ایرانی فوجی پریڈ پر دہشت گردوں کا حملہ

جمہوری عرب تحریک نامی ایک تنظیم اور داعش نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے

جمہوری عرب تحریک نامی ایک تنظیم اور داعش نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ فوٹو: فائل

ایران کے صوبہ اہوازمیں ہفتہ دفاع (Defence week)کے موقع پر ہونے والی فوجی پریڈ پر چاردہشت گردوں کے حملے میں فوجیوں سمیت 29 افرادجاں بحق جب کہ بچوں اورخواتین سمیت 70 سے زائد زخمی ہو گئے۔ فورسزکے جوابی حملے میں چاروںحملہ آوربھی مارے گئے۔ ایرانی حکام کے مطابق ہلاک شدگان میں ایرانی فورس 'پاسداران انقلاب' کے بارہ اہلکار، ایک صحافی اور خواتین بھی شامل ہیں، اسپتال میں متعدد کی حالت تشویشناک ہے لہذا ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

جمہوری عرب تحریک نامی ایک تنظیم اور داعش نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ واقعات کے مطابق پریڈ کی تقریب جاری تھی کہ فوجی وردیوں میں ملبوس 4 دہشت گردوں نے اسٹیج کے پیچھے سے ایرانی فوجیوں پر فائرنگ کر دی جس سے بھگڈر مچ گئی۔ سیکیورٹی فورسز نے فوری طور پر جوابی کارروائی کی۔ یہ جھڑپ صرف دس منٹ تک جاری رہی جس میں چاروں حملہ آور ہلاک ہو گئے۔ ایران نے کہا ہے کہ یہ حملہ غیر ملکی عسکریت پسندوں نے کیا جنھیں سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ حملے کے بعد ایران نے عراق کے ساتھ اپنے دو سرحدی راستے بند کر دیے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ حملہ آوروں کو امریکا کی پشت پناہی حاصل تھی۔


ترجمان ایرانی فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملٹری پریڈ کے حملہ آوروں کا تعلق داعش سے نہیں بلکہ ان کا رابطہ اسرائیل اور امریکا سے تھا۔ جواد ظریف نے کہا ہے کہ دہشتگردوں کو اسلحہ، تربیت اور معاوضہ غیر ملکی حکومت نے ادا کیا۔ ایرانی عوام کے دفاع کے لیے ہم جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ ایران میں فوجی پریڈ پر دہشت گردوں کا حملہ انتہائی قابل مذمت ہے' ایرانی حکام نے جن ملکوں یا قوتوں پر الزام عائد کیا ہے۔

اس میں کتنی حقیقت ہے' اس بارے میں فی لحال کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ حقیقت ہے کہ مسلم ممالک کے باہمی تنازعات نے پورے مشرق وسطیٰ کے حالات خراب کر رکھے ہیں۔ یمن اور عراق میں جو کچھ ہوا' اس کے بارے میں پورا عالم اسلام اور باقی دنیا بخوبی جانتی ہے۔بہر حال پاکستان کے پالیسی سازوں کو چاہیے کہ انھیں مشرق وسطیٰ میں جاری نفرت اور عناد کے کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہیے بلکہ پاکستان کے مفاد کو سامنے رکھ کر اپنی آزاد اور غیرجانبدار خارجہ پالیسی پر عمل پیرا رہنا چاہیے۔
Load Next Story