طالبان سے مذاکرات… چند سوال
انسان پیدا ہوتا ہے تو بیماریاں بھی اس کے ساتھ ہی جنم لیتی ہیں‘ اسی طرح جب کوئی نئی حکومت قائم ہوتی ہے تو مبارکباد...
KARACHI:
انسان پیدا ہوتا ہے تو بیماریاں بھی اس کے ساتھ ہی جنم لیتی ہیں' اسی طرح جب کوئی نئی حکومت قائم ہوتی ہے تو مبارکباد اور ڈھول تاشوں کے شور میں وہ خرابیاں موجود ہوتی ہیں جو آگے چل کر اس کے زوال کا سبب بن سکتی ہیں۔ میاں نواز شریف پاکستان کے حکمران بن چکے ہیں' ان سے بڑی بڑی امیدیں اور توقعات بندھ رہی ہیں لیکن مستقبل میں ان کی حکومت کو لاحق ہونے والی ایک بیماری کے آثار ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ میاں صاحب تو کہہ رہے ہیں کہ عوام نے انھیں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم اور معیشت بہتر کرنے کے لیے مینڈیٹ دیا ہے لیکن عمران خان اور ان کے پر جوش ساتھی کچھ اور فرما رہے ہیں۔ ان کا ارشاد ہے کہ عوام نے پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی جماعتوں کو ڈرون حملے بند کرانے اور طالبان سے مذاکرات کے لیے ووٹ دیے ہیں۔
گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ ہوا جس میں کالعدم تحریک طالبان کا اہم ترین کمانڈر ولی الرحمٰن محسود مارا گیا۔ عمران خان' پرویز خٹک' مولانا سمیع الحق' مولانا فضل الرحمٰن اور چند دیگر سیاستدانوں نے اس پر جو رد عمل دیا، وہ حیران کن تھا۔ چند سال پہلے بیت اللہ محسود ڈرون حملے میں مارا گیا تھا' اس وقت بھی ایسا ردعمل سامنے نہیں آیا تھا حالانکہ وہ تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ تھا' مجھے تو ایسا محسوس ہوا جیسے ولی الرحمٰن نے اس وطن کی سرحدوں کی حفاظت اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے کوئی ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا ہے لہٰذا اس کی موت سے پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہو گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے نو منتخب ایچی سونیئن وزیر اعلیٰ محترم پرویز خٹک تو بہت آگے نکل گئے' انھوں نے ایسی باتیں بھی کر دیں جو ایم ایم اے کے لیڈروں نے اپنی حکومت کے دوران کیں نہ اے این پی والوں نے۔ انھوں نے بہت کچھ کہنے کے ساتھ ساتھ اپنی صفائی یوں کہہ کر پیش کی کہ ڈرون حملے بند کرانا صوبائی حکومت کا مینڈیٹ نہیں ہے' فاٹا وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ ان سے پوچھا جا سکتا کہ اگر قبائلی علاقے ان کے مینڈیٹ میں شامل نہیں تو پھر اس پر بغیر سوچے سمجھے بیان بازی کا کیا جواز ہے۔ پاکستان کے سیاسی لیڈروں کا یہ المیہ ہے کہ وہ پیچیدہ عالمی ایشو کو بھی گلی محلے کی لڑائی جھگڑے جیسا معاملہ سمجھتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ تھانے سے باہر ہی پنچایت کے ذریعے فریقین میں صلح کرا دی جائے اور پھر ایس ایچ او کے سامنے جا کر بیان دے دیا جائے کہ ہماری صلح ہو گئی ہے۔ لہٰذا ایف آئی آر خارج کر دی جائے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ لڑائی براہ راست تھانے دار سے ہو جائے تو پھر محلے کی پنچایت کیا کرے گی۔ ڈرون حملوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ قبائلی علاقے کا کوئی مقامی جھگڑا نہیں ہے کہ جرگہ بیٹھے اور کچھ دے دلا کر معاملہ رفع دفع کرادے' اس لڑائی میں امریکا اکیلا نہیں نیٹو ممالک ایک فریق ہیں' افغانستان کی حکومت الگ فریق ہے اور پاکستان بھی ایک فریق ہے۔
