بھارتی سینسر بورڈ نے فلم سازوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے
سینسر پالیسی میں مزید نرمی کا فیصلہ
MUMBAI:
ماضی کی نسبت انڈین فلموں میں بے باکی کا عنصر بہت بڑھ گیا ہے، اور بھارتی معاشرہ بھی گلیمر اور ' سین کی ڈیمانڈ' کے نام پر بڑھتی ہوئی عریانیت کو بہ خوشی قبول کررہا ہے۔
پچھلے چند برسوں کے دوران بولی وڈ نے ایسی کئی فلمیں پیش کیں جن کا دو تین عشرے قبل تصور کرنا بھی محال تھا۔ اس کے باوجود فلم ساز بھارتی سینسر بورڈ سے خوش نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ سینسر بورڈ کے کرتا دھرتا ' قینچی'چلاتے ہوئے مزید فراخ دلی، ذہنی کشادگی اور رحم دلی کا مظاہرہ کریں اور لوگوں کی ' ڈیمانڈ ' کو سمجھیں۔ بالآخر سینسر بورڈ کی انتظامیہ نے فلم سازوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے سینسر پالیسی کو مزید نرم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
برصغیر میں فلم سینسر بورڈ 1920ء کی دہائی میں انگریز بہادر نے قائم کیا تھا۔ اس کے قیام کا مقصد ہندوستان میں نوآبادیاتی نظام کی مخالف امریکی فلموں کی نمائش کا راستہ روکنا تھا۔ انگریزوں کے قائم کردہ متعدد اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی ان کے برصغیر سے اخراج کے بعد برقرار رہا،اور اس کے کرتا دھرتا غیراخلاقی اور سیاسی رنگ میں رنگے ہوئے مناظر کو فلموں سے الگ کرتے رہے۔
بولی وڈ کی تمام تر روشن خیالی کے باوجود بھارت میں ایک بڑا طبقہ قدامت پسندوں کا ہے۔ اس لیے مختلف فلمی حلقوں کی معتبر شخصیات کا کہنا ہے کہ حکومت کو سینسر پالیسی میں نرمی کے سلسلے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارتی معاشرے میں تبدیلی آئی ہے، بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوان نسل کی سوچ ان پڑھ طبقے کی سوچ سے یکسر مختلف ہے۔
اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ سینسر بورڈ کے کرتا دھرتا نوجوان نسل کی سوچ سے متاثر ہوکر ہی سینسر پالیسی میں نرمی پر مجبور ہوئے ہیں۔ نئی دلی میں قائم فلم ڈپارٹمنٹ کے جوائنٹ سیکریٹری آر سنگھ کا کہنا تھا،'' سینسر بورڈ کے اصول و ضوابط پرانے ہوچکے ہیں۔ ہمیں انھیں موجودہ دور سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ بھارتی اقدار بدل گئی ہیں لہٰذا سینسر پالیسی میں تبدیلی بھی ناگزیر ہوگئی ہے۔''
گذشتہ دنوں بھارتی دارالحکومت میں انڈین سنیما کے صد سالہ جشن کے سلسلے میں ''کٹ۔ اَن کٹ'' فیسٹیول کا انعقاد ہوا تھا۔ اس فیسٹیول کے دوران پہلی بار حکومت نے فلموں کے سینسر شدہ حصے دکھا کر اپنی ذہنی کشادگی ثابت کرنے کی کوشش کی۔
رمیش سپی جیسے ڈائریکٹر، جنھوں نے تاریخ ساز کلاسیک فلم ''شعلے'' بنائی تھی، کے ساتھ سینسر بورڈ نے جو رویہ اختیار کیا تھا وہ اس کا شکوہ آج بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سینسر بورڈ نے انھیں اس فلم کی پلاٹ لائن میں تبدیلی پر مجبور کیا تھا۔'' بورڈ نے مجھ سے کہا تھا کہ ہم آپ کو بتائیں گے فلم کا اختتام کیسے کرنا ہے، انھوں نے مجھے فلم کے اختتامی سین دوبارہ عکس بند کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ مجھے احساس ہوگیا تھا کہ اگر میں بورڈ سے لڑتا رہا تو پھر میری فلم ریلیز نہیں ہوپائے گی۔''
جنوبی ہندوستان کی فلم انڈسٹری کے نام ور فلم ساز کے ہری ہرن کہتے ہیں کہ جب بھی فلم سینسر بورڈ کے پاس جاتی ہے تو میری کیفیت اس طالب علم جیسی ہوجاتی ہے جسے اپنے رزلٹ کا انتظار ہو۔ کے ہری ہرن کا کہنا ہے کہ سینسر بورڈ کو توڑ دینا چاہیے جو نوآبادیاتی دور کی یادگار ہے اور آزادیٔ اظہار پر قدغن لگاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارتی سینسر بورڈ کی پالیسی میں وقت کے ساتھ ساتھ نرمی آئی ہے۔ اور اسی نرمی نے فلم سازوں کو مختلف تجربات کرنے کی راہ دکھائی۔ 2011ء میں عامر خان کی فلم ''دہلی بیلی'' ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں شامل مکالمات پر بہت سے لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ سینسر بورڈ نے اس فلم کو بنا قطع و برید کے کیسے نمائش کی اجازت دے دی۔ قدامت پسند حلقوں کی جانب سے ''دہلی بیلی'' میں شامل غیراخلاقی مکالمات پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی سامنے آیا تھا۔
اس فلم کی نمائش کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے تھے، یہاں تک کہ عدالت میں مقدمہ بھی کردیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یہ بے حد کام یاب رہی تھی۔ '' دہلی بیلی'' کی کام یابی نے ظاہر کردیا تھا کہ نوجوان بھارتی نسل پردۂ سیمیں پر حقیقت دیکھنا چاہتی ہے۔ اور شائد اسی بات کے زیر اثر بھارتی فلم سینسر بورڈ نے اپنے اصول و قواعد میں مزید نرمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ماضی کی نسبت انڈین فلموں میں بے باکی کا عنصر بہت بڑھ گیا ہے، اور بھارتی معاشرہ بھی گلیمر اور ' سین کی ڈیمانڈ' کے نام پر بڑھتی ہوئی عریانیت کو بہ خوشی قبول کررہا ہے۔
پچھلے چند برسوں کے دوران بولی وڈ نے ایسی کئی فلمیں پیش کیں جن کا دو تین عشرے قبل تصور کرنا بھی محال تھا۔ اس کے باوجود فلم ساز بھارتی سینسر بورڈ سے خوش نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ سینسر بورڈ کے کرتا دھرتا ' قینچی'چلاتے ہوئے مزید فراخ دلی، ذہنی کشادگی اور رحم دلی کا مظاہرہ کریں اور لوگوں کی ' ڈیمانڈ ' کو سمجھیں۔ بالآخر سینسر بورڈ کی انتظامیہ نے فلم سازوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے سینسر پالیسی کو مزید نرم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
برصغیر میں فلم سینسر بورڈ 1920ء کی دہائی میں انگریز بہادر نے قائم کیا تھا۔ اس کے قیام کا مقصد ہندوستان میں نوآبادیاتی نظام کی مخالف امریکی فلموں کی نمائش کا راستہ روکنا تھا۔ انگریزوں کے قائم کردہ متعدد اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی ان کے برصغیر سے اخراج کے بعد برقرار رہا،اور اس کے کرتا دھرتا غیراخلاقی اور سیاسی رنگ میں رنگے ہوئے مناظر کو فلموں سے الگ کرتے رہے۔
بولی وڈ کی تمام تر روشن خیالی کے باوجود بھارت میں ایک بڑا طبقہ قدامت پسندوں کا ہے۔ اس لیے مختلف فلمی حلقوں کی معتبر شخصیات کا کہنا ہے کہ حکومت کو سینسر پالیسی میں نرمی کے سلسلے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارتی معاشرے میں تبدیلی آئی ہے، بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوان نسل کی سوچ ان پڑھ طبقے کی سوچ سے یکسر مختلف ہے۔
اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ سینسر بورڈ کے کرتا دھرتا نوجوان نسل کی سوچ سے متاثر ہوکر ہی سینسر پالیسی میں نرمی پر مجبور ہوئے ہیں۔ نئی دلی میں قائم فلم ڈپارٹمنٹ کے جوائنٹ سیکریٹری آر سنگھ کا کہنا تھا،'' سینسر بورڈ کے اصول و ضوابط پرانے ہوچکے ہیں۔ ہمیں انھیں موجودہ دور سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ بھارتی اقدار بدل گئی ہیں لہٰذا سینسر پالیسی میں تبدیلی بھی ناگزیر ہوگئی ہے۔''
گذشتہ دنوں بھارتی دارالحکومت میں انڈین سنیما کے صد سالہ جشن کے سلسلے میں ''کٹ۔ اَن کٹ'' فیسٹیول کا انعقاد ہوا تھا۔ اس فیسٹیول کے دوران پہلی بار حکومت نے فلموں کے سینسر شدہ حصے دکھا کر اپنی ذہنی کشادگی ثابت کرنے کی کوشش کی۔
رمیش سپی جیسے ڈائریکٹر، جنھوں نے تاریخ ساز کلاسیک فلم ''شعلے'' بنائی تھی، کے ساتھ سینسر بورڈ نے جو رویہ اختیار کیا تھا وہ اس کا شکوہ آج بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سینسر بورڈ نے انھیں اس فلم کی پلاٹ لائن میں تبدیلی پر مجبور کیا تھا۔'' بورڈ نے مجھ سے کہا تھا کہ ہم آپ کو بتائیں گے فلم کا اختتام کیسے کرنا ہے، انھوں نے مجھے فلم کے اختتامی سین دوبارہ عکس بند کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ مجھے احساس ہوگیا تھا کہ اگر میں بورڈ سے لڑتا رہا تو پھر میری فلم ریلیز نہیں ہوپائے گی۔''
جنوبی ہندوستان کی فلم انڈسٹری کے نام ور فلم ساز کے ہری ہرن کہتے ہیں کہ جب بھی فلم سینسر بورڈ کے پاس جاتی ہے تو میری کیفیت اس طالب علم جیسی ہوجاتی ہے جسے اپنے رزلٹ کا انتظار ہو۔ کے ہری ہرن کا کہنا ہے کہ سینسر بورڈ کو توڑ دینا چاہیے جو نوآبادیاتی دور کی یادگار ہے اور آزادیٔ اظہار پر قدغن لگاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارتی سینسر بورڈ کی پالیسی میں وقت کے ساتھ ساتھ نرمی آئی ہے۔ اور اسی نرمی نے فلم سازوں کو مختلف تجربات کرنے کی راہ دکھائی۔ 2011ء میں عامر خان کی فلم ''دہلی بیلی'' ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں شامل مکالمات پر بہت سے لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ سینسر بورڈ نے اس فلم کو بنا قطع و برید کے کیسے نمائش کی اجازت دے دی۔ قدامت پسند حلقوں کی جانب سے ''دہلی بیلی'' میں شامل غیراخلاقی مکالمات پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی سامنے آیا تھا۔
اس فلم کی نمائش کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے تھے، یہاں تک کہ عدالت میں مقدمہ بھی کردیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یہ بے حد کام یاب رہی تھی۔ '' دہلی بیلی'' کی کام یابی نے ظاہر کردیا تھا کہ نوجوان بھارتی نسل پردۂ سیمیں پر حقیقت دیکھنا چاہتی ہے۔ اور شائد اسی بات کے زیر اثر بھارتی فلم سینسر بورڈ نے اپنے اصول و قواعد میں مزید نرمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