میری گاڑی کے آگے جھنڈا
ویسے اس بات کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن تاریخ کے اوراق میں ایک اہم کردار میک آرتھر بھی گزرا ہے۔
وقت بڑی ظالم چیز ہے۔ بادشاہ جسے قتل کرکے جشن منا رہا ہوتا ہے، تاریخ اُسی قتل ہونے والے کو ''ہیرو''کہتی ہے،کیونکہ اُس نے وقت کے حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھائی ہوتی ہے ۔ جن کی لاشیں بھی غائب کر دی جاتی ہیں، لوگ اُس منصورکو تو یاد رکھتے ہیں لیکن وقت کے اُس گورنرکا نام بھی یاد نہیں ہوتا۔ آنے والی سیکڑوں نسلیں سقراط کو تو جانتی ہے لیکن کسی کو یاد نہیں ہوگا کہ سیکڑوں لوگوں کی عدالت میں کون لوگ تھے ،جنھوں نے سقراط کے خلاف فیصلہ دیا ۔کیا جن کے نام لینے پر آج پابندی ہے وہ کل کے ہیرو ہونگے؟کیا آج جو لوگ کہتے ہیں کہ
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
یہ نعرہ لگانے والے کل ایک ہیروکے طور پر پیش کیے جائیںگے؟ تاریخ بھی ظالم ہے۔ جیسے آج کل حکمران ہر سبق کو سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، بالکل انھیں چاہیے کہ تاریخ پر بھی ایک نظر دوڑا لیں، جو تجربات وہ کرنا چاہتے ہیں اُسے چند کتابیں پڑھ کر سمجھ لیں ، ڈیگال کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ یہ وہ ہی فرانس کا عظیم لیڈر تھا جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ فرانس میں 12 نومبرکو اتنے سربراہ مملکت جمع ہوئے جتنے کبھی تاریخ میں نہیں ہوئے ۔
یہ وہ دن تھا جب چارلس ڈیگال کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں ۔ یہ وہ ہی ڈیگال تھا جس نے وصیت کی تھی کہ میری آخری رسومات انتہائی سادگی سے کی جائیں ۔ مجھے میرے گاؤں میں بیٹی کے برابر میں دفن کیا جائے اور قبرکے کتبے پر بس اتنا لکھا جائے کہ چارلس ڈیگال۔ ڈیگال کے کارناموں پر میں بات نہیں کرنا چاہتا ۔اس کے حوالے سے بس دو باتیں کہنا چاہ رہا ہوں ۔ چارلس کی ایک بہت مشہورکتاب تھی جس کا نام ہے ''تلوارکی نوک'' ۔
اس میں چارلس نے لکھا تھا کہ ایک قائد کے لیے تین اہم خصوصیات ہوتی ہیں ۔ پہلی یہ کہ راستے کا صحیح تعین ہو، وہ بار بار''یوٹرن '' نہ لیتا ہو۔ دوسری یہ ہے اُس کے اندر ذہانت اور جبلت دونوں ہوں اور تیسری اہم بات یہ ہے لیڈر جس راستے پر قوم کوچلانا چاہتا ہے،اُس کے لیے لوگ تیارکیے جائیں جو اُس کے لیے اُس نظریے کی بنیاد پرکام کریں ۔ جب ابھی تک راستے کا تعین نہ ہو پائے، قوم کوچلانے کے لیے لوگ تیار نہ ہوں تو پھر کامیابی کیسے ملے گی؟
اب ڈیگال کا ایک قصہ بتاتا ہوں ۔ تاریخ میں 1940ء سے پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ جب کبھی بھی پیرس پر قبضہ ہوا، پورے فرانس نے ایک گھنٹے میں ہمت ہاردی تھی ۔ ڈیگال کو یہ تاریخ اچھی طرح معلوم تھی۔ 14 جون 1940ء کو فرانس پر جرمنی نے بہت بڑا حملہ کیا۔ پیرس جرمنی کے قبضے میں جا رہا تھا اور اکثر فرانسیسوں کے علاوہ دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ اب پورا فرانس چندگھنٹوں کی دوری پر ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ ہمت اور حوصلے سے کھڑے ہوئے۔ اکثریت یہ سمجھ رہی تھی کہ اب بس جنگ ختم ہونے والی ہے، لیکن چند لوگ مختلف سوچتے ہیں ۔
