پنجاب میں مسلم لیگ ق کی ہار

چوہدری پرویز الٰہی گجرات کا انتخابی معرکہ حسب ِتوقع جیت گئے، بلکہ اپنے حریف احمد مختار کی ضمانت تک ضبط کرادی...

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

چوہدری پرویز الٰہی گجرات کا انتخابی معرکہ حسب ِتوقع جیت گئے، بلکہ اپنے حریف احمد مختار کی ضمانت تک ضبط کرادی، لیکن پنجاب میں مسلم لیگ ق ہار گئی۔ چوہدری پرویز الٰہی کو گجرات میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ، دونوں کا بیک وقت سامنا تھا؛ اس کے باوجود چوہدری پرویز الٰہی نہ صرف گجرات سے جیت گئے، بلکہ چکوال میں بھی ایک لاکھ سے زائد ووٹ لیے ہیں۔ 1985ء سے 2013 ء تک، چوہدری پرویز الٰہی کی یہ مسلسل 8 ویں کامیابی ہے۔ پرویز الٰہی کی 2 سابقہ صوبائی سیٹوں پر مونس الٰہی بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی نے یہ ثابت کر دیا کہ حالات جو بھی ہوں، آدمی اگر ہمت نہ ہارے تو ہارتا نہیں۔ لیکن 11مئی کو چوہدری پرویز الٰہی کی یہ غیر معمولی جیت مسلم لیگ ق کی مجموعی ہار میں دھندلا کر رہ گئی۔

مسلم لیگ ق کے طارق بشیر چیمہ کو بھی اس طرح کی پیچیدہ صورت حال کا سامنا تھا۔ حالیہ ہار اپنی جگہ، لیکن مسلم لیگ ق کو جو ہمہ گیر بحران گھیرے ہوئے ہے، اس کی وجوہات کچھ اور بھی ہیں، اور جب تک یہ وجوہات دور نہیں ہوں گی، مسلم لیگ ق کی مشکلات دور نہیں ہوں گی۔ چند وجوہات یہ ہیں۔ اولا ً مسلم لیگ ق کی قیادت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ڈسپلن کے بغیر کوئی پارٹی نہیں، اور مزید یہ کہ جو عہدیدار 'پارٹی عہدیدار' بننے کے بجائے صرف 'مبصر' بنتا ہے، وہ کوئی پارٹی عہدیدار نہیں۔ اگر2008 ء کے فوراً بعد پارٹی کے اندر ''اپریشن کلین اپ'' ہوتا اور 10، 15 متذبذب ارکان اسمبلی اور عہدیداران کو فارغ کر دیا جاتا، تو اُس کا فوری نقصان جو بھی ہوتا لیکن انجام ِکار اس کا مسلم لیگ ق کو فائدہ ہی ہونا تھا، لیکن چوہدری برادران نے ضرورت سے زیادہ وضعداری کا ثبوت دیا۔ نتیجتاً، خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا گیا، تا آنکہ معاملہ قابو سے باہر ہو گیا۔

چوہدری برادران نے '' ہاتھی'' تو اکٹھے کر لیے، لیکن جب اُن کو بے مہار چھوڑ دیا، تو مستی میں وہ اپنی ہی پارٹی کو روندتے چلے گئے۔ ثانیا ً، مسلم لیگ ق نے بطور ِجماعت، اپنی علیحدہ شناخت کو مستحکم نہیں کیا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں مسلم لیگ ق کو جس قدر اس تاثر نے نقصان پہنچایا کہ جلد یا بدیر مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن کو 'متحد' ہونا ہے، کسی اور چیز نے نہیں پہنچایا۔ مسلم لیگ ق کے کارکنوں اور ووٹروں نے ہمیشہ یہی سمجھا کہ شاید مسلم لیگ ق کوئی مستقل پارٹی نہیں۔ حالانکہ بات صرف یہ تھی کہ چوہدری برادران کے مقابلہ میں شریف برادران کو طاقت پکڑتے دیکھ کر بعض منتخب ارکان اور عہدیداران ن لیگ میں جانا چاہتے تھے، اور صرف بے وفائی کے الزام سے بچنے کے لیے لیگی اتحاد کا ڈھونگ رچا رہے تھے۔ نام لینا مناسب نہیں، لیکن مسلم لیگ ق میں اب بھی اس طرح کے لوگ موجود ہیں، جو ''لیگی اتحاد'' کے نام پر مسلم لیگ ق کا ''خاتمہ بالخیر'' چاہتے ہیں۔

اگر مسلم لیگ ق بطور جماعت، اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتی ہے، تو اسکو نہ صرف یہ کہ اس تاثر کو ختم کرنا ہوگا، بلکہ جو پارٹی ارکان اور عہدیدار یہ تاثر پیدا کرتے ہیں، ان سے بھی نجات حاصل کرنا ہو گی۔ 3، مسلم لیگ ق میں صرف چوہدری پرویز الٰہی نے یہ بات ٹھیک ٹھیک سمجھی کہ پنجاب میں اُن کا مقابلہ پیپلز پارٹی سے نہیں، بلکہ مسلم لیگ ن سے ہے اور ''اینٹی ن لیگ ووٹ'' ہی اُن کو ملنا ہے۔ عمران خان نے بھی یہ بات سمجھ لی تھی۔ پنجاب میں تحریک ِانصاف نے جو 9 سیٹیں جیتی ہیں، یہ ساری کی ساری ن لیگ کی ہیں۔ مسلم لیگ ق کے طارق بشیر چیمہ نے بھی ن لیگ کی سیٹ جیتی ہے، اور گجرات میں چوہدری پرویز الٰہی کی کامیابی بھی حقیقتاًن لیگ کے خلاف ہے۔ احمد مختار تو لڑنے سے پہلے ہی ہار چکے تھے۔ تحریک ِانصاف کے برخلاف مسلم لیگ ق کو اگر کم کامیابی ملی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ق کی مرکزی قیادت 'نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر' پنجاب میں ووٹ مانگنے کے لیے نکلی ہی نہیں۔ میڈیا مہم بھی برائے نام رہی۔

