انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے خصوصی کمیٹی کی منظوری
یہ فیصلہ جمہوری اقدار کی مضبوطی اور مثبت سیاسی روش کے تناظر میں خوش آیند قرار دیا جاسکتا ہے۔
انتخابات کے بعد اکثر سیاسی جماعتوں کی جانب سے نتائج پر اعتراضات اور دھاندلی کے الزامات عائد کرنا نئی بات نہیں لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ملک میں جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں منگل کو عام انتخابات 2018 میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے بااختیار خصوصی کمیٹی کی تشکیل کی تحریک کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ جمہوری اقدار کی مضبوطی اور مثبت سیاسی روش کے تناظر میں خوش آیند قرار دیا جاسکتا ہے۔ فیصلے میں قرار پایا ہے کہ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کی مساوی نمایندگی ہوگی اور وزیراعظم عمران خان مشاورت سے خصوصی کمیٹی کے چیئرمین کی نامزدگی کریں گے، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو خصوصی کمیٹی میں ردوبدل کا اختیار ہوگا۔
قبل ازیں وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے ایوان میں تحریک پیش کی کہ قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر اور کنڈکٹ آف بزنس کی شق 244 کے تحت خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جو دھاندلی کے الزامات کے لیے ٹرمز آف ریفرنس کی تیاری سمیت اس کی تحقیقات کرکے مناسب وقت میں اس کی رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت نے الیکشن 2018 کی تحقیقات کے لیے اپوزیشن کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، ہم جمہوریت کے استحکام اور جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں، کمیٹی مکمل بااختیار ہوگی۔ بلاشبہ مذکورہ فیصلہ کئی جہات میں مثبت پہلو لیے ہوئے ہے۔ تاریخی طور پر، انتخابات کے بعد سیاسی جماعتیں نتائج سے اختلاف کرتی رہی ہیں، ماضی میں ان سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزمات لگائے جو انتخابات ہار گئیں، زیادہ دور کیوں جائیں۔
عمران خان کی زیر قیادت، پاکستان تحریک انصاف کا سارا دھرنا اس وجہ سے تھا کہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی، پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ بعض حلقوں میں ریٹرننگ افسروں کی طرف سے انتخابی نتائج کو تبدیل کیا گیا، مگر اس بار یہ عجب بات ہوئی کہ نہ صرف ہارنے والی جماعتوں بلکہ فاتح جماعتوں کی جانب سے بھی نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا، جب کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی جانب سے کھل کر یہ کہا گیا کہ پورے زور شور کے ساتھ قبل از انتخابات ہی دھاندلی کی جارہی ہے۔ انتخابات میں ''پولیٹیکل انجینئرنگ'' کے الزامات بھی سامنے آئے۔ اس تناظر میں قوم میں بے چینی اور وسوسوں کا پھیلنا لازمی امر تھا۔
بلاشبہ وزیراعظم عمران خان نے ابتدا ہی میں دھاندلی کی تحقیقات کا عندیہ دے دیا تھا اور قومی اسمبلی کا حالیہ فیصلہ اس بات کا عکاس ہے کہ جمہوریت کی بقا کے لیے حکومت راست اقدامات کررہی ہے۔ امید ہے کہ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف مذکورہ کمیٹی حقائق سامنے لاکر قوم کے تحفظات دور کرنے کا باعث بنے گی، نیز آیندہ کے لیے ایسے ابہام کو یکسر ختم کرنے کے لیے پیشگی لائحہ عمل اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ صائب ہوگا کہ ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
یہ فیصلہ جمہوری اقدار کی مضبوطی اور مثبت سیاسی روش کے تناظر میں خوش آیند قرار دیا جاسکتا ہے۔ فیصلے میں قرار پایا ہے کہ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کی مساوی نمایندگی ہوگی اور وزیراعظم عمران خان مشاورت سے خصوصی کمیٹی کے چیئرمین کی نامزدگی کریں گے، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو خصوصی کمیٹی میں ردوبدل کا اختیار ہوگا۔
قبل ازیں وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے ایوان میں تحریک پیش کی کہ قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر اور کنڈکٹ آف بزنس کی شق 244 کے تحت خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جو دھاندلی کے الزامات کے لیے ٹرمز آف ریفرنس کی تیاری سمیت اس کی تحقیقات کرکے مناسب وقت میں اس کی رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت نے الیکشن 2018 کی تحقیقات کے لیے اپوزیشن کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، ہم جمہوریت کے استحکام اور جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں، کمیٹی مکمل بااختیار ہوگی۔ بلاشبہ مذکورہ فیصلہ کئی جہات میں مثبت پہلو لیے ہوئے ہے۔ تاریخی طور پر، انتخابات کے بعد سیاسی جماعتیں نتائج سے اختلاف کرتی رہی ہیں، ماضی میں ان سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزمات لگائے جو انتخابات ہار گئیں، زیادہ دور کیوں جائیں۔
عمران خان کی زیر قیادت، پاکستان تحریک انصاف کا سارا دھرنا اس وجہ سے تھا کہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی، پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ بعض حلقوں میں ریٹرننگ افسروں کی طرف سے انتخابی نتائج کو تبدیل کیا گیا، مگر اس بار یہ عجب بات ہوئی کہ نہ صرف ہارنے والی جماعتوں بلکہ فاتح جماعتوں کی جانب سے بھی نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا، جب کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی جانب سے کھل کر یہ کہا گیا کہ پورے زور شور کے ساتھ قبل از انتخابات ہی دھاندلی کی جارہی ہے۔ انتخابات میں ''پولیٹیکل انجینئرنگ'' کے الزامات بھی سامنے آئے۔ اس تناظر میں قوم میں بے چینی اور وسوسوں کا پھیلنا لازمی امر تھا۔
بلاشبہ وزیراعظم عمران خان نے ابتدا ہی میں دھاندلی کی تحقیقات کا عندیہ دے دیا تھا اور قومی اسمبلی کا حالیہ فیصلہ اس بات کا عکاس ہے کہ جمہوریت کی بقا کے لیے حکومت راست اقدامات کررہی ہے۔ امید ہے کہ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف مذکورہ کمیٹی حقائق سامنے لاکر قوم کے تحفظات دور کرنے کا باعث بنے گی، نیز آیندہ کے لیے ایسے ابہام کو یکسر ختم کرنے کے لیے پیشگی لائحہ عمل اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ صائب ہوگا کہ ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