ایم کیو ایم اب اپوزیشن نشستوں پر
ایم کیو ایم اقتدار سے باہر بھی رہ سکتی ہے۔اقتدار اس کی منزل نہیں۔
INDIAN WELLS:
ایم کیو ایم کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ حکومت کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ہر انتخابات کے بعد بننے والی حکومت میں ایم کیو ایم کا ہونا لازم ہوتا ہے۔ لیکن شاید تقریباً دس سال ایوان اقتدار میں گزار کر اب ایم کیو ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔
اگر ایم کیو ایم کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وہ کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی مسلم لیگ (ن) کی اتحادی نظر آئے گی۔ 1988 کے انتخابات کے بعد جب پیپلز پارٹی کو انتخابات میں کامیابی ہوئی تو ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔ان انتخابات میں ایم کیو ایم کو سندھ کے شہری علاقوں میں واضح اکثریت ملی تھی۔
لیکن ایک سال بعد اکتوبر 1989 میں ایم کیوایم نے اپنے کارکنوں کے قتل کو جواز بناکر نواز شریف کے ساتھ جانے کو ترجیح دی اور نواز شریف کی سربراہی میں بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد کا ساتھ دیا۔ اکتوبر 1990 میں ہونے والے انتخابات میں ایم کیو ایم تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی جس نے نواز شریف حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔نواز شریف اور ایم کیو ایم کا ساتھ بھی زیادہ عرصے نہ چل سکا کیونکہ 1992 میں نواز شریف حکومت نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کلین اپ شروع کیا جس میں ایم کیو ایم کے کئی رہنما اور کارکنان مارے گئے ، کراچی میں قتل وغارت کی سنگین وارداتیں جاری رہیں اور انھی حالات کے پیش نظر الطاف حسین کو بیرون ملک جانا پڑا۔
نواز شریف کے ساتھ تلخ تجربے کے بعد 1993 کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا جب کہ صوبائی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کی جس کی بنا پر اس نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔ اس عرصے میں کئی نشیب وفراز آئے اور اس دوران ایم کیو ایم کے کئی کارکنوں کو قتل بھی کیا گیا۔سیاسی محاذ آرائی اور کشیدگی نے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسی وجہ سے1996 میں بے نظیر حکومت کو جانا پڑا۔ فروری1999 میں ہونے والے انتخابات میں ایم کیو ایم ایک بار پھر نواز شریف کی اتحادی بنی اس عرصے میں ایم کیو ایم نے اپنا نام تبدیل کرکے مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا۔ متحدہ نواز شریف کے ساتھ ایک سال سے زیادہ نہ چل سکی کیونکہ جب اکتوبر 1998 میں حکیم سعید کا قتل ہوا تو نوازحکومت نے سندھ میں گورنر راج نافذ کردیا اور ایم کیو ایم کے خلاف کارروائیاں شروع ہوگئیں۔دیکھا گیا ہے کہ 1988 سے 1998 تک ایم کیو ایم کسی حکومت کے ساتھ مستقل مزاجی سے نہ چل سکی لیکن جب جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو 2002 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد بننے والی حکومت کا ایم کیو ایم نے بھرپور ساتھ دیا۔
2002 سے2008 تک ایم کیو ایم نے سندھ بالخصوص کراچی میں اہم کردار ادا کیا۔ کراچی میں اس نے پرفارم کرکے دکھایا۔ اس دور میں کراچی میں جتنی ترقی ہوئی شاید اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی ہو۔ مصطفیٰ کمال ایم کیو ایم کے کراچی کے اور پورے پاکستان کے ہیرو بن کر سامنے آئے۔ پوری دنیا نے ان کی تعریف کی۔ لیکن جب 2009 میں مقامی حکومتوں کا نظام ختم کیا گیا تو کراچی کے حالات بھی خراب ہوتے چلے گئے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ایم کیو ایم پوری کوشش کرتی رہی کہ کسی طرح بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں لیکن پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے ساتھ مفاہمت کے نعرہ پر صرف سیاست کرتی رہی۔ پیپلز پارٹی نے اسے سنجیدہ نہیں لیا اور شاید اس میں ان کا سیاسی فائدہ بھی تھا تاہم ایم کیو ایم کا اس میں بہت نقصان ہوا۔ پچھلے پانچ سال ایم کیو ایم سندھ اور مرکز میں اس پوزیشن میں تھی کہ وہ اپنی شرائط منوا سکتی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ایم کیو ایم کی پوزیشن مرکز اور صوبے میں بہت مضبوط تھی لیکن اب منظر نامہ ،زمینی حقائق اور حالات خاصے بدل چکے ہیں ۔
