عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں چیف جسٹس ہائی کورٹ
جرم ثابت ہونے پرسزائے موت پانے والوں کو بھی پھانسی نہیں دی جارہی ہے
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیرعالم نے کہا ہے اگرحکومت بیرونی قوتوں کے دباؤ پر سزائے موت پانے والوں کو پھانسی نہیں دیتی تواس سے دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں معاشرے میں اچھا پیغام نہیں جاسکتا۔
عدلیہ مجرموں کو سزا سناتی ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، حکومت عدلیہ کوبدنام کرنے کیلیے ججوں کی تقرری میں تاخیر کرتی ہے، وہ پیرکو سندھ سیکریٹریٹ کے بیرکس میں قائم ہونے والی انسداددہشت گردی کی نئی خصوصی عدالتوں کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے، اس موقع پر ان کے ہمراہ جسٹس سجاد علی شاہ، رجسٹرار عبدالمالک گدی اور ممبرانسپکشن ٹیم فہیم صدیقی بھی موجود تھے،انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے سد باب کیلیے مجرموں کوسزادینا ضروری ہے مگر عدالتوں کی جانب سے جرم ثابت ہونے پرسزائے موت پانے والوں کو بھی پھانسی نہیں دی جارہی۔
ایسے قیدیوں کی بڑی تعداد موجود ہے جن کی ہر سطح پر اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں مگر حکومت سزاؤں پر عمل درآمد نہیں کررہی، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ججزکی تعداد میں اضافہ اور نئی عدالتوں کا قیام خوش آئند ہے مگر اس کے ثمرات اسی وقت حاصل کیے جاسکتے ہیں جب حکومت عدالتی فیصلوں پر عمل کرے، چیف جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ بعض سزا یافتہ قیدی جیلوں میں باقاعدہ گروہ چلارہے ہیں اگرپھانسی کی سزاؤں پر عمل ہو اور انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے تو دہشت گردی کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ خصوصی عدالتوں میں مقدمات کی تعداد بہت ذیادہ ہے اور اس کے تناسب سے ججزکی تعداد کم ہے،حکومت عدلیہ کو بدنام کرنے کیلیے ججوں کی تقرری میں تاخیرکرتی ہے،شاہ زیب قتل کیس کے فیصلے میں تاخیر سے متعلق ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ اس مقدمے میں گواہوں کی بڑی تعداد کے بیانات قلمبند کیے گئے ہیں شاید تاخیر کی یہی وجہ ہے،واضح رہے کہ ملک بھر میں 526قیدی پھانسی کے منتظر ہیں جن کی اعلیٰ عدالتوں اور صدرمملکت کی جانب سے اپیلیں مسترد کی جاچکی ہیں۔
عدلیہ مجرموں کو سزا سناتی ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، حکومت عدلیہ کوبدنام کرنے کیلیے ججوں کی تقرری میں تاخیر کرتی ہے، وہ پیرکو سندھ سیکریٹریٹ کے بیرکس میں قائم ہونے والی انسداددہشت گردی کی نئی خصوصی عدالتوں کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے، اس موقع پر ان کے ہمراہ جسٹس سجاد علی شاہ، رجسٹرار عبدالمالک گدی اور ممبرانسپکشن ٹیم فہیم صدیقی بھی موجود تھے،انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے سد باب کیلیے مجرموں کوسزادینا ضروری ہے مگر عدالتوں کی جانب سے جرم ثابت ہونے پرسزائے موت پانے والوں کو بھی پھانسی نہیں دی جارہی۔
ایسے قیدیوں کی بڑی تعداد موجود ہے جن کی ہر سطح پر اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں مگر حکومت سزاؤں پر عمل درآمد نہیں کررہی، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ججزکی تعداد میں اضافہ اور نئی عدالتوں کا قیام خوش آئند ہے مگر اس کے ثمرات اسی وقت حاصل کیے جاسکتے ہیں جب حکومت عدالتی فیصلوں پر عمل کرے، چیف جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ بعض سزا یافتہ قیدی جیلوں میں باقاعدہ گروہ چلارہے ہیں اگرپھانسی کی سزاؤں پر عمل ہو اور انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے تو دہشت گردی کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ خصوصی عدالتوں میں مقدمات کی تعداد بہت ذیادہ ہے اور اس کے تناسب سے ججزکی تعداد کم ہے،حکومت عدلیہ کو بدنام کرنے کیلیے ججوں کی تقرری میں تاخیرکرتی ہے،شاہ زیب قتل کیس کے فیصلے میں تاخیر سے متعلق ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ اس مقدمے میں گواہوں کی بڑی تعداد کے بیانات قلمبند کیے گئے ہیں شاید تاخیر کی یہی وجہ ہے،واضح رہے کہ ملک بھر میں 526قیدی پھانسی کے منتظر ہیں جن کی اعلیٰ عدالتوں اور صدرمملکت کی جانب سے اپیلیں مسترد کی جاچکی ہیں۔