یافتگان اور زدگان کی نسلی کہانی
وہ تو بے پناہ تا حیات مراعات، ڈھیروں ڈھیر ثمرات اور کئی نسلوں کے لیے کافی دولت لے کر چلے گئے لیکن...
وہ تو بے پناہ تا حیات مراعات، ڈھیروں ڈھیر ثمرات اور کئی نسلوں کے لیے کافی دولت لے کر چلے گئے لیکن کسی کے تصور میں بھی یہ ہے کہ یہ مراعات ثمرات اور دولتیں کہاں سے آئی تھیں، کس کی تھیں اور ان کی بھرپائی کون کرے گا؟ کس نے سوچا کہ ان کی تو کئی نسلیں نہال ہو گئیں اور آیندہ جو بھی پیدا ہوں گی وہ بھی نہال ہی پیدا ہوں گی یا یوں کہیے کہ جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ہیں، ان کے لیے مراعات و ثمرات کے ڈھیر ابھی سے ان کے سرہانے دھر دیے گئے اور وہ جب آنکھیں کھولیں گے تو اوپر نیچے آگے پیچھے اور دائیں بائیں مراعات ہی مراعات پائیں گے،
لیکن ان مراعات کی قیمت چکانے والوں کو پتہ بھی نہیں ہے کہ ان کی آنے والی کتنی نسلیں ان مراعات کے لیے لیے گئے قرضوں میں ڈوبے رہیں گے، یہ دراصل نسل ہا نسل کا سلسلہ ہے بلکہ نسلیں بمقابل نسلیں ہیں اور مقابلے کا اصول ہے کہ جتنا ایک فریق ہارتا ہے اتنا ہی دوسرا فرق جیتا ہے یا ایک فرق اگر جیتتا ہے تو دوسرے فریق ہی سے جیتتا ہے چنانچہ ایک فریق کی مراعات جتنی زیادہ ہوں گی، دوسرے فریق میں اتنے ہی زیادہ قرضہ جات چڑھتے چلے جائیں گے، تازہ ترین مراعات یافتہ گان جاتے جاتے جو لوٹ مچا کر چلے گئے، وہ کہیں اور سے نہیں بلکہ اسی گھر سے لوٹی گئی اور لازمی نتیجہ وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے کہ گھر والے کنگال، محتاج اور لٹے ہوئے رہ جائیں گے کیوں کہ اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟
مراعات کے ایک ایک روپے کے عوض مراعات زدگان کو دو دو چار چار روپے ادا کرنا پڑیں گے۔ ایک نسل کو مراعات مل گئیں لیکن دوسرے فریق کی دو نسلیں گروی رکھ دی گئیں، پشتو کا ایک ٹپہ ہے کہ
د فکر ٹال دے رالہ جوڑ کڑو
تہ رانہ لاڑے زہ یوازے زانگیدمہ
یعنی تم نے تو غم کا جھولا بنا کر مجھے دے دیا ہے اور چلا گیا اب میں اکیلا ہی غم کے اس جھولے پہ جھولتا رہوں گا، وہ تو تا حیات مراعات اور صوابدیدی ثمرات لے کر چلے گئے، انکم سپورٹ، ویلکم سپورٹ اور طرح طرح کے سپورٹ بانٹ کر تازہ دم ہونے کے لیے محو استراحت ہو گئے لیکن جن کو یہ رقومات مع سود کے ادا کرنی ہیں وہ اپنے قرضہ جات کے ساتھ نہ جانے کتنی نسلوں تک اس عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ایک اور ٹپہ سنیے
ستا یارانے خواگہ راہ کڑل
حلق بہ مے تریخ تر زنکدنہ پورے وینہ
یعنی تمہارے یارانے نے مجھے مٹھاس نہیں کڑاوہٹ ہی کڑواہٹ دی ہے، اب میرا حلق مرتے دم تک کڑوا رہے گا، وہ عاشق پھر بھی خوش نصیب تھا کہ اس کی تلخی صرف مرتے دم تک تھی لیکن یہاں تو وہ ہمیں ایسی تلخی دے گئے جو آیندہ نہ جانے کتنی نسلوں کی ہڈیاں تک کڑوی رہیں گی اور تلخی کے بعد زہر غم بھی تو بنے گی،
رگ و پے میں جب اترے زہر غم پھر دیکھیے کیا ہو
ابھی تو تلخی کام و دہن کی آزمائش ہے
