پی ایچ ایف عہدیداروں میں محاذ آرائی
اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
ہم سابق اولمپئنز پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ایک اعلی عہدیدار کے آفس میں موجود تھے،اتنے میں ایک اولمپئن بول پڑا۔
عرصہ ہو چکا، اپنے سسرال جنوبی افریقہ نہیں جا سکا، اس کھلاڑی کے منہ سے یہ کلمات نکلنے کی دیر تھی کہ فیڈریشن عہدیدار بول پڑا، آپ فکر کیوں کرتے ہیں، ابھی اس کاانتظام کئے دیتے ہیں، پھر سوچے سمجھے منصوبے کے بعد قومی جونیئر ٹیم کے جنوبی افریقہ کے دورے کا انتظام کیا گیا اور اسی کھلاڑی کو کوچ بنا کر ٹیم کے ساتھ روانہ کر دیا گیا، سابق کھلاڑیوں، دوستوں اور عزیز اوقارب کو نوازنے کی روایت پی ایچ ایف میں نئی نہیں، یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے اور اس میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔
ایک عہدیدار تو ایسا بھی تھا جو فیڈریشن کے پیسے پر پراپرٹی کا کاروبار بھی کیا کرتا تھا، جب اس کاروبار سے منافع ملتا رہا تو اپنی جیب بھی ڈالتا رہا، نقصان ہوا تو پی ایچ ایف کو چھوڑ کر چلتا بنا، ایک اور زندہ اور تازہ مثال قومی ڈویلپمنٹ سکواڈ کے حالیہ دورہ کینیڈا کی ہی لے لیں، اپنوں کو خوش کرنے کے لیے قومی جونیئر ٹیم کے کینیڈا کے بلاوجہ اور بلامقصد دورے کا انتظام کیا گیا۔
دورے کے دوران عوام کی خون پسینے کی کمائی سے حکومتی فنڈز کے بل بوتے پر پھلنے پھولنے والی فیڈریشن کے نہ صرف ڈیرھ کروڑ روپے سے زیادہ کے اخراجات آئے بلکہ 5میچز کی سیریز میں قومی ٹیم کو میزبان سائیڈ کے ہاتھوں ذؒلت آمیز شکستوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، اس کے باوجود گراس روٹ سطح پر ٹیلنٹ کا یہ حال ہے کہ دور بین لگا کر بھی نئے اور باصلاحیت کھلاڑی دیکھنے کو نہیں ملتے۔
راقم کو پاکستان ہاکی ٹیم منیجمنٹ کے ایک عہدیدار نے خود بتایا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ نہ ہونے کے برابر رہا گیا ہے، ایشین گیمز میں جونیئر ٹیم کے کپتان کو سینئر سکواڈ کا حصہ بنایا گیا، وہ بھی بری طرح ناکام رہا۔
اب ایشین گیمز میں ناکامی کے بعد پاکستان ہاکی فیڈریشن میں پھوٹ پر چکی ہے، ڈائریکٹر ڈومیسٹک نوید عالم نے فیڈریشن حکام کو آئینہ دکھایا تو الٹا انہیں ہی عہدے سے فارغ کر دیا گیا، مجھے تو ابھی تک اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ جب فیڈریشن حکام نے اپنے ایک عہدیدار کو فارغ کر ہی دیا تھا تو پھر اس کے خلاف ظاہر شاہ کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنانے کی آخر کیا ضرورت تھی؟
کے پی کے ہاکی ایسوسی ایشن کے صدر ظاہر شاہ وہی ہیں جنہوں نے پی ایچ ایف حکام کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر رکھی تھی،اپنا اقتدار خطرے میں دیکھ فیڈریشن کے ارباب اختیار نے ظاہر شاہ کے ساتھ صلح کر لی، اب اسی ظاہر شاہ کو خوش کرنے کے لیے کمیٹی کا سربراہ بھی بنا دیا گیا ہے۔