مقامی جرگے کی ان طاقتوں کے سامنے کوئی حیثیت ہے نہ اس جنگ کو بند کرانا ان کے بس کی بات ہے۔ پاکستان کی پہلی ترجیح شمالی وزیرستان میں اپنی رٹ قائم کرنا ہے۔ تقریباً ساڑھے چار ہزار مربع میل پر محیط یہ ایسا قبائلی علاقہ ہے جس کی افغانستان کے ساتھ سیکڑوں میل لمبی سرحد ہے' اس علاقے پر پاکستان کا اقتدار اعلیٰ بس نام کا ہی ہے' یہاں بسنے والے چار لاکھ افراد طالبان کے رحم و کرم پر ہیں' کچھ حلقے تو اسے کہتے ہی امارات اسلامیہ وزیرستان ہیں۔ کہنے کو اس ایجنسی کا پولیٹیکل ایجنٹ موجود ہے۔ میرانشاہ میں ہیڈ کوارٹر بھی ہے لیکن وہاں سول انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
خاصہ دار موجود ہیں نہ ملک مشران۔ سزا و جزا کا فیصلہ طالبان ہی کرتے ہیں۔ شمالی وزیرستان افغان جہادی لیڈر جلال الدین حقانی گروپ کا بیس کیمپ ہے۔ حقانی صاحب تو خاصے ضعیف ہو چکے ہیں، ان کا بس نام استعمال ہوتا ہے۔ ان کے صاحبزادے سراج دین حقانی تمام امور کی دیکھ بھال کرتے ہیں' حافظ گل بہادر بھی طاقتور گروپ ہے۔ یہاں طالبان کی لڑاکا فورس کا تخمینہ تیس سے بتیس ہزار کے قریب لگایا جاتا ہے۔ پاکستانی طالبان بھی یہاں موجود ہیں' ولی الرحمٰن وہیں مارا گیا ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ جلال الدین حقانی گروپ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے ساتھ برسر پیکار ہے اور وہ پاکستان میں کسی قسم کی کارروائی نہیں کرتے' سوال یہ ہے کہ یہاں موجود تحریک طالبان تو پاکستان میں کارروائیاں کرتی ہے' یوںدیکھا جائے تو ان دونوں میں کہیں نہ کہیں ہم آہنگی موجود ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس علاقے کا حاکم افغان طالبان ہیں یا پاکستانی طالبان؟
شمالی وزیرستان میں چونکہ کسی کی رسائی نہیں ہے' کسی ٹی وی چینل کا نمایندہ ہے نہ اخبار کا رپورٹر' اس لیے درست معلومات کا ملنا نا ممکن ہے۔ پاکستان کا اقتدار اعلیٰ کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے؟ جو اطلاع بھی باہر آتی ہے' وہ طالبان کے ترجمان یا ججز کے ذریعے آتی ہے۔ عمران خان اور طالبان سے مذاکرات کے دیگر حامیوں تک کسی ذریعے سے کوئی اطلاع پہنچتی ہو تو اس کے بارے میں وہی زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں' عملاً صورت حال تو یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں پولیٹیکل ایجنٹ کی انتظامیہ ختم ہے' وہاں جرگہ کرنے والے ملک' مشران اور سفید ریش موجود نہیں' صرف طالبان ہیں یا ان کے زیر اثر قبائلی عوام۔ اب پتہ نہیں مذاکرات کس سے ہونا ہیں اور کون سا جرگہ ثالثی کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
جرگے کا اصول تو یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی جھگڑے میں خود پارٹی نہیں ہوتا' متحارب گروپ اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہیں' اب ایسا جرگہ کیسے تشکیل پائے گا جس سے سارے جنگجو گروپ مطمئن ہوں' حکومت پاکستان اور عالمی اسٹیک ہولڈرز بھی اعتماد کریں۔ میاں نواز شریف بھی طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں، وہ ڈرون حملے رکوانے کے لیے صدر اوباما سے بات بھی کرنا چاہتے ہیں، ان کے پاس یقیناً کوئی فارمولا اور ثالث ہوں گے، جو اس بظاہر ناممکن کام کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ لیکن عالمی اسٹیک ہولڈرز کو تو چھوڑیے، ذرا ان ہزاروںخاندانوںکے جذبات کو بھی پڑھنے کی کوشش کریں، جن کے پیاروں کو خودکش حملوں میں بغیر کسی قصور کے مار دیا گیا، ہمارے فوجیوں کے سر قلم کیے گئے، طالبان نے امریکی تو بہت کم مارے لیکن پاکستانی ہزاروں کی تعداد میں قتل کیے ہیں۔ کیا نہتے اور بے گناہوں کو بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں مارنے کا کوئی قصاص نہیں بنتا۔ طالبان سے مذاکرات کرنے والوں کو اس کا جواب بھی دینا چاہیے۔
