عبدالمالک کووزیراعلیٰ بنانے کااعلان مقبول اور طاقتور رہنما ہی ایسے فیصلے کرسکتے ہیں
2 جون وہ دن تھا جب ڈاکٹر عبدالمالک نام کا اعلان نوازشریف نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کیلیے مشترکہ امیدوار کے طور پر کیا
تاریخی واقعات جنم لینے والی جگہ پر موجود ہونا اور ''اعصاب شکن'' لمحات کا عینی شاہد ہونا کسی بھی صحافی کا خواب ہوتا ہے۔
2 جون وہ دن تھا جب متوسط طبقے کے سیاستدان ڈاکٹر عبدالمالک نام کا اعلان نوازشریف نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کیلیے مشترکہ امیدوار کے طور پر کیا۔اس سے کچھ دیر قبل میں نے نواز شریف کو سردار ثناء اللہ زہری کے کندھے پر تھپکی دے کر ''تسلی''دیتے ہوئے سنا''شکریہ' سب ٹھیک ہو جائے گا''۔ان اقدامات سے نواز شریف نے اپنے ناقدین کو خاموش کرادیا ہے کہ مسلم لیگ ن دائیں بازو کی جماعت ہے۔صرف مقبول اور طاقتور رہنما ہی اپنی جماعت کے نامزد امیدوار کی نہ صرف وزارت اعلیٰ بلکہ گورنری کیلیے بھی قربانی دینے جیسے فیصلے کرسکتے ہیں ۔اس فیصلے سے کچھ دیرقبل شہباز شریف نے میاں صاحب کو چند سیکنڈ دینے کیلیے کہا اور دوسرے کمرے میں لے گئے ۔اس موقع پرچنگیز مری بھی مایوس دکھائی دیے۔
اگرچہ نیشنل پارٹی کے رہنما اور یونیورسٹی کے دنوں کے میرے ساتھی حاصل بزنجو کو خوش نظر آنا چاہیے تھا مگر وہ متفکر دکھائی دیے۔ جائے مقام گورنمنٹ ہائوس میری تھا،جو نوازشریف کی رہائش گاہ سے کچھ دور ہے ۔یہ وہی جگہ ہے جس کے متعلق میاں صاحب نے کہا تھا کہ انھیں یہاں حراست میں لیا گیا تاہم اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں جنرل پرویز مشرف کو نواب اکبر بگٹی کے قتل کی اطلاع دی گئی تھی ۔میں نے ان اعصاب شکن لمحات میں شہبازشریف کی ایک کمرے سے دوسرے میں آنی جانیاں اور لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ جیسے مسلم لیگ بلوچستان کے رہنمائوں سے گفتگو کرتے دیکھا۔میں نے قادر بلوچ کو مایوسی کے عالم میں بار بار سر ہلاتے دیکھا،جیسے کہ وہ شہباز شریف کی باتوں سے مکمل مطمئن نہ ہوں۔
چوہدری نثار اور پرویز رشید جیسے سینئر لیگی رہنماؤں نے 11 مئی کے بعد سے اسے مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک قرار دیا۔ جب صحافیوں کو بریفنگ کیلیے بلایا گیا تو ہمارا خیال تھا کہ معاملہ ختم ہو گیا تاہم اس میں مزید 40 سے 50 منٹ لگ گئے اور مجھے بتایا گیا کہ کم از کم تین مواقع پر گفت وشنید قریباً دم توڑ گئی تھی تاہم شہبازشریف کی شاندار چالیں، نثار علی خاں اور خواجہ آصف کی مہارت ، پرویز رشید کی پرانی ترقی پسندانہ عادتیں اورسب سے بڑھ کر نواز شریف کے پر سکون مزاج نے بات چیت کوکامیاب کیا۔ کہانی کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ بلوچستان کامسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے اور مسلم لیگ ن اپنے سرکوئی الزام نہیں لینا چاہے گی جیسے کہ اگر لاپتہ افراد کا معاملہ حل نہ ہوا اور ایف سی نے وزیراعلیٰ کے احکام وغیرہ کی تعمیل نہ کی۔مسلم لیگ ن بلوچستان کی طرف سے حقیقی تعاون کا منظردیکھنے کے قابل ہو گا۔اگرچہ مایوس لیگی رہنماؤں کی موجودگی میں اعلان کیا گیاتاہم ان کی باڈی لینگویج عدم تعاون کی چغلی کر رہی تھی۔ڈاکٹرعبدالمالک کو انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کرناہوگا۔
