افغانستان سے امریکی انخلا
2014ء میں افغانستان سے انخلا کے بعد بھی امریکا کو وہاں بڑی تعداد میں فوج رکھنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، جنرل جان ایلن
ISLAMABAD:
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے سابق کمانڈر جنرل جان ایلن نے کہا ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے انخلا کے بعد بھی امریکا کو وہاں بڑی تعداد میں فوج رکھنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، لہٰذا یہ امر ضروری ہے کہ افغانستان اور امریکی انتظامیہ جتنی جلدی ہو سکے یہ واضح کرے کہ فوجوں کے رسمی انخلاکے بعد کتنی تعداد میں فوجیں افغانستان میں قیام کریں گی۔ جنرل ایلن کا کہنا ہے کہ اس فوجی ضرورت کے علاوہ امریکا کو افغانستان کے اندر معاشی اور عسکری شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کرنا پڑے گی۔ افغان فوج کی تربیت (اور غالباً برین واشنگ بھی) کے لیے' خصوصی کارروائیوں کے لیے اور بارودی سرنگوں کی صفائی کے لیے بھی اضافی امریکی فوج کی ضرورت ہو گی۔
واضح رہے جان ایلن نے افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے حوالے سے ایک مفصل رپورٹ تیار کی ہے جس میں امریکا اور افغانستان دونوں کو مشوروں سے نوازا گیا ہے۔ یہ بات عین منطقی ہے کہ جس حملہ آور ملک کو اپنی فوجوں کے انخلاکے لیے پُر امن ماحول میسر آ جائے تو اسے فوجی انخلا کی ضرورت اس شدت سے محسوس نہیں ہوتی جتنی کہ شکست کھا کر انخلا کرنے والی فوج کو درپیش ہوتی ہے۔ اور وہی موقع مزاحمت کاروں کی طرف سے حملہ آور فوج کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کا ہوتا ہے۔ کالعدم سوویت یونین کی فوج کے ساتھ اسی نوعیت کی صورتحال پیش آئی تھی۔ جب کہ امریکا نیٹو اور ایساف کی فوجیں بھی اپنے اعلان کردہ منصوبے کے تحت انخلا کے وقت اس قسم کے خطرات سے مبرا نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا افغانستان سے نکلتے وقت زیادہ سے زیادہ حفاظتی انتظامات کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان میں امریکی فوجی اور فضائی اڈوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔
حال ہی میں ایک فضائی مستقر ایران کی سرحد سے محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر تعمیر کیا گیا ہے جس کا مقصد ایران کے اندر کی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کرنا ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کی بھاری گاڑیاں پاکستان کی سڑکوں سے گزرتی ہوئی کراچی کی بندر گاہ پر پہنچ رہی ہیں جہاں سے وہ بذریعہ بحری جہاز واپس امریکا یا دیگر ممالک کو پہنچائی جائیں گی۔ امریکی انتظامیہ کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان کی داخلی سیکیورٹی کی ذمے داریاں افغان فورسز کے سپرد کر سکیں لیکن کیا ایسا سب کچھ اسی انداز سے ہو سکے گا جس طرح کہ امریکی فیصلہ ساز چاہ رہے ہیں یا ان کے راستے میں کوئی ایسی رکاوٹ کھڑی ہو جائے گی جس کی امریکیوں نے پیش بندی نہ کی ہو۔ ایسی صورتحال میں کیا ہو گا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
سابق نیٹو کمانڈر جان ایلن کی رپورٹ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی فوج کے ریٹائرڈ جرنیل کسی نہ کسی بہانے سے افغانستان میں امریکا کی فوجی موجودگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا وہ اسی مطمع نظر کے تحت بیانات جاری کر رہے ہیں یا رپورٹس تیار کر رہے ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان کے لیے بھی ایک نئی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ افغان صدر کرزئی برملا اعلان کر چکے ہیں کہ افغانستان ''ڈیورنڈ لائن'' کو پاکستان اور افغانستان کے مابین حقیقی سرحد تسلیم نہیں کرتا اور اس حوالے سے پاکستان کے کچھ علاقوں پر افغانستان کا ملکیت کا دعویٰ بھی روز اول سے ہی موجود ہے۔ اب نئی پیدا ہونے والی صورت حال کے بارے میں ہمارے اہل دانش کا فرض ہے کہ وہ اس حوالے سے رائے عامہ کو بر وقت آگاہ کریں کہ ہمارے ارباب بست و کشاد کو اپنے مادر وطن کے مفاد میں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے سابق کمانڈر جنرل جان ایلن نے کہا ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے انخلا کے بعد بھی امریکا کو وہاں بڑی تعداد میں فوج رکھنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، لہٰذا یہ امر ضروری ہے کہ افغانستان اور امریکی انتظامیہ جتنی جلدی ہو سکے یہ واضح کرے کہ فوجوں کے رسمی انخلاکے بعد کتنی تعداد میں فوجیں افغانستان میں قیام کریں گی۔ جنرل ایلن کا کہنا ہے کہ اس فوجی ضرورت کے علاوہ امریکا کو افغانستان کے اندر معاشی اور عسکری شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کرنا پڑے گی۔ افغان فوج کی تربیت (اور غالباً برین واشنگ بھی) کے لیے' خصوصی کارروائیوں کے لیے اور بارودی سرنگوں کی صفائی کے لیے بھی اضافی امریکی فوج کی ضرورت ہو گی۔
واضح رہے جان ایلن نے افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے حوالے سے ایک مفصل رپورٹ تیار کی ہے جس میں امریکا اور افغانستان دونوں کو مشوروں سے نوازا گیا ہے۔ یہ بات عین منطقی ہے کہ جس حملہ آور ملک کو اپنی فوجوں کے انخلاکے لیے پُر امن ماحول میسر آ جائے تو اسے فوجی انخلا کی ضرورت اس شدت سے محسوس نہیں ہوتی جتنی کہ شکست کھا کر انخلا کرنے والی فوج کو درپیش ہوتی ہے۔ اور وہی موقع مزاحمت کاروں کی طرف سے حملہ آور فوج کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کا ہوتا ہے۔ کالعدم سوویت یونین کی فوج کے ساتھ اسی نوعیت کی صورتحال پیش آئی تھی۔ جب کہ امریکا نیٹو اور ایساف کی فوجیں بھی اپنے اعلان کردہ منصوبے کے تحت انخلا کے وقت اس قسم کے خطرات سے مبرا نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا افغانستان سے نکلتے وقت زیادہ سے زیادہ حفاظتی انتظامات کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان میں امریکی فوجی اور فضائی اڈوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔
حال ہی میں ایک فضائی مستقر ایران کی سرحد سے محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر تعمیر کیا گیا ہے جس کا مقصد ایران کے اندر کی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کرنا ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کی بھاری گاڑیاں پاکستان کی سڑکوں سے گزرتی ہوئی کراچی کی بندر گاہ پر پہنچ رہی ہیں جہاں سے وہ بذریعہ بحری جہاز واپس امریکا یا دیگر ممالک کو پہنچائی جائیں گی۔ امریکی انتظامیہ کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان کی داخلی سیکیورٹی کی ذمے داریاں افغان فورسز کے سپرد کر سکیں لیکن کیا ایسا سب کچھ اسی انداز سے ہو سکے گا جس طرح کہ امریکی فیصلہ ساز چاہ رہے ہیں یا ان کے راستے میں کوئی ایسی رکاوٹ کھڑی ہو جائے گی جس کی امریکیوں نے پیش بندی نہ کی ہو۔ ایسی صورتحال میں کیا ہو گا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
سابق نیٹو کمانڈر جان ایلن کی رپورٹ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی فوج کے ریٹائرڈ جرنیل کسی نہ کسی بہانے سے افغانستان میں امریکا کی فوجی موجودگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا وہ اسی مطمع نظر کے تحت بیانات جاری کر رہے ہیں یا رپورٹس تیار کر رہے ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان کے لیے بھی ایک نئی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ افغان صدر کرزئی برملا اعلان کر چکے ہیں کہ افغانستان ''ڈیورنڈ لائن'' کو پاکستان اور افغانستان کے مابین حقیقی سرحد تسلیم نہیں کرتا اور اس حوالے سے پاکستان کے کچھ علاقوں پر افغانستان کا ملکیت کا دعویٰ بھی روز اول سے ہی موجود ہے۔ اب نئی پیدا ہونے والی صورت حال کے بارے میں ہمارے اہل دانش کا فرض ہے کہ وہ اس حوالے سے رائے عامہ کو بر وقت آگاہ کریں کہ ہمارے ارباب بست و کشاد کو اپنے مادر وطن کے مفاد میں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