ایم کیو ایم کا یہ فیصلہ کہ وہ اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی شاید کراچی اور اس کے عوام کے لیے اچھا ثابت نہ ہو اوراس کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کارکنان پر تشدد کی اطلاعات بڑھتی جا رہی ہں ۔ پچھلے پانچ سال ایم کیوایم کے لیے بڑا چیلنج اے این پی اور پیپلز امن کمیٹی تھے لیکن اب اے این پی سندھ اسمبلی سے فارغ ہوچکی ہے جب کہ امن کمیٹی کے دو نمایندے سندھ اسمبلی میں آچکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ امن کمیٹی سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن جو دو سندھ اسمبلی کے رکن پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر لیاری سے منتخب ہوئے ہیں ان کا پیپلز پارٹی سے تعلق ہو یا نہ ہو امن کمیٹی سے ضرور ہے۔اب شاید پیپلز پارٹی پہلے سے زیادہ امن کمیٹی کا ساتھ دے گی کیونکہ ان کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے۔لیاری میں گھروں میں پرچیاں تقسیم ہورہی ہیں کہ مکین گھر چھوڑ کر کہیں اور نکل جائیں، حالات خراب ہونے والے ہیں۔ یوں مبصرین کو خدشہ ہے کہ اگر ایم کیو ایم اپوزیشن میں ہی رہی تو پیپلز پارٹی جو پچھلے پانچ سال ایم کیو ایم کے ساتھ نہیں کرسکی وہ اب کرے گی۔یعنی دما دم مست قلندر ہوگا! جس طرح پانچ سال ایم کیو ایم حکومت کا حصہ رہتے ہوئے بھی اپوزیشن کا تاثر دیتی رہتی تھی، جس سے پیپلز پارٹی پریشان رہتی تھی شاید اب ایم کیو ایم کے اپوزیشن میں جانے سے پیپلز پارٹی کو ان کو بار بار منانے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔
پچھلے پانچ سال ایم کیو ایم کئی بار حکومت میں گئی اور باہر آئی جس کو عوام نے بالکل پسند نہیں کیا اور شاید اسی برہمی کا اظہار ووٹرز نے حالیہ انتخابات میں جمہوری طریقے سے کیا۔ یہ چشم کشا تبدیلی ہے۔بادی النظر میں ایم کیو ایم کے اپوزیشن میں بیٹھنے کے فیصلے کی منطقی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ ایم کیو ایم اقتدار سے باہر بھی رہ سکتی ہے۔اقتدار اس کی منزل نہیں۔مگر اس فیصلے کا فائدہ ایم کیو ایم کو اس صورت میں ہوگا جب وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو بلدیاتی انتخابات کرانے پر مجبور کردے جو بہت مشکل نظر آتا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی نے انتخابات کروا دیے تو اسے سندھ میں مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل لیگ کی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا جب کہ یہ بات بہت دلچسپ ہوگی کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرائے اور سندھ میں فنکشنل کے ساتھ اس کی مخالفت کرے۔پی ٹی آئی کے پر عزم ووٹر بھی مقامی سطح پر اپنا کردار پھر نئے انداز میں ادا کرسکتے ہیں۔کراچی سیاسی طور پر اب کثرت پسند ،وسیع المشرب اور بندہ نواز شہر بننے کی طرف چل پڑا ہے۔ایم کیو ایم کو اس دھارے کا ساتھ دینا ہوگا۔ بلاشبہ ایم کیو ایم سندھ میں بڑی اپوزیشن پارٹی ہوگی لیکن شاید وہ اپوزیشن تقسیم ہوتی نظر آئے، کیونکہ سندھ کی اپوزیشن جماعتوں اور ایم کیو ایم کے درمیان ماضی میں کئی اختلافات رہے ہیں ، بلدیاتی الیکشن کے مسئلہ پر کشمکش شدت اختیارکرسکتی ہے۔چنانچہ اب اسے ان اختلافات کو کم کرنا ہوگا اور اپوزیشن کو سنجیدگی سے لیڈ کرنا ہوگا چونکہ مرکز میں وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اپوزیشن میں ہوگی جب کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف اپوزیشن ہوگی۔ یہ تنی ہوئی رسی ''ٹائٹ روپ واکنگ'' کا شاندار منظر نامہ ہوگا۔
ایم کیو ایم کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ حکومت کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ہر انتخابات کے بعد بننے والی حکومت میں ایم کیو ایم کا ہونا لازم ہوتا ہے۔ لیکن شاید تقریباً دس سال ایوان اقتدار میں گزار کر اب ایم کیو ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔
اگر ایم کیو ایم کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وہ کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی مسلم لیگ (ن) کی اتحادی نظر آئے گی۔ 1988 کے انتخابات کے بعد جب پیپلز پارٹی کو انتخابات میں کامیابی ہوئی تو ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔ان انتخابات میں ایم کیو ایم کو سندھ کے شہری علاقوں میں واضح اکثریت ملی تھی۔
لیکن ایک سال بعد اکتوبر 1989 میں ایم کیوایم نے اپنے کارکنوں کے قتل کو جواز بناکر نواز شریف کے ساتھ جانے کو ترجیح دی اور نواز شریف کی سربراہی میں بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد کا ساتھ دیا۔ اکتوبر 1990 میں ہونے والے انتخابات میں ایم کیو ایم تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی جس نے نواز شریف حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔نواز شریف اور ایم کیو ایم کا ساتھ بھی زیادہ عرصے نہ چل سکا کیونکہ 1992 میں نواز شریف حکومت نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کلین اپ شروع کیا جس میں ایم کیو ایم کے کئی رہنما اور کارکنان مارے گئے ، کراچی میں قتل وغارت کی سنگین وارداتیں جاری رہیں اور انھی حالات کے پیش نظر الطاف حسین کو بیرون ملک جانا پڑا۔
نواز شریف کے ساتھ تلخ تجربے کے بعد 1993 کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا جب کہ صوبائی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کی جس کی بنا پر اس نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔ اس عرصے میں کئی نشیب وفراز آئے اور اس دوران ایم کیو ایم کے کئی کارکنوں کو قتل بھی کیا گیا۔سیاسی محاذ آرائی اور کشیدگی نے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسی وجہ سے1996 میں بے نظیر حکومت کو جانا پڑا۔ فروری1999 میں ہونے والے انتخابات میں ایم کیو ایم ایک بار پھر نواز شریف کی اتحادی بنی اس عرصے میں ایم کیو ایم نے اپنا نام تبدیل کرکے مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا۔ متحدہ نواز شریف کے ساتھ ایک سال سے زیادہ نہ چل سکی کیونکہ جب اکتوبر 1998 میں حکیم سعید کا قتل ہوا تو نوازحکومت نے سندھ میں گورنر راج نافذ کردیا اور ایم کیو ایم کے خلاف کارروائیاں شروع ہوگئیں۔دیکھا گیا ہے کہ 1988 سے 1998 تک ایم کیو ایم کسی حکومت کے ساتھ مستقل مزاجی سے نہ چل سکی لیکن جب جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو 2002 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد بننے والی حکومت کا ایم کیو ایم نے بھرپور ساتھ دیا۔
2002 سے2008 تک ایم کیو ایم نے سندھ بالخصوص کراچی میں اہم کردار ادا کیا۔ کراچی میں اس نے پرفارم کرکے دکھایا۔ اس دور میں کراچی میں جتنی ترقی ہوئی شاید اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی ہو۔ مصطفیٰ کمال ایم کیو ایم کے کراچی کے اور پورے پاکستان کے ہیرو بن کر سامنے آئے۔ پوری دنیا نے ان کی تعریف کی۔ لیکن جب 2009 میں مقامی حکومتوں کا نظام ختم کیا گیا تو کراچی کے حالات بھی خراب ہوتے چلے گئے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ایم کیو ایم پوری کوشش کرتی رہی کہ کسی طرح بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں لیکن پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے ساتھ مفاہمت کے نعرہ پر صرف سیاست کرتی رہی۔ پیپلز پارٹی نے اسے سنجیدہ نہیں لیا اور شاید اس میں ان کا سیاسی فائدہ بھی تھا تاہم ایم کیو ایم کا اس میں بہت نقصان ہوا۔ پچھلے پانچ سال ایم کیو ایم سندھ اور مرکز میں اس پوزیشن میں تھی کہ وہ اپنی شرائط منوا سکتی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ایم کیو ایم کی پوزیشن مرکز اور صوبے میں بہت مضبوط تھی لیکن اب منظر نامہ ،زمینی حقائق اور حالات خاصے بدل چکے ہیں ۔
