عمران اور مودی امن کے لیے پہل کون کرے گا
تصادموں اور ناراضیوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے
ڈاکٹر معید یوسف پاکستان کے اُبھرتے ہُوئے عالمی شہرت یافتہ دانشور ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی اور بوسٹن یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں۔ آجکل امریکی دارالحکومت، واشنگٹن ڈی سی، میں بروئے کار ایک مشہور تھنک ٹینکUSIP(یونائٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پِیس) میں ایشیا سینٹر کے وائس پریذیڈنٹ ہیں۔ خان صاحب کی نَو منتخب حکومت چاہے تو اُن کی دانش اور تعلقات سے مستفید ہو سکتی ہے کہ بہرحال انھوں نے واشنگٹن میں اپنی ایک لابی تو بنائی ہے۔ امریکی تھنک ٹینکس سے وابستہ پاکستانی اسکالرز اور اہلِ دانش پاکستان کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ پاکستان تو چاہتا ہے کہ کوئی یہ کردار ادا کرے لیکن اگر یہ تیسری طاقت مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی منظور شدہ قرار دادوں سے بالا بالا اپنا کام دکھائے گی تو پاکستان کو ایسے امن کی شائد ضرورت نہیں ہے۔ امریکا اکلوتی عالمی سُپر پاور ہونے کے ناتے یہ کردار ادا کر سکتا ہے لیکن ''پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی'' کے سابق چیئرمین، جمشید ہاشمی، کہتے ہیں کہ ماضی میں جب بھی امریکا کو پاکستان اور بھارت کے درمیان قیامِ امن کے لیے بطورِ بروکر دعوت دی گئی، اُس نے بھارت کو فائدہ پہنچایا اور پاکستان کو نقصان۔
پاکستان اور بھارت کو ہمیشہ متصاد م نہیں رہنا ہے۔ تصادموں اور ناراضیوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ نقصان عوام کا ہُوا ہے۔ بھارت کی نسبت پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے اور ہماری معیشت بھی چھوٹی ہے؛ چنانچہ باہمی عدم اعتماد سے نقصان پاکستان کا نسبتاً زیادہ ہُوا ہے۔ 65ء اور 70ء اور سیاچن گلیشئر اور کارگل کی جنگیں بھی لڑ کر دیکھ لی گئی ہیں۔ امن پھر بھی حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان اور اہلِ پاکستان کو بہرحال رنج ہے کہ بھارت نے پاکستان کو دولخت کیا ۔ مودی جی تو چھاتی پر ہاتھ مار کر بنگلہ دیش میں اس بارے فخر کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ اُن کے اس لہجے اور اظہار سے پاکستانیوں کے زخم پھر سے ہرے ہو گئے تھے۔ اس کے باوجود ہمارے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پاک، بھارت امن کے لیے مخلصانہ کوششیں کر تے رہے لیکن بوجوہ کامیاب نہ ہو سکے۔
پچھلے پانچ سال تو اِسی طرح گزر گئے۔ نریندرمودی کی قیادت میں بھارت نے دُنیا میں ہر جگہ پاکستان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ ''سارک'' کی ایک کانفرنس بھی نہیں ہونے دی۔ اُلٹا کئی'' سارک'' ممالک کو پاکستان کے خلاف زبان کھولنے پر مجبور کیا۔بھارت ہی کے ممتاز قانون دان اور تجزیہ کار، اے جی نورانی، نے اپنے ایک حالیہ آرٹیکل میں لکھا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اپنی داداگیری قائم کرنے کے لیے بھارت نے ''سارک'' آئین کی کئی بنیادی شقوں کی کئی بار خلاف ورزیاں کی ہیں لیکن افسوس اُس کا ہاتھ نہیں روکا گیا۔ پاکستان دانستہ بھارتی زیادتیاں برداشت کرتا رہا ہے۔ نیت شائد یہی رہی ہوگی کہ جنوبی ایشیا کا امن مزید خراب نہ ہونے پائے لیکن پاکستان کے صبر سے بھارت کو مزید شہ ملی۔
اُس نے آگے بڑھ کر جس شدت اور انتہائی غیر پارلیمانی انداز میں ''سی پیک'' کی مخالفت کی ہے ، پاکستان اور پاکستانیوں کو اِس کا بڑا رنج ہے۔بھارت کی طرف سے ''ایل او سی'' کی خلاف ورزیاں کبھی رکی ہی نہیں۔ اِس کے باوجود یہ پاکستان ہی ہے جو مسلسل بھارت کی طرف امن اور دوستی کا ہاتھ بڑھاتا رہا ہے۔ بھارت مگر پاکستان میں دہشتگردی کے فروغ اور در اندازیوں سے باز نہیں آیا۔ یہ سب جانتے ہُوئے عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی بھارت کی طرف دوستی اور تعاون کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا: ''بھارت ہماری طرف ایک قدم بڑھائے گا تو ہم اُس کی طرف دو قدم بڑھائیں گے۔''یہ اعلان ابھی تک لاحاصل ثابت ہُوا ہے۔