اس عدم دل چسپی کا نتیجہ وہی نکلا، جو نکلنا چاہیے تھا کہ پیپلز پارٹی کا وہ ووٹر، جس کو کوئی مضبوط سہارا چاہیے تھا، اور جو ن لیگ کے ردعمل میں مسلم لیگ ق کے قریب آ سکتا تھا، وہ بددل ہو کے تحریک ِانصاف کی طرف چلا گیا۔ مسلم لیگ ق کے جو اُمیدوار یہ راگ الاپ رہے تھے کہ ''مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن، ہم ایک ہیں اور پیپلز پارٹی ہماری مشترکہ دشمن ہے'' وہ گویا اپنے ہاتھوں مسلم لیگ ن کی کامیابی کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ مسلم لیگ ن کا سیلاب ابھی پایاب ہی تھا کہ مخدوم فیصل حیات اور میجر طاہر صادق کی ہمت جواب دے گئی۔ اس حد تک کہ مسلم لیگ ن کے مقابلہ میں مسلم لیگ ق کا ٹکٹ لینے سے انکار کر دیا۔ پرویز الٰہی اور طارق بشیر چیمہ ڈٹ گئے اور جیت گئے۔

مسلم لیگ ق کو اپنی میڈیا کی حکمت ِ عملی پر بھی نظر ثانی کرنا ہو گی۔ یہ سمجھنا ہو گا کہ دیہی علاقوں کے ووٹر بھلے میڈیا سے زیادہ متاثر نہ ہوں، لیکن دیہی علاقوں کے اُمیدوار بہرحال میڈیا کا اثر قبول کرتے ہیں۔11 مئی کو مسلم لیگ ن نے اگر آدھا انتخابی معرکہ میڈیا کے بل پر لڑا تو تحریک ِ انصاف کا تمام تر انحصار میڈیا پر تھا۔ بدقسمتی سے چوہدری برادران کو ان کے ''میڈیا رہنما'' بھی ہاتھ دکھا گئے۔ محمد علی درانی، طارق عظیم اور ماروی میمن، سب چھوڑ گئے۔ صرف مشاہد حسین سید رہ گئے ہیں، اور وہ بھی، جب سے سیکریٹری جنرل کے عہدہ جلیلہ پر منتخب کیے گئے ہیں، میڈیا میں ان کی دلچسپی برائے نام رہ چُکی ہے۔ انتخابات میں جیت ہار کوئی مستقل چیز نہیں۔ آج اگر مسلم لیگ ق اور اے این پی نے ہار کا ذائقہ چکھا ہے، تو یہ ذائقہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی چکھ چکی ہیں۔ ہارنے سے کوئی پارٹی ختم ہوتی ہے، اور نہ جیتنے سے کسی پارٹی کو دوام مل جاتا ہے۔


ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ۔

3 بار انتخابات میں حصہ لینے کا نتیجہ، صرف ایک سیٹ، لیکن آج تحریک ِانصاف کہا ں جا پہنچی ہے۔ شیخ رشید احمد اس طرح گرے تھے کہ لوگ کہتے تھے، اب کبھی اٹھ نہیں سکیں گے، لیکن آج شیخ رشید تن ِ تنہا، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو شکست ِفاش دے کر قومی اسمبلی پہنچ چکے ہیں۔ جو بھی انتخابی نتیجہ آیا ہے، اس کے باوجود قومی اسمبلی، سینیٹ، پنجاب اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ ق کی معتدبہ نمایندگی موجود ہے۔ اگر مسلم لیگ ق آیندہ 5 سال اپوزیشن میں رہنے کا عزم کر چکی ہے، تو اس کے لیے بھرپور اپوزیشن بننے کا بہترین موقع موجود ہیں۔

7 ہوں یا 70، اپوزیشن میں تعداد سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ آپ کس طرح کی اپوزیشن ہیں۔ کالم لکھ رہا تھا کہ ظفراللہ جمالی کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کی خبر پر نظر پڑ گئی اور ایک ایک کر کے وہ سارے مناظر یاد آ گئے، جب 2002ء میں چوہدری برادران ان کو وزیر اعظم منتخب کرانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ صرف ایک ووٹ تھا ظفر اللہ جمالی کے پاس۔ قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمٰن نے کہا، ''چوہدری صاحب، آپ وزارت عظمیٰ کے اُمیدار بنیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، لیکن میر ظفراللہ جمالی سے بچیں۔'' چوہدری برادران کو ان کی شرافت طبع اور وضعداری کے سبب، جن جن لوگوں نے ڈسا، ان کی فہرست بڑی لمبی ہے۔ ایک زخم خوردہ شاعر نے کہا تھا ،

زہر پینے سے ڈر نہیں لگتا

آستینوں میں سانپ پالے ہیں

چوہدری برادران کو صرف پارٹی پالیسی پر نہیں، بلکہ اپنی وضعداری کی پالیسی پر بھی نظرثانی کرنا ہو گی۔
Load Next Story