امتحانی کاپیاں رومن میں گانے لکھ دیے

ذرا سوچیے اس بچی کی ذہانت کا کیا معیار ہے جو پڑھائے جانے والے کیمسٹری کی کتاب میں خامیاں ڈھونڈ سکتی ہے۔

اس برس میٹرک کے نتائج پچھلے برس 2017ء کے مقابلے میں مایوس کن رہے، اے گریڈ اور اے پلس کے طالب علموں کی تعداد میں پچھلے برس کے مقابلے میں اور بھی کمی نظر آئی ۔ اسی طرح بی گریڈ والوں کا بھی حال رہا ، 2017ء کے امتحانات میں بچوں کے ساتھ کیا ہوا ۔کیا بچوں نے محنت نہیں کی ،کیا صرف چھاپے خانے ہی چلتے رہے اور اگر چھاپے خانے چلتے رہے تو پھر رزلٹ میں خراب صورتحال کیوں نظر آئی تھی ۔ مخصوص اسکولوں کے رزلٹ کیوں بہتر رہے، یہ بہت سے سوالات تھے جو پچھلے برس بھی ابھرے تھے اور اسی برس بھی یہ سوالات بالکل اسی مانند گردش کر رہے ہیں۔

2017ء کے بعد 2018ء میں بچوں کے پاس ہونے کی شرح میں کمی مزید کمی دیکھی گئی، یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے جس سے نمٹنا اشد ضروری ہوگیا ہے لیکن جس طرح ہمارے یہاں دیگر شعبوں میں تساہل اور غیر ذمے داری کا سلوک برتا جاتا ہے، وہیں تعلیم جیسے اہم شعبے کو بھی بری طرح سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

اس کی مثال یوں لیں کہ حال ہی میں بلوچستان میں غالباً کسی ایک غیر سرکاری تنظیم کے تحت اساتذہ کے حساب کا ٹیسٹ لیا گیا لیکن پڑھانے والے حضرات کے اپنے رزلٹ کی صورتحال انتہائی بری رہی اور نمبروں کی گنتی تیس فی صد سے اوپر نہ جاسکی جہاں پڑھانے والوں کی یہ حالت ہوگی ،وہاں کے پڑھنے والوں بچوں کی کیا حالت ہوگی ، تب ہی 2018ء کے بارہویں جماعت میں سائنس (میڈیکل) گروپ سے پاس ہونے والی ایک طالبہ کا کہنا ہے کہ کیمسٹری کی کتاب میں بہت سی خامیاں ہیں۔

ذرا سوچیے اس بچی کی ذہانت کا کیا معیار ہے جو پڑھائے جانے والے کیمسٹری کی کتاب میں خامیاں ڈھونڈ سکتی ہے، بات صرف اتنی سی ہے کہ یقینا ہمارے بچے اور اساتذہ بھی ذہین ہیں۔ اساتذہ کے حوالے سے اگر یوں کہاجائے کہ وہ اساتذہ جو پرائیویٹ اداروں میں عرق ریزی کرکے پڑھاتے ہیں اور ان کو سرکاری اداروں کے مقابلے میں آدھی تنخواہوں سے نوازا جاتا ہے۔ ویسے یہ بات آج کل کے زمانے میں اس قدر عام ہوچکی ہے کہ خاص کر دیہی علاقوں کے لوگ شعبہ تعلیم کو للچائی نظروں سے ایک ذمے دار نوکری کی وجہ سے نہیں بلکہ موٹی تنخواہ کی وجہ سے دیکھتے ہیں اور اسی طرح کے عناصر تعلیم میں دیمک کا کام انجام دے رہے ہیں۔

میٹرک کے امتحانات کے نتائج کے ایک مہینہ گزر جانے کے باوجود گیارہویں جماعت میں داخلوں کا کام اس امرکو انجام دینے والی گزشتہ کمیٹی کی نا اہلی کے باعث تاخیر کا شکار رہی جس سے تعلیمی دور اپنے میں مزید سکڑاؤ پیدا ہونے کے چانس پیدا ہوگئے ، جو ویسے ہی ہمارے ملک میں ہڑتالوں، جھگڑے، دھرنے اور وقفے وقفے سے ہونے والی ریلیوں اور ریلے کے باعث تعطل پیدا کرتے رہتے ہیں ۔

بہر حال بات ہورہی تھی بچوں کے برے نتائج کی جو سال بہ سال ہیبت ناک ہوتے جارہے ہیں اس سال 2018ء کے بارہویں جماعت کے سائنس میڈیکل گروپ کے رزلٹ بھی 54 فی صد رہے جب کہ کالجزکی ایک اچھی خالی لمبی فہرست تھی کہ جن میں کوئی بھی طالب علم پاس نہ ہوسکا۔ اسی طرح اسی سے سو فی صد رزلٹ آنے والے کالجز کی تعداد بھی نمایاں رہی جس نے صفر فی صد رزلٹ رکھنے والے کالجزکی بری کارکردگی کے سامنے ظاہر کیا کہ ہمت ہر حال میں برقرار رکھنی ضروری ہے۔


