پاکستان کو اسلامی دنیا میں بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے میں مشکلات
ایران کیخلاف انتہائی اقدام پرساتھ دیناہوگا،سعودی عرب کی شرط،معاشی مشکلات سے فوری نکالنے کیلیے کوئی اشارہ نہیںدیا
حکومت پاکستان کو اسلامی دنیا میں بڑے ممالک کے ساتھ توازن برقرار رکھنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان دورہ سعودی عرب کے بعد خاصے اضطراب کا شکار ہیں، سعودی عرب سے توقعات بھی پوری نہیں ہوئی ہیں اور آئندہ کیلئے سعودی عرب نے تعلقات کو مستحکم اور اسٹریٹجک پارٹرنر شپ کیلیے بھی اہم شرط رکھ دی ہے۔
سعودی عرب نے حکومت پاکستان پر واضح کر دیا ہے کہ پاک سعودی عرب اسٹریٹجک پارٹنر شپ کیلئے پاکستان کو سعودی عرب کی خواہش پر ایران کیخلاف انتہائی قدم سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا اور فیصلہ کن صورتحال میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا لیکن عمران خان اسلامی دنیا کے اختلافات ختم کرنے کیلیے لیڈر شپ رول لینا چاہتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے حالیہ دورہ میں سعودی عرب سے حکومت پاکستان کو توقع تھی کہ سعودی عرب پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کیلیے فوری مالی مددکرے گا لیکن سعودی عرب نے ایسا نہیںکیا اور نہ ہی مستقبل کیلیے کوئی اشارہ دیا ہے بلکہ سی پیک کے اندر شراکت داری کرنے کی کمٹمنٹ کی ہے جوکہ طویل المدتی منصوبوں والا معاملہ ہے۔ سعودی عرب نے 10بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری پر رضامندی ظاہرکی ہے جبکہ پاکستان پندرہ ارب ڈالرزکی خواہش رکھتا ہے ۔سعودی عرب نے حکومت پاکستان سے واضح الفاظ میں مطالبہ کیا ہے۔
اگر پاکستان سعودی عرب کا تعاون چاہتا ہے تو اسے ایران کیخلاف سعودی عرب کی خواہشات کے مطابق انتہائی اقدامات کرنا ہوں گے۔حکومتی ذرائع کے مطابق حالیہ دورہ کے دوران یہ بات واضح طور سامنے آئی ہے کہ اسلامی دنیا کے اندر بڑے ممالک دو بلاکس میں تقسیم ہو چکے ہیںاور ایسے میں تعلقات میں توازن برقرار رکھنا نئی حکومت کیلیے بڑا چیلنج ہے۔
اسلامی دنیا میںسعودی عرب، متحدہ عرب امارات ایک طرف ہیں جبکہ ایران، ترکی اور قطر ایک بلاک بن چکا ہے۔اب پاکستان کو طے کرنا ہو گا کہ وہ کس طرح ہمسایہ ملک ایران اور سعودی عرب کو ساتھ لے کر چلے گا یا پھر ان بلاکس میںکسی ایک کے ساتھ چلے گا۔اس چیلنج سے نمٹنے کیلیے حکومتی سطح پر غورو خوض شروع کر دیا گیا ہے اوراداروںکو بھی اعتماد میں لیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان ان بڑے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھ سکے۔
وزیر اعظم عمران خان دورہ سعودی عرب کے بعد خاصے اضطراب کا شکار ہیں، سعودی عرب سے توقعات بھی پوری نہیں ہوئی ہیں اور آئندہ کیلئے سعودی عرب نے تعلقات کو مستحکم اور اسٹریٹجک پارٹرنر شپ کیلیے بھی اہم شرط رکھ دی ہے۔
سعودی عرب نے حکومت پاکستان پر واضح کر دیا ہے کہ پاک سعودی عرب اسٹریٹجک پارٹنر شپ کیلئے پاکستان کو سعودی عرب کی خواہش پر ایران کیخلاف انتہائی قدم سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا اور فیصلہ کن صورتحال میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا لیکن عمران خان اسلامی دنیا کے اختلافات ختم کرنے کیلیے لیڈر شپ رول لینا چاہتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے حالیہ دورہ میں سعودی عرب سے حکومت پاکستان کو توقع تھی کہ سعودی عرب پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کیلیے فوری مالی مددکرے گا لیکن سعودی عرب نے ایسا نہیںکیا اور نہ ہی مستقبل کیلیے کوئی اشارہ دیا ہے بلکہ سی پیک کے اندر شراکت داری کرنے کی کمٹمنٹ کی ہے جوکہ طویل المدتی منصوبوں والا معاملہ ہے۔ سعودی عرب نے 10بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری پر رضامندی ظاہرکی ہے جبکہ پاکستان پندرہ ارب ڈالرزکی خواہش رکھتا ہے ۔سعودی عرب نے حکومت پاکستان سے واضح الفاظ میں مطالبہ کیا ہے۔
اگر پاکستان سعودی عرب کا تعاون چاہتا ہے تو اسے ایران کیخلاف سعودی عرب کی خواہشات کے مطابق انتہائی اقدامات کرنا ہوں گے۔حکومتی ذرائع کے مطابق حالیہ دورہ کے دوران یہ بات واضح طور سامنے آئی ہے کہ اسلامی دنیا کے اندر بڑے ممالک دو بلاکس میں تقسیم ہو چکے ہیںاور ایسے میں تعلقات میں توازن برقرار رکھنا نئی حکومت کیلیے بڑا چیلنج ہے۔
اسلامی دنیا میںسعودی عرب، متحدہ عرب امارات ایک طرف ہیں جبکہ ایران، ترکی اور قطر ایک بلاک بن چکا ہے۔اب پاکستان کو طے کرنا ہو گا کہ وہ کس طرح ہمسایہ ملک ایران اور سعودی عرب کو ساتھ لے کر چلے گا یا پھر ان بلاکس میںکسی ایک کے ساتھ چلے گا۔اس چیلنج سے نمٹنے کیلیے حکومتی سطح پر غورو خوض شروع کر دیا گیا ہے اوراداروںکو بھی اعتماد میں لیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان ان بڑے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھ سکے۔