انھوں نے اپنی تقریبِ حلف برداری میں بھارتی کھلاڑیوں کو بھی مدعو کیا۔ افسوس مگر یہ ہے کہ بھارتی کرکٹر، نوجوت سنگھ سدھو، پاکستان آئے تو بھارت نے اسے اپنی ناک کامسئلہ بنا لیا۔ انھیں پاکستان آنے کی یہ سزا دی گئی کہ جب سدھو صاحب واپس گئے تو اُن پر غداری کا مقدمہ بنادیا گیا۔ جب اس سے بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہُوا تو سدھو صاحب کے خلاف کار ایکسیڈنٹ کا ایک بیس بائیس سال پرانا کیس نکال لیا گیا۔ ہمارے سپہ سالار نے محض پاک، بھارت امن کی خاطر سدھو کے سامنے یہ اعلان کیا تھاکہ ہم ''کرتار پورکوریڈور'' کھولنے کا سوچ رہے ہیں تاکہ بھارتی سکھوں کو کرتار پور دربار صاحب کے درشن کرنے میں زیادہ آسانیاں پیدا ہو سکیں۔ بھارت نے اس کا بھی مثبت جواب نہیں دیا۔
بھارت نے وزیر اعظم پاکستان اور سپہ سالارِ پاکستان کے ان قابلِ تحسین اقدامات کے مقابل کوئی خاص مثبت روئیے کااظہار نہیں کیا ہے۔ بس یہی کہا ہے کہ ''پاکستان کی طرف سے ایک کھڑکی کھولی گئی ہے۔'' اور اس کے ساتھ ہی چند دن بعد بھارتی بنئے کی طرف سے یہ کہہ دیا گیا کہ''ابھی ہم پاکستان سے براہِ راست مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔'' یہ بیان اُسوقت آیا جب ہمارے وزیر اطلاعات ، فواد چوہدری، نے بھی پاک، بھارت دوستی کے استحکام کی طرف واضح اشارے دے دیے تھے لیکن بھارتی پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔
مثال کے طور پر: وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ستمبر2018ء کے دوسرے ہفتے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا تھا: ''پاکستان کی منتخب حکومت اور فوج ، دونوں ہی خطے میں امن کے لیے بھارت سے مذاکرات کے خواہشمند ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کے لیے کئی اشارے بھی دیے جا چکے ہیں لیکن ابھی تک بھارت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔'' اِسی انٹرویو میں ہمارے نوجوان وزیر اطلاعات نے بھارت کی دکھتی رَگ پر ہاتھ رکھتے ہُوئے کہا تھا: ''مسئلہ یہ ہے کہ نریندر مودی نے جس طرح پاکستان مخالف انتخابی مہم چلائی، اس کے بعد بی جے پی اس سوچ میں پھنسی ہُوئی ہے کہ کہیں پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے اُن کے ووٹرز پر کوئی فرق نہ پڑجائے۔''یہ بات درست ہو سکتی ہے۔
بھارتی حکمران پارٹی اپنے ہی امن دشمن افکار کے حصار میں ہے۔ اب پھر اگلے سال بھارت میں عام انتخاب ہونے والے ہیں۔ نریندر مودی پھر سے وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار ہیں۔ جیتنے کے لیے انتخابات میں وہ پاکستان کے خلاف زبان کی چھری تیز رکھیں گے۔ تو کیا پاک، بھارت امن کی منزل ابھی دو سال کے فاصلے پر ہے؟ وقت ضایع کیے بغیر وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ انھوں نے مودی کو ایک خط (جس پر14ستمبر کی تاریخ رقم ہے)لکھا ہے کہ پاک، بھارت مذاکرات کے لیے پاکستان تیار ہے، شروعات کے لیے جنرل اسمبلی کے اجلاسوں کی سائیڈ لائن پر شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج کی(اِسی ماہ کے آخر میں) ملاقات ہونی چاہیے۔ بھارت نے پہلے تو دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات کے لیے ہامی بھر لی لیکن پھر دوسرے روز ہی مُکر گیا۔