ایم کیو ایم کا یہ فیصلہ کہ وہ اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی شاید کراچی اور اس کے عوام کے لیے اچھا ثابت نہ ہو اوراس کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کارکنان پر تشدد کی اطلاعات بڑھتی جا رہی ہں ۔ پچھلے پانچ سال ایم کیوایم کے لیے بڑا چیلنج اے این پی اور پیپلز امن کمیٹی تھے لیکن اب اے این پی سندھ اسمبلی سے فارغ ہوچکی ہے جب کہ امن کمیٹی کے دو نمایندے سندھ اسمبلی میں آچکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ امن کمیٹی سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن جو دو سندھ اسمبلی کے رکن پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر لیاری سے منتخب ہوئے ہیں ان کا پیپلز پارٹی سے تعلق ہو یا نہ ہو امن کمیٹی سے ضرور ہے۔اب شاید پیپلز پارٹی پہلے سے زیادہ امن کمیٹی کا ساتھ دے گی کیونکہ ان کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے۔لیاری میں گھروں میں پرچیاں تقسیم ہورہی ہیں کہ مکین گھر چھوڑ کر کہیں اور نکل جائیں، حالات خراب ہونے والے ہیں۔ یوں مبصرین کو خدشہ ہے کہ اگر ایم کیو ایم اپوزیشن میں ہی رہی تو پیپلز پارٹی جو پچھلے پانچ سال ایم کیو ایم کے ساتھ نہیں کرسکی وہ اب کرے گی۔یعنی دما دم مست قلندر ہوگا! جس طرح پانچ سال ایم کیو ایم حکومت کا حصہ رہتے ہوئے بھی اپوزیشن کا تاثر دیتی رہتی تھی، جس سے پیپلز پارٹی پریشان رہتی تھی شاید اب ایم کیو ایم کے اپوزیشن میں جانے سے پیپلز پارٹی کو ان کو بار بار منانے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔
پچھلے پانچ سال ایم کیو ایم کئی بار حکومت میں گئی اور باہر آئی جس کو عوام نے بالکل پسند نہیں کیا اور شاید اسی برہمی کا اظہار ووٹرز نے حالیہ انتخابات میں جمہوری طریقے سے کیا۔ یہ چشم کشا تبدیلی ہے۔بادی النظر میں ایم کیو ایم کے اپوزیشن میں بیٹھنے کے فیصلے کی منطقی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ ایم کیو ایم اقتدار سے باہر بھی رہ سکتی ہے۔اقتدار اس کی منزل نہیں۔مگر اس فیصلے کا فائدہ ایم کیو ایم کو اس صورت میں ہوگا جب وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو بلدیاتی انتخابات کرانے پر مجبور کردے جو بہت مشکل نظر آتا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی نے انتخابات کروا دیے تو اسے سندھ میں مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل لیگ کی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا جب کہ یہ بات بہت دلچسپ ہوگی کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرائے اور سندھ میں فنکشنل کے ساتھ اس کی مخالفت کرے۔پی ٹی آئی کے پر عزم ووٹر بھی مقامی سطح پر اپنا کردار پھر نئے انداز میں ادا کرسکتے ہیں۔کراچی سیاسی طور پر اب کثرت پسند ،وسیع المشرب اور بندہ نواز شہر بننے کی طرف چل پڑا ہے۔ایم کیو ایم کو اس دھارے کا ساتھ دینا ہوگا۔ بلاشبہ ایم کیو ایم سندھ میں بڑی اپوزیشن پارٹی ہوگی لیکن شاید وہ اپوزیشن تقسیم ہوتی نظر آئے، کیونکہ سندھ کی اپوزیشن جماعتوں اور ایم کیو ایم کے درمیان ماضی میں کئی اختلافات رہے ہیں ، بلدیاتی الیکشن کے مسئلہ پر کشمکش شدت اختیارکرسکتی ہے۔چنانچہ اب اسے ان اختلافات کو کم کرنا ہوگا اور اپوزیشن کو سنجیدگی سے لیڈ کرنا ہوگا چونکہ مرکز میں وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اپوزیشن میں ہوگی جب کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف اپوزیشن ہوگی۔ یہ تنی ہوئی رسی ''ٹائٹ روپ واکنگ'' کا شاندار منظر نامہ ہوگا۔