پیغامِ کربلا
آج جن حکمرانوں نے قوم کو اس حال تک پہنچایا ہے، قوم کے ساتھ ہر لمحے جھوٹ بولا ہے، وہ وقت کے یزید ہیں۔
KARACHI:
آج یوم عاشور ہے۔آج سے چودہ صدیاں قبل وہ کیا دن تھا جب حسینؓ ابن علیؓ خود تو اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے لیکن اپنے ساتھیوں کو بار بار کہتے رہے کہ اگر وہ جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے ساتھیوں کو یہاں تک پیشکش کی کہ جب رات کے اندھیرے گہرے ہوں، چراغ گُل کر دیے جائیں اور انھیں جاتے ہوئے کوئی دیکھ بھی نہ سکے تو وہ جا سکتے ہیں۔
اپنی زندگی کے وہ خود مالک ہیں وہ جیسے چاہیں اپنی زندگی گزاریں، وہ قطعاً پابند نہیں کہ وہ بھی اصولی موقف کی خاطر نواسہ رسولؐ کے ساتھ کھڑے ہو کر دکھ و اذیت برداشت کریں۔ ان جانثار ساتھیوں کو بار بار کہا گیا کہ وہ رات کے اندھیرے میں جا سکتے ہیں تاکہ جاتے ہوئے انھیں شرمندگی کا بوجھ بھی برداشت نہ کرنا پڑے لیکن ایسا نہیں ہوا اور حضرت امام حسینؓ کے ساتھ ان کے قافلے کے سارے ساتھی قوتِ ایمانی سے استقامت کی دیوار بن کر کھڑے رہے، ہو سکتا ہے کہ جانے والے مزید دس، بیس یا پچاس سال یا شاید اس سے بھی زیادہ جی لیتے لیکن آج ان کا نام ان بہادروں کے ساتھ نہ لیا جاتا جنھیں یقیناً اللہ کے ہاں عظیم مقام حاصل ہے۔
آج کے دن ہم اُس دن کو یاد کرتے ہیں جس دن حاکم وقت یزید کے ظلم نے حسینؓ کو امر کر دیا۔ وہ دن جس دن ارض کربلا پر خلافت راشدہ کو ملوکیت میں بدلنے کی کوشش کے خلاف سیدہ فاطمہؓ کے لعل، سبط رسولؐ، فرزند حیدر کرار حسین ابن علی نے کلمہ الحق کہتے ہوئے یزید کی بیعت سے انکار کا پرچم سر بلند رکھنے کی خاطر اپنی جان، اپنے بیٹوں ، بھتیجوں اور بھائی سمیت اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی قربانی دے کر قیامت تک کے دنیا بھر کے مسلمانوں کو
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پہ
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
کا ایسا درس دیا جو تاقیامت قطع استبداد کرد کا نشان بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ 1400برس گزر جانے کے باوجود اس حریت فکر اور حق کی خاطر جان لڑا دینے کے عزم کو حسینیت کا نام دیا جاتاہے۔سیدنا امام حسینؓ نے خلافت راشدہ کے دور میں پرورش پائی، انھوں نے اصحاب رسولؐ کو چلتے پھرتے، حکومت کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ بھلا کب یہ برداشت کر سکتے تھے کہ جس اسلام نے آزادی مساوات اور انصاف کا درس دیا ہے جس کی بنیاد پرخلفائے راشدین نے عادلانہ حکومت کی۔جب اس پاکیزہ نظام کی جگہ روم و ایران کے بادشاہوں کے طرز حکمرانی کو فروغ دیا جانے لگا۔ اس پر ظلم یہ کہ عوام سے زبر دستی بیعت بھی لی جانے لگی۔یہی وجہ ہے جب امام عالیٰ مقام کو یزید کی بیعت کے لیے مجبور کیا گیا تو آپؓ نے اس سے انکار کر دیا۔
اس وقت خود یزید کے دارالسطنت شام اور عراق سے ہزاروں افراد نے امام کو اپنی قیادت کے لیے بلایا کہ نظام حکومت میں جو خرابی پیدا ہو رہی ہے اسے درست کیا جائے۔ ملوکیت کے بجائے ایک مرتبہ پھر خلافت راشدہ کو زندہ کیا جائے۔ آپؓ ان لوگوں کے بار بار اصرار پر عراق روانہ ہوئے تو مدینہ میں آپ کے تمام رشتہ داروں خاندان والوںاور دوستوں نے آپؓ کو منع کیا کہ ان کوفیوں کی باتوں پر نہ جائیں۔
یہ حکومت سے ڈر کر آپؓ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔لیکن آپؓ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اگر آپؓ اس وقت رک جاتے تو پھر ملوکیت کے خلاف آواز بلند کرنے والا کوئی باقی نہ رہتا اور امت میں خلافت و ملوکیت کا وہ فرق نمایاں نہ ہوتا جو آپؓ کے خون نے کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار میں لکیر کھینچ کر واضح کر دیا کہ خلافت کیا ہے اور ملوکیت کیا ہے۔