یعنی ابھی تو صرف منہ اور حلق ہی کڑوا ہوا، نیچے اتر کر جب یہ کڑواہٹ زہر بن کر رگ و پے میں سرایت کرے گی، پھر پتہ چلے گا، اگر یہ کوئی ایک نسل دو نسلوں کا سلسلہ ہوتا تو پھر بھی غنیمت ہوتا لیکن یہ تو ''یافتگان'' اور ''زدگان'' کا مستقل سلسلہ ہے، ابھی ابھی جو مراعات یافتگان چلے گئے ہیں اور ''زدگان'' کو مقروض کر گئے اگر بات یہیں پر ختم ہوتی ہے تو چلیے بے چارے مراعات زدگان ۔۔۔ ان مراعات یافتہ کے چڑھائے ہوئے قرضے ایک دو نسلوں میں چکا ہی ڈالتے کیوں کہ ان ''زدگان'' کی جان و تن میں خون اور پسینے کے چشمے بہتے ہیں، ان سے سب کچھ چھین بھی لیا جائے تو پھر بھی خون پسینے تو ان کے پاس ہوتے ہیں
ابھی تو بدن میں لہو ہے بہت
قلم چھین لے روشنائی نہ دے
لیکن غضب تو یہ ہے کہ مراعات یافتگان کی بھی اگلی نسل پھر آئے گی اور وہ بھی اپنے حصے کی مراعات ضرور حاصل کرے گی اور یہ تو طے ہے کہ ان مراعات کا قرضہ بھی زدگان کو ہی چکانا ہوتا ہے، گویا مراعات کی یہ ''یافتگی'' اور ''زدگی'' آگے بھی نہ جانے کتنی نسلوں تک چلتی رہے گی کیوں کہ
دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ''ناخن'' نہ بڑھ آویں گے کیا
اگر اب تک حاصل کی گئی مراعات کے زخم زدگان کی دو چار نسلوں میں مندمل ہو بھی جائیں تو مراعات یافتہ گان کی نسلیں بھی تو بانجھ نہیں ہوئی ہیں (کاش ایسا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا) جیسے جیسے زدگان کی نسلیں قرضے اتارتی جائیں گی، ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری ...اسی طرح یافتگان کی نسلیں بھی تو پیدا بھی ہو رہی ہیں اور ابھی سے ان کو مراعات یافتگی کے لیے تیار بھی کیا جاتا رہے گا ، پشتو کے درویش شاعر اکرام اللہ گران کا شعر ہے کہ
سو مرہ چہ خیال مے او چیتگی ستا د با مہ سرہ
دو مرہ پہ خکتہ را خوئیگم دھرگامہ سرہ
ترجمہ: جتنا جتنا میرا خیال تیرے بام کی طرف بلند ہوتا جاتا ہے، اتنا ہی میں ہر گام کے ساتھ نیچے پھسلتا جاتا ہوں، مطلب کہنے کا یہ ہے کہ اگر ''زدگان'' یہ سوچ کر مطمئن ہو رہے ہیں کہ چلو یافتگان کی یہ ''زدگی'' تو چار نسلوں میں ختم ہو جائے گی تو اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں، وہاں پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں ''یافتگان'' کی بڑھوتری ہو رہی ہے، انڈوں سے لاروے لاروؤں سے کھوکھے اور کھوکھوں سے کیڑے بن رہے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں وہ بھی اڑ کر خون چوسنے کے قابل ہو جائیں گے اور زدگان ہمیشہ زدگان ہی رہیں گے،
ممکن ہے ''زدگان'' کو آپ پہچان نہیں پا رہے ہوں اور سمجھ رہے ہوں کہ ہم نہ جانے کن ''زدگان'' کی بات کر رہے ہیں تو ان کا بھی ذرا تعارف ہو جائے اگر ملاقات کرنی ہو تو اس کے لیے کہیں دور آنے جانے کی ضرورت نہیں ہے صرف آئینہ دیکھنا ہی کافی ہے، آئینے میں جو منحوس اور خدا ماری شکل آپ کو نظر آ رہی ہے یہی وہ زدگان ہیں کہ پتھر کہیں سے بھی لڑھک کر آئے قیام اس کے سر پر ہی کرے گا، چاہے وہ پتھر کسی بھی صورت میں ہو، ان زدگان کا پہلا شخص جسے اپنی زدگی کا احساس ہو گیا تھا، فارسی کا ایک شاعر انوری تھا،
