ماموں کو چھوڑ کر فیصلے کرنا ہوں گے
دونوں ممالک اپنے زخموں کو کافی دیر تک نہیں بھول پاتے جو ان ممالک کو نہ چاہتے ہوئے ماموں یعنی امریکا کی وجہ سے لگتے ہیں
غم ہو یا خو شی کچھ لوگ ہر وقت تکلیف میں ہی نظر آتے ہیں۔ نہ وہ خوشی میں خوش ہوتے ہیں اور نہ ہی غم میں غمگین نظر آتے ہیں۔ جیسی بھی صورت حال ہو، ان کا رد عمل ایک جیسا ہی نظر آتا ہے۔ ایسے لوگوں کو خاندان میں ماموں کہا جاتا ہے۔ یہ خاندان کا وہ رشتہ ہے جس کے بغیر کوئی بھی فیملی کا کام مکمل نہیں ہو تا، چھوٹے سے چھوٹا ہو یا بڑے سے بڑا کام، ماموں کا شامل ہونا اور ان سے مشورہ لینا بھی ضروری ہوتا ہے اور مانا بھی جاتا ہے۔ اگر نہ مانا جائے تو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ خاندان کی کسی خوشی کے موقع پر اگر ماموں ناراض ہو تو محلے اور گاؤں کے لوگ کہتے ہیں ان کا ماموں نہیں آیا، کتنا غلط کام کیا ہے ؟ ان کو ہر حال میں ماموں کوراضی کرنا چاہیے تھا، چاہے غلطی ماموں کی ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح آج امریکا پوری دنیا کا ماموں ہے۔ کوئی فیصلہ لینا ہو یا کسی ملک کو اپنے دفاع کا کوئی کام کرنا ہو، ماموں یعنی امریکا کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔
اگر کوئی ملک اس کی اجازت کے بغیر کوئی کام کرتا ہے تو امریکا ناراض ہو جاتا ہے، اور جب امریکا ناراض ہو جائے تو پھر اس کام کا ہونا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ امریکا کو اپنی ٹانگ دنیا کے ہر معاملے میں ضرور اڑانی ہوتی ہے اور جہاں ماموں کی ٹانگ آ گئی تو سمجھ لو کے ماموں کی ہی سنی جائے گی۔ خانداں کے ماموں کی طرح امریکا کو بھی دنیا کے مختلف ممالک سے اکثر منہ کی کھانی پڑتی ہے؛ مگر پھر بھی ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑانے سے باز نہیں آتا۔
آج آپ دنیا کے کسی بھی ملک کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کوئی بھی ملک امریکا کی مرضی کے بغیر نہیں چل رہا۔ چاہے وہ اقوام متحدہ ہو یا سلامتی کونسل، چاہے وہ ورلڈبینک ہو یا آئی ایم ایف، سب کے سب امریکا کی بات ماننے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ اب میں اپنے خطے کے ممالک کی بات کرتا ہوں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک جب بھی اپنے طور پر اپنے خطے کی سلامتی کی کو شش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ماموں یعنی امریکا کو اچھا نہیں لگاتا۔ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہوتا ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرنے لگتے ہیں تو ماموں کو غصہ آ جاتا ہے۔ کیونکہ ماموں کو یہ گوارا کہ یہ دونوں ملک ایک بار پھر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں اور ان کا دفاعی بجٹ کم ہو۔
اگر ایسا ہوگیا اور دونوں ملک ترقی کی راہ پر چل نکلے توماموں کو ایشیاء سے دم دبا کر بھاگنا پڑ جائے گا، اور وہ جو اپنا اسلحہ ان دونوں ملکوں کے درمیان تقسیم کرکے پیسے بناتا ہے، اس میں کمی آ جائے گی۔ اور اگر یہ دونوں ملک خود کفیل ہو جائیں گے تواس خطے میں ماموں کے وجود کا کیا بنے گا۔ یہ سب سو چ کر وہ اپنی ایجنسیوں کو حرکت میں لاتا ہے جس کا پاکستان اور بھارت کے اندر بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ اور اس طرح دونوں ملکوں کے بدلتے ہوئے حالات ایک بار پھر سے خراب ہو جاتے ہیں۔ دونوں ملک نا چاہتے ہوئے بھی بارڈر پر اپنے فوجی جوانوں کی لاشیں اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کی غلطی یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے امریکا یعنی ماموں کی نہیں سنی تھی۔ ماموں نے دونوں ملکوں کے اندر اپنے مخصوص بھانجوں کو سمجھایا ہوا ہے کہ جب بھی یہ دونوں ملک آپس میں مل کر چلنے کی کوشش کریں تو میرے بھانجو، تم نے ان ممالک کے اندر حالات کو خراب کر دینا ہے اور الزام ایک دوسرے کی حکومتوں پر لگانا ہے۔
ان ممالک کے اندر خون کا ایسا بازار گرم کرنا ہے کہ خون جمنے نہ پائے، ہر طرف خون بہتا ہوا ہی نظر آئے۔ جب تک ان کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے نہ آ جائیں اور یہ اپنے فوجی جوانوں کی لاشیں اٹھانے پر مجبورنہ ہو جائیں۔ اس جرم کی پاداش میں یہ دونوں ممالک اپنے زخموں کو کافی دیر تک نہیں بھول پاتے جو ان ممالک کو نہ چاہتے ہوئے ماموں یعنی امریکا کی وجہ سے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی ماموں کی عزت اونچی رہتی ہے جبکہ ان دونوں ملکوں کے حصے میں خفت اور جگ ہنسائی۔
بارڈر کے دونوں طرف خون کا رنگ ایک سا ہے، ایک ہی نسل کے لوگ رہتے ہیں اور صدیوں سے پرانے رشتے دار ہیں، پتا نہیں یہ دشمنی کیوں اور کیسے در آئی۔ خدارا پیار محبت کا درس دو، اس دشمنی میں سوائے ماموں کی خوشی کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ حکمرانوں میری گزارش ہے کہ برائے کرم اپنے ممالک کے عوام کی بہتری کےلیے کام کرو، نا کہ ماموں کی خوشنودی کےلیے۔
وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری میں سابق بھارتی کرکٹر اور عمران خان کے دوست سدھو کا پاکستان آنا بھارت کے بہت سے حلقوں کو نا گوارگزرا ہے۔ جس کی وجہ سے بھارت کے اندر بہت زیادہ سدھو کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ مگر سدھو کسی بھی مخالفت کو خاطر میں نہ لایا اور پاکستان کی عوام اور انتظامیہ کی دل سے تعریف کرتا ہوا نظر آیا۔ بھارت کے اندر ماموں کے حمایت یافتہ بھانجوں کو یہ تعریف برداشت نہ ہوئی اور ان لوگوں نے بھارت کے اندر پاکستان مخالف اور سدھو مخالف جلوس نکالنے شروع کردیئے۔ صرف چند لوگ ایسے ہیں دونوں ملکوں میں جن کو ان دونوں ملکوں کا ساتھ مل کر چلنا برداشت نہیں ہوتا، ان لوگوں کے پیچھے امریکا مکمل طور پر کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ اب دنیا کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ اب ان دونوں ممالک کو بھی تبدیل ہونا ہوگا۔
جنگ یا ایک دوسرے کی مخالفت کر کے سوائے تباہی کے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی یہ دونوں ممالک خود کفیل ممالک بن سکتے ہیں۔ بیرونی مداخلت کو ختم کرکے ہم کو اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے، تب جا کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک مضبوط اور طاقتور ملک اور نسل دے سکیں گے۔ ورنہ ہر آنے والی نسل مخالفت اور نفرت کا زہر لے کر پیدا ہوتی رہے گی جس کی وجہ سے جنگ اور تباہی کے خدشات اور زیادہ ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ امریکا چاہتا ہے کہ آئندہ جو بھی جنگ ہو وہ ایشیاء میں ہی ہو، سابقہ تمام جنگوں کا اگر اندازہ لگایا جائے تو سب جنگیں ایشیاء میں ہی لڑی گئی ہیں۔ جس دن پاکستان اور بھارت جنگ کی صورت حال اختیار کر گئے اس وقت اس خطے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ مخالفین تو ہمیشہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہی چاہتے ہیں، مگر یہ فیصلہ ان دونوں ملکوں کی سیاسی اور عسکری طاقتوں کو کرنا ہے۔ اللہ تعالی میرے ملک کی حفاظت فرمائے اور آنے والی نسلوں کامستقبل روشن کرے۔ (آمین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر کوئی ملک اس کی اجازت کے بغیر کوئی کام کرتا ہے تو امریکا ناراض ہو جاتا ہے، اور جب امریکا ناراض ہو جائے تو پھر اس کام کا ہونا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ امریکا کو اپنی ٹانگ دنیا کے ہر معاملے میں ضرور اڑانی ہوتی ہے اور جہاں ماموں کی ٹانگ آ گئی تو سمجھ لو کے ماموں کی ہی سنی جائے گی۔ خانداں کے ماموں کی طرح امریکا کو بھی دنیا کے مختلف ممالک سے اکثر منہ کی کھانی پڑتی ہے؛ مگر پھر بھی ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑانے سے باز نہیں آتا۔
آج آپ دنیا کے کسی بھی ملک کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کوئی بھی ملک امریکا کی مرضی کے بغیر نہیں چل رہا۔ چاہے وہ اقوام متحدہ ہو یا سلامتی کونسل، چاہے وہ ورلڈبینک ہو یا آئی ایم ایف، سب کے سب امریکا کی بات ماننے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ اب میں اپنے خطے کے ممالک کی بات کرتا ہوں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک جب بھی اپنے طور پر اپنے خطے کی سلامتی کی کو شش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ماموں یعنی امریکا کو اچھا نہیں لگاتا۔ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہوتا ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرنے لگتے ہیں تو ماموں کو غصہ آ جاتا ہے۔ کیونکہ ماموں کو یہ گوارا کہ یہ دونوں ملک ایک بار پھر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں اور ان کا دفاعی بجٹ کم ہو۔
اگر ایسا ہوگیا اور دونوں ملک ترقی کی راہ پر چل نکلے توماموں کو ایشیاء سے دم دبا کر بھاگنا پڑ جائے گا، اور وہ جو اپنا اسلحہ ان دونوں ملکوں کے درمیان تقسیم کرکے پیسے بناتا ہے، اس میں کمی آ جائے گی۔ اور اگر یہ دونوں ملک خود کفیل ہو جائیں گے تواس خطے میں ماموں کے وجود کا کیا بنے گا۔ یہ سب سو چ کر وہ اپنی ایجنسیوں کو حرکت میں لاتا ہے جس کا پاکستان اور بھارت کے اندر بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ اور اس طرح دونوں ملکوں کے بدلتے ہوئے حالات ایک بار پھر سے خراب ہو جاتے ہیں۔ دونوں ملک نا چاہتے ہوئے بھی بارڈر پر اپنے فوجی جوانوں کی لاشیں اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کی غلطی یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے امریکا یعنی ماموں کی نہیں سنی تھی۔ ماموں نے دونوں ملکوں کے اندر اپنے مخصوص بھانجوں کو سمجھایا ہوا ہے کہ جب بھی یہ دونوں ملک آپس میں مل کر چلنے کی کوشش کریں تو میرے بھانجو، تم نے ان ممالک کے اندر حالات کو خراب کر دینا ہے اور الزام ایک دوسرے کی حکومتوں پر لگانا ہے۔
ان ممالک کے اندر خون کا ایسا بازار گرم کرنا ہے کہ خون جمنے نہ پائے، ہر طرف خون بہتا ہوا ہی نظر آئے۔ جب تک ان کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے نہ آ جائیں اور یہ اپنے فوجی جوانوں کی لاشیں اٹھانے پر مجبورنہ ہو جائیں۔ اس جرم کی پاداش میں یہ دونوں ممالک اپنے زخموں کو کافی دیر تک نہیں بھول پاتے جو ان ممالک کو نہ چاہتے ہوئے ماموں یعنی امریکا کی وجہ سے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی ماموں کی عزت اونچی رہتی ہے جبکہ ان دونوں ملکوں کے حصے میں خفت اور جگ ہنسائی۔
بارڈر کے دونوں طرف خون کا رنگ ایک سا ہے، ایک ہی نسل کے لوگ رہتے ہیں اور صدیوں سے پرانے رشتے دار ہیں، پتا نہیں یہ دشمنی کیوں اور کیسے در آئی۔ خدارا پیار محبت کا درس دو، اس دشمنی میں سوائے ماموں کی خوشی کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ حکمرانوں میری گزارش ہے کہ برائے کرم اپنے ممالک کے عوام کی بہتری کےلیے کام کرو، نا کہ ماموں کی خوشنودی کےلیے۔
وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری میں سابق بھارتی کرکٹر اور عمران خان کے دوست سدھو کا پاکستان آنا بھارت کے بہت سے حلقوں کو نا گوارگزرا ہے۔ جس کی وجہ سے بھارت کے اندر بہت زیادہ سدھو کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ مگر سدھو کسی بھی مخالفت کو خاطر میں نہ لایا اور پاکستان کی عوام اور انتظامیہ کی دل سے تعریف کرتا ہوا نظر آیا۔ بھارت کے اندر ماموں کے حمایت یافتہ بھانجوں کو یہ تعریف برداشت نہ ہوئی اور ان لوگوں نے بھارت کے اندر پاکستان مخالف اور سدھو مخالف جلوس نکالنے شروع کردیئے۔ صرف چند لوگ ایسے ہیں دونوں ملکوں میں جن کو ان دونوں ملکوں کا ساتھ مل کر چلنا برداشت نہیں ہوتا، ان لوگوں کے پیچھے امریکا مکمل طور پر کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ اب دنیا کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ اب ان دونوں ممالک کو بھی تبدیل ہونا ہوگا۔
جنگ یا ایک دوسرے کی مخالفت کر کے سوائے تباہی کے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی یہ دونوں ممالک خود کفیل ممالک بن سکتے ہیں۔ بیرونی مداخلت کو ختم کرکے ہم کو اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے، تب جا کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک مضبوط اور طاقتور ملک اور نسل دے سکیں گے۔ ورنہ ہر آنے والی نسل مخالفت اور نفرت کا زہر لے کر پیدا ہوتی رہے گی جس کی وجہ سے جنگ اور تباہی کے خدشات اور زیادہ ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ امریکا چاہتا ہے کہ آئندہ جو بھی جنگ ہو وہ ایشیاء میں ہی ہو، سابقہ تمام جنگوں کا اگر اندازہ لگایا جائے تو سب جنگیں ایشیاء میں ہی لڑی گئی ہیں۔ جس دن پاکستان اور بھارت جنگ کی صورت حال اختیار کر گئے اس وقت اس خطے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ مخالفین تو ہمیشہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہی چاہتے ہیں، مگر یہ فیصلہ ان دونوں ملکوں کی سیاسی اور عسکری طاقتوں کو کرنا ہے۔ اللہ تعالی میرے ملک کی حفاظت فرمائے اور آنے والی نسلوں کامستقبل روشن کرے۔ (آمین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