اچھے مشیروں کی ضرورت کیوں
اچھے اور برے مشیروں کی تاریخ بہت قدیم لیکن انتہائی دل چسپ ہے۔
KARACHI:
حال ہی میں پی آئی اے کے ایم ڈی کے لیے دو ناموں کی تجویز سامنے آئی۔ ان میں سے ایک پہلے بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں، ان کے دور میں ادارے کا جو حال رہا ، وہ سب جانتے ہیں،اور امکان یہی ہے کہ پی آئی اے کے حکام کے لیے بھی وہ ناقابل قبول ہوتے، دوسرے صاحب اس عہدے کے لیے درکار پیشہ ورانہ مہارت ہی نہیں رکھتے اور ان کی واحد قابلیت کسی اہم شخصیت سے قریبی رشتے داری تھی۔
نہ صرف یہ کہ وہ اہم شخصیت اس بات سے بے خبر تھی کہ ان کا نام اس معاملے میں استعمال کیا جارہا ہے بلکہ وہ خود سختی سے ہدایات دے چکے ہیں کہ ان کے دوست یا قریبی عریز بھی ان کا نام استعمال کریں تو انھیں کوئی رعایت یا سہولت نہ دی جائے۔قابل تعریف بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے دونوں ہی نام مسترد کردیے۔ بعض بیوروکریٹ ایک تیر سے دو شکار کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور خود کو صاف بچا لیتے ہیں۔
اہم شخصیت کے پیشہ ورانہ اعتبار سے غیر موزوں قریبی عزیز کی تعیناتی کی صورت میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوجاتا، جس سے نہ صرف وزیر اعظم کو خفت کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ اس اہم شخصیت کے ساتھ ان کے تعلقات پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا۔ جب تک وزیر اعظم کے گرد ایسے بے اصول لوگ موجود ہیں، ''عاطف میاں تنازعے'' کی طرح پہاڑ ایسی غلطیوں کے لیے جانتے بوجھتے ماحول پیدا کیا جاتا رہے گا۔ اندازہ لگائیں، اس کی سیاسی مشکلات کا سامنا کسے کرنا پڑے گا؟
اپنے شعبے یا کسی خاص موضوع سے متعلق، گہرا فہم اور وسیع علم رکھنے کے ساتھ ساتھ حکومتی مشیر مختلف ذمے داریاں نبھانے اور متعدد شعبوں سے متعلق مہارت رکھتے ہیں۔ ایک مربّی یا رہبر کے طور پر وہ قیادت کے قریبی حلقوں کا لازمی جزو ہوتے ہیں، جو خصوصی مہارتوں اور علم کے ساتھ درست اور دانش مندانہ مشاورت کی قابلیت بھی رکھتے ہیں۔
کسی شعبے کی مہارت اور اختراع کی صلاحیت رکھنے والے مشیروں کو آج کے دور میں کاروبار، مالیاتی و تعلیمی اداروں، قانونی فرمز، انشورنس ہاؤسز اور حکومتوں وغیرہ کے لیے لازم و ملزوم تسلیم کیا جاتا ہے۔وزراء، وزیر اعظم ، صدر اور صاحبان منصب کو جہاں بروقت فیصلوں کی ضرورت ہو، مشیروں کو ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
یہ چابک دستی سے معلومات مرتب کرتے ہیں اور درپیش معاملے سے متعلق اس کے مکمل سیاق وسباق کے ساتھ ، جامع فہم اور تجزیہ اور ممکنہ آپشنز سے متعلق تجاویز حکومتی عہدیداروں کے سامنے لاتے ہیں۔ مشیروں کا انتخاب بہت احتیاط کے ساتھ کڑی چھان پھٹک کے بعد ہونا چاہیے اور ان ملکی مفاد ان کی اولین ترجیح ہونا چاہیے ، لیڈر کا مفاد ہمشیہ اس کے بعد ہی ہونا چاہیے اور ترجیحات کی یہ ترتیب کبھی فراموش نہیں ہونی چاہیے۔ کسی بھی مشیر کے دل میں اگر ذاتی مفادات و مقاصد کا شائبہ بھی پایا جاتا ہو تو یہ اہل اقتدار کے لیے تباہ کُن ثابت ہو سکتا ہے۔