حیران کن پہلو یہ ہے کہ اس کمیٹی میں شامل ایک رکن کرنل(ر) آصف ناز صدر فیڈریشن بریگیڈیئر(ر) خالد سجاد کھوکھر کے حقیقی بھائی ہیں جبکہ دیگر 2 ارکان فیڈریشن کے باقاعدہ ملازم ہیں، اب سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان ارکان کے ہوتے ہوئے انصاف کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے، ظاہری بات ہے کہ ارکان وہی رپورٹ پیش کریں گے جو پی ایچ ایف عہدیدار چاہتے ہیں۔
فیڈریشن ابھی ان تنازعات سے باہر نکلی نہیںپائی تھی کہ پی ایچ ایف حکام کو ایک اور مصیبت نے آن گھیرا ہے۔ ہیڈ کوچ رولننٹ اولٹمنز نے آئندہ ماہ ا ومان میں شیڈول ایشین چیمپئنز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم کی ہمراہی کر نے سے انکار کر دیا ہے، وجہ وہی پیسوں کا نہ ملنا ہے۔
میں پہلے بھی بار بار لکھ چکا ہوں کہ ایک گورا کوچ کبھی بھی پاکستانی ٹیم کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا، یہ وہی کوچ تھا جسے جب ڈالرز میں تنخواہ مل رہی تھی تو اس کی زبان پاکستانی ٹیم اور کھلاڑیوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتی تھی، اب جب اسے معلوم ہو گیا ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں اورپی ایچ ایف کو مستقبل قریب میں بھی مزید فنڈز ملنے کا کوئی امکان نہیں تو اس نے نہایت ڈھٹائی سے گرین شرٹس کی عالمی ایونٹس میں پے در پے شکستوں کا ذمہ دار خود کو ٹھہراتے ہوئے پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کرنے سے صاف صاف انکار کر دیا ہے۔
شائقین اکثر سوچتے ہیں کہ وہ بھی کیا دن تھے کہ جب پاکستان ہاکی ٹیم کی کامیابیوں کے ہر سو چرچے تھے، اس کھیل سے وابستہ کھلاڑی جدھر جاتے، شائقین پرتپاک استقبال کرتے، سر آنکھوں پر بٹھاتے، انہیں صدارتی ایوارڈز، مہنگے ترین پلاٹس اور دیگر مراعات سے نوازا جاتا، ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم میں مدعو کیا جاتا، سرکاری اداروں میں پرکشش ملازمتیں دی جاتیں لیکن یہ وقت، وقت کی بات ہے اور اب شاید وہ ہاکی کا سنہری دور ماضی کا قصہ بن چکا، گرین شرٹس 1994کے بعد سے ورلڈ کپ کے ٹائٹل سے محروم ہیں۔
اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دنیا بھر کے عالمی اعزازات اپنے نام کرنے والی قومی ہاکی ٹیم اولمپکس2016ء سے بھی باہر ہونے کے بعد ایشیائی سطح پر بھی ہارنا شروع ہو گئی ہے، ٹیم کی ناکامیوں کا سفر تاحال جاری ہے اور ایشین گیمز میں گرین شرٹس کی ذلت آمیز شکستوں کے پاکستانی ٹیم کی شرمناک شکستوں کے بعد سوشل میڈیا میں طوفان مچا ہوا ہے،کوئی ان ناکامیوں کا ذمہ دار موجودہ فیڈریشن کو قرار دے رہا ہے تو کوئی عہدیداروں کو ہٹانے کے مطالبے کر رہا ہے۔
شائقین یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا قومی کھیل اس لئے تھا کہ اس نے دنیا بھر میں پاکستان کی آن بان شان میں اضافہ کیا لیکن یہی ٹیم اب دیار غیر میں پاکستان کی شرمندگی کا باعث بن رہی ہے، اگر شرمندگی اور ناکامی ہی گرین شرٹس کا مقدر بن چکی ہے تو ہاکی کی بجائے کرکٹ یا کسی اور گیم کو پاکستان کا قومی کھیل قرار دے دینا چاہیے۔
عرصہ ہو چکا، اپنے سسرال جنوبی افریقہ نہیں جا سکا، اس کھلاڑی کے منہ سے یہ کلمات نکلنے کی دیر تھی کہ فیڈریشن عہدیدار بول پڑا، آپ فکر کیوں کرتے ہیں، ابھی اس کاانتظام کئے دیتے ہیں، پھر سوچے سمجھے منصوبے کے بعد قومی جونیئر ٹیم کے جنوبی افریقہ کے دورے کا انتظام کیا گیا اور اسی کھلاڑی کو کوچ بنا کر ٹیم کے ساتھ روانہ کر دیا گیا، سابق کھلاڑیوں، دوستوں اور عزیز اوقارب کو نوازنے کی روایت پی ایچ ایف میں نئی نہیں، یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے اور اس میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔
ایک عہدیدار تو ایسا بھی تھا جو فیڈریشن کے پیسے پر پراپرٹی کا کاروبار بھی کیا کرتا تھا، جب اس کاروبار سے منافع ملتا رہا تو اپنی جیب بھی ڈالتا رہا، نقصان ہوا تو پی ایچ ایف کو چھوڑ کر چلتا بنا، ایک اور زندہ اور تازہ مثال قومی ڈویلپمنٹ سکواڈ کے حالیہ دورہ کینیڈا کی ہی لے لیں، اپنوں کو خوش کرنے کے لیے قومی جونیئر ٹیم کے کینیڈا کے بلاوجہ اور بلامقصد دورے کا انتظام کیا گیا۔
دورے کے دوران عوام کی خون پسینے کی کمائی سے حکومتی فنڈز کے بل بوتے پر پھلنے پھولنے والی فیڈریشن کے نہ صرف ڈیرھ کروڑ روپے سے زیادہ کے اخراجات آئے بلکہ 5میچز کی سیریز میں قومی ٹیم کو میزبان سائیڈ کے ہاتھوں ذؒلت آمیز شکستوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، اس کے باوجود گراس روٹ سطح پر ٹیلنٹ کا یہ حال ہے کہ دور بین لگا کر بھی نئے اور باصلاحیت کھلاڑی دیکھنے کو نہیں ملتے۔
راقم کو پاکستان ہاکی ٹیم منیجمنٹ کے ایک عہدیدار نے خود بتایا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ نہ ہونے کے برابر رہا گیا ہے، ایشین گیمز میں جونیئر ٹیم کے کپتان کو سینئر سکواڈ کا حصہ بنایا گیا، وہ بھی بری طرح ناکام رہا۔
اب ایشین گیمز میں ناکامی کے بعد پاکستان ہاکی فیڈریشن میں پھوٹ پر چکی ہے، ڈائریکٹر ڈومیسٹک نوید عالم نے فیڈریشن حکام کو آئینہ دکھایا تو الٹا انہیں ہی عہدے سے فارغ کر دیا گیا، مجھے تو ابھی تک اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ جب فیڈریشن حکام نے اپنے ایک عہدیدار کو فارغ کر ہی دیا تھا تو پھر اس کے خلاف ظاہر شاہ کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنانے کی آخر کیا ضرورت تھی؟
کے پی کے ہاکی ایسوسی ایشن کے صدر ظاہر شاہ وہی ہیں جنہوں نے پی ایچ ایف حکام کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر رکھی تھی،اپنا اقتدار خطرے میں دیکھ فیڈریشن کے ارباب اختیار نے ظاہر شاہ کے ساتھ صلح کر لی، اب اسی ظاہر شاہ کو خوش کرنے کے لیے کمیٹی کا سربراہ بھی بنا دیا گیا ہے۔
حیران کن پہلو یہ ہے کہ اس کمیٹی میں شامل ایک رکن کرنل(ر) آصف ناز صدر فیڈریشن بریگیڈیئر(ر) خالد سجاد کھوکھر کے حقیقی بھائی ہیں جبکہ دیگر 2 ارکان فیڈریشن کے باقاعدہ ملازم ہیں، اب سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان ارکان کے ہوتے ہوئے انصاف کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے، ظاہری بات ہے کہ ارکان وہی رپورٹ پیش کریں گے جو پی ایچ ایف عہدیدار چاہتے ہیں۔
فیڈریشن ابھی ان تنازعات سے باہر نکلی نہیںپائی تھی کہ پی ایچ ایف حکام کو ایک اور مصیبت نے آن گھیرا ہے۔ ہیڈ کوچ رولننٹ اولٹمنز نے آئندہ ماہ ا ومان میں شیڈول ایشین چیمپئنز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم کی ہمراہی کر نے سے انکار کر دیا ہے، وجہ وہی پیسوں کا نہ ملنا ہے۔
میں پہلے بھی بار بار لکھ چکا ہوں کہ ایک گورا کوچ کبھی بھی پاکستانی ٹیم کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا، یہ وہی کوچ تھا جسے جب ڈالرز میں تنخواہ مل رہی تھی تو اس کی زبان پاکستانی ٹیم اور کھلاڑیوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتی تھی، اب جب اسے معلوم ہو گیا ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں اورپی ایچ ایف کو مستقبل قریب میں بھی مزید فنڈز ملنے کا کوئی امکان نہیں تو اس نے نہایت ڈھٹائی سے گرین شرٹس کی عالمی ایونٹس میں پے در پے شکستوں کا ذمہ دار خود کو ٹھہراتے ہوئے پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کرنے سے صاف صاف انکار کر دیا ہے۔
شائقین اکثر سوچتے ہیں کہ وہ بھی کیا دن تھے کہ جب پاکستان ہاکی ٹیم کی کامیابیوں کے ہر سو چرچے تھے، اس کھیل سے وابستہ کھلاڑی جدھر جاتے، شائقین پرتپاک استقبال کرتے، سر آنکھوں پر بٹھاتے، انہیں صدارتی ایوارڈز، مہنگے ترین پلاٹس اور دیگر مراعات سے نوازا جاتا، ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم میں مدعو کیا جاتا، سرکاری اداروں میں پرکشش ملازمتیں دی جاتیں لیکن یہ وقت، وقت کی بات ہے اور اب شاید وہ ہاکی کا سنہری دور ماضی کا قصہ بن چکا، گرین شرٹس 1994کے بعد سے ورلڈ کپ کے ٹائٹل سے محروم ہیں۔
اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دنیا بھر کے عالمی اعزازات اپنے نام کرنے والی قومی ہاکی ٹیم اولمپکس2016ء سے بھی باہر ہونے کے بعد ایشیائی سطح پر بھی ہارنا شروع ہو گئی ہے، ٹیم کی ناکامیوں کا سفر تاحال جاری ہے اور ایشین گیمز میں گرین شرٹس کی ذلت آمیز شکستوں کے پاکستانی ٹیم کی شرمناک شکستوں کے بعد سوشل میڈیا میں طوفان مچا ہوا ہے،کوئی ان ناکامیوں کا ذمہ دار موجودہ فیڈریشن کو قرار دے رہا ہے تو کوئی عہدیداروں کو ہٹانے کے مطالبے کر رہا ہے۔
شائقین یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا قومی کھیل اس لئے تھا کہ اس نے دنیا بھر میں پاکستان کی آن بان شان میں اضافہ کیا لیکن یہی ٹیم اب دیار غیر میں پاکستان کی شرمندگی کا باعث بن رہی ہے، اگر شرمندگی اور ناکامی ہی گرین شرٹس کا مقدر بن چکی ہے تو ہاکی کی بجائے کرکٹ یا کسی اور گیم کو پاکستان کا قومی کھیل قرار دے دینا چاہیے۔