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ہم محض واقعات کو یاد کر کے نوحہ کناں ہوتے ہیں،ہم چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطرگروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم کربلا کے میدان کی اُس قربانی کو اپنے لیے مشعل راہ بناتے ہوئے اپنی زندگی اس واقعے سے حاصل سبق کے تحت گزاریں، ملک اور دین کے لیے وہ کچھ کریں جس کا وقت متقاضی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یزید ایک شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک سوچ کا نام ہے، حسین ؓ بھی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک نظریے کا نام ہے۔
آج جن حکمرانوں نے قوم کو اس حال تک پہنچایا ہے، قوم کے ساتھ ہر لمحے جھوٹ بولا ہے، وہ وقت کے یزید ہیں۔ آج ہمیں ظالم نظام کو بدلنے کے لیے یہ بندوق سے نہیں قلم اور علم سے جہاد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ایجوکیشن سسٹم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، یہاں طالب علم ڈگری کے لیے نہیں تعلیم کے لیے اداروں میں داخلہ لیں۔ آج تک کسی ملک نے ترقی نہیں کی جن کا لٹریسی ریٹ 90 فیصد سے کم ہو، جب کہ ہماری شرح خواندگی محض 20،25 فیصد ہے۔ اس قدر کم شرح خواندگی کے ساتھ کوئی ان وقت کے یزیدوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
حسین اور حسینیت ، محض ایک تاریخ کا نہیں بلکہ ایک سیرت اور طرزِ عمل کا نام ہے۔ ایک گائیڈ لائن کا نام بھی ہے کہ جس دین کے دامن میں ایک جانب ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی قربانی ہو اور دوسری جانب ذبح عظیم حضرت امام حسینؓ عالی مقام کی ان گنت قربانیاں ہوں تو یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس دین کی بقا کا ذمہ تو خود اللہ تعالی نے لے رکھا ہے اور یہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدائے بزرگ و برتر کا ہی معجزہ ہے۔
دوسری طرف معرکہ کربلا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ شعور، حریت ، خودداری ، جرات ، شجاعت ، ایثار وقربانی اور صبر و انقلاب کا مکمل فلسفہ ہے۔ اس کرب و بلا میں ننھے مجاہدوں کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا کسی جواں اور پیر سالہ کا۔ا س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا بچہ بچہ ہی کربلا شناس ہے جنہوں نے باوجود کم سنی کے بھی مقصد نبوی اور اسلام کو زندہ رکھا۔ ان کربلا کے شہیدوں نے اپنی جرات اور کردار و عمل سے اسلام کو ایک حیات جاودانی عطا کر دی۔
آج امام عالی مقام کا نام کیوں زندہ ہے اور یزید کیوں ایک طعنہ بن کر رہ گیا کیونکہ امام حسین ؓنے ہمیشہ حق داروں کا مظلوموں کا ساتھ دیا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے آیندہ آنے والی محکوم قوموں کو جدوجہد کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کر دیا ، امام کا فرماں ہے ''کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنی ہی زیادہ تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی۔ ''
یہاں یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ امام کی قربانیاں کسی ایک امت ، خاص فرقے یا کسی ایک مخصوص فرد کے لیے نہیں تھیں بلکہ امام کے نزدیک انسانیت کی بھلائی مقصود تھی ۔اُن کا ماننا تھا کہ اس زمین پر وہی رہے گا جو حق کے لیے کھڑا ہوگا ، چاہے اسے قربان ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔
آج یوم عاشور ہے۔آج سے چودہ صدیاں قبل وہ کیا دن تھا جب حسینؓ ابن علیؓ خود تو اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے لیکن اپنے ساتھیوں کو بار بار کہتے رہے کہ اگر وہ جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے ساتھیوں کو یہاں تک پیشکش کی کہ جب رات کے اندھیرے گہرے ہوں، چراغ گُل کر دیے جائیں اور انھیں جاتے ہوئے کوئی دیکھ بھی نہ سکے تو وہ جا سکتے ہیں۔
اپنی زندگی کے وہ خود مالک ہیں وہ جیسے چاہیں اپنی زندگی گزاریں، وہ قطعاً پابند نہیں کہ وہ بھی اصولی موقف کی خاطر نواسہ رسولؐ کے ساتھ کھڑے ہو کر دکھ و اذیت برداشت کریں۔ ان جانثار ساتھیوں کو بار بار کہا گیا کہ وہ رات کے اندھیرے میں جا سکتے ہیں تاکہ جاتے ہوئے انھیں شرمندگی کا بوجھ بھی برداشت نہ کرنا پڑے لیکن ایسا نہیں ہوا اور حضرت امام حسینؓ کے ساتھ ان کے قافلے کے سارے ساتھی قوتِ ایمانی سے استقامت کی دیوار بن کر کھڑے رہے، ہو سکتا ہے کہ جانے والے مزید دس، بیس یا پچاس سال یا شاید اس سے بھی زیادہ جی لیتے لیکن آج ان کا نام ان بہادروں کے ساتھ نہ لیا جاتا جنھیں یقیناً اللہ کے ہاں عظیم مقام حاصل ہے۔
آج کے دن ہم اُس دن کو یاد کرتے ہیں جس دن حاکم وقت یزید کے ظلم نے حسینؓ کو امر کر دیا۔ وہ دن جس دن ارض کربلا پر خلافت راشدہ کو ملوکیت میں بدلنے کی کوشش کے خلاف سیدہ فاطمہؓ کے لعل، سبط رسولؐ، فرزند حیدر کرار حسین ابن علی نے کلمہ الحق کہتے ہوئے یزید کی بیعت سے انکار کا پرچم سر بلند رکھنے کی خاطر اپنی جان، اپنے بیٹوں ، بھتیجوں اور بھائی سمیت اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی قربانی دے کر قیامت تک کے دنیا بھر کے مسلمانوں کو
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پہ
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
کا ایسا درس دیا جو تاقیامت قطع استبداد کرد کا نشان بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ 1400برس گزر جانے کے باوجود اس حریت فکر اور حق کی خاطر جان لڑا دینے کے عزم کو حسینیت کا نام دیا جاتاہے۔سیدنا امام حسینؓ نے خلافت راشدہ کے دور میں پرورش پائی، انھوں نے اصحاب رسولؐ کو چلتے پھرتے، حکومت کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ بھلا کب یہ برداشت کر سکتے تھے کہ جس اسلام نے آزادی مساوات اور انصاف کا درس دیا ہے جس کی بنیاد پرخلفائے راشدین نے عادلانہ حکومت کی۔جب اس پاکیزہ نظام کی جگہ روم و ایران کے بادشاہوں کے طرز حکمرانی کو فروغ دیا جانے لگا۔ اس پر ظلم یہ کہ عوام سے زبر دستی بیعت بھی لی جانے لگی۔یہی وجہ ہے جب امام عالیٰ مقام کو یزید کی بیعت کے لیے مجبور کیا گیا تو آپؓ نے اس سے انکار کر دیا۔
اس وقت خود یزید کے دارالسطنت شام اور عراق سے ہزاروں افراد نے امام کو اپنی قیادت کے لیے بلایا کہ نظام حکومت میں جو خرابی پیدا ہو رہی ہے اسے درست کیا جائے۔ ملوکیت کے بجائے ایک مرتبہ پھر خلافت راشدہ کو زندہ کیا جائے۔ آپؓ ان لوگوں کے بار بار اصرار پر عراق روانہ ہوئے تو مدینہ میں آپ کے تمام رشتہ داروں خاندان والوںاور دوستوں نے آپؓ کو منع کیا کہ ان کوفیوں کی باتوں پر نہ جائیں۔
یہ حکومت سے ڈر کر آپؓ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔لیکن آپؓ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اگر آپؓ اس وقت رک جاتے تو پھر ملوکیت کے خلاف آواز بلند کرنے والا کوئی باقی نہ رہتا اور امت میں خلافت و ملوکیت کا وہ فرق نمایاں نہ ہوتا جو آپؓ کے خون نے کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار میں لکیر کھینچ کر واضح کر دیا کہ خلافت کیا ہے اور ملوکیت کیا ہے۔