اچھے اور برے مشیروں کی تاریخ بہت قدیم لیکن انتہائی دل چسپ ہے۔ ان میں سے چند معروف ناموں کا تذکرہ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے جو اپنے قائدین کی کامیابی میں مددگار ثابت ہوئے۔ 1) چانکیہ ایک انتہائی ماہر حکمت کار اور مشاق سیاست داں تھا، وہ کاروبارِ حکومت چلانے میں موریہ خاندان کے چندرگپتا کا مدد گار تھا۔ اس کی کتاب ''ارتھ شاستر'' کو ہندو سیاسیات اور سفارت کاری کے لیے مقدس صحیفہ تصور کیا جاتا ہے۔ (2 مغل شہنشاہ اکبر کے ہندو مشیر، بیربل کی دانش مندی بے مثال تھی، وہ اپنی حس مزاح اور مسائل کے حل اختراع کرنے کی بہترین صلاحیت کے باعث شہرت رکھتا تھا۔ 3) پروشیا، جو بعد ازاں جرمن سلطنت میں تبدیل ہوا، کے حکمراں ولہیلم اول کے وزیراعظم بسمارک نے مختلف جرمن رجواڑوں کو جرمن سلطنت کا حصہ بنایا اور مشہور عالم نوکر شاہی اور فوج کی بنیاد رکھی۔ یہلو چتسائی دنیا پر حکمرانی کرنے والے چنگیز خان کا معتمد اور مشیر تھا۔ اسی نے منگولوں کو اس بات پر قائل کیا تھا کہ مفتوحہ شہروں کو تاراج کرنے کے بجائے ان پر ٹیکس عائد کیے جائیں اور اس آمدن کو آیندہ فتوحات کے لیے استعمال کیا جائے۔ ان میں یہ قدر مشترک تھی کہ یہ اپنے حکمرانوں کے وفادار تھے اور منظرعام پر آنے کے بجائے پس منظر میں رہ کر کام کرتے تھے۔
بدقسمتی سے تاریخ میں ایسے مشیر بھی رہے جو نہ تو دیانتدار تھے اور نہیں لائق، کئی حکمراں اپنے ایسے ہی قریبی مشیروں کے فریب کا شکار رہے۔ ان کے اپنے مقاصد تھے، وہ طاقت کے حصول، جذبہ انتقام اور بعض صورتوں میں بے پناہ اختیار کی خواہش میں مگن رہے جب کہ دوسری جانب ان حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کرنے کے منصوبے بنتے رہے۔ کئی حکمراں اپنے مشیروں کے ہاتھوں عبرت ناک انجام کو پہنچے۔ برطانیہ کا شاہ ہنری ششم بہت سادہ لوح تھا اور اسے سیاست یا کاروبار ریاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس کے دور میں مشیروں کے چھوٹے سے گروہ نے ملک کا انتظام سنبھال لیا۔ آخر کار اس کے اہم اعزا اور مشیروں نے اسے حکمرانی کے لیے نااہل قرار دے دیا۔
1864ء میں امریکی لیڈروں نے جنرل یولیسس ایس گرانٹ پر اعتماد کیا اور انھیں 1865ء کی خانہ جنگی میں کامیابی حاصل ہوئی۔ 1869ء میں، یولیسس گرانٹ محض 46 برس کی عمر میں امریکا کا صدر منتخب ہوا، وہ اس وقت تک امریکی تاریخ کا کم عمر ترین منتخب صدر تھا۔ اگرچہ گرانٹ بہت محتاط تھا لیکن اس کی حکومت پر گھپلوں کے الزام لگے۔ گرانٹ کی بدقسمتی تھی کہ اس کے دیرینہ معتمد اور چیف آف اسٹاف جنرل رالنز کے علاوہ اس کے کئی قریبی مشیروں نے اسے دھوکا دیا۔ وہ رالنز کو اپنے ارد گرد لوگوں میں انتہائی ناگزیر تصور کرتا تھا لیکن بدقسمتی سے رالنز صرف اپنی تعیناتی کے محض پانچ ماہ بعد ہی ٹی بی میں مبتلا ہو کر مر گیا۔
رالنز کی موت کے بعد گرانٹ کے مشیر بے قابو ہوگئے۔ امریکی صدر کا سیکریٹری اورل بابکوک کرپشن میں ملوث پایا گیا، اس پر کیبنٹ ڈپارٹمنٹ اور تقرریوں میں گھپلوں کا الزام تھا۔ میدان جنگ کا ساتھی ہونے کی وجہ سے گرانٹ نے بابکوک پر ہونے والے سیاسی حملوں کا دفاع کیا۔ 1875ء میں جب ''وہسکی رنگ'' کے اسکینڈل میں بابکوک کا نام آیا تو صدر گرانٹ کے تحریری بیان کی وجہ سے اس کی بریت ممکن ہوئی۔ تاہم بابکوک کی وجہ سے کئی اسکینڈل سامنے آئے اور گرانٹ کی کابینہ کے بہترین افسران میں سے ایک سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیملٹن نے وہائٹ ہاؤس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔
بد قسمتی سے صدر گرانٹ نے کابینہ کے انتخاب میں اٹکل پچو سے کام لیا۔ ذاتی طور پر محتاط اور دیانت دار ہونے کے باوجود گرانٹ مردم شناس نہیں تھا اور اس کے منتخب کردہ کئی حکام موقع پرست ثابت ہوئے۔ اس کے دونوں ادوارِ صدارت اسکینڈلز کی نذر ہو گئے۔ مؤرخ ہنری والٹمین نے لکھا کہ گرانٹ کی سیاسی سادہ لوحی نے اسے غیر مؤثر کر دیا۔
وہ پُرعزم تو تھا لیکن بصیرت سے ایسا محروم کہ جنرلوں، کابینہ کے ارکان، سیاستدانوں اور مشیروں کے کبھی ایک گروہ کی بات سنتا تو کبھی دوسرے کی۔ حکمرانوں کو، بالخصوص دشوار حالات میں، دانش مند مشیر درکار ہوتے ہیں۔ افراد یا گروہ اقتدار میں آئے بغیر اپنی مہارت سے امور مملکت پر اثرانداز ہوسکتے ہیں، لیکن اگر وہ اپنے لیڈر سے زیادہ اپنے مفادات کی فکر میں رہیں تو بدترین حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ باریک بینی سے جانچ پڑتال اور مشکلات میں اصولوں پر قائم رہنے والوں کا پوری معروضیت کے ساتھ انتخاب کر کے، ایک حکمران اچھے فیصلے کرنے کے قابل ہوتا ہے، جس میں اس کا اپنا اور قوم کا مفاد مضمر ہوتا ہے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
حال ہی میں پی آئی اے کے ایم ڈی کے لیے دو ناموں کی تجویز سامنے آئی۔ ان میں سے ایک پہلے بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں، ان کے دور میں ادارے کا جو حال رہا ، وہ سب جانتے ہیں،اور امکان یہی ہے کہ پی آئی اے کے حکام کے لیے بھی وہ ناقابل قبول ہوتے، دوسرے صاحب اس عہدے کے لیے درکار پیشہ ورانہ مہارت ہی نہیں رکھتے اور ان کی واحد قابلیت کسی اہم شخصیت سے قریبی رشتے داری تھی۔
نہ صرف یہ کہ وہ اہم شخصیت اس بات سے بے خبر تھی کہ ان کا نام اس معاملے میں استعمال کیا جارہا ہے بلکہ وہ خود سختی سے ہدایات دے چکے ہیں کہ ان کے دوست یا قریبی عریز بھی ان کا نام استعمال کریں تو انھیں کوئی رعایت یا سہولت نہ دی جائے۔قابل تعریف بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے دونوں ہی نام مسترد کردیے۔ بعض بیوروکریٹ ایک تیر سے دو شکار کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور خود کو صاف بچا لیتے ہیں۔
اہم شخصیت کے پیشہ ورانہ اعتبار سے غیر موزوں قریبی عزیز کی تعیناتی کی صورت میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوجاتا، جس سے نہ صرف وزیر اعظم کو خفت کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ اس اہم شخصیت کے ساتھ ان کے تعلقات پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا۔ جب تک وزیر اعظم کے گرد ایسے بے اصول لوگ موجود ہیں، ''عاطف میاں تنازعے'' کی طرح پہاڑ ایسی غلطیوں کے لیے جانتے بوجھتے ماحول پیدا کیا جاتا رہے گا۔ اندازہ لگائیں، اس کی سیاسی مشکلات کا سامنا کسے کرنا پڑے گا؟
اپنے شعبے یا کسی خاص موضوع سے متعلق، گہرا فہم اور وسیع علم رکھنے کے ساتھ ساتھ حکومتی مشیر مختلف ذمے داریاں نبھانے اور متعدد شعبوں سے متعلق مہارت رکھتے ہیں۔ ایک مربّی یا رہبر کے طور پر وہ قیادت کے قریبی حلقوں کا لازمی جزو ہوتے ہیں، جو خصوصی مہارتوں اور علم کے ساتھ درست اور دانش مندانہ مشاورت کی قابلیت بھی رکھتے ہیں۔
کسی شعبے کی مہارت اور اختراع کی صلاحیت رکھنے والے مشیروں کو آج کے دور میں کاروبار، مالیاتی و تعلیمی اداروں، قانونی فرمز، انشورنس ہاؤسز اور حکومتوں وغیرہ کے لیے لازم و ملزوم تسلیم کیا جاتا ہے۔وزراء، وزیر اعظم ، صدر اور صاحبان منصب کو جہاں بروقت فیصلوں کی ضرورت ہو، مشیروں کو ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
یہ چابک دستی سے معلومات مرتب کرتے ہیں اور درپیش معاملے سے متعلق اس کے مکمل سیاق وسباق کے ساتھ ، جامع فہم اور تجزیہ اور ممکنہ آپشنز سے متعلق تجاویز حکومتی عہدیداروں کے سامنے لاتے ہیں۔ مشیروں کا انتخاب بہت احتیاط کے ساتھ کڑی چھان پھٹک کے بعد ہونا چاہیے اور ان ملکی مفاد ان کی اولین ترجیح ہونا چاہیے ، لیڈر کا مفاد ہمشیہ اس کے بعد ہی ہونا چاہیے اور ترجیحات کی یہ ترتیب کبھی فراموش نہیں ہونی چاہیے۔ کسی بھی مشیر کے دل میں اگر ذاتی مفادات و مقاصد کا شائبہ بھی پایا جاتا ہو تو یہ اہل اقتدار کے لیے تباہ کُن ثابت ہو سکتا ہے۔
اچھے اور برے مشیروں کی تاریخ بہت قدیم لیکن انتہائی دل چسپ ہے۔ ان میں سے چند معروف ناموں کا تذکرہ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے جو اپنے قائدین کی کامیابی میں مددگار ثابت ہوئے۔ 1) چانکیہ ایک انتہائی ماہر حکمت کار اور مشاق سیاست داں تھا، وہ کاروبارِ حکومت چلانے میں موریہ خاندان کے چندرگپتا کا مدد گار تھا۔ اس کی کتاب ''ارتھ شاستر'' کو ہندو سیاسیات اور سفارت کاری کے لیے مقدس صحیفہ تصور کیا جاتا ہے۔ (2 مغل شہنشاہ اکبر کے ہندو مشیر، بیربل کی دانش مندی بے مثال تھی، وہ اپنی حس مزاح اور مسائل کے حل اختراع کرنے کی بہترین صلاحیت کے باعث شہرت رکھتا تھا۔ 3) پروشیا، جو بعد ازاں جرمن سلطنت میں تبدیل ہوا، کے حکمراں ولہیلم اول کے وزیراعظم بسمارک نے مختلف جرمن رجواڑوں کو جرمن سلطنت کا حصہ بنایا اور مشہور عالم نوکر شاہی اور فوج کی بنیاد رکھی۔ یہلو چتسائی دنیا پر حکمرانی کرنے والے چنگیز خان کا معتمد اور مشیر تھا۔ اسی نے منگولوں کو اس بات پر قائل کیا تھا کہ مفتوحہ شہروں کو تاراج کرنے کے بجائے ان پر ٹیکس عائد کیے جائیں اور اس آمدن کو آیندہ فتوحات کے لیے استعمال کیا جائے۔ ان میں یہ قدر مشترک تھی کہ یہ اپنے حکمرانوں کے وفادار تھے اور منظرعام پر آنے کے بجائے پس منظر میں رہ کر کام کرتے تھے۔
بدقسمتی سے تاریخ میں ایسے مشیر بھی رہے جو نہ تو دیانتدار تھے اور نہیں لائق، کئی حکمراں اپنے ایسے ہی قریبی مشیروں کے فریب کا شکار رہے۔ ان کے اپنے مقاصد تھے، وہ طاقت کے حصول، جذبہ انتقام اور بعض صورتوں میں بے پناہ اختیار کی خواہش میں مگن رہے جب کہ دوسری جانب ان حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کرنے کے منصوبے بنتے رہے۔ کئی حکمراں اپنے مشیروں کے ہاتھوں عبرت ناک انجام کو پہنچے۔ برطانیہ کا شاہ ہنری ششم بہت سادہ لوح تھا اور اسے سیاست یا کاروبار ریاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس کے دور میں مشیروں کے چھوٹے سے گروہ نے ملک کا انتظام سنبھال لیا۔ آخر کار اس کے اہم اعزا اور مشیروں نے اسے حکمرانی کے لیے نااہل قرار دے دیا۔
1864ء میں امریکی لیڈروں نے جنرل یولیسس ایس گرانٹ پر اعتماد کیا اور انھیں 1865ء کی خانہ جنگی میں کامیابی حاصل ہوئی۔ 1869ء میں، یولیسس گرانٹ محض 46 برس کی عمر میں امریکا کا صدر منتخب ہوا، وہ اس وقت تک امریکی تاریخ کا کم عمر ترین منتخب صدر تھا۔ اگرچہ گرانٹ بہت محتاط تھا لیکن اس کی حکومت پر گھپلوں کے الزام لگے۔ گرانٹ کی بدقسمتی تھی کہ اس کے دیرینہ معتمد اور چیف آف اسٹاف جنرل رالنز کے علاوہ اس کے کئی قریبی مشیروں نے اسے دھوکا دیا۔ وہ رالنز کو اپنے ارد گرد لوگوں میں انتہائی ناگزیر تصور کرتا تھا لیکن بدقسمتی سے رالنز صرف اپنی تعیناتی کے محض پانچ ماہ بعد ہی ٹی بی میں مبتلا ہو کر مر گیا۔
رالنز کی موت کے بعد گرانٹ کے مشیر بے قابو ہوگئے۔ امریکی صدر کا سیکریٹری اورل بابکوک کرپشن میں ملوث پایا گیا، اس پر کیبنٹ ڈپارٹمنٹ اور تقرریوں میں گھپلوں کا الزام تھا۔ میدان جنگ کا ساتھی ہونے کی وجہ سے گرانٹ نے بابکوک پر ہونے والے سیاسی حملوں کا دفاع کیا۔ 1875ء میں جب ''وہسکی رنگ'' کے اسکینڈل میں بابکوک کا نام آیا تو صدر گرانٹ کے تحریری بیان کی وجہ سے اس کی بریت ممکن ہوئی۔ تاہم بابکوک کی وجہ سے کئی اسکینڈل سامنے آئے اور گرانٹ کی کابینہ کے بہترین افسران میں سے ایک سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیملٹن نے وہائٹ ہاؤس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔
بد قسمتی سے صدر گرانٹ نے کابینہ کے انتخاب میں اٹکل پچو سے کام لیا۔ ذاتی طور پر محتاط اور دیانت دار ہونے کے باوجود گرانٹ مردم شناس نہیں تھا اور اس کے منتخب کردہ کئی حکام موقع پرست ثابت ہوئے۔ اس کے دونوں ادوارِ صدارت اسکینڈلز کی نذر ہو گئے۔ مؤرخ ہنری والٹمین نے لکھا کہ گرانٹ کی سیاسی سادہ لوحی نے اسے غیر مؤثر کر دیا۔
وہ پُرعزم تو تھا لیکن بصیرت سے ایسا محروم کہ جنرلوں، کابینہ کے ارکان، سیاستدانوں اور مشیروں کے کبھی ایک گروہ کی بات سنتا تو کبھی دوسرے کی۔ حکمرانوں کو، بالخصوص دشوار حالات میں، دانش مند مشیر درکار ہوتے ہیں۔ افراد یا گروہ اقتدار میں آئے بغیر اپنی مہارت سے امور مملکت پر اثرانداز ہوسکتے ہیں، لیکن اگر وہ اپنے لیڈر سے زیادہ اپنے مفادات کی فکر میں رہیں تو بدترین حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ باریک بینی سے جانچ پڑتال اور مشکلات میں اصولوں پر قائم رہنے والوں کا پوری معروضیت کے ساتھ انتخاب کر کے، ایک حکمران اچھے فیصلے کرنے کے قابل ہوتا ہے، جس میں اس کا اپنا اور قوم کا مفاد مضمر ہوتا ہے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)