ہر بلا ئے کہ ز آسمان بود
خانہ انوری تلاش کند
یعنی آسمان سے جو بھی بلا نازل ہوتی ہے وہ زمین پر پہنچ کر انوری کا پتہ پوچھنے لگتی ہے، لیکن انوری پھر بھی خوش نصیب تھا یا وہ زمانہ ہی ایسا رہا ہو گا کہ بلائیں صرف آسمان سے نازل ہوا کرتی تھیں لیکن آج کل تو بلائیں صرف آسمان تک محدود نہیں رہی ہیں، زمینی انسانی سیاسی اور نہ جانے کتنی اور بلائیں بھی ساتھ ہو گئی ہیں اور یہ سب کی سب ''خانہ انوری'' ہی تلاش کرتی ہیں اور اسی کم بخت انوری بلکہ ''انوریوں'' کو آج کل زدگان کہتے ہیں جو ہر لحاظ سے زدہ تھے زدہ ہیں اور زدہ رہیں گے، سیلاب زدگان، زلزلہ زدگان، مہنگائی زدگان، بجلی زدگان، گیس و پٹرولیم زدگان، جہاد زدگان، دہشت گردی زدگان، مراعات زدگان، جن کا دوسرا نام ''نسلی مقروض'' بھی ہے، ان سے زیادہ بدنصیب زدگان اور کیا ہوں گے کہ اگر ان کو پتہ بھی نہیں ہوتا اور مقروض ہوتے چلے جاتے ہیں،
وہ ایک فلم کا قصہ تو ہم نے آپ کو سنایا تھا کہ ہیرو ایک لڑکی کو فون پر چھیڑتا ہے۔ لڑکی اپنی سہیلیوں کے ساتھ اس کی مرمت کا پلان بناتی ہیں اور ہیرو کو ایک ریستوان میں ملنے کے لیے بلاتی ہیں، ہیرو بھی سمجھ جاتا ہے چنانچہ وہ اپنے نوکر کو لے جا کر اس ریستوان میں بٹھاتا ہے اور پہچان کے طے کردہ نشانی کے طور پر اس کی جیب میں سرخ گلاب بھی لگاتا ہے، لڑکیاں آتی ہیں اور اس نوکر پر پل پڑتی ہیں، ساتھ کہتی بھی جاتی ہیں کہ شرم نہیں آتی لڑکیوں کو چھیڑتے ہوئے، بے چارا نوکر بڑی معصومیت سے کہتا ہے کمال ہے میں آپ کو ''چھیڑ'' رہا ہوں اور مجھے پتہ تک نہیں ہے۔
لیکن ان مراعات کی قیمت چکانے والوں کو پتہ بھی نہیں ہے کہ ان کی آنے والی کتنی نسلیں ان مراعات کے لیے لیے گئے قرضوں میں ڈوبے رہیں گے، یہ دراصل نسل ہا نسل کا سلسلہ ہے بلکہ نسلیں بمقابل نسلیں ہیں اور مقابلے کا اصول ہے کہ جتنا ایک فریق ہارتا ہے اتنا ہی دوسرا فرق جیتا ہے یا ایک فرق اگر جیتتا ہے تو دوسرے فریق ہی سے جیتتا ہے چنانچہ ایک فریق کی مراعات جتنی زیادہ ہوں گی، دوسرے فریق میں اتنے ہی زیادہ قرضہ جات چڑھتے چلے جائیں گے، تازہ ترین مراعات یافتہ گان جاتے جاتے جو لوٹ مچا کر چلے گئے، وہ کہیں اور سے نہیں بلکہ اسی گھر سے لوٹی گئی اور لازمی نتیجہ وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے کہ گھر والے کنگال، محتاج اور لٹے ہوئے رہ جائیں گے کیوں کہ اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟
مراعات کے ایک ایک روپے کے عوض مراعات زدگان کو دو دو چار چار روپے ادا کرنا پڑیں گے۔ ایک نسل کو مراعات مل گئیں لیکن دوسرے فریق کی دو نسلیں گروی رکھ دی گئیں، پشتو کا ایک ٹپہ ہے کہ
د فکر ٹال دے رالہ جوڑ کڑو
تہ رانہ لاڑے زہ یوازے زانگیدمہ
یعنی تم نے تو غم کا جھولا بنا کر مجھے دے دیا ہے اور چلا گیا اب میں اکیلا ہی غم کے اس جھولے پہ جھولتا رہوں گا، وