جمہوری سفر کا شاندار آغاز

ہفتے کو 301 نو منتخب قومی اسمبلی کے ارکان نے حلف اٹھا لیا جس کے بعد 14 ویں قومی اسمبلی وجود میں آگئی۔

فوٹو: آئی این پی

ہفتے کو 301 نو منتخب قومی اسمبلی کے ارکان نے حلف اٹھا لیا جس کے بعد 14 ویں قومی اسمبلی وجود میں آگئی۔ اس طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار اقتدار ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو پرامن طور پر منتقل ہوا ہے۔ اس سے قبل پاکستان میں وجود میں آنے والی جمہوری حکومتیں آمریت کی چھتری تلے وجود میں آئیں اور سوائے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے تمام جمہوری حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے قبل ہی آمریت کے بوٹوں تلے روند دی گئیں، جمہوری وزیراعظم کو یا تو تختہ دار پر کھینچ دیا گیا یا پھر جلاوطن کر دیا گیا۔

یہ پاکستان کی سیاست میں ایک تاریخی موڑ ہے کہ رخصت ہونے والی اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پرامن طور پر پوری کی اور آمریت کی مداخلت کے بغیر طے کردہ معیار کے مطابق ہی انتخابات ہوئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ نے پہلی بار یہ منظر بھی دیکھا کہ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والا آمر آج اپنی ہی دھرتی میں نظر بند اور مقدمات کا سامنا کر رہا ہے اور اپنی آنکھوں سے اپنے جلا وطن کیے ہوئے وزیراعظم کو دوبارہ اسمبلی میں حلف اٹھاتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔

عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی 14ویں قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں 342 کے ایوان میں 314 ارکان حلف اٹھانے کے لیے اہل تھے جب کہ 13 اراکین حلف اٹھانے کے لیے نہیں پہنچے۔ سابق اسپیکر فہمیدہ مرزا نے 301 نومنتخب ارکان سے حلف لیا۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے آج ہو گا جب کہ وزیراعظم کا انتخاب 5 جون کو عمل میں آئے گا۔ مسلم لیگ ن نے 186 نشستیں جیت کر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کی ہے اور میاں نواز شریف ن لیگ کے وزیراعظم نامزد ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب ہفتے کو پنجاب اور بلوچستان اسمبلیوں کے نومنتخب ارکان نے بھی حلف اٹھا لیا۔ سندھ اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کا قیام پہلے ہی وجود میں آ چکا ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف حکومت بنا چکی ہے جب کہ پنجاب' بلوچستان اور مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت بننے کے امکانات ہیں۔ اس طرح تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی ہے جب پنجاب میں شہباز شریف اور مرکز میں نوازشریف کی حکومت تھی۔ اب پھر وہی صورت حال ہے کہ پنجاب میں میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ اور مرکز میں نواز شریف وزیراعظم ہوں گے۔ نئی وجود میں آنے والی حکومت کو بہت سے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب حالات پہلے جیسے نہیں' جغرافیائی حالات کے باعث اس میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کے اژدھے ہولناک انداز میں پھنکار رہے ہیں۔ ان ہی دو مسائل نے سابق حکومت کی انتخابات میں شکست میں بنیادی کردار ادا کیا۔ نواز شریف کو بھی ان حقائق کا بخوبی ادراک ہے کہ توانائی کے بحران نے پورے ملک کی معیشت کو شدید متاثر کیا ہے۔ آج عوام لوڈشیڈنگ کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔


مسلم لیگ ن نے انتخابی مہم کے دوران ملک سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا اور عوام نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں اسمبلیوں تک پہنچایا تاکہ وہ توانائی کا بحران ختم کرکے ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دیں۔ دوسری جانب کرپشن کا ناسور ہے جو تمام ملکی اداروں کو کھوکھلا کر چکا ہے۔ سرکاری اداروں کا عالم یہ ہے کہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں' جائز کام کے لیے بھی رشوت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ عام آدمی کا معمولی سا کام بھی برسوں حل نہیں ہوتا۔ جب تک سرکاری اداروں کو کرپشن کی دیمک سے پاک نہیں کیا جائے گا ترقی اور تبدیلی کا ہر دعویٰ صرف دعویٰ ہی رہے گا۔ ہفتے کو مسلم لیگ ن کی مرکزی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے بالکل درست کہا کہ قومی خزانہ لوٹنے والوں کا کڑا احتساب کرنا ہو گا۔ اس موقع پر ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے تمام ارکان سے نواز شریف نے حلف لیا کہ کوئی بھی رکن ملک میں کسی قسم کی بھی کرپشن میں ملوث نہیں ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ آئیں ہم سب عہد کریں کہ کسی قسم کی کرپشن نہ خود کریں گے اور نہ ایسا ہوتا دیکھ کر اسے برداشت کریں گے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر نواز حکومت ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ واقعی ایک بہت بڑا انقلاب ہو گا جس سے ملک کی تقدیر بدل سکتی اور خوشحالی کا نیا سفر شروع ہو سکتا ہے۔ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کو بلا امتیاز سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ اربوں روپے کے لائن لاسز اور بقایا جات کی وصولی اپنی جگہ الگ سے ایک مسئلہ ہے۔ بہت سے سرکاری ادارے اربوں روپے کے نادہندہ ہیں اور اپنے واجبات ادا نہیں کررہے۔ نواز شریف نے لوڈشیڈنگ کے مسئلے کو اولین ترجیح دی ہے اور ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو اسے عذاب سے نجات حاصل کی جائے۔ انھوں نے واضح کیا کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے 550 ارب روپے کی خطیر رقم درکار ہے۔

دوسری جانب انھوں نے اجلاس میں یہ امید دلاتے ہوئے واضح کیا کہ آیندہ تین ماہ میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہوتا نظر آئے گا۔ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ انتہائی شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کو خطیر سرمائے کی ضرورت ہے جس کی جانب نواز شریف نے اشارہ کیا ہے۔ ایک جانب غربت' بے روز گاری اور خراب معاشی صورتحال ہے تو دوسری جانب قرضوں کا بوجھ ہے۔ ایسے میں خطیر سرمائے کا بندوبست کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکومت کو اس مقصد کے لیے ٹیکس وصولی کے نظام کو مربوط اور کرپشن سے پاک کرنا ہو گا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس وقت ملک میں ہر سال اربوں روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکس چوری کا کلچر بھی عام ہے۔

بڑے بڑے سیاستدان'سردار اور وڈیرے سرے سے ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے جب کہ ان کا شمار امارت میں ملک کے اعلیٰ طبقے میں ہوتا ہے دوسری جانب عام سرکاری ملازم جو کسمپرسی کی زندگی گزارتا ہے' وہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ حکومت کو ٹیکس نظام کو کرپشن سے پاک کرنے کے علاوہ ٹیکس وصولی کے نظام کو بھی مضبوط بنانا ہو گا۔ مالی مسائل پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر ہونے والے غیر ضروری اخراجات اور غیر ملکی دوروں کے موقع پر بڑے بڑے وفود لے جانے کی قبیح رسم کو ختم کیا جائے۔ کابینہ کا سائز چھوٹا رکھا جائے۔ ملکی وسائل کا درست استعمال کیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کو بے شمار مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے مگر بہتر حکمت عملی' استقامت' عزم اور خلوص نیت سے کام لیا جائے تو ان مسائل پر قابو پانا مشکل نہیں۔
Load Next Story