پیپلزپارٹی کا زوّال
پنجاب میں پیپلزپارٹی کے زوّال کی سب سے بڑی وجہ جناب آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ شکست کے بعد اب وہ...
پنجاب میں پیپلزپارٹی کے زوّال کی سب سے بڑی وجہ جناب آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ شکست کے بعد اب وہ بلاول ہائوس میں بیٹھ کر پیپلزپارٹی کے غریب کارکنوں کی سرپرستی کرنے اور پارٹی کو بحال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اندرون سندھ میں پیپلزپارٹی کی شاندار کامیابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھی عوام نے تو خراب کارکردگی پر پیپلز پارٹی کو قبول کرلیا لیکن پنجابی اور پٹھان ایسا نہیں کرسکے۔
گیارہ مئی کے عام انتخابات میں پنجاب بھر سے پیپلزپارٹی کو کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے بمشکل گیارہ (11) فیصد حصّہ ملا ہے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ نواز نے 47 فیصد، تحریک انصاف نے 18 فیصد، چھوٹی جماعتوں نے 8.2 فیصد اور آزاد امیدواروں نے 15 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ جب 1970ء میں پیپلزپارٹی نے ملکی سیاست میں ایک انقلاب برپا کیا تھا اس وقت پنجاب میں اس کو 42 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے جب کہ اُس کی مخالف قوتوں کے ووٹ منقسم تھے۔ پیپلزپارٹی کی پنجاب میں پوزیشن 1990ء سے گرنا شروع ہو گئی تھی لیکن یہ کمزوری شہری علاقوں میں زیادہ نمایاں تھی جب کہ دیہی علاقوں پر پیپلزپارٹی کی گرفت مضبوط تھی۔
بینظیر بھٹو نے پنجاب کے شہری علاقوں میں اپنی پارٹی کے انحطاط اور نوازشریف کی مسلم لیگ کے چیلنج سے نپٹنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اسی لیے ہر گزرتے الیکشن میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن کمزور ہوتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ 1993ء کے الیکشن میں جب پارٹی ملک بھر میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اُس وقت بھی بینظیر بھٹو کے امیدوار پنجاب کے شہری علاقوں کی تمام نشستیں ہار گئے تھے۔ 2008ء تک آتے آتے پیپلزپارٹی کا پنجاب کے ووٹوں میں حصّہ 27 فیصد رہ گیا تھا۔ حالانکہ یہ الیکشن بینظیر کی شہادت کے فوراً بعد منعقد ہوئے تھے اور ہمدردی کا ووٹ بھی ان میں شامل تھا۔ بے نظیر بھٹوکے بعد آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی پر پنجاب کے عدم اعتماد کا یہ پہلا اظہار تھا جس کی شدّت حالیہ الیکشن میں اور زیادہ ہوگئی۔
گیارہ مئی 2013ء کے جنرل الیکشن میں جانے سے پہلے آزاد تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ بجلی کے شدید اور مسلسل بحران اور ہوش رُبا مہنگائی کے باعث پیپلزپارٹی کو اس بار پہلے سے کم ووٹ ملیں گے لیکن پارٹی کے رہ نما اور حامی اس موقف سے متفق نہیں تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ پارٹی اپنی 2008ء والی پوزیشن برقرار رکھے گی بلکہ اُس سے زیادہ ووٹ بھی حاصل کر سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے تخمینہ کے چار اہم نکات تھے۔ (1) پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کی وجہ سے دونوں جماعتوں کے ووٹ مل جائیں گے۔ (2) عمران خان کی وجہ سے پنجاب کے متوسط طبقہ کے ووٹ تقسیم ہو جائیں گے جس کا زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوگا۔ (3) پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) نے جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کا جو نعرہ بلند کیا تھا اس کا فائدہ بھی انھی جماعتوں کو ہوگا اور (4) پیپلزپارٹی کی حکومت نے بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ہر حلقہ میں 15 سے 20 ہزار افراد کو ماہانہ گرانٹ دی تھی جو پارٹی کے پکّے ووٹ ثابت ہوں گے۔ الیکشن نتائج نے ان تمام مفروضات کی سختی سے نفی کر دی۔ مسلم لیگ (ق) کے ووٹ 2008ء میں 80 لاکھ تھے جو 2013ء میں کم ہو کر صرف چودہ (14)لاکھ رہ گئے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹ 80 لاکھ سے بڑھ کر ڈیڑھ کروڑ ہو گئے۔کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر مسلم لیگی ووٹ متحد ہو کر نوازشریف کو چلے گئے۔
پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی خواہشات کے برعکس عمران خان نے نوازشریف کے ووٹ تو نہیں توڑے البتہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں ایک چھوٹی سی اقلیتی جماعت میں تبدیل کر دیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے امیدواروں کوتین تین چار چار ہزار ووٹ ملے۔حتی کہ بشریٰ اعتزاز احسن کو صرف سات ہزار ووٹ مل سکے جو ایسے حلقہ سے الیکشن لڑ رہی تھیں جو کم آمدن والے لوگوں کی اکثریت پر مشتمل تھا اور روایتی طور پر پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتاتھا۔ پیپلزپارٹی کو لاہور میں تقریباً اتنے ہی ووٹ پڑے ہیں جتنے جماعت اسلامی کے امیدواروں کو۔ پیپلزپارٹی کو بھی ووٹ وہی ملا ہے جو اس کے انتہائی وفادار کارکنوںاور حامیوں نے دیا۔ پنجاب کی عام پبلک نے اس سے منہ موڑ لیا۔ سوائے ان چند حلقوں کے جہاں بااثر امیدوارذاتی حیثیت میں زیادہ ووٹ حاصل کرسکے گو کامیاب پھر بھی نہ ہوئے۔ لاہور سے ثمینہ خالد گھرکی ایسی بھاری بھرکم امیدوار مسلم لیگ ن کے ایک عام کارکن سہیل شوکت بٹ سے پچپن ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار گئیں۔
پورے پنجاب سے پیپلزپارٹی کوتقریبا اتنے ووٹ ملے جتنے اندرون سندھ سے۔ پارٹی کا سب سے برا حال شمالی اور وسطی پنجاب میں ہوا جہاں اسے کل ڈالے گئے ووٹوں کا محض 8 فیصد ملا۔ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے زور کا مفروضہ بھی غلط ثابت ہوا۔پورے جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کو 14 فیصد جب کہ مسلم لیگ (ن) کو 43 فیصد اور تحریک انصاف کو 21 فیصد ووٹ ملے۔ یوسف رضا گیلانی نے ملتان میں اربوں روپے سے سڑکیں اور فلائی اوور تعمیر کرائے تھے اور ملتان روایتی طور پر پیپلزپارٹی کا گڑھ رہا ہے لیکن اب بار پارٹی وہاں بھی اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ سکی۔ یوسف رضا گیلانی کے خاندان کے تینوں ارکان بُری طرح الیکشن ہار گئے۔ جنوبی پنجاب میں مظفر گڑھ، لیہ اور رحیم یار خان بھی پیپلزپارٹی کا مضبوط علاقہ سمجھے جاتے تھے لیکن ان سب جگہ پارٹی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ صرف رحیم یار خان میں پیپلزپارٹی 2 سیٹیں حاصل کر سکی۔ جس کی ایک وجہ گورنر مخدوم احمد محمود کا ذاتی اثر و رسوخ ہے۔
روایتی تجزیہ کاروں نے جنرل الیکشن سے پہلے بااثر مقامی شخصیات یا نام نہاد الیکٹ ایبلز کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ برادری کی بنیاد پر بھی بڑے تجزیے کیے گئے۔ تاہم الیکشن نتائج نے ایک نئی تصویر دکھائی۔ نجی ٹیلی ویژن چینلوں کی مقبولیت کے باعث سیاسی مکالمہ شہروں سے پھیل کر دور دراز دیہات تک چلا گیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا اثر و رسوخ دیہات تک پھیل گیا ہے اور مقامی سیاست دانوں سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹک سے رحیم یار خان تک مسلم لیگ نواز کے امیدواوں کو پارٹی کی بنیاد پر ایک جیسی پذیرائی حاصل ہوئی اور تحریک انصاف کے نسبتاً غیر معروف امیدوار بھی ہر حلقہ سے چالیس پچاس ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ 2013 کے الیکشن مقامی بااثر سیاستدانوں پر سیاسی جماعتوں کی فوقیت کے الیکشن تھے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کی خراب کارکردگی اور اس کے رہ نمائوں کی بدعنوانیوں کا تاثر پنجاب میںاتنے بڑے فیصلہ کن عوامل تھے کہ اُن کے سامنے باقی چیزیں بے وقعت ثابت ہوئیں۔ آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا پنجاب کے عوام میں اچھا امیج نہ بن سکا۔ اگر پنجاب میں پیپلزپارٹی کی بحالی کی کوئی اُمید ہے تو وہ اسی صورت ہو سکتی ہے کہ بلاول بھٹو اور ان کی بہنیں فعال ہوں تاکہ پارٹی نئے امیج اور بہتر ساکھ کے ساتھ متوقع بلدیاتی انتخابات لڑ سکے۔