وہ ہی لوگ قائد ہوتے ہیں ۔ وہ ہی قومی دھارے کو بدل کر رکھ دیتے ہیں ۔ جب سب یہ سمجھ رہے تھے کہ جنگ ختم ہونے والی ہے، ایسے میں ڈیگال نے ایک نیا نعرہ بلند کیا۔اُس نے کہا جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ جنگ اب شروع ہوئی ہے۔ اُس نے ایک تاریخی جملہ کہا جس نے ایک نئی روح پھونک دی پوری جنگ کا نقشہ بدل گیا۔اُس نے کہا کہ '' فرانس نے ایک لڑائی ہاری ہے جنگ نہیں'' جنگ اب شروع ہوئی ہے۔ اُس کے اعلان نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ۔ بالکل اسی طرح آج کل کے کچھ صاحب اقتدار اوراختیارکو یہ بات بتانی ہے کہ جن لوگوں کے متعلق آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ سیاسی طور پر انھیں شکست ہوچکی ہے۔
ان کی زبان بندی ہوگئی اس کے بالکل مخالف وہ لوگ سوچ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ابھی ایک مقدمہ ہارے ہیں سیاسی جنگ نہیں ۔ان کا خیال ہے کہ ان ہی سزاؤں ، پابندیوں اورتوڑ پھوڑ کے بعد ہی اصل سیاست کا آغاز ہوگا ۔کراچی سے لے کر لاہور تک ایک خلا ہے۔ بظاہر سب اچھا ہے ۔ لیکن سیاسی چال بہت پختہ ہے ۔اب کھیل شروع ہونے والا ہے ۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ سیاست کے وہ بازی گرکہہ رہے ہیں جو جلد اپنے کارڈز پھینکنے والے ہیں ۔
مجھے نہیں پتہ کے موجودہ طاقت اور اختیار والے لوگوں نے''میکاولی''کو پڑھا ہے یا نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ 1999ء میں جب میاں صاحبان کے گھر سے بہت کچھ برآمد کر رہے تھے اُس وقت میکاولی کی کتاب اور ہٹلرکی کتاب جدوجہد بھی برآمد ہوئی تھی اوراُس پر ایک اخبار نے سرخی بھی لگائی تھی، لیکن مجھے یقین ہے جو لیڈران آج کل کرپشن کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں انھوں نے امریکا کے مشہور صدرکی کتاب بھی پڑھی ہوگی ۔
یہ واحد صدر نکسن ہے جسے واٹرگیٹ اسکینڈل میں گھرجانا پڑا ۔اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ، لیڈروں کو''اصولوں کی پاسداری'' کا سبق دیتے ہیں ۔ وہ لیڈروں کو بتاتے ہیں کہ انھیں سیاست دان بننے کی بجائے ایک ایسا اصول پسند آدمی بننا چاہیے جوکوئی ''سمجھوتہ'' نہ کرے ۔ نکسن اس کے بعد لکھتا ہے کہ اصل میں دنیا سمجھوتے کا ہی نام ہے اورسیاست دان بننے کے لیے اُسے وہ نہیں کرنا ہوتا جو بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میاں صاحبان نے یہ کتاب پڑھی ہو یا نہیں لیکن موجودہ حکومت اور عمران خان نے نکسن کی بات کو فائل سے نکال کر اپنی میزپر رکھ دیا ہے۔ وہ یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ ''اصولوںکی بات'' اپوزیشن میں رہتے ہوئے تو اچھی لگتی ہے لیکن حکمرانی کے میدان میں نہیں ۔ اب وہ بھی نکسن کے نقش قدم پر ہیں۔
نکسن بیچ میں کودگیا ، میں ڈیگال کی بات کر رہا تھا۔ ڈیگال اپنی ایک اورکتاب میں لکھتا ہے کہ سیاست دان اورخاص طور پر حکمران کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کب اُسے فریب دینا ہے اورکب کھل کرکھیلنا ہے ۔ایک سیاست دان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہزاروں سازشوں اور حلف برداریوںکے بعد ہی اُسے مکمل اقتدار نصیب ہوگا، اگر ڈیگال نے سیاست کا اصول ٹھیک لکھا ہے تو اس لیے جو لوگ لائے ہیں جو لا رہے ہیں جن کو لایا جا رہا ہے وہ سب لوگ فریب اور سازش کے لیے تیار ہوجائیں ۔ سیاست میں اقتدارکے بعد اختیارکی بھوک بڑھ جاتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کتنی سازشیں کرکے اختیار لیتا ہے یا پھراقتدار والوں کے پاس سے بالکل ہی اختیار رخصت ہو جاتا ہے ۔ اسکینڈل والے نکسن کا ایک اور جملہ یاد آگیا۔اپنی کتاب ''لیڈر'' میں اُس نے لکھا ہے کہ ''یوٹرن'' لینا لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے گا لیکن ایک لیڈرکے لیے لازم ہے ۔ پتہ نہیں یہ امریکا اور فرانس نے نکسن اور ڈیگال جیسے لوگوں کو کیوں منتخب کردیا۔ ان سے تو اچھے ہم لوگ ہیں، ہم کبھی ایسے لیڈرکا انتخاب کرتے ہی نہیں جو اتنی سازشوں کی بات کرے ۔ ہم نے تو ایسے لیڈر چنُے ہیں جن میں چنے کے دانے جتنی بھی سازش کرنے کی صلاحیت نہیں۔
ویسے اس بات کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن تاریخ کے اوراق میں ایک اہم کردار میک آرتھر بھی گزرا ہے۔ وہ ہی میک آرتھر جس نے جاپان کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کیا ۔ وہ ہی میک آرتھر جس کی امریکی صدر ٹرومین سے شدید جھڑپ ہوئی اور پھر انھیں تمام عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔
ان کی ایک بہت اہم تحریر تھی، جو ایک جملے سے مشہور ہوئی اور وہ جملہ تھا کہ ''پرانے سپاہی نہیں مرتے، وہ فقط نظروں سے غائب ہوتے ہیں'' آج کی تحریر میں دو اہم نکات تھے پہلا وہ ابتدائیہ جس کا میں نے ذکرکیا کہ سیاست میں پرانے لوگ نہیں مرتے۔انھیں چھپایا جائے یا یہ چھپ جائیں یہ لوگ سامنے آئیں گے اور دوسری بات ڈیگال اور نکسن کی تحریروں سے تھی۔ عمران خان تیزی سے یہ باتیں سمجھ رہے ہیں کہ سیاست میں عملی طور پر وہ نہیں ہوتا جو بچوں کو پڑھایا جاتا ہے، بلکہ یہ سمجھوتوں اور سازشوں کا کھیل ہے ۔
میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کتنی جلدی دلدل کی گہرائیوں کو ناپ سکتے ہیں۔ وہ سازشوں کوکتنی دور سے بھانپ سکتے ہیں اورکتنی تیزی کے ساتھ اختیار اوراقتدارکی لکیر کو پار کرتے ہیں۔ آج کل اسٹالن کا یہ جملہ بہت یاد آتا ہے کہ ''اگر حقائق اور نظریہ ایک دوسرے سے مطابقت نہ رکھتے ہو تو حقائق بدل دو'' آپ سوچیں حقائق بدل رہے ہیں یا نظریہ ، تب تک میں کسی بڑے آدمی کا دوست بننے کی کوشش کرتا ہوں، ہوسکتا ہے میری گاڑی کے آگے بھی جھنڈا لگ جائے۔
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
یہ نعرہ لگانے والے کل ایک ہیروکے طور پر پیش کیے جائیںگے؟ تاریخ بھی ظالم ہے۔ جیسے آج کل حکمران ہر سبق کو سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، بالکل انھیں چاہیے کہ تاریخ پر بھی ایک نظر دوڑا لیں، جو تجربات وہ کرنا چاہتے ہیں اُسے چند کتابیں پڑھ کر سمجھ لیں ، ڈیگال کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ یہ وہ ہی فرانس کا عظیم لیڈر تھا جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ فرانس میں 12 نومبرکو اتنے سربراہ مملکت جمع ہوئے جتنے کبھی تاریخ میں نہیں ہوئے ۔
یہ وہ دن تھا جب چارلس ڈیگال کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں ۔ یہ وہ ہی ڈیگال تھا جس نے وصیت کی تھی کہ میری آخری رسومات انتہائی سادگی سے کی جائیں ۔ مجھے میرے گاؤں میں بیٹی کے برابر میں دفن کیا جائے اور قبرکے کتبے پر بس اتنا لکھا جائے کہ چارلس ڈیگال۔ ڈیگال کے کارناموں پر میں بات نہیں کرنا چاہتا ۔اس کے حوالے سے بس دو باتیں کہنا چاہ رہا ہوں ۔ چارلس کی ایک بہت مشہورکتاب تھی جس کا نام ہے ''تلوارکی نوک'' ۔
