13 برس بعد مرکزی ایوان کی باگ ڈورن لیگ کے ہاتھ میں
قومی اسمبلی میں موجودہ تمام سیاسی جماعتوں کو مطمئن رکھنا بہت بڑا چیلنج ہوگا
اندیشوں اور منفی قیاس آرائیوں کے سائے تلے ملکی تاریخ کے اہم ترین انتخابات اپنے مقررہ وقت پر منعقد ہوئے اور ان کے نتیجے میں ملک کی قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان منتخب ہو کر متعلقہ ایوانوں میں پہنچ گئے ہیں ۔
انتخابات کے نتائج کے بارے میں انتہائی سنجیدہ اعتراضات سامنے آئے ۔ ملکی اور غیر ملکی تجزیہ نگاروں اور غیر جانبدار تنظیموں کی جانب سے بھی ان انتخابات کے بارے میں سوال اٹھائے گئے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی کسی بھی سیاسی قوت نے معاملات خراب کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کے جذبات کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت نے گزشتہ پانچ برسوں میں اپنے اندر مثبت تبدیلی پیدا کی ہے اور ان کے پیش نظر اہم ترین مقصد یہی ہے کہ ملک میں جمہوری نظام چلتا رہے اور جمہوری نظام پر عمل ہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے یہ نطام خود اپنی خامیوں کی اصلاح کرتا ہے۔
انتخابات کے انعقاد کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حکومت سازی کے اگلے مراحل طے کئے جا رہے ہیں ۔ صوبہ سندھ اور خیبر پختونخواہ میں سپیکر ، ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد وزراء اعلیٰ کا انتخاب بھی عمل میں لایا جا چکا ہے۔ پنجاب اور بلوچستان میں بھی وزراء اعلٰی نامزد کئے جا چکے ہیں جبکہ مرکز میں آج سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کا اہم مرحلہ طے کیا جا رہا ہے جس کے بعد قائد ایوان کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ اس طرح پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد منتخب جمہوری حکومت کا خاتمہ اور عوام کے ووٹوں سے نئی حکومت کا انتخاب اپنی تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ آئین میں بیان کردہ قوائد کے مطابق یکم جون کو قومی اسمبلی کے ارکان نے حلف اٹھایا تھا جس کے بعد پاکستان کی 14ویں قومی اسمبلی وجود میں آئی ۔
آج سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں سیاسی پارٹیوں کی عددی طاقت پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ نواز کی نشستیں سب سے زیادہ یعنی 186ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کے کامیاب اراکین اسمبلی کی تعداد 39ہے ، پاکستان تحریک انصاف جو ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری ہے اس کے 35اراکین اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں ، متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین اسمبلی کی تعداد23ہے، اسی طرح جمعیت علماء اسلام (ف) 14، مسلم لیگ فنگشنل6،جماعت اسلامی4 ، پختونخواہ عوامی ملی پارٹی 4،نیشنل پارٹی 3اورمسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی کی تعداد 2 ہے، اسی طرح اے این پی، عوامی وطن پارٹی، عوامی مسلم لیگ اور مسلم لیگ ضیاء کا ایک ایک رکن اسمبلی منتخب ہوا ہے جبکہ آٹھ آزاد اراکین ہیں۔
تقریب حلف برداری والے دن 314منتخب اراکین میں سے 301اراکین اسمبلی نے حلف اٹھایا ، بعض اراکین با امر مجبوری تقریب حلف برداری میں نہ پہنچ سکے جن میں تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان، شاہ محمود قریشی ، جمعیت علماء اسلام ف کے قائد مولانا فضل الرحمان اور جمشید دستی شامل ہیں ۔ خو ش آئند پہلو یہ ہے کہ الیکشن کے حوالے سے کئے جانے والے تمام تر منفی پروپیگنڈے کے باوجودجمہوریت کی جیت ہوئی اور جمہوری عمل مکمل ہوا ۔
آج اسمبلی کا دوسرا مرحلہ یعنی سپیکر کا انتخاب ہونے جارہا ہے جس کے مسلم لیگ ن نے سپیکر کے عہدے کے لئے سردار ایاز صادق اور ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لئے مرتضیٰ عباسی کو نامزد کیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے سپیکر شپ کے لئے یوسف تالپور اور ڈپٹی سپیکر کے لئے غلام یوسف کو نامزد کیا ہے ، پاکستان تحریک انصاف نے سپیکر کے لئے شہر یار آفریدی اور ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لئے منزہ حسن کو نامزد کیا ہے جبکہ ایم کیو ایم بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی اور اس نے بھی سپیکر کے لئے اقبال بخاری اور ڈپٹی سپیکر کے لئے کشور زہرہ کو نامزد کیا ہے ، یوںاس مرتبہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے لئے چارسیاسی جماعتوں کے ارکان میدان میں ہیں۔
قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کو دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کو واضح اکثریت حاصل ہے یوں ان کے دونوں امیدوار آسانی سے جیت جائیں گے، مگر مقابلے پر آنے والی سیاسی پارٹیوں نے میدان کو خالی چھوڑنا کسی صورت گوارہ نہ کیا اور یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ ہار جیت سے قطع نظر ہر حال میں جمہوریت کے عمل کو رواں رکھنے کے لئے اپنا سیاسی کردار ادا کیا جائے۔ مسلم لیگ ن کے مقابل امیدوار کھڑے کرنے کے فیصلے کی علامتی حیثیت ہے۔اس کا مقصد حکومت کو یہ پیغام دینا ہے کہ حزب اختلاف سنجیدگی کے ساتھ حکومتی اقدامات کی نگرانی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ملک کی بعض اہم سیاسی شخصیات کی کوشش ہے کہ وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر متفقہ طور پرمیاں نوازشریف کو منتخب کرلیا جائے تاہم اس سلسلے میں ابھی کوئی ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔
اپوزیشن جماعتیں متفقہ امیدوار کیوں نہیں دے سکیں؟ تو اس کی وجہ ان کے نظریاتی اور سیاسی اختلافات ہیں، پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے کسی طور اتفاق نہیں ہو سکتاکیونکہ ان کے نظریات میں اتنی دوری ہے کہ ان کو اکٹھا کرنا گویا ایک بہت بڑی خلیج کو پاٹنے کے مترادف ہے ، تاہم ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی پہلے بھی اتحادی رہ چکی ہیں ان کا جدا جدا راستے اختیار کرنا حیران کن ہے مگر کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے اس لئے مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ کب سیاسی پارٹیاں پھر سے ایک ہو جائیں ، جیسے کسی زمانے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ کبھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں مگر پھر حالات ایسے ہوئے کہ دونوں شیر و شکر ہو گئیں ، اسی طرح مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کا اتحادی بننا بھی سب کے سامنے ہے۔
مسلم لیگ ن کی طرف سے نامزد سپیکر سردار ایاز صادق پر قومی اسمبلی کا سپیکر منتخب ہونے کے ایوان کو غیر جانبداری سے چلانے کی بھاری ذمہ داری عائد ہو جائے گی ، عوام نے جس طرح مسلم لیگ ن کو بھاری مینڈیٹ دے کر اپنی امیدیں اور ترقی کے خواب ان کی جھولی میں ڈال دئیے ہیں اسی طرح انھیں سپیکر منتخب ہونے والی شخصیت سے بھی توقع ہو گی کہ وہ سپیکر شپ کے عہدے کے فرائض دیانت سے انجام دیں گے ۔
پاکستان کی نئی قومی اسمبلی کے ممکنہ سپیکر سردار ایاز صادق 17اکتوبر1954ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر لاہورکے حلقہ این اے 122پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ اس سے قبل بھی وہ ن لیگ ہی کے پلیٹ فارم سے رکن اسمبلی رہ چکے ہیں تاہم اس سے پہلے ان کی سیاسی وابستگی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ تھی، ایاز صادق نے 1975ء میں ہیلے کالج پنجاب یونیورسٹی سے بی کام کی ڈگری حاصل کی اور پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں ، وہ 1994ء سے سردار ٹرسٹ آئی ہوسپٹل کے چیئر مین ہیں ، مشرق وسطیٰ،چین، مشرق بعید،امریکااور یورپی یونین کے ممالک کے دورے کر چکے ہیں، مطالعہ ، سیاحت اور کرکٹ ان کے مشاغل میں شامل ہیں، 2002 ء کے انتخابات میں بھی اسی حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے، جبکہ 2013 ء کے انتخابات میں یہ تیسری مرتبہ رکن قومی اسمبلی بنے ہیں ۔ قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے دفاع، مواصلات اور ریلویز کے شعبوں میں قانون سازی ان کی ترجیحات میں شامل رہی جبکہ دفاع اور لوکل گورنمنٹ اور رورل ڈیویلپمنٹ پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے رکن رہ چکے ہیں۔ سردار ایاز صادق دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے باپ ہیں ۔
مسلم لیگ نواز کی جانب سے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لئے مرتضیٰ جاوید عباسی کو سامنے لایا گیا ہے۔ وہ 15مارچ 1970ء کو ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے۔ تعلیم ڈگری کالج ایبٹ آباد سے حاصل کی۔ حالیہ انتخابات میں انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 18(ایبٹ آباد2) پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سردار محمد یعقوب کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی ۔ 2008ء کے انتخابات میں بھی انھوں نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سردار یعقوب کو شکست سے دوچار کیا تھا جو اس وقت مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے تھے۔
قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے لئے دیگر اہم جماعتوں نے بھی اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے سپیکر کے لئے شہریار آفریدی اور ڈپٹی سپیکر کے لئے منزہ حسن جبکہ ایم کیو ایم نے بالترتیب اقبال بخاری اور کشور زہرہ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے یوسف تالپور اور غلام یوسف کو میدان میں اتارا ہے۔
انتخابات کے نتائج کے بارے میں انتہائی سنجیدہ اعتراضات سامنے آئے ۔ ملکی اور غیر ملکی تجزیہ نگاروں اور غیر جانبدار تنظیموں کی جانب سے بھی ان انتخابات کے بارے میں سوال اٹھائے گئے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی کسی بھی سیاسی قوت نے معاملات خراب کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کے جذبات کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت نے گزشتہ پانچ برسوں میں اپنے اندر مثبت تبدیلی پیدا کی ہے اور ان کے پیش نظر اہم ترین مقصد یہی ہے کہ ملک میں جمہوری نظام چلتا رہے اور جمہوری نظام پر عمل ہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے یہ نطام خود اپنی خامیوں کی اصلاح کرتا ہے۔
انتخابات کے انعقاد کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حکومت سازی کے اگلے مراحل طے کئے جا رہے ہیں ۔ صوبہ سندھ اور خیبر پختونخواہ میں سپیکر ، ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد وزراء اعلیٰ کا انتخاب بھی عمل میں لایا جا چکا ہے۔ پنجاب اور بلوچستان میں بھی وزراء اعلٰی نامزد کئے جا چکے ہیں جبکہ مرکز میں آج سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کا اہم مرحلہ طے کیا جا رہا ہے جس کے بعد قائد ایوان کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ اس طرح پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد منتخب جمہوری حکومت کا خاتمہ اور عوام کے ووٹوں سے نئی حکومت کا انتخاب اپنی تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ آئین میں بیان کردہ قوائد کے مطابق یکم جون کو قومی اسمبلی کے ارکان نے حلف اٹھایا تھا جس کے بعد پاکستان کی 14ویں قومی اسمبلی وجود میں آئی ۔
آج سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں سیاسی پارٹیوں کی عددی طاقت پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ نواز کی نشستیں سب سے زیادہ یعنی 186ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کے کامیاب اراکین اسمبلی کی تعداد 39ہے ، پاکستان تحریک انصاف جو ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری ہے اس کے 35اراکین اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں ، متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین اسمبلی کی تعداد23ہے، اسی طرح جمعیت علماء اسلام (ف) 14، مسلم لیگ فنگشنل6،جماعت اسلامی4 ، پختونخواہ عوامی ملی پارٹی 4،نیشنل پارٹی 3اورمسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی کی تعداد 2 ہے، اسی طرح اے این پی، عوامی وطن پارٹی، عوامی مسلم لیگ اور مسلم لیگ ضیاء کا ایک ایک رکن اسمبلی منتخب ہوا ہے جبکہ آٹھ آزاد اراکین ہیں۔
تقریب حلف برداری والے دن 314منتخب اراکین میں سے 301اراکین اسمبلی نے حلف اٹھایا ، بعض اراکین با امر مجبوری تقریب حلف برداری میں نہ پہنچ سکے جن میں تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان، شاہ محمود قریشی ، جمعیت علماء اسلام ف کے قائد مولانا فضل الرحمان اور جمشید دستی شامل ہیں ۔ خو ش آئند پہلو یہ ہے کہ الیکشن کے حوالے سے کئے جانے والے تمام تر منفی پروپیگنڈے کے باوجودجمہوریت کی جیت ہوئی اور جمہوری عمل مکمل ہوا ۔
آج اسمبلی کا دوسرا مرحلہ یعنی سپیکر کا انتخاب ہونے جارہا ہے جس کے مسلم لیگ ن نے سپیکر کے عہدے کے لئے سردار ایاز صادق اور ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لئے مرتضیٰ عباسی کو نامزد کیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے سپیکر شپ کے لئے یوسف تالپور اور ڈپٹی سپیکر کے لئے غلام یوسف کو نامزد کیا ہے ، پاکستان تحریک انصاف نے سپیکر کے لئے شہر یار آفریدی اور ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لئے منزہ حسن کو نامزد کیا ہے جبکہ ایم کیو ایم بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی اور اس نے بھی سپیکر کے لئے اقبال بخاری اور ڈپٹی سپیکر کے لئے کشور زہرہ کو نامزد کیا ہے ، یوںاس مرتبہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے لئے چارسیاسی جماعتوں کے ارکان میدان میں ہیں۔
قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کو دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کو واضح اکثریت حاصل ہے یوں ان کے دونوں امیدوار آسانی سے جیت جائیں گے، مگر مقابلے پر آنے والی سیاسی پارٹیوں نے میدان کو خالی چھوڑنا کسی صورت گوارہ نہ کیا اور یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ ہار جیت سے قطع نظر ہر حال میں جمہوریت کے عمل کو رواں رکھنے کے لئے اپنا سیاسی کردار ادا کیا جائے۔ مسلم لیگ ن کے مقابل امیدوار کھڑے کرنے کے فیصلے کی علامتی حیثیت ہے۔اس کا مقصد حکومت کو یہ پیغام دینا ہے کہ حزب اختلاف سنجیدگی کے ساتھ حکومتی اقدامات کی نگرانی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ملک کی بعض اہم سیاسی شخصیات کی کوشش ہے کہ وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر متفقہ طور پرمیاں نوازشریف کو منتخب کرلیا جائے تاہم اس سلسلے میں ابھی کوئی ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔
اپوزیشن جماعتیں متفقہ امیدوار کیوں نہیں دے سکیں؟ تو اس کی وجہ ان کے نظریاتی اور سیاسی اختلافات ہیں، پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے کسی طور اتفاق نہیں ہو سکتاکیونکہ ان کے نظریات میں اتنی دوری ہے کہ ان کو اکٹھا کرنا گویا ایک بہت بڑی خلیج کو پاٹنے کے مترادف ہے ، تاہم ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی پہلے بھی اتحادی رہ چکی ہیں ان کا جدا جدا راستے اختیار کرنا حیران کن ہے مگر کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے اس لئے مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ کب سیاسی پارٹیاں پھر سے ایک ہو جائیں ، جیسے کسی زمانے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ کبھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں مگر پھر حالات ایسے ہوئے کہ دونوں شیر و شکر ہو گئیں ، اسی طرح مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کا اتحادی بننا بھی سب کے سامنے ہے۔
مسلم لیگ ن کی طرف سے نامزد سپیکر سردار ایاز صادق پر قومی اسمبلی کا سپیکر منتخب ہونے کے ایوان کو غیر جانبداری سے چلانے کی بھاری ذمہ داری عائد ہو جائے گی ، عوام نے جس طرح مسلم لیگ ن کو بھاری مینڈیٹ دے کر اپنی امیدیں اور ترقی کے خواب ان کی جھولی میں ڈال دئیے ہیں اسی طرح انھیں سپیکر منتخب ہونے والی شخصیت سے بھی توقع ہو گی کہ وہ سپیکر شپ کے عہدے کے فرائض دیانت سے انجام دیں گے ۔
پاکستان کی نئی قومی اسمبلی کے ممکنہ سپیکر سردار ایاز صادق 17اکتوبر1954ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر لاہورکے حلقہ این اے 122پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ اس سے قبل بھی وہ ن لیگ ہی کے پلیٹ فارم سے رکن اسمبلی رہ چکے ہیں تاہم اس سے پہلے ان کی سیاسی وابستگی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ تھی، ایاز صادق نے 1975ء میں ہیلے کالج پنجاب یونیورسٹی سے بی کام کی ڈگری حاصل کی اور پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں ، وہ 1994ء سے سردار ٹرسٹ آئی ہوسپٹل کے چیئر مین ہیں ، مشرق وسطیٰ،چین، مشرق بعید،امریکااور یورپی یونین کے ممالک کے دورے کر چکے ہیں، مطالعہ ، سیاحت اور کرکٹ ان کے مشاغل میں شامل ہیں، 2002 ء کے انتخابات میں بھی اسی حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے، جبکہ 2013 ء کے انتخابات میں یہ تیسری مرتبہ رکن قومی اسمبلی بنے ہیں ۔ قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے دفاع، مواصلات اور ریلویز کے شعبوں میں قانون سازی ان کی ترجیحات میں شامل رہی جبکہ دفاع اور لوکل گورنمنٹ اور رورل ڈیویلپمنٹ پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے رکن رہ چکے ہیں۔ سردار ایاز صادق دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے باپ ہیں ۔
مسلم لیگ نواز کی جانب سے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لئے مرتضیٰ جاوید عباسی کو سامنے لایا گیا ہے۔ وہ 15مارچ 1970ء کو ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے۔ تعلیم ڈگری کالج ایبٹ آباد سے حاصل کی۔ حالیہ انتخابات میں انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 18(ایبٹ آباد2) پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سردار محمد یعقوب کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی ۔ 2008ء کے انتخابات میں بھی انھوں نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سردار یعقوب کو شکست سے دوچار کیا تھا جو اس وقت مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے تھے۔
قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے لئے دیگر اہم جماعتوں نے بھی اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے سپیکر کے لئے شہریار آفریدی اور ڈپٹی سپیکر کے لئے منزہ حسن جبکہ ایم کیو ایم نے بالترتیب اقبال بخاری اور کشور زہرہ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے یوسف تالپور اور غلام یوسف کو میدان میں اتارا ہے۔