گیارہ مئی کے عام انتخابات میں پنجاب بھر سے پیپلزپارٹی کو کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے بمشکل گیارہ (11) فیصد حصّہ ملا ہے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ نواز نے 47 فیصد، تحریک انصاف نے 18 فیصد، چھوٹی جماعتوں نے 8.2 فیصد اور آزاد امیدواروں نے 15 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ جب 1970ء میں پیپلزپارٹی نے ملکی سیاست میں ایک انقلاب برپا کیا تھا اس وقت پنجاب میں اس کو 42 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے جب کہ اُس کی مخالف قوتوں کے ووٹ منقسم تھے۔ پیپلزپارٹی کی پنجاب میں پوزیشن 1990ء سے گرنا شروع ہو گئی تھی لیکن یہ کمزوری شہری علاقوں میں زیادہ نمایاں تھی جب کہ دیہی علاقوں پر پیپلزپارٹی کی گرفت مضبوط تھی۔
بینظیر بھٹو نے پنجاب کے شہری علاقوں میں اپنی پارٹی کے انحطاط اور نوازشریف کی مسلم لیگ کے چیلنج سے نپٹنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اسی لیے ہر گزرتے الیکشن میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن کمزور ہوتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ 1993ء کے الیکشن میں جب پارٹی ملک بھر میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اُس وقت بھی بینظیر بھٹو کے امیدوار پنجاب کے شہری علاقوں کی تمام نشستیں ہار گئے تھے۔ 2008ء تک آتے آتے پیپلزپارٹی کا پنجاب کے ووٹوں میں حصّہ 27 فیصد رہ گیا تھا۔ حالانکہ یہ الیکشن بینظیر کی شہادت کے فوراً بعد منعقد ہوئے تھے اور ہمدردی کا ووٹ بھی ان میں شامل تھا۔ بے نظیر بھٹوکے بعد آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی پر پنجاب کے عدم اعتماد کا یہ پہلا اظہار تھا جس کی شدّت حالیہ الیکشن میں اور زیادہ ہوگئی۔
گیارہ مئی 2013ء کے جنرل الیکشن میں جانے سے پہلے آزاد تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ بجلی کے شدید اور مسلسل بحران اور ہوش رُبا مہنگائی کے باعث پیپلزپارٹی کو اس بار پہلے سے کم ووٹ ملیں گے لیکن پارٹی کے رہ نما اور حامی اس موقف سے متفق نہیں تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ پارٹی اپنی 2008ء والی پوزیشن برقرار رکھے گی بلکہ اُس سے زیادہ ووٹ بھی حاصل کر سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے تخمینہ کے چار اہم نکات تھے۔ (1) پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کی وجہ سے دونوں جماعتوں کے ووٹ مل جائیں گے۔ (2) عمران خان کی وجہ سے پنجاب کے متوسط طبقہ کے ووٹ تقسیم ہو جائیں گے جس کا زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوگا۔ (3) پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) نے جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کا جو نعرہ بلند کیا تھا اس کا فائدہ بھی انھی جماعتوں کو ہوگا اور (4) پیپلزپارٹی کی حکومت نے بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ہر حلقہ میں 15 سے 20 ہزار افراد کو ماہانہ گرانٹ دی تھی جو پارٹی کے پکّے ووٹ ثابت ہوں گے۔ الیکشن نتائج نے ان تمام مفروضات کی سختی سے نفی کر دی۔ مسلم لیگ (ق) کے ووٹ 2008ء میں 80 لاکھ تھے جو 2013ء میں کم ہو کر صرف چودہ (14)لاکھ رہ گئے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹ 80 لاکھ سے بڑھ کر ڈیڑھ کروڑ ہو گئے۔کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر مسلم لیگی ووٹ متحد ہو کر نوازشریف کو چلے گئے۔
پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی خواہشات کے برعکس عمران خان نے نوازشریف کے ووٹ تو نہیں توڑے البتہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں ایک چھوٹی سی اقلیتی جماعت میں تبدیل کر دیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے امیدواروں کوتین تین چار چار ہزار ووٹ ملے۔حتی کہ بشریٰ اعتزاز احسن کو صرف سات ہزار ووٹ مل سکے جو ایسے حلقہ سے الیکشن لڑ رہی تھیں جو کم آمدن والے لوگوں کی اکثریت پر مشتمل تھا اور روایتی طور پر پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتاتھا۔ پیپلزپارٹی کو لاہور میں تقریباً اتنے ہی ووٹ پڑے ہیں جتنے جماعت اسلامی کے امیدواروں کو۔ پیپلزپارٹی کو بھی ووٹ وہی ملا ہے جو اس کے انتہائی وفادار کارکنوںاور حامیوں نے دیا۔ پنجاب کی عام پبلک نے اس سے منہ موڑ لیا۔ سوائے ان چند حلقوں کے جہاں بااثر امیدوارذاتی حیثیت میں زیادہ ووٹ حاصل کرسکے گو کامیاب پھر بھی نہ ہوئے۔ لاہور سے ثمینہ خالد گھرکی ایسی بھاری بھرکم امیدوار مسلم لیگ ن کے ایک عام کارکن سہیل شوکت بٹ سے پچپن ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار گئیں۔
پورے پنجاب سے پیپلزپارٹی کوتقریبا اتنے ووٹ ملے جتنے اندرون سندھ سے۔ پارٹی کا سب سے برا حال شمالی اور وسطی پنجاب میں ہوا جہاں اسے کل ڈالے گئے ووٹوں کا محض 8 فیصد ملا۔ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے زور کا مفروضہ بھی غلط ثابت ہوا۔پورے جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کو 14 فیصد جب کہ مسلم لیگ (ن) کو 43 فیصد اور تحریک انصاف کو 21 فیصد ووٹ ملے۔ یوسف رضا گیلانی نے ملتان میں اربوں روپے سے سڑکیں اور فلائی اوور تعمیر کرائے تھے اور ملتان روایتی طور پر پیپلزپارٹی کا گڑھ رہا ہے لیکن اب بار پارٹی وہاں بھی اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ سکی۔ یوسف رضا گیلانی کے خاندان کے تینوں ارکان بُری طرح الیکشن ہار گئے۔ جنوبی پنجاب میں مظفر گڑھ، لیہ اور رحیم یار خان بھی پیپلزپارٹی کا مضبوط علاقہ سمجھے جاتے تھے لیکن ان سب جگہ پارٹی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ صرف رحیم یار خان میں پیپلزپارٹی 2 سیٹیں حاصل کر سکی۔ جس کی ایک وجہ گورنر مخدوم احمد محمود کا ذاتی اثر و رسوخ ہے۔
روایتی تجزیہ کاروں نے جنرل الیکشن سے پہلے بااثر مقامی شخصیات یا نام نہاد الیکٹ ایبلز کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ برادری کی بنیاد پر بھی بڑے تجزیے کیے گئے۔ تاہم الیکشن نتائج نے ایک نئی تصویر دکھائی۔ نجی ٹیلی ویژن چینلوں کی مقبولیت کے باعث سیاسی مکالمہ شہروں سے پھیل کر دور دراز دیہات تک چلا گیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا اثر و رسوخ دیہات تک پھیل گیا ہے اور مقامی سیاست دانوں سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹک سے رحیم یار خان تک مسلم لیگ نواز کے امیدواوں کو پارٹی کی بنیاد پر ایک جیسی پذیرائی حاصل ہوئی اور تحریک انصاف کے نسبتاً غیر معروف امیدوار بھی ہر حلقہ سے چالیس پچاس ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ 2013 کے الیکشن مقامی بااثر سیاستدانوں پر سیاسی جماعتوں کی فوقیت کے الیکشن تھے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کی خراب کارکردگی اور اس کے رہ نمائوں کی بدعنوانیوں کا تاثر پنجاب میںاتنے بڑے فیصلہ کن عوامل تھے کہ اُن کے سامنے باقی چیزیں بے وقعت ثابت ہوئیں۔ آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا پنجاب کے عوام میں اچھا امیج نہ بن سکا۔ اگر پنجاب میں پیپلزپارٹی کی بحالی کی کوئی اُمید ہے تو وہ اسی صورت ہو سکتی ہے کہ بلاول بھٹو اور ان کی بہنیں فعال ہوں تاکہ پارٹی نئے امیج اور بہتر ساکھ کے ساتھ متوقع بلدیاتی انتخابات لڑ سکے۔