اس میں چارلس نے لکھا تھا کہ ایک قائد کے لیے تین اہم خصوصیات ہوتی ہیں ۔ پہلی یہ کہ راستے کا صحیح تعین ہو، وہ بار بار''یوٹرن '' نہ لیتا ہو۔ دوسری یہ ہے اُس کے اندر ذہانت اور جبلت دونوں ہوں اور تیسری اہم بات یہ ہے لیڈر جس راستے پر قوم کوچلانا چاہتا ہے،اُس کے لیے لوگ تیارکیے جائیں جو اُس کے لیے اُس نظریے کی بنیاد پرکام کریں ۔ جب ابھی تک راستے کا تعین نہ ہو پائے، قوم کوچلانے کے لیے لوگ تیار نہ ہوں تو پھر کامیابی کیسے ملے گی؟
اب ڈیگال کا ایک قصہ بتاتا ہوں ۔ تاریخ میں 1940ء سے پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ جب کبھی بھی پیرس پر قبضہ ہوا، پورے فرانس نے ایک گھنٹے میں ہمت ہاردی تھی ۔ ڈیگال کو یہ تاریخ اچھی طرح معلوم تھی۔ 14 جون 1940ء کو فرانس پر جرمنی نے بہت بڑا حملہ کیا۔ پیرس جرمنی کے قبضے میں جا رہا تھا اور اکثر فرانسیسوں کے علاوہ دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ اب پورا فرانس چندگھنٹوں کی دوری پر ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ ہمت اور حوصلے سے کھڑے ہوئے۔ اکثریت یہ سمجھ رہی تھی کہ اب بس جنگ ختم ہونے والی ہے، لیکن چند لوگ مختلف سوچتے ہیں ۔
وہ ہی لوگ قائد ہوتے ہیں ۔ وہ ہی قومی دھارے کو بدل کر رکھ دیتے ہیں ۔ جب سب یہ سمجھ رہے تھے کہ جنگ ختم ہونے والی ہے، ایسے میں ڈیگال نے ایک نیا نعرہ بلند کیا۔اُس نے کہا جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ جنگ اب شروع ہوئی ہے۔ اُس نے ایک تاریخی جملہ کہا جس نے ایک نئی روح پھونک دی پوری جنگ کا نقشہ بدل گیا۔اُس نے کہا کہ '' فرانس نے ایک لڑائی ہاری ہے جنگ نہیں'' جنگ اب شروع ہوئی ہے۔ اُس کے اعلان نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ۔ بالکل اسی طرح آج کل کے کچھ صاحب اقتدار اوراختیارکو یہ بات بتانی ہے کہ جن لوگوں کے متعلق آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ سیاسی طور پر انھیں شکست ہوچکی ہے۔
ان کی زبان بندی ہوگئی اس کے بالکل مخالف وہ لوگ سوچ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ابھی ایک مقدمہ ہارے ہیں سیاسی جنگ نہیں ۔ان کا خیال ہے کہ ان ہی سزاؤں ، پابندیوں اورتوڑ پھوڑ کے بعد ہی اصل سیاست کا آغاز ہوگا ۔کراچی سے لے کر لاہور تک ایک خلا ہے۔ بظاہر سب اچھا ہے ۔ لیکن سیاسی چال بہت پختہ ہے ۔اب کھیل شروع ہونے والا ہے ۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ سیاست کے وہ بازی گرکہہ رہے ہیں جو جلد اپنے کارڈز پھینکنے والے ہیں ۔
مجھے نہیں پتہ کے موجودہ طاقت اور اختیار والے لوگوں نے''میکاولی''کو پڑھا ہے یا نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ 1999ء میں جب میاں صاحبان کے گھر سے بہت کچھ برآمد کر رہے تھے اُس وقت میکاولی کی کتاب اور ہٹلرکی کتاب جدوجہد بھی برآمد ہوئی تھی اوراُس پر ایک اخبار نے سرخی بھی لگائی تھی، لیکن مجھے یقین ہے جو لیڈران آج کل کرپشن کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں انھوں نے امریکا کے مشہور صدرکی کتاب بھی پڑھی ہوگی ۔
