نئی حکومت اور خارجہ پالیسی

کسی بھی نئی حکومت کے لیے عالمی سطح پر اپنی ساکھ بنانے اور اپنی پالیسی واضح کرنے کے لیے ابتدائی دن بہت اہم ہوتے ہیں۔

msuherwardy@gmail.com

ایک حکومت کو جانچنے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک اس کی بین الاقوامی ساکھ اور دوسرا اس کی ملک کے اندر مقبولیت۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک حکومت کی بین الاقوامی ساکھ تو بہت اچھی ہو لیکن ملک میں مقبولیت بہت کم ہو اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک حکومت ملک کے اندر بہت مقبول ہو لیکن عالمی سطح پر کارکردگی پر سوالیہ نشان ہو۔

ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک کی حکومت کے لیے عالمی سطح پر قابل قبول ہونا لازمی ہے۔ عالمی سطح پر ناپسند حکومت ملک کے اندر بھی تیزی سے غیر مقبول ہوجاتی ہے۔ اس لیے پاکستان جیسے ملک میں ایک کامیاب حکومت کے لیے ایک کامیاب خارجہ پالیسی ناگزیر ہے۔

کسی بھی نئی حکومت کے لیے عالمی سطح پر اپنی ساکھ بنانے اور اپنی پالیسی واضح کرنے کے لیے ابتدائی دن بہت اہم ہوتے ہیں۔ دنیااس نئی حکومت اور نئے حکمران کو بہت غور سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اس کی پالیسی کو دیکھا جا رہا ہوتا ہے۔ اس کی ساکھ کو جانچا جا رہا ہوتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں جو تاثر قائم ہوتا ہے اسی پر اس کی ساکھ قائم ہوتی ہے۔ اسی کی بنیاد پر دنیا اس نئی حکومت سے تعلقات قائم کرتی ہے اور نئے حکمران کی دنیاکے حکمرانوں میں ساکھ قائم ہوتی ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی نئی حکومت اپنے پہلے ماہ میں عالمی سطح پر زیادہ اچھا تاثر نہیں دے سکی۔ عالمی سطح کے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات کو مس ہینڈل کیا گیا ہے۔

سب سے پہلے امریکی سیکریٹری خارجہ کی ٹیلی فون کال کو مس ہینڈل کیا گیا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان چاہیے تھا کہ وہ کہتے کہ یہ کال شاہ محمود قریشی سنیں گے لیکن جناب عمران خان نے یہ کال سنی اور بعد میں اس کال کے حوالے سے ایک بے وجہ تنازعہ پیدا ہوا ۔ بعد میں امریکی سیکریٹری خارجہ کے دور ہ پاکستان کے حوالے سے بھی وہی تنازعہ پیدا ہوا۔ امریکا اور پاکستان کے بیانات میں فرق تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا کے ساتھ نازک تعلقات کو اناڑی حکومت نے مس ہینڈل کیا ہے جس کا پاکستان کو نقصان ہوسکتا ہے ۔ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ امریکی سیکریٹری خارجہ کادفتر خارجہ کے ایک جونیئر افسر سے استقبال کرانے کا کریڈٹ لینے کی جو کوشش کی گئی ہے حالانکہ 2013ء میں ایسا ہو چکا ہے اور پاکستان اور امریکا کے درمیان اب یہ پروٹوکول قائم ہے۔

اسی طرح چین کے ساتھ تعلقات کو بھی مس ہینڈل کیا گیا ہے۔ چینی وزیر خارجہ کا امریکی وزیر خارجہ کی طرح استقبال نا قابل فہم ہے۔ ایک طرف امریکا سے سرد تعلقات دوسری طرف چین سے گرم تعلقات۔ میں سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا حکومت کو پاکستان سے چین کے تعلقات کی سمجھ نہیں تھی یا ن لیگ کی دشمنی میں وہ چین سے بھی لڑنے کے لیے تیارہیں۔کیا ضرورت تھی سی پیک کو متنازعہ کرنے کی۔ ایک چین ہی تو پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ چینی وزیر خارجہ پاکستان سے ناراض گئے۔ اب وضاحتیں دی جا رہی ہیں۔ آرمی چیف نے اپنے دورہ چین میں بھی چین کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔


آپ دیکھیں عمران خان صحافیوں سے مل رہے تھے۔ اس دوران ایک صاحب آئے اور کہا کہ فرانس کے صدر کی کال ہے اور عمران خان نے کہا کہ میں ابھی مصروف ہوں اس لیے کال نہیں سن سکتا۔ حالانکہ اگر فرانس کے صدر کی کال آئی تھی تو سن لینی چاہیے تھی۔ صحافیوں سے گپ شپ بعد میں بھی کی جا سکتی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ فرانس کے صدر کی کال نہیں تھی بلکہ فرانسیسی سفارتخانہ رابطہ کر رہا تھا کہ فرانس کے صدر کی مبارکباد کی کال کے لیے ٹائم فکس کیا جائے۔ اس طرح کی خبریں اور پبلسٹی اچھا تاثر پیدا نہیں کر رہی۔

بھارت کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ پتہ نہیں کس نے وزیراعظم کو یہ باور کرادیا کہ بھارت آپ کو لفٹ کرائے گا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا بھارتی پالیسی سازوں کو یہ معلوم ہے کہ مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کہ نعرہ کون لگواتا رہا۔ تحریک انصاف ن لیگ کی دشمنی میں بھارت دشمنی بیچتے رہی۔ ایسے میں بھارت کیوں لفٹ کرائے گا۔ کیا آ پ کو یہ سمجھ نہیں کہ بھارت میں انتخابات ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ بھارت میں انتخابات کا سال ہے۔ ایسے میں مودی کسی ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بھارت کے آگے اتنے زیادہ لیٹنے کی ضرورت کیا تھی۔ بھارت سے تعلقات میں بریک تھرو کی اتنی جلدی کیا تھی۔

کیا مودی کو خط لکھنے سے پہلے کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ بھارت نے پاکستان میں سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ پھر اگر ملاقات طے ہی ہوگئی تھی تو یہ کہنے کی جلدی کیا تھی کہ مذاکرات ہوںگے جواب میں بھارت نے واضح بھی کیا کہ یہ مذاکرات نہیں صرف ملاقات ہے۔ لیکن ہمیں تو یہ ثابت کرنے کی بہت جلدی تھی کہ ملاقات نہیں مذاکرات ہیں۔ نتیجہ بھارت نے ملاقات بھی منسوخ کر دی۔

سعودی عرب کے دورہ کی بھی بہت دھوم ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس دورہ کے حوالے سے بھی کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔ سعودی عرب کا ایک خاص مزاج ہے۔ یمن پر تحریک انصاف اور عمران خان نے پارلیمنٹ میں جو تقریریں کی تھیں وہ سعودی عرب کے سامنے ہے۔ جہاں تک سعودی عرب کے دورہ کا تعلق ہے تو دنیامیںجب بھی کوئی نیا مسلمان حکمران آتا ہے تو اسے فوری طور پر سعودی عرب کے دورہ کی دعوت دی جاتی ہے کیونکہ حرم کعبہ کا دروازہ اور مسجد نبوی کا دروازہ صرف حکمرانوں کے لیے کھولا جا تا ہے۔ اس لیے ہر حکمران کو اس سعادت کے لیے فوری دعوت دی جاتی ہے۔

جب چوہدری شجاعت حسین صرف دو ماہ کے لیے وزیر اعظم بنے تھے تو انھیں بھی یہ دعوت دی گئی ہے۔ وہ بھی گئے تھے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس دورے کے دوران وفود کی سطح پر کوئی مذاکرات ہوئے۔ کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔ سعودی عرب نے پاکستان کے نئے حکمران کو کسی اعزاز سے نوازا۔ ماضی میں پاکستان کے حکمرانوں کو اعزاز دیئے جاتے رہے ہیں۔ حتیٰ کے بھارتی وزیر اعظم مودی بھی جب سعودی عرب گئے تو انھیں اعلیٰ سعودی اعزاز سے نوازا گیا تھا۔

اسی طرح افغانستان کے معاملے کو دیکھ لیں۔ جلال آباد میں پاکستان کا قونصل خانہ آپ کے دور میں بند ہوا ہے۔ یہ بھارت کی کامیابی ہے۔ ایک طرفٖ بھارت افغانستان میں پاکستان کے قونصل خانے بند کرا رہا ہے اور دوسری طرف بھارتی قونصل خانے کھولے جا رہے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ اپنے دورہ افغانستان میں پاکستان کا جلال آباد کا قونصل خانہ نہیں کھلوا سکے۔ اس تناظر میں یہ دورہ بھی کوئی کامیاب نہیں رہا۔ ہم اپنا قونصلیٹ ہی نہیں کھلوا سکے تو گندم کا تحفہ کیا معنی رکھتا ہے۔ ایران کی کہانی بھی مختلف نہیں۔ مجھے تو سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہو رہا ہے۔
Load Next Story