ملزمان کیلیے ریلیف عارضی اپیلوں پر اثر نہیں پڑے گا وکلا

سزا معطلی کی درخواستیں ہائیکورٹ سن سکتی ہے اورفیصلے کی وجوہات کے بغیربھی نیب سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کرسکتی ہے،ماہرین

سزا معطلی کی درخواستیں ہائیکورٹ سن سکتی ہے اورفیصلے کی وجوہات کے بغیربھی نیب سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کرسکتی ہے،ماہرین۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلے کے حوالے سے ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ملزمان کیلیے یہ عارضی ریلیف ہے جس کا اثراصل اپیلوں کے فیصلے پرنہیں ہوتا، وہ فیصلہ اس سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔

ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ سزا معطلی کی درخواستیں ہائیکورٹ سن سکتی ہے اورفیصلے کی وجوہات کے بغیربھی نیب سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کرسکتی ہے،کچھ مقدمات کی نظیر موجود ہے۔

اعظم نذیرتارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ معطلی کی اپیلیں عدالت سن سکتی ہے، اگرا صل اپیلوںپرفیصلہ کیاجاتا تو ملزمان کے جودو ریفرنس ابھی زیر سماعت ہیں ان پر بھی اثر ہوسکتا تھا۔اس فیصلے کا کوئی اثراصل اپیلوںکے فیصلے پر نہیں ہوگا۔اگر اصل اپیلوں پر سماعت شروع ہوجاتی تو 2سے 3ماہ تک مکمل نہیں ہو سکتی تھی اس لیے سزا معطلی کی درخواستوں پر پہلے فیصلہ دینا ضروری تھا۔


قیصر امام ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسلام آبادہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے کا اصل اپیلوں کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گاکیونکہ عمومی طورپر ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو سرسری نظر ڈالنے کے بعد سزامعطلی کا ریلیف دیاجاتا ہے۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ججز سزامعطلی کی بجائے اصل اپیلوں کو سن کر فیصلہ دے دیتے ہیں۔مختصر فیصلے میں بغیر وجوہات دیے بھی نیب سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتی ہے کیونکہ اس حوالے سے دو سے تین مثالیں موجود ہیں۔

عدنان حیدررندھاوا ایڈووکیٹ نے کہا کہ سزا معطلی اورضمانت کا مطلب ہے کہ نیب ہائیکورٹ کو قائل کرنے میں ناکام رہی ہے۔کیپٹن (ر)صفدرکی ایک سال سزا اورمریم نوازکے خاتون ہونے پر سزا معطلی کاامکان تو زیادہ تھا ہی لیکن نواز شریف کی دس سالہ سزا کا بھی معطل ہو جانا ظاہرکرتا ہے کہ ہائیکورٹ احتساب عدالت کے فیصلے کے قانونی جواز سے بالکل مطمئن نہیں ہو سکی۔

آصف علی تمبولی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا شریف فیملی کی رہائی کا فیصلہ نیب کی جلد بازی میںکی گئی کمزور تفتیش کا نتیجہ ہے،نیب نے پروفیشنل تفتیش کی بجائے جلد بازی میں اپنا مقدمہ کمزورکردیا۔

 
Load Next Story