یہ واحد صدر نکسن ہے جسے واٹرگیٹ اسکینڈل میں گھرجانا پڑا ۔اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ، لیڈروں کو''اصولوں کی پاسداری'' کا سبق دیتے ہیں ۔ وہ لیڈروں کو بتاتے ہیں کہ انھیں سیاست دان بننے کی بجائے ایک ایسا اصول پسند آدمی بننا چاہیے جوکوئی ''سمجھوتہ'' نہ کرے ۔ نکسن اس کے بعد لکھتا ہے کہ اصل میں دنیا سمجھوتے کا ہی نام ہے اورسیاست دان بننے کے لیے اُسے وہ نہیں کرنا ہوتا جو بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میاں صاحبان نے یہ کتاب پڑھی ہو یا نہیں لیکن موجودہ حکومت اور عمران خان نے نکسن کی بات کو فائل سے نکال کر اپنی میزپر رکھ دیا ہے۔ وہ یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ ''اصولوںکی بات'' اپوزیشن میں رہتے ہوئے تو اچھی لگتی ہے لیکن حکمرانی کے میدان میں نہیں ۔ اب وہ بھی نکسن کے نقش قدم پر ہیں۔
نکسن بیچ میں کودگیا ، میں ڈیگال کی بات کر رہا تھا۔ ڈیگال اپنی ایک اورکتاب میں لکھتا ہے کہ سیاست دان اورخاص طور پر حکمران کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کب اُسے فریب دینا ہے اورکب کھل کرکھیلنا ہے ۔ایک سیاست دان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہزاروں سازشوں اور حلف برداریوںکے بعد ہی اُسے مکمل اقتدار نصیب ہوگا، اگر ڈیگال نے سیاست کا اصول ٹھیک لکھا ہے تو اس لیے جو لوگ لائے ہیں جو لا رہے ہیں جن کو لایا جا رہا ہے وہ سب لوگ فریب اور سازش کے لیے تیار ہوجائیں ۔ سیاست میں اقتدارکے بعد اختیارکی بھوک بڑھ جاتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کتنی سازشیں کرکے اختیار لیتا ہے یا پھراقتدار والوں کے پاس سے بالکل ہی اختیار رخصت ہو جاتا ہے ۔ اسکینڈل والے نکسن کا ایک اور جملہ یاد آگیا۔اپنی کتاب ''لیڈر'' میں اُس نے لکھا ہے کہ ''یوٹرن'' لینا لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے گا لیکن ایک لیڈرکے لیے لازم ہے ۔ پتہ نہیں یہ امریکا اور فرانس نے نکسن اور ڈیگال جیسے لوگوں کو کیوں منتخب کردیا۔ ان سے تو اچھے ہم لوگ ہیں، ہم کبھی ایسے لیڈرکا انتخاب کرتے ہی نہیں جو اتنی سازشوں کی بات کرے ۔ ہم نے تو ایسے لیڈر چنُے ہیں جن میں چنے کے دانے جتنی بھی سازش کرنے کی صلاحیت نہیں۔
ویسے اس بات کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن تاریخ کے اوراق میں ایک اہم کردار میک آرتھر بھی گزرا ہے۔ وہ ہی میک آرتھر جس نے جاپان کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کیا ۔ وہ ہی میک آرتھر جس کی امریکی صدر ٹرومین سے شدید جھڑپ ہوئی اور پھر انھیں تمام عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔
ان کی ایک بہت اہم تحریر تھی، جو ایک جملے سے مشہور ہوئی اور وہ جملہ تھا کہ ''پرانے سپاہی نہیں مرتے، وہ فقط نظروں سے غائب ہوتے ہیں'' آج کی تحریر میں دو اہم نکات تھے پہلا وہ ابتدائیہ جس کا میں نے ذکرکیا کہ سیاست میں پرانے لوگ نہیں مرتے۔انھیں چھپایا جائے یا یہ چھپ جائیں یہ لوگ سامنے آئیں گے اور دوسری بات ڈیگال اور نکسن کی تحریروں سے تھی۔ عمران خان تیزی سے یہ باتیں سمجھ رہے ہیں کہ سیاست میں عملی طور پر وہ نہیں ہوتا جو بچوں کو پڑھایا جاتا ہے، بلکہ یہ سمجھوتوں اور سازشوں کا کھیل ہے ۔
میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کتنی جلدی دلدل کی گہرائیوں کو ناپ سکتے ہیں۔ وہ سازشوں کوکتنی دور سے بھانپ سکتے ہیں اورکتنی تیزی کے ساتھ اختیار اوراقتدارکی لکیر کو پار کرتے ہیں۔ آج کل اسٹالن کا یہ جملہ بہت یاد آتا ہے کہ ''اگر حقائق اور نظریہ ایک دوسرے سے مطابقت نہ رکھتے ہو تو حقائق بدل دو'' آپ سوچیں حقائق بدل رہے ہیں یا نظریہ ، تب تک میں کسی بڑے آدمی کا دوست بننے کی کوشش کرتا ہوں، ہوسکتا ہے میری گاڑی کے آگے بھی جھنڈا لگ جائے۔