روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر برطانیہ کا دلیرانہ موقف
برطانیہ نے برمی مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف جراتمندانہ موقف اختیار کیا ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے۔
برطانوی وزیر خارجہ جرمی ہنٹ نے برما کے روہنگیا مسلمانوں کے مسئلہ پر برمی حکومت اور بالخصوص آنگ سان سوچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا اس بحران پر خاموش نہیں رہ سکتی۔
برطانوی وزیر خارجہ روہنگیا مسلمانوں کے مصائب کا جائزہ لینے کے لیے بذات خود برما کے دورے پر گئے ہیں جہاں دو دن تک صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد انھوں نے برما کی حکومت اور اس کی لیڈر آنگ سان سوچی کو انتباہ کیا ہے۔
برما یا میانمار کے علاقے راخائن کا دورہ کرتے ہوئے جہاں روہنگیا مسلمانوں کی بڑی تعداد مقیم ہے، وزیر خارجہ جرمی ہنٹ نے کہا ہے کہ نہتے روہنگیا مسلمانوں پر میانمار کی فوج کی زیادتیوں کے ثبوت واضح ہیں جس کی بنا پر سات لاکھ سے زائد مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔
جرمی ہنٹ نے آنگ سان سوچی کے ساتھ ملاقات بھی کی اور کہا کہ برما کو علم ہونا چاہیے کہ بین الاقوامی برادری اس ظلم کو برداشت نہیں کر سکتی۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلہ پر تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے تاہم میانمار نے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میانمار نے اس مسئلہ کے حل کے لیے اپنا آزاد کمیشن قائم کر دیا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ نے کہا اگر ہمیں میانمار کے آزاد کمیشن کی منصفانہ کارروائی ہوتے دکھائی نہ دی تو پھر ہم اپنے ذرائع استعمال کر کے مظلوم لوگوں کو انصاف فراہم کریں گے۔ برطانوی وزیر خارجہ کا دورہ میانمار اس موقع پر ہوا جب اقوام متحدہ کے تحقیق کرنے والوں نے میانمار کی فوج پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام عاید کیا ہے۔ برطانیہ نے برمی مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف جراتمندانہ موقف اختیار کیا ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے اور مسلم ممالک کو اس سے سبق لینا چاہیے۔
برطانوی وزیر خارجہ روہنگیا مسلمانوں کے مصائب کا جائزہ لینے کے لیے بذات خود برما کے دورے پر گئے ہیں جہاں دو دن تک صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد انھوں نے برما کی حکومت اور اس کی لیڈر آنگ سان سوچی کو انتباہ کیا ہے۔
برما یا میانمار کے علاقے راخائن کا دورہ کرتے ہوئے جہاں روہنگیا مسلمانوں کی بڑی تعداد مقیم ہے، وزیر خارجہ جرمی ہنٹ نے کہا ہے کہ نہتے روہنگیا مسلمانوں پر میانمار کی فوج کی زیادتیوں کے ثبوت واضح ہیں جس کی بنا پر سات لاکھ سے زائد مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔
جرمی ہنٹ نے آنگ سان سوچی کے ساتھ ملاقات بھی کی اور کہا کہ برما کو علم ہونا چاہیے کہ بین الاقوامی برادری اس ظلم کو برداشت نہیں کر سکتی۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلہ پر تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے تاہم میانمار نے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میانمار نے اس مسئلہ کے حل کے لیے اپنا آزاد کمیشن قائم کر دیا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ نے کہا اگر ہمیں میانمار کے آزاد کمیشن کی منصفانہ کارروائی ہوتے دکھائی نہ دی تو پھر ہم اپنے ذرائع استعمال کر کے مظلوم لوگوں کو انصاف فراہم کریں گے۔ برطانوی وزیر خارجہ کا دورہ میانمار اس موقع پر ہوا جب اقوام متحدہ کے تحقیق کرنے والوں نے میانمار کی فوج پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام عاید کیا ہے۔ برطانیہ نے برمی مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف جراتمندانہ موقف اختیار کیا ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے اور مسلم ممالک کو اس سے سبق لینا چاہیے۔