ہمارے اساتذہ غیر ذمے داری سے پڑھاتے ہیں ہمارے بچے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ موبائل فونز اور انٹرنیٹ کے سحر میں الجھے رہتے ہیں، ان دونوں کے درمیان ایک اہم شعبہ اور بھی ہے جسے ہم سب نظر انداز کردیتے ہیں وہ ہیں کاپی چیکنگ کا شعبہ جس کی نا مناسب کارکردگی سے نہ صرف سندھ میں بلکہ پنجاب میں بھی بچوں کے نتائج پر برا اثر پڑتا ہے۔

کاپی چیک کرنا بہت ذمے داری کا کام ہے ایک ایک لفظ کو دیکھنا، غور سے پڑھنا، نمبروں کی گنتی کرنا یہ آسان کام نہیں ہے ایک کاپی بہت دیر میں چیک ہوتی ہے ایک قابل ٹیچر کے یہ جملے آج بھی یاد ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ کاپیاں بچوں کی سارا سال کی محنت کا نچوڑ ہوتی ہیں جب کہ آج کے دور میں یہ کام تجارت بن گیا ہے۔ نویں اور دسویں جماعت کی ایک کاپی اور نوے کی دہائی میں غالباً تین روپے کے حساب سے چیک کی جاتی تھی جب کہ آج کل بیس روپے فی کاپی کے حساب سے چیک کی جاتی ہے۔ گو مہنگائی کے اس دور میں یہ قیمت خاصی کم ہے لیکن ماہرین اس کمی کو بخوبی پورا کرنا بھی جانتے ہیں۔

ایک کاپی چیک کرنے میں کم ازکم دس منٹ تو لگتے ہیں، ویسے پندرہ منٹ بھی لگ جاتے ہیں کیونکہ یہ ذمے داری کا کام ہے اور انگریزی کی کاپیاں چیک کرنا ویسے بھی مشکل ہے کیونکہ بچے خاص کر سرکاری اسکولوں کے بچے بہت الجھا دیتے ہیں جواب میں رومن میں گانے تک لکھ دیتے ہیں، لیکن اگر صاف کام ہو اچھا لکھا ہوا ہو تو کم از کم دس منٹ تو لگتے ہی ہیں۔

عام طور پر ٹیچرز کتنی دیر لگاتے ہیں ایک کاپی چیک کرنے میں ؟مسکراہٹ کے ساتھ جواب ملا کہ لوگ تو دس منٹ میں چار چار کاپیاں چیک کرلیتے ہیں۔ دوسرے مضامین کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا وہاں بھی کاپی چیکرز کا یہی رویہ ہوتا ہے؟ دوسرے مضامین کے بارے میں تو سنا ہے کہ خاصی بری حالت ہے کاپیوں کی چیکنگ کے حوالے سے ذرا معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو بہت دکھ ہوا ۔ کاپیاں چیک کرنے کے حوالے سے پڑھے لکھے چپراسی (میٹرک پاس) ٹیچر حضرات کے جاننے والے عزیز و اقارب وغیرہ کو کاپی چیکنگ کے لیے یوں تعلقات کی بنیاد پر بلایا جاتا ہے جیسے لوٹ کے مال پر سیل لگی ہو۔

آج کل بہت سے بچوں کی جن کی لکھائی اچھی اور خوبصورت ہو انھیں اس قسم کی صورتحال سے بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ کاپی چیک کرنے والا لکھائی دیکھ کر ہی متاثر ہوجاتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سے فیل ہونے والے بچے بھی اپنی اچھی لکھائی کے باعث پاس ہوجاتے ہیں۔

جب کہ وہ بچے جو بہت محنت سے پڑھتے ہیں لیکن ان کی لکھائی خوبصورت نہیں ہے ان کے نمبرز کم آتے ہیں کیونکہ کاپی چیک کرنے والا بچے کی قابلیت کو تو سمجھ ہی نہیں سکا وہ پہلے اس کی لکھائی دیکھتا ہے کہ کام کیسے لکھا ہے کاپی کو بہت سجانے سنوارنے والوں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے کچھ کاپی چیکرز متاثر ہوکر نمبر دے دیتے ہیں جب کہ کچھ یہ سوچ کر نمبر نہیں دیتے کہ بچے نے وقت ضایع کیا ہے، ہمارے زمانے میں ایسا نہیں تھا ہماری ایک فرینڈ جس کی لکھائی خاصی خراب تھی لیکن اس کی ہمیشہ اچھی ڈویژن آئی ،اچھے گریڈز رہے اور اس نے کامیابی حاصل کی وہ آج ایک کامیاب ڈاکٹر ہے۔

میرا خیال ہے کہ ہمیں کاپی چیکنگ کے شعبے میں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے، لوگ پیسوں کی لالچ میں بنڈل کے بنڈلز لے جاتے ہیں۔ ایک خاص وقت میں توجہ سے وہ کیسے ڈھیروں کاپیاں چیک کرسکتے ہیں۔ ہم ہر بار صرف پڑھانے والے ٹیچرز اور بچوں پر الزام لگاکر عہدہ برآں نہیں ہوسکتے، ایک ذمے دار ٹیچر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ذرا سوچیے ہم کس طرح اپنے بچوں میں بلا وجہ ناکامی کا ڈپریشن ٹھونس رہے ہیں۔
Load Next Story