گورنر ہاؤس
سنجیدہ معاملے کو پوائنٹ اسکورنگ کے ایک اور ’’موقع‘‘ کے بجائے قوی اہمیت کا معاملہ سمجھیں۔
لاہور:
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے بالمشافہ ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ پہلی بار برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز کے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے اور غالباً ایسا کرنے والے پہلے پاکستانی نژاد تھے۔ ہم لوگ گلاسگو (اسکاٹ لینڈ) کسی مشاعرے کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے۔ ایک میزبان کے گھر پر وہ ناشتے میں شریک ہوئے اور ناشتے کے اختتام پر یوں لگ رہا تھا جیسے ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں۔
اس تاثر کا بیشتر کریڈٹ چوہدری سرور کو جاتا ہے، کیونکہ ان کی گفتگو' باڈی لینگوئج' خیالات' پاکستان سے محبت اور مادری زبان اور کلچر پر افتخار وہ باتیں تھیں جن میں بے حد اپنا پن تھا، یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ ایک محنت کش انسان ہیں اور مالی اعتبار سے ان کی ترقی مسلسل اور بامقصد محنت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کے بعد خبر ملی کہ وہ اپنے تجربات سے اپنی مادر وطن کو مستفیض کرنے کے لیے پاکستان آ رہے ہیں اور یہاں رہ کر معاشرتی اصلاح اور تعلیم کے شعبوں میں کام کریں گے' اس دوران میں الخدمت' اخوت اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی مختلف تقریبات میں ان سے گاہے گاہے ملاقات رہی اور اندازہ ہوا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت انھیں باقاعدہ طور پر اپنی صفوں میں شامل کرنا چاہتی ہے اور پھر ایسا ہی ہوا اور وہ صوبہ پنجاب کے گورنر مقرر کر دیئے گئے۔
اس سیٹ پر ان کی اس پہلی تقرری کے دوران برادرم میجر (ر) محمد رفیق حسرت کے ساتھ کچھ تعلیمی پروگراموں کے سلسلے میں ان سے دو تین بار ملنا ہوا اور ہر بار میں نے یہ محسوس کیا کہ اگرچہ بظاہر ان کی بات چیت اور جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں آئی مگر اندر سے وہ اس صورت حال سے مطمئن اور خوش نہیں ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں یہ بات کھل کر سامنے آ گئی اور نہ صرف وہ گورنر شپ سے مستعفی ہو گئے بلکہ سیاسی اور نظریاتی اعتبار سے بھی ان کا جھکاؤ تحریک انصاف کی طرف ہوتا چلا گیا۔ جہاں پہلے انھیں سینیٹر اور پھر دوبارہ سے گورنر پنجاب کا عہدہ دیا گیا۔
جب کہ 2018ء کی انتخابی مہم میں بھی ان کا نام ان چند افراد میں شامل رہا جو عمران خان کے قریب ترین ساتھی اور مشیر سمجھے جاتے تھے۔ یہ ہے وہ صورت حال جس کے پس منظر میں ان سے حالیہ ملاقات ہوئی جس کا مقصد کالم نگاروں اور میڈیا سے متعلق کچھ دیگر احباب سے بعض معاملات اور مسائل پر مشاورت کرنا اور ان کی رائے معلوم کرنا تھا، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ بعض دیگر سرکاری عمارتوں کی طرح اس گورنر ہاؤس کا کیا کیا جائے۔
شہر کے وسط میں 80 کنال پر مشتمل یہ جگہ کولونیل دور کی یادگار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا ایک تہذیبی ورثہ اور شہر کی پہچان بھی ہے اور یہ کہ اس کا نام تو گورنر ہاؤس ضرور ہے مگر اس میں گورنر کے ذاتی استعمال کا علاقہ بہت محدود اور مختصر ہے اور اصل میں یہ گورنرز سیکریٹریٹ ہے جس میں تیس سے چالیس کے قریب افسران اور ان کا ماتحت عملہ نہ صرف کام کرتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں ان کی رہائش گاہیں اور بچوں کا اسکول وغیرہ بھی اسی کے اندر بنائے گئے ہیں۔ جب کہ اس کے وسیع و عریض باغات کو بھی مختلف سرکاری اور فلاحی تقریبات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ضرورت اس سوال کی یوں پڑی کہ تحریک انصاف نے اپنے منشور اور عمران خان نے اپنے مختلف سیاسی جلسوں اور بیانات میں اسلام آباد کے وزیراعظم ہاؤس اور چاروں صوبوں کے گورنر ہاؤسز کی عمارتوں سمیت بہت سی سرکاری استعمال سے وابستہ جگہوں کو حکومتی شان و شوکت کے مظاہر کے بجائے عوامی فلاح سے متعلق مختلف النوع مراکز (مثلاً یونیورسٹیاں' لائبریریاں اور تفریح گاہیں وغیرہ) بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن ان میں سے عملی طور پر کئی عمارتوں کی مخصوص تعمیر اور لوکیشن کے باعث ایسا کرنا بعض صورتوں میں بے حد مشکل اور بعض وجوہات کی بنا پر ناقابل عمل ہے کہ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا۔
مجھ سمیت بیشتر احباب کا خیال یہی تھا کہ اصل مسئلہ یہ عمارتیں نہیں بلکہ ان سے ملحقہ بے شمار قیمتی زمین اور ان کے اندر کیے جانے والے غیرضروری اخراجات ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس اور گورنرز سیکریٹریٹ کی ضرورت تو بہرحال اپنی جگہ پر موجود رہے گی انھیں شہر سے دور سیکیوٹری کے معاملات سمیت ازسرنو تعمیر کرنے میں بھی بہرحال بھاری اخراجات ہوں گے اور ان کی موجودہ جگہوں' مخصوص طرز تعمیر اور سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے ان کے کمرشل یا فلاحی استعمال کی صورت میں بھی ایک سے ایک نیا مسئلہ سر اٹھائے گا تو کیوں نہ کوئی درمیان کا راستہ نکالا جائے کہ یہ عمارتیں جزوی اور ضروری تبدیلیوں سے قطع نظر اسی طرح رہیں، البتہ ان سے متعلق فالتو' غیر ضروری یا دکھاوے کی شان و شوکت والی اراضی کو واپس لے لیا جائے۔
مثال کے طور پر اگر لاہور کے گورنر ہاؤس کو دیکھا جائے تو اسی میں سے تقریباً ساٹھ کنال زمین کو گورنر ہاؤس سے علیحدہ کر کے کسی بہتر اور کارآمد استعمال میں لایا جا سکتا ہے کہ اس کو ختم کرنے کے اعلان کے پیچھے بھی اصل بات سادگی کے قیام اور فضول خرچی سے اجتناب کی تھی اور یہ کہ ہر چیز کو اس کی جائز ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے۔ کچھ احباب کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وزیراعظم پر ایک اور یوٹرن کا الزام لگ جائے گا اور یہ الزام اس اعتبار سے صحیح بھی ہو گا کہ واقعی ان عمارتوں کو بہت پرتعیش اور زائد از ضرورت انداز میں تعمیر کیا گیا ہے اور ان کا یہ پہلو واقعی غور اور اصلاح طلب ہے۔
اسی پر کسی ستم ظریف نے جملہ کسا کہ اگر پندرہ یوٹرن اپنی صوابدید یا غلطی کی اصلاح کے لیے لیے جا سکتے ہیں تو ایک ایسا یوٹرن جس کے تمام راستے بہتری اور دانش مندی کی طرف کھلتے ہوں وہ بھی لے لینا چاہیے۔ کل رات ہی کسی ٹی وی پروگرام میں جاوید احمد غامدی صاحب فرما رہے تھے کہ اصل بات ''اصول'' کی ہوتی ہے طریقہ کار کی تبدیلی اگر اصول سے نہ ٹکرائے تو اس کے بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بہرحال وقت کو بدلنا اور دنیا کو آگے بڑھنا ہے سو مناسب ہو گا کہ اگر میڈیا کے بازی گر اور حکومت وقت کے سیاسی مخالفین اس اہم اور سنجیدہ معاملے کو پوائنٹ اسکورنگ کے ایک اور ''موقع'' کے بجائے قوی اہمیت کا معاملہ سمجھیں۔
حکومت کی غلطیوں پر ضرور تنقید کریں مگر مشترکہ اور قومی نوعیت کے مسائل پر کسی بہتر حل تک پہنچنے کے لیے اپنی رائے اور مشورہ بھی دیں کیونکہ ''ریاست'' ایک مستقل حقیقت ہے جب کہ ''حکومت'' آنی جانی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جو قومیں اس فرق کو سمجھ کر اپنا لائحہ عمل اور دستور حیات بناتی ہیں وہ مسلسل کامیاب اور ان کے عوام خوش اور خوش حال ہوتے چلے جاتے ہیں۔
سو بہترین طریقہ اور حل یہی ہے کہ عمران خان کے اعلانات کو الفاظ کے بجائے ان کی روح کے حوالے سے دیکھا جائے اور ان عمارات کے ضروری حصوں اور حیثیت کو قائم رکھتے ہوئے فالتو' اضافی اور فضول خرچی پر مشتمل زمین اور تعمیرات کو کسی بہتر استعمال میں لایا جائے تاکہ مقصد بھی پورا ہو جائے اور ہم اس طرح کی بے معنی ''نقل مکانی'' کا شکار بھی نہ ہوں جس کا سلسلہ اس لطیفے سے جڑ جائے کہ ''ایک دفتر میں فالتو' غیر ضروری اور ازکار رفتہ فائلوں کا ایک بہت بڑا انبار چھان پھٹک کر علاحدہ کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ جگہ بچانے کے لیے اسے نذر آتش کر دیا جائے۔ جس افسر کی ڈیوٹی اس کام پر لگائی گئی اس نے رپورٹ دیتے ہوئے کہا کہ ساری فائلیں تلف کر دی گئی ہیں البتہ میں نے احتیاطاً سب کی ایک ایک فوٹو کاپی بنوالی ہے تاکہ ریکارڈ محفوظ رہے''۔
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے بالمشافہ ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ پہلی بار برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز کے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے اور غالباً ایسا کرنے والے پہلے پاکستانی نژاد تھے۔ ہم لوگ گلاسگو (اسکاٹ لینڈ) کسی مشاعرے کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے۔ ایک میزبان کے گھر پر وہ ناشتے میں شریک ہوئے اور ناشتے کے اختتام پر یوں لگ رہا تھا جیسے ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں۔
اس تاثر کا بیشتر کریڈٹ چوہدری سرور کو جاتا ہے، کیونکہ ان کی گفتگو' باڈی لینگوئج' خیالات' پاکستان سے محبت اور مادری زبان اور کلچر پر افتخار وہ باتیں تھیں جن میں بے حد اپنا پن تھا، یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ ایک محنت کش انسان ہیں اور مالی اعتبار سے ان کی ترقی مسلسل اور بامقصد محنت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کے بعد خبر ملی کہ وہ اپنے تجربات سے اپنی مادر وطن کو مستفیض کرنے کے لیے پاکستان آ رہے ہیں اور یہاں رہ کر معاشرتی اصلاح اور تعلیم کے شعبوں میں کام کریں گے' اس دوران میں الخدمت' اخوت اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی مختلف تقریبات میں ان سے گاہے گاہے ملاقات رہی اور اندازہ ہوا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت انھیں باقاعدہ طور پر اپنی صفوں میں شامل کرنا چاہتی ہے اور پھر ایسا ہی ہوا اور وہ صوبہ پنجاب کے گورنر مقرر کر دیئے گئے۔
اس سیٹ پر ان کی اس پہلی تقرری کے دوران برادرم میجر (ر) محمد رفیق حسرت کے ساتھ کچھ تعلیمی پروگراموں کے سلسلے میں ان سے دو تین بار ملنا ہوا اور ہر بار میں نے یہ محسوس کیا کہ اگرچہ بظاہر ان کی بات چیت اور جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں آئی مگر اندر سے وہ اس صورت حال سے مطمئن اور خوش نہیں ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں یہ بات کھل کر سامنے آ گئی اور نہ صرف وہ گورنر شپ سے مستعفی ہو گئے بلکہ سیاسی اور نظریاتی اعتبار سے بھی ان کا جھکاؤ تحریک انصاف کی طرف ہوتا چلا گیا۔ جہاں پہلے انھیں سینیٹر اور پھر دوبارہ سے گورنر پنجاب کا عہدہ دیا گیا۔
جب کہ 2018ء کی انتخابی مہم میں بھی ان کا نام ان چند افراد میں شامل رہا جو عمران خان کے قریب ترین ساتھی اور مشیر سمجھے جاتے تھے۔ یہ ہے وہ صورت حال جس کے پس منظر میں ان سے حالیہ ملاقات ہوئی جس کا مقصد کالم نگاروں اور میڈیا سے متعلق کچھ دیگر احباب سے بعض معاملات اور مسائل پر مشاورت کرنا اور ان کی رائے معلوم کرنا تھا، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ بعض دیگر سرکاری عمارتوں کی طرح اس گورنر ہاؤس کا کیا کیا جائے۔
شہر کے وسط میں 80 کنال پر مشتمل یہ جگہ کولونیل دور کی یادگار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا ایک تہذیبی ورثہ اور شہر کی پہچان بھی ہے اور یہ کہ اس کا نام تو گورنر ہاؤس ضرور ہے مگر اس میں گورنر کے ذاتی استعمال کا علاقہ بہت محدود اور مختصر ہے اور اصل میں یہ گورنرز سیکریٹریٹ ہے جس میں تیس سے چالیس کے قریب افسران اور ان کا ماتحت عملہ نہ صرف کام کرتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں ان کی رہائش گاہیں اور بچوں کا اسکول وغیرہ بھی اسی کے اندر بنائے گئے ہیں۔ جب کہ اس کے وسیع و عریض باغات کو بھی مختلف سرکاری اور فلاحی تقریبات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ضرورت اس سوال کی یوں پڑی کہ تحریک انصاف نے اپنے منشور اور عمران خان نے اپنے مختلف سیاسی جلسوں اور بیانات میں اسلام آباد کے وزیراعظم ہاؤس اور چاروں صوبوں کے گورنر ہاؤسز کی عمارتوں سمیت بہت سی سرکاری استعمال سے وابستہ جگہوں کو حکومتی شان و شوکت کے مظاہر کے بجائے عوامی فلاح سے متعلق مختلف النوع مراکز (مثلاً یونیورسٹیاں' لائبریریاں اور تفریح گاہیں وغیرہ) بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن ان میں سے عملی طور پر کئی عمارتوں کی مخصوص تعمیر اور لوکیشن کے باعث ایسا کرنا بعض صورتوں میں بے حد مشکل اور بعض وجوہات کی بنا پر ناقابل عمل ہے کہ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا۔
مجھ سمیت بیشتر احباب کا خیال یہی تھا کہ اصل مسئلہ یہ عمارتیں نہیں بلکہ ان سے ملحقہ بے شمار قیمتی زمین اور ان کے اندر کیے جانے والے غیرضروری اخراجات ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس اور گورنرز سیکریٹریٹ کی ضرورت تو بہرحال اپنی جگہ پر موجود رہے گی انھیں شہر سے دور سیکیوٹری کے معاملات سمیت ازسرنو تعمیر کرنے میں بھی بہرحال بھاری اخراجات ہوں گے اور ان کی موجودہ جگہوں' مخصوص طرز تعمیر اور سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے ان کے کمرشل یا فلاحی استعمال کی صورت میں بھی ایک سے ایک نیا مسئلہ سر اٹھائے گا تو کیوں نہ کوئی درمیان کا راستہ نکالا جائے کہ یہ عمارتیں جزوی اور ضروری تبدیلیوں سے قطع نظر اسی طرح رہیں، البتہ ان سے متعلق فالتو' غیر ضروری یا دکھاوے کی شان و شوکت والی اراضی کو واپس لے لیا جائے۔
مثال کے طور پر اگر لاہور کے گورنر ہاؤس کو دیکھا جائے تو اسی میں سے تقریباً ساٹھ کنال زمین کو گورنر ہاؤس سے علیحدہ کر کے کسی بہتر اور کارآمد استعمال میں لایا جا سکتا ہے کہ اس کو ختم کرنے کے اعلان کے پیچھے بھی اصل بات سادگی کے قیام اور فضول خرچی سے اجتناب کی تھی اور یہ کہ ہر چیز کو اس کی جائز ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے۔ کچھ احباب کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وزیراعظم پر ایک اور یوٹرن کا الزام لگ جائے گا اور یہ الزام اس اعتبار سے صحیح بھی ہو گا کہ واقعی ان عمارتوں کو بہت پرتعیش اور زائد از ضرورت انداز میں تعمیر کیا گیا ہے اور ان کا یہ پہلو واقعی غور اور اصلاح طلب ہے۔
اسی پر کسی ستم ظریف نے جملہ کسا کہ اگر پندرہ یوٹرن اپنی صوابدید یا غلطی کی اصلاح کے لیے لیے جا سکتے ہیں تو ایک ایسا یوٹرن جس کے تمام راستے بہتری اور دانش مندی کی طرف کھلتے ہوں وہ بھی لے لینا چاہیے۔ کل رات ہی کسی ٹی وی پروگرام میں جاوید احمد غامدی صاحب فرما رہے تھے کہ اصل بات ''اصول'' کی ہوتی ہے طریقہ کار کی تبدیلی اگر اصول سے نہ ٹکرائے تو اس کے بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بہرحال وقت کو بدلنا اور دنیا کو آگے بڑھنا ہے سو مناسب ہو گا کہ اگر میڈیا کے بازی گر اور حکومت وقت کے سیاسی مخالفین اس اہم اور سنجیدہ معاملے کو پوائنٹ اسکورنگ کے ایک اور ''موقع'' کے بجائے قوی اہمیت کا معاملہ سمجھیں۔
حکومت کی غلطیوں پر ضرور تنقید کریں مگر مشترکہ اور قومی نوعیت کے مسائل پر کسی بہتر حل تک پہنچنے کے لیے اپنی رائے اور مشورہ بھی دیں کیونکہ ''ریاست'' ایک مستقل حقیقت ہے جب کہ ''حکومت'' آنی جانی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جو قومیں اس فرق کو سمجھ کر اپنا لائحہ عمل اور دستور حیات بناتی ہیں وہ مسلسل کامیاب اور ان کے عوام خوش اور خوش حال ہوتے چلے جاتے ہیں۔
سو بہترین طریقہ اور حل یہی ہے کہ عمران خان کے اعلانات کو الفاظ کے بجائے ان کی روح کے حوالے سے دیکھا جائے اور ان عمارات کے ضروری حصوں اور حیثیت کو قائم رکھتے ہوئے فالتو' اضافی اور فضول خرچی پر مشتمل زمین اور تعمیرات کو کسی بہتر استعمال میں لایا جائے تاکہ مقصد بھی پورا ہو جائے اور ہم اس طرح کی بے معنی ''نقل مکانی'' کا شکار بھی نہ ہوں جس کا سلسلہ اس لطیفے سے جڑ جائے کہ ''ایک دفتر میں فالتو' غیر ضروری اور ازکار رفتہ فائلوں کا ایک بہت بڑا انبار چھان پھٹک کر علاحدہ کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ جگہ بچانے کے لیے اسے نذر آتش کر دیا جائے۔ جس افسر کی ڈیوٹی اس کام پر لگائی گئی اس نے رپورٹ دیتے ہوئے کہا کہ ساری فائلیں تلف کر دی گئی ہیں البتہ میں نے احتیاطاً سب کی ایک ایک فوٹو کاپی بنوالی ہے تاکہ ریکارڈ محفوظ رہے''۔