بہانہ یہ بنایا کہ مقبوضہ کشمیر میں جن تین سپاہیوں کا مجاہدینِ کشمیر کے ہاتھوں قتل ہُوا ہے، اُس میں پاکستان کی حمائت بھی شامل ہے۔ ثبوت بھارت نے مگر کوئی نہیں دیا ہے۔ اور یہ بھی کہ پاکستان کے محکمہ ڈاک نے ایک ڈاک ٹکٹ پرمقبوضہ کشمیر کے شہید برہان وانی کی فوٹو کیوں شایع کی ہے۔ عجب تماشہ ہے۔مذاکرات سے بھارت کا یہ فرار اُسے ساری دُنیا میں بے توقیر کررہا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے بہر حال پاک، بھارت امن کے لیے اپنی طرف سے ایک حجت پوری کر دی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ پاکستان تو چاہتا ہے کہ کوئی یہ کردار ادا کرے لیکن اگر یہ تیسری طاقت مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی منظور شدہ قرار دادوں سے بالا بالا اپنا کام دکھائے گی تو پاکستان کو ایسے امن کی شائد ضرورت نہیں ہے۔ امریکا اکلوتی عالمی سُپر پاور ہونے کے ناتے یہ کردار ادا کر سکتا ہے لیکن ''پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی'' کے سابق چیئرمین، جمشید ہاشمی، کہتے ہیں کہ ماضی میں جب بھی امریکا کو پاکستان اور بھارت کے درمیان قیامِ امن کے لیے بطورِ بروکر دعوت دی گئی، اُس نے بھارت کو فائدہ پہنچایا اور پاکستان کو نقصان۔
پاکستان اور بھارت کو ہمیشہ متصاد م نہیں رہنا ہے۔ تصادموں اور ناراضیوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ نقصان عوام کا ہُوا ہے۔ بھارت کی نسبت پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے اور ہماری معیشت بھی چھوٹی ہے؛ چنانچہ باہمی عدم اعتماد سے نقصان پاکستان کا نسبتاً زیادہ ہُوا ہے۔ 65ء اور 70ء اور سیاچن گلیشئر اور کارگل کی جنگیں بھی لڑ کر دیکھ لی گئی ہیں۔ امن پھر بھی حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان اور اہلِ پاکستان کو بہرحال رنج ہے کہ بھارت نے پاکستان کو دولخت کیا ۔ مودی جی تو چھاتی پر ہاتھ مار کر بنگلہ دیش میں اس بارے فخر کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ اُن کے اس لہجے اور اظہار سے پاکستانیوں کے زخم پھر سے ہرے ہو گئے تھے۔ اس کے باوجود ہمارے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پاک، بھارت امن کے لیے مخلصانہ کوششیں کر تے رہے لیکن بوجوہ کامیاب نہ ہو سکے۔
پچھلے پانچ سال تو اِسی طرح گزر گئے۔ نریندرمودی کی قیادت میں بھارت نے دُنیا میں ہر جگہ پاکستان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ ''سارک'' کی ایک کانفرنس بھی نہیں ہونے دی۔ اُلٹا کئی'' سارک'' ممالک کو پاکستان کے خلاف زبان کھولنے پر مجبور کیا۔بھارت ہی کے ممتاز قانون دان اور تجزیہ کار، اے جی نورانی، نے اپنے ایک حالیہ آرٹیکل میں لکھا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اپنی داداگیری قائم کرنے کے لیے بھارت نے ''سارک'' آئین کی کئی بنیادی شقوں کی کئی بار خلاف ورزیاں کی ہیں لیکن افسوس اُس کا ہاتھ نہیں روکا گیا۔ پاکستان دانستہ بھارتی زیادتیاں برداشت کرتا رہا ہے۔ نیت شائد یہی رہی ہوگی کہ جنوبی ایشیا کا امن مزید خراب نہ ہونے پائے لیکن پاکستان کے صبر سے بھارت کو مزید شہ ملی۔
اُس نے آگے بڑھ کر جس شدت اور انتہائی غیر پارلیمانی انداز میں ''سی پیک'' کی مخالفت کی ہے ، پاکستان اور پاکستانیوں کو اِس کا بڑا رنج ہے۔بھارت کی طرف سے ''ایل او سی'' کی خلاف ورزیاں کبھی رکی ہی نہیں۔ اِس کے باوجود یہ پاکستان ہی ہے جو مسلسل بھارت کی طرف امن اور دوستی کا ہاتھ بڑھاتا رہا ہے۔ بھارت مگر پاکستان میں دہشتگردی کے فروغ اور در اندازیوں سے باز نہیں آیا۔ یہ سب جانتے ہُوئے عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی بھارت کی طرف دوستی اور تعاون کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا: ''بھارت ہماری طرف ایک قدم بڑھائے گا تو ہم اُس کی طرف دو قدم بڑھائیں گے۔''یہ اعلان ابھی تک لاحاصل ثابت ہُوا ہے۔