انسان پیدا ہوتا ہے تو بیماریاں بھی اس کے ساتھ ہی جنم لیتی ہیں' اسی طرح جب کوئی نئی حکومت قائم ہوتی ہے تو مبارکباد اور ڈھول تاشوں کے شور میں وہ خرابیاں موجود ہوتی ہیں جو آگے چل کر اس کے زوال کا سبب بن سکتی ہیں۔ میاں نواز شریف پاکستان کے حکمران بن چکے ہیں' ان سے بڑی بڑی امیدیں اور توقعات بندھ رہی ہیں لیکن مستقبل میں ان کی حکومت کو لاحق ہونے والی ایک بیماری کے آثار ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ میاں صاحب تو کہہ رہے ہیں کہ عوام نے انھیں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم اور معیشت بہتر کرنے کے لیے مینڈیٹ دیا ہے لیکن عمران خان اور ان کے پر جوش ساتھی کچھ اور فرما رہے ہیں۔ ان کا ارشاد ہے کہ عوام نے پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی جماعتوں کو ڈرون حملے بند کرانے اور طالبان سے مذاکرات کے لیے ووٹ دیے ہیں۔
گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ ہوا جس میں کالعدم تحریک طالبان کا اہم ترین کمانڈر ولی الرحمٰن محسود مارا گیا۔ عمران خان' پرویز خٹک' مولانا سمیع الحق' مولانا فضل الرحمٰن اور چند دیگر سیاستدانوں نے اس پر جو رد عمل دیا، وہ حیران کن تھا۔ چند سال پہلے بیت اللہ محسود ڈرون حملے میں مارا گیا تھا' اس وقت بھی ایسا ردعمل سامنے نہیں آیا تھا حالانکہ وہ تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ تھا' مجھے تو ایسا محسوس ہوا جیسے ولی الرحمٰن نے اس وطن کی سرحدوں کی حفاظت اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے کوئی ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا ہے لہٰذا اس کی موت سے پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہو گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے نو منتخب ایچی سونیئن وزیر اعلیٰ محترم پرویز خٹک تو بہت آگے نکل گئے' انھوں نے ایسی باتیں بھی کر دیں جو ایم ایم اے کے لیڈروں نے اپنی حکومت کے دوران کیں نہ اے این پی والوں نے۔ انھوں نے بہت کچھ کہنے کے ساتھ ساتھ اپنی صفائی یوں کہہ کر پیش کی کہ ڈرون حملے بند کرانا صوبائی حکومت کا مینڈیٹ نہیں ہے' فاٹا وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ ان سے پوچھا جا سکتا کہ اگر قبائلی علاقے ان کے مینڈیٹ میں شامل نہیں تو پھر اس پر بغیر سوچے سمجھے بیان بازی کا کیا جواز ہے۔ پاکستان کے سیاسی لیڈروں کا یہ المیہ ہے کہ وہ پیچیدہ عالمی ایشو کو بھی گلی محلے کی لڑائی جھگڑے جیسا معاملہ سمجھتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ تھانے سے باہر ہی پنچایت کے ذریعے فریقین میں صلح کرا دی جائے اور پھر ایس ایچ او کے سامنے جا کر بیان دے دیا جائے کہ ہماری صلح ہو گئی ہے۔ لہٰذا ایف آئی آر خارج کر دی جائے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ لڑائی براہ راست تھانے دار سے ہو جائے تو پھر محلے کی پنچایت کیا کرے گی۔ ڈرون حملوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ قبائلی علاقے کا کوئی مقامی جھگڑا نہیں ہے کہ جرگہ بیٹھے اور کچھ دے دلا کر معاملہ رفع دفع کرادے' اس لڑائی میں امریکا اکیلا نہیں نیٹو ممالک ایک فریق ہیں' افغانستان کی حکومت الگ فریق ہے اور پاکستان بھی ایک فریق ہے۔
