشتہ دنوں دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اس دوران بعض سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ ابھی بلوچستان میں مخلوط حکومت کے قیام کو ایک ماہ کا عرصہ ہوا ہے اور اختلافات نے شدت کے ساتھ سر اُٹھا لیا ہے۔
تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کے لہجے میں بھی کافی سختی بڑھتی دکھائی دے رہی تھی اور وہ مخلوط حکومت خصوصاً وزیر اعلیٰ جام کمال سے سخت نالاں نظر آرہے تھے۔ اور یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ بی اے پی اور تحریک انصاف کا بلوچستان میں ایک ساتھ چلنا محال ہوگیا تھا۔ تاہم حال ہی میں اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف بلوچستان میں غصے کی جو لہر تھی اُس کی شدت میں کمی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ بلوچستان میں سینٹ کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف جس کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ سیٹ اُن کے ممبر کی خالی شدہ ہے اور اُس پر پہلا حق بھی تحریک انصاف کا بنتا ہے لہٰذا بلوچستان عوامی پارٹی اس نشست پر ان کی حمایت کرے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے اس نشست کیلئے سرفراز بگٹی کو اپنا اُمیدوار نامزد کیا تھا۔
عمران خان سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے اس نشست پر نہ صرف اپنا اُمیدوار دستبردار کردیا بلکہ اُنہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کے نامزد اُمیدوار سرفراز بگٹی کی حمایت بھی کردی اس حمایت کے بعد سینٹ کے اس ضمنی الیکشن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے نامزد اُمیدوار میر سرفرا زبگٹی نے 57 ووٹوں میں سے اتحادی جماعتوں کے تعاون سے37 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی جبکہ اپوزیشن کے مشترکہ اُمیدوار حاجی رحمت اللہ کاکڑ کے حصے میں بیس ووٹ آئے، چار اراکین اسمبلی جن میں (ن) لیگ کے نواب ثناء اللہ خان زہری، جے ڈبلیو پی کے مہر گہرام بگٹی اور تحریک انصاف کے میر نعمت اللہ زہری اور سردار یار محمد رند (جوکہ بعض ذاتی مصروفیات کی وجہ سے اسلام آباد سے کوئٹہ نہ پہنچ سکے) نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بی اے پی اور تحریک انصاف کے درمیان گو کہ اب بھی کھنچائو والی پوزیشن برقرار ہے اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان فی الحال بیانات کی حد تک جو جنگ جاری تھی اس میں ٹھہرائو آیا ہے لیکن یہ سلسلہ آگے چل کر پھر شروع ہو سکتا ہے؟ کیونکہ بلوچستان کی موجودہ سیاست میں''گرمی ''واپس آگئی ہے اور صوبے کی پارلیمانی سیاست اب کیا رخ اختیار کرتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
دوسری جانب نیب بلوچستان بھی ایکشن میں دکھائی دے رہا ہے جہاں بعض سابق پارلیمنٹرین اور بیورو کریٹس کی فائلیں کھلنے کی باز گشت سنائی دے رہی ہے وہیں نیب بلوچستان نے حال ہی میں کوئٹہ واٹر سپلائی منصوبے میں تاخیر اور غیر تسلی بخش کام کا بھی نوٹس لے لیا ہے۔
کوئٹہ واٹر سپلائی منصوبے کی لاگت7 ارب سے تجاوز کرکے دس ارب روپے تک جا پہنچی ہے، بتایا جاتا ہے کہ اس منصوبے کیلئے اربوں روپے مالیت سے بچھائی گئی1505 کلو میٹر پائپ لائن کے نقشہ جات کا کیوسپ کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں، تعمیراتی کمپنی این سی ایل نے90 فیصد ادائیگی کے باوجود 30 فیصد کام بھی پورا نہیں کیا۔ بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ نیب بلوچستان عوامی مفاد کے ایسے دیگر منصوبوں کی فائلیں بھی کھولے جو کہ صرف کاغذی کارروائی کی حد تک ہورہے ہیں لیکن عملی طور پر اُن پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