انھوں نے اپنی تقریبِ حلف برداری میں بھارتی کھلاڑیوں کو بھی مدعو کیا۔ افسوس مگر یہ ہے کہ بھارتی کرکٹر، نوجوت سنگھ سدھو، پاکستان آئے تو بھارت نے اسے اپنی ناک کامسئلہ بنا لیا۔ انھیں پاکستان آنے کی یہ سزا دی گئی کہ جب سدھو صاحب واپس گئے تو اُن پر غداری کا مقدمہ بنادیا گیا۔ جب اس سے بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہُوا تو سدھو صاحب کے خلاف کار ایکسیڈنٹ کا ایک بیس بائیس سال پرانا کیس نکال لیا گیا۔ ہمارے سپہ سالار نے محض پاک، بھارت امن کی خاطر سدھو کے سامنے یہ اعلان کیا تھاکہ ہم ''کرتار پورکوریڈور'' کھولنے کا سوچ رہے ہیں تاکہ بھارتی سکھوں کو کرتار پور دربار صاحب کے درشن کرنے میں زیادہ آسانیاں پیدا ہو سکیں۔ بھارت نے اس کا بھی مثبت جواب نہیں دیا۔
بھارت نے وزیر اعظم پاکستان اور سپہ سالارِ پاکستان کے ان قابلِ تحسین اقدامات کے مقابل کوئی خاص مثبت روئیے کااظہار نہیں کیا ہے۔ بس یہی کہا ہے کہ ''پاکستان کی طرف سے ایک کھڑکی کھولی گئی ہے۔'' اور اس کے ساتھ ہی چند دن بعد بھارتی بنئے کی طرف سے یہ کہہ دیا گیا کہ''ابھی ہم پاکستان سے براہِ راست مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔'' یہ بیان اُسوقت آیا جب ہمارے وزیر اطلاعات ، فواد چوہدری، نے بھی پاک، بھارت دوستی کے استحکام کی طرف واضح اشارے دے دیے تھے لیکن بھارتی پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔
مثال کے طور پر: وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ستمبر2018ء کے دوسرے ہفتے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا تھا: ''پاکستان کی منتخب حکومت اور فوج ، دونوں ہی خطے میں امن کے لیے بھارت سے مذاکرات کے خواہشمند ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کے لیے کئی اشارے بھی دیے جا چکے ہیں لیکن ابھی تک بھارت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔'' اِسی انٹرویو میں ہمارے نوجوان وزیر اطلاعات نے بھارت کی دکھتی رَگ پر ہاتھ رکھتے ہُوئے کہا تھا: ''مسئلہ یہ ہے کہ نریندر مودی نے جس طرح پاکستان مخالف انتخابی مہم چلائی، اس کے بعد بی جے پی اس سوچ میں پھنسی ہُوئی ہے کہ کہیں پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے اُن کے ووٹرز پر کوئی فرق نہ پڑجائے۔''یہ بات درست ہو سکتی ہے۔
بھارتی حکمران پارٹی اپنے ہی امن دشمن افکار کے حصار میں ہے۔ اب پھر اگلے سال بھارت میں عام انتخاب ہونے والے ہیں۔ نریندر مودی پھر سے وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار ہیں۔ جیتنے کے لیے انتخابات میں وہ پاکستان کے خلاف زبان کی چھری تیز رکھیں گے۔ تو کیا پاک، بھارت امن کی منزل ابھی دو سال کے فاصلے پر ہے؟ وقت ضایع کیے بغیر وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ انھوں نے مودی کو ایک خط (جس پر14ستمبر کی تاریخ رقم ہے)لکھا ہے کہ پاک، بھارت مذاکرات کے لیے پاکستان تیار ہے، شروعات کے لیے جنرل اسمبلی کے اجلاسوں کی سائیڈ لائن پر شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج کی(اِسی ماہ کے آخر میں) ملاقات ہونی چاہیے۔ بھارت نے پہلے تو دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات کے لیے ہامی بھر لی لیکن پھر دوسرے روز ہی مُکر گیا۔
بہانہ یہ بنایا کہ مقبوضہ کشمیر میں جن تین سپاہیوں کا مجاہدینِ کشمیر کے ہاتھوں قتل ہُوا ہے، اُس میں پاکستان کی حمائت بھی شامل ہے۔ ثبوت بھارت نے مگر کوئی نہیں دیا ہے۔ اور یہ بھی کہ پاکستان کے محکمہ ڈاک نے ایک ڈاک ٹکٹ پرمقبوضہ کشمیر کے شہید برہان وانی کی فوٹو کیوں شایع کی ہے۔ عجب تماشہ ہے۔مذاکرات سے بھارت کا یہ فرار اُسے ساری دُنیا میں بے توقیر کررہا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے بہر حال پاک، بھارت امن کے لیے اپنی طرف سے ایک حجت پوری کر دی ہے۔