مقامی جرگے کی ان طاقتوں کے سامنے کوئی حیثیت ہے نہ اس جنگ کو بند کرانا ان کے بس کی بات ہے۔ پاکستان کی پہلی ترجیح شمالی وزیرستان میں اپنی رٹ قائم کرنا ہے۔ تقریباً ساڑھے چار ہزار مربع میل پر محیط یہ ایسا قبائلی علاقہ ہے جس کی افغانستان کے ساتھ سیکڑوں میل لمبی سرحد ہے' اس علاقے پر پاکستان کا اقتدار اعلیٰ بس نام کا ہی ہے' یہاں بسنے والے چار لاکھ افراد طالبان کے رحم و کرم پر ہیں' کچھ حلقے تو اسے کہتے ہی امارات اسلامیہ وزیرستان ہیں۔ کہنے کو اس ایجنسی کا پولیٹیکل ایجنٹ موجود ہے۔ میرانشاہ میں ہیڈ کوارٹر بھی ہے لیکن وہاں سول انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
خاصہ دار موجود ہیں نہ ملک مشران۔ سزا و جزا کا فیصلہ طالبان ہی کرتے ہیں۔ شمالی وزیرستان افغان جہادی لیڈر جلال الدین حقانی گروپ کا بیس کیمپ ہے۔ حقانی صاحب تو خاصے ضعیف ہو چکے ہیں، ان کا بس نام استعمال ہوتا ہے۔ ان کے صاحبزادے سراج دین حقانی تمام امور کی دیکھ بھال کرتے ہیں' حافظ گل بہادر بھی طاقتور گروپ ہے۔ یہاں طالبان کی لڑاکا فورس کا تخمینہ تیس سے بتیس ہزار کے قریب لگایا جاتا ہے۔ پاکستانی طالبان بھی یہاں موجود ہیں' ولی الرحمٰن وہیں مارا گیا ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ جلال الدین حقانی گروپ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے ساتھ برسر پیکار ہے اور وہ پاکستان میں کسی قسم کی کارروائی نہیں کرتے' سوال یہ ہے کہ یہاں موجود تحریک طالبان تو پاکستان میں کارروائیاں کرتی ہے' یوںدیکھا جائے تو ان دونوں میں کہیں نہ کہیں ہم آہنگی موجود ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس علاقے کا حاکم افغان طالبان ہیں یا پاکستانی طالبان؟
شمالی وزیرستان میں چونکہ کسی کی رسائی نہیں ہے' کسی ٹی وی چینل کا نمایندہ ہے نہ اخبار کا رپورٹر' اس لیے درست معلومات کا ملنا نا ممکن ہے۔ پاکستان کا اقتدار اعلیٰ کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے؟ جو اطلاع بھی باہر آتی ہے' وہ طالبان کے ترجمان یا ججز کے ذریعے آتی ہے۔ عمران خان اور طالبان سے مذاکرات کے دیگر حامیوں تک کسی ذریعے سے کوئی اطلاع پہنچتی ہو تو اس کے بارے میں وہی زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں' عملاً صورت حال تو یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں پولیٹیکل ایجنٹ کی انتظامیہ ختم ہے' وہاں جرگہ کرنے والے ملک' مشران اور سفید ریش موجود نہیں' صرف طالبان ہیں یا ان کے زیر اثر قبائلی عوام۔ اب پتہ نہیں مذاکرات کس سے ہونا ہیں اور کون سا جرگہ ثالثی کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
جرگے کا اصول تو یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی جھگڑے میں خود پارٹی نہیں ہوتا' متحارب گروپ اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہیں' اب ایسا جرگہ کیسے تشکیل پائے گا جس سے سارے جنگجو گروپ مطمئن ہوں' حکومت پاکستان اور عالمی اسٹیک ہولڈرز بھی اعتماد کریں۔ میاں نواز شریف بھی طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں، وہ ڈرون حملے رکوانے کے لیے صدر اوباما سے بات بھی کرنا چاہتے ہیں، ان کے پاس یقیناً کوئی فارمولا اور ثالث ہوں گے، جو اس بظاہر ناممکن کام کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ لیکن عالمی اسٹیک ہولڈرز کو تو چھوڑیے، ذرا ان ہزاروںخاندانوںکے جذبات کو بھی پڑھنے کی کوشش کریں، جن کے پیاروں کو خودکش حملوں میں بغیر کسی قصور کے مار دیا گیا، ہمارے فوجیوں کے سر قلم کیے گئے، طالبان نے امریکی تو بہت کم مارے لیکن پاکستانی ہزاروں کی تعداد میں قتل کیے ہیں۔ کیا نہتے اور بے گناہوں کو بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں مارنے کا کوئی قصاص نہیں بنتا۔ طالبان سے مذاکرات کرنے والوں کو اس کا جواب بھی دینا چاہیے۔