مشرف کیس عدالت غداری کے الزامات کا براہ راست نوٹس نہیں لے سکتی جسٹس اعجاز افضل

ملزم کوموت یاعمرقیدکی سزامتعین کرناخصوصی عدالت کاکام ہے،جسٹس جواد ،

ملزم کوموت یاعمرقیدکی سزامتعین کرناخصوصی عدالت کاکام ہے،جسٹس جواد ، مجرم ٹھہرانے سے قبل قانونی تقاضے پورے کرنا لازمی ہے،سپریم کورٹ فوٹو: فائل

GILGIT:
بغاوت کیس میں جسٹس اعجازافضل خان نے ریمارکس دیے ہیں کہ کسی کومجرم قراردینے سے پہلے قانونی تقاضے پورے کرنالازمی ہے جبکہ جسٹس جوادایس خواجہ نے کہا ہے کہ غداری کے الزام میں سزاکے تعین کااختیارخصوصی عدالت کوحاصل ہے۔

ملزم کوموت یا عمر قیدکی سزاملے گی یہ تعین کرناخصوصی عدالت کاکام ہے ۔ 2 ہفتے کے وقفے کے بعدپیر کوجسٹس جوادایس خواجہ کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سابق صدر جنرل پرویزمشرف کے خلاف غداری کے الزام میںکارروائی کیلیے دائردرخواستوںکی سماعت دوبارہ شروع کی۔اے کے ڈوگرنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عبوری آئینی حکم (پی سی او)کااجرا پرویزمشرف کیخلاف آئین معطل کرنے کے الزام میںمستند ثبوت ہے اور وہ آئین شکنی کیلیے ذمے دارہیں۔ اسی بنیادپرسندھ ہائیکورٹ بارکیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے انھیں غاصب قراردیاہے اورسندھ ہائی کورٹ نے فیصلے پرعمل درآمد کی درخواست میں انھیں سزاکامستحق قراردیاہے لیکن معاملہ سپریم کورٹ کی ہدایات سے مشروط کیا ہے۔

بینچ کے رکن جسٹس خلجی نے سوال اٹھایاکہ کیاسندھ ہائیکورٹ نے پرویزمشرف کوکوئی نوٹس جاری کیاتھا؟، اس پرفاضل وکیل نے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کے بارے میں ان کے پاس مصدقہ معلومات موجودنہیں لیکن سپریم کورٹ نے فیصلہ دینے سے پہلے پرویزمشرف کونوٹس جاری کیاتھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ مجرم ٹھہرگئے ہیں، اب صرف انھیںسزادیناباقی ہے جوموت یاعمرقیدہوسکتی ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سزادیناخصوصی عدالت کاکام ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ سندھ ہائی کورٹ بارکے مقدمے میں کسی درخواست گزارنے پرویزمشرف کوبراہ راست فریق نہیں بنایاتھااورنہ ہی درخواستوںمیں یہ استدعاموجودتھی کہ پرویزمشرف کوآئین شکنی کامجرم قراردیاجائے۔




فاضل جج نے کہا کہ قانون کے مطابق جب شکایت آئے گی توخصوصی عدالت اس بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی۔ سنگین غداری کے بارے میں الزمات کاکوئی عدالت براہ راست نوٹس نہیں لے سکتی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ جب پرویزمشرف فریق نہیں تھے توانھیں نوٹس جاری کرناقانون کی نظرمیں درست تھا یانہیں؟ وکیل اے کے ڈوگرنے کہا کہ اگرکسی درخواست میں کسی کوفریق نہیں بنایاگیاہولیکن واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پراسے نوٹس جاری کرناضروری ہوتوعدالت کوایساکرنے کااختیارحاصل ہے۔ سندھ ہائیکورٹ میں دائردرخواست میں درخواست گزارنے فریق مخالف کوسزادینے کی استدعا کی تھی اورعدالت نے موقف سے اتفاق کیاتھا۔

جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ بارکے مقدمے میں3 نومبرکے اقدامات کوغیرآئینی قراردینے کی استدعاکی گئی تھی اورعدالت نے ان اقدامات کوماورائے آئین قراردیدیاہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ فیصلے پرعمل کیلیے قانونی طریقہ کاراپناناہوگا، قانونی طریقہ کارکے بغیرکسی کوسزانہیں دی جاسکتی۔اے کے ڈوگرنے کہا کہ31 جولائی کے فیصلے سے پہلے عدالت نے مارشل لا کادروازہ بند نہیں کیا تھا، یہاںتک کہ عاصمہ جیلانی کیس میںبھی یہ دروازہ کھلارہاتھا۔ فاضل وکیل نے کہا کہ شرف فریدی کیس میں سپریم کورٹ نے آئین کے اطلاق اوراس کی پابندی عدالتوں کی بنیادی ذمہ داری ٹھہرائی ہے۔جسٹس جوادنے کہا کہ شرف فریدی کیس کے فیصلے کوبنیادبناکربھارتی سپریم کورٹ نے بڑے بڑے فیصلے دیے۔آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کا ریکارڈ طلب کرلیا۔
Load Next Story