2 جون وہ دن تھا جب متوسط طبقے کے سیاستدان ڈاکٹر عبدالمالک نام کا اعلان نوازشریف نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کیلیے مشترکہ امیدوار کے طور پر کیا۔اس سے کچھ دیر قبل میں نے نواز شریف کو سردار ثناء اللہ زہری کے کندھے پر تھپکی دے کر ''تسلی''دیتے ہوئے سنا''شکریہ' سب ٹھیک ہو جائے گا''۔ان اقدامات سے نواز شریف نے اپنے ناقدین کو خاموش کرادیا ہے کہ مسلم لیگ ن دائیں بازو کی جماعت ہے۔صرف مقبول اور طاقتور رہنما ہی اپنی جماعت کے نامزد امیدوار کی نہ صرف وزارت اعلیٰ بلکہ گورنری کیلیے بھی قربانی دینے جیسے فیصلے کرسکتے ہیں ۔اس فیصلے سے کچھ دیرقبل شہباز شریف نے میاں صاحب کو چند سیکنڈ دینے کیلیے کہا اور دوسرے کمرے میں لے گئے ۔اس موقع پرچنگیز مری بھی مایوس دکھائی دیے۔
اگرچہ نیشنل پارٹی کے رہنما اور یونیورسٹی کے دنوں کے میرے ساتھی حاصل بزنجو کو خوش نظر آنا چاہیے تھا مگر وہ متفکر دکھائی دیے۔ جائے مقام گورنمنٹ ہائوس میری تھا،جو نوازشریف کی رہائش گاہ سے کچھ دور ہے ۔یہ وہی جگہ ہے جس کے متعلق میاں صاحب نے کہا تھا کہ انھیں یہاں حراست میں لیا گیا تاہم اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں جنرل پرویز مشرف کو نواب اکبر بگٹی کے قتل کی اطلاع دی گئی تھی ۔میں نے ان اعصاب شکن لمحات میں شہبازشریف کی ایک کمرے سے دوسرے میں آنی جانیاں اور لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ جیسے مسلم لیگ بلوچستان کے رہنمائوں سے گفتگو کرتے دیکھا۔میں نے قادر بلوچ کو مایوسی کے عالم میں بار بار سر ہلاتے دیکھا،جیسے کہ وہ شہباز شریف کی باتوں سے مکمل مطمئن نہ ہوں۔
چوہدری نثار اور پرویز رشید جیسے سینئر لیگی رہنماؤں نے 11 مئی کے بعد سے اسے مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک قرار دیا۔ جب صحافیوں کو بریفنگ کیلیے بلایا گیا تو ہمارا خیال تھا کہ معاملہ ختم ہو گیا تاہم اس میں مزید 40 سے 50 منٹ لگ گئے اور مجھے بتایا گیا کہ کم از کم تین مواقع پر گفت وشنید قریباً دم توڑ گئی تھی تاہم شہبازشریف کی شاندار چالیں، نثار علی خاں اور خواجہ آصف کی مہارت ، پرویز رشید کی پرانی ترقی پسندانہ عادتیں اورسب سے بڑھ کر نواز شریف کے پر سکون مزاج نے بات چیت کوکامیاب کیا۔ کہانی کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ بلوچستان کامسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے اور مسلم لیگ ن اپنے سرکوئی الزام نہیں لینا چاہے گی جیسے کہ اگر لاپتہ افراد کا معاملہ حل نہ ہوا اور ایف سی نے وزیراعلیٰ کے احکام وغیرہ کی تعمیل نہ کی۔مسلم لیگ ن بلوچستان کی طرف سے حقیقی تعاون کا منظردیکھنے کے قابل ہو گا۔اگرچہ مایوس لیگی رہنماؤں کی موجودگی میں اعلان کیا گیاتاہم ان کی باڈی لینگویج عدم تعاون کی چغلی کر رہی تھی۔ڈاکٹرعبدالمالک کو انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کرناہوگا۔