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ہم محض واقعات کو یاد کر کے نوحہ کناں ہوتے ہیں،ہم چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطرگروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم کربلا کے میدان کی اُس قربانی کو اپنے لیے مشعل راہ بناتے ہوئے اپنی زندگی اس واقعے سے حاصل سبق کے تحت گزاریں، ملک اور دین کے لیے وہ کچھ کریں جس کا وقت متقاضی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یزید ایک شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک سوچ کا نام ہے، حسین ؓ بھی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک نظریے کا نام ہے۔
آج جن حکمرانوں نے قوم کو اس حال تک پہنچایا ہے، قوم کے ساتھ ہر لمحے جھوٹ بولا ہے، وہ وقت کے یزید ہیں۔ آج ہمیں ظالم نظام کو بدلنے کے لیے یہ بندوق سے نہیں قلم اور علم سے جہاد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ایجوکیشن سسٹم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، یہاں طالب علم ڈگری کے لیے نہیں تعلیم کے لیے اداروں میں داخلہ لیں۔ آج تک کسی ملک نے ترقی نہیں کی جن کا لٹریسی ریٹ 90 فیصد سے کم ہو، جب کہ ہماری شرح خواندگی محض 20،25 فیصد ہے۔ اس قدر کم شرح خواندگی کے ساتھ کوئی ان وقت کے یزیدوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
حسین اور حسینیت ، محض ایک تاریخ کا نہیں بلکہ ایک سیرت اور طرزِ عمل کا نام ہے۔ ایک گائیڈ لائن کا نام بھی ہے کہ جس دین کے دامن میں ایک جانب ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی قربانی ہو اور دوسری جانب ذبح عظیم حضرت امام حسینؓ عالی مقام کی ان گنت قربانیاں ہوں تو یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس دین کی بقا کا ذمہ تو خود اللہ تعالی نے لے رکھا ہے اور یہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدائے بزرگ و برتر کا ہی معجزہ ہے۔
دوسری طرف معرکہ کربلا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ شعور، حریت ، خودداری ، جرات ، شجاعت ، ایثار وقربانی اور صبر و انقلاب کا مکمل فلسفہ ہے۔ اس کرب و بلا میں ننھے مجاہدوں کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا کسی جواں اور پیر سالہ کا۔ا س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا بچہ بچہ ہی کربلا شناس ہے جنہوں نے باوجود کم سنی کے بھی مقصد نبوی اور اسلام کو زندہ رکھا۔ ان کربلا کے شہیدوں نے اپنی جرات اور کردار و عمل سے اسلام کو ایک حیات جاودانی عطا کر دی۔
آج امام عالی مقام کا نام کیوں زندہ ہے اور یزید کیوں ایک طعنہ بن کر رہ گیا کیونکہ امام حسین ؓنے ہمیشہ حق داروں کا مظلوموں کا ساتھ دیا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے آیندہ آنے والی محکوم قوموں کو جدوجہد کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کر دیا ، امام کا فرماں ہے ''کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنی ہی زیادہ تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی۔ ''
یہاں یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ امام کی قربانیاں کسی ایک امت ، خاص فرقے یا کسی ایک مخصوص فرد کے لیے نہیں تھیں بلکہ امام کے نزدیک انسانیت کی بھلائی مقصود تھی ۔اُن کا ماننا تھا کہ اس زمین پر وہی رہے گا جو حق کے لیے کھڑا ہوگا ، چاہے اسے قربان ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