اف یہ ڈرون حملے

سچی اور کھری بات یہ ہے کہ یہ حملے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کی سراسر خلاف ورزی ہیں

S_afarooqi@yahoo.com

ڈرون حملوںسیہلاکتوں کے قانونی جواز کے حوالے سے امریکا میں عرصہ دراز سے بحث ومباحثہ جاری ہے کیونکہ ان حملوں کی وجہ سے دنیا بھر میں امریکا کا امیج متاثر ہوا ہے۔ قانونی جواز سے قطع نظر ان حملوں کا کوئی اخلاقی جواز بھی نہیں ہے۔ اگرچہ بعض دیگر ممالک میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن اب تک سب سے زیادہ حملے پاکستان، یمن اور صومالیہ میں کیے گئے ہیں۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں کھنچاؤ کا ایک سبب یہ ڈرون حملے ہی ہیں۔

سچی اور کھری بات یہ ہے کہ یہ حملے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کی سراسر خلاف ورزی ہیں جن کا اقوام عالم اور انسانی حقوق کے اندرون ممالک اور بیرون ملک تمام علم برداروں کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ان پے در پے حملوں کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ بالفرض اگر ان میں سے کسی علاقے میں کوئی دہشت گرد موجود بھی ہیں تو براہ راست من مانی کارروائی کرنے سے قبل حکومت پاکستان کو اس بارے میں مکمل اعتماد میں لیا جانا انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں وقتاً فوقتاً ہونے والے ڈرون حملوں کی ننگی تلوار وہاں کے لوگوں کے سروں پر رات دن ہر وقت لٹکتی رہتی ہے اور ان کی ایک بڑی تعداد جن میں خواتین اور معصوم بچے بھی شامل ہوتے ہیں اچانک ہلاکت خیزی کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے ان علاقوں پر ڈرون حملوں کے منحوس ڈریکولائی حملوں کا سلسلہ امریکا کے سابق ظالم و جابر بدنام زمانہ صدر جارج بش کے دور میں شروع ہوا تھا جو کسی صورت رکنے کا نام نہیں لے رہا۔

اس کے بعد ان حملوں میں امریکا کے موجودہ صدر اوباما کے دور میں مزید شدید آئی ہے جس نے اس کہاوت کو درست ثابت کردکھایا ہے کہ Natha Singh and Prem Singh and the same thing۔ ایک ایجنسی رپورٹ کے مطابق 2004 سے 2013 تک 2,537 سے لے کر 3,533 بے گناہ افراد ان خوفناک حملوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان ڈرون حملوں کی حسب معمول ''مذمت'' کی ہے لیکن امریکا سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا کہ ان حملوں کو روکا جائے ۔ ''مذمت'' کا لفظ ڈرون حملوں کے حوالے سے اتنا زیادہ استعمال کیا جاچکا ہے کہ اب اسے سن کر تن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے۔

کاؤنٹر ٹیررازم کے حوالے سے امریکی صدر بارک اوباما کی حالیہ پالیسی تقریر کے حوالے سے ہمارے دفتر خارجہ کے ترجمان کا صرف یہ کہنا تھا کہ ''حکومت پاکستان کا مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ ڈرون حملے Counter Productive ہیں اور ان سے معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کی صورت میں ہونے والے نقصان کے علاوہ انسانی حقوق کی پامالی بھی ہوتی ہے اور یہ قومی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور بین الاقوامی قانون کے بھی منافی ہیں۔'' ہمارے خیال میں بہتر ہوتا کہ اس قسم کا کمزور بیان دینے سے ہمارا دفتر خارجہ اجتناب کرتا اور یہ معاملہ مستقبل قریب میں وفاق اور خیبرپختونخوا میں عوام کی اکثریت سے قائم ہونے والی نئی حکومتوں پر چھوڑ دیا جاتا۔


توقع کی جارہی تھی کہ امریکا اپنی ڈرون پالیسی پر نظر ثانی کرے گامگر گزشتہ جمعرات (13 مئی) کو اپنے پالیسی بیان میں صرف اتنا سا اعتراف کیا کہ ٹارگیٹڈ ڈرون حملے دہشت گردی کا ''مکمل علاج'' نہیں ہیں۔ انھوں نے ایک ہی سانس میں یہ بھی کہا کہ ان کے سر پر ان لوگوں کی ہلاکتوں کا بھوت بھی سوار رہتا ہے جو ان حملوں کے نتیجے میں بے موت مارے جاتے ہیں۔ تاہم انھوں نے ان حملوں کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ حملے دہشت گردی کے خلاف امریکی مہم کے لیے قانونی طور پر جائز، موثر اور ضروری ہیں۔ امریکا کی ڈرون حملوں سے متعلق پرانی پالیسی میں اور اوباما کی نئی اعلان کردہ پالیسی میں صرف اتنا فرق ہے کہ پہلے ان حملوں کا مکمل کنٹرول سی آئی اے کے پاس تھا جب کہ اب اسے امریکی فوج بھی شیئر کرے گی۔

اس کے علاوہ اب ان حملوں کے پروگرام کی اضافی نگرانی کی جائے گی۔ اوباما کی نئی پالیسی ہداہات کے مطابق عمومی طور پر کیے جانے والے ڈرون حملے آیندہ امریکی فوج کے کنٹرول میں ہوں گے لیکن پاکستان اور یمن پر کیے جانے والے حملوں کا کنٹرول حسب سابق بدستور سی آئی اے کے ہاتھوں میں رہے گا۔ اگرچہ ان حملوں کو بنیادی طور پر امریکا سے کنٹرول کیا جاتا ہے تاہم بعض حملے جنگی محاذوں کے قریب سے بھی کیے جاتے ہیں جس میں جبوٹی اور سسلی بھی شامل ہیں۔

برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ 2004 سے اب تک پاکستان پر کیے گئے ڈرون حملوں کی کل تعداد 350 اور اسی عرصے میں یمن اور صومالیہ پر کیے گئے ڈرون حملوں کی تعداد 100 سے بھی کم ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے والے ملک پاکستان کے ساتھ امریکا کیا سلوک کر رہا ہے۔ امریکی صدر نے اپنی نئی پالیسی میں محض بہلانے پھسلانے کے طور پر یہ کہا کہ آیندہ ڈرون حملوں سے قبل اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ کوئی سویلین ان کا نشانہ نہ بنے۔ امریکی ڈرون حملوں کو نہ صرف امریکی آئین کی بلکہ امریکی عوام کی غالب اکثریت کی حمایت بھی حاصل ہے جس میں ریپبلکن پارٹی کے لوگ پیش پیش ہیں۔

امریکی صدر نے اپنی پالیسی تقریر کے دوران اس بات کا بھی اعلانیہ طور پر اعتراف کیا کہ امریکا نے مئی 2011 میں اسامہ بن لادن کے خلاف پاکستان کی سرزمین پر جو حملہ کیا تھا اس کی انھیں کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکا افغانستان سے 2014 میں اپنی واپسی تک پاکستان کے علاقوں پر ڈرون حملے جاری رکھنے سے باز آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس پس منظر میں امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا معاملہ پاکستان کی نومنتخب حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ اوباما کے تازہ ترین فرمودات کے بعد پاکستان میں امریکا کے خلاف عوامی سطح پر پائے جانے والے شدید جذبات ٹھنڈے پڑنے کے بجائے مزید برانگیختہ ہوسکتے ہیں۔

وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ قومی مفاد کے اس اہم ترین ایشو پر حزب اختلاف سمیت پوری پاکستانی قیادت کو یک سو اور متحد ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ صرف اسی صورت پاکستان کی نومنتخب حکومت امریکیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فیصلہ کن انداز میں بات کرسکتی ہے۔ یاد رکھیے قوموں کی اصل قوت ان کے باہمی اتحاد ہی میں مضمر ہوتی ہے۔ انگریزی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ United we stand divided we fall حالات کا تقاضہ ہے کہ ہماری سول اور سیاسی قیادت امریکی ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے مکمل اتفاق رائے سے ایک واضح اور موثر حکمت عملی وضع کرے۔ امریکی ڈرون حملوں کو رکوانے کا مسئلہ محض نئی منتخب حکومت کی نہیں بلکہ مشترکہ طور پر سول اور فوجی قیادت کی ذمے داری ہے جسے پوری قوم کی غیر مشروط حمایت حاصل ہونی چاہیے۔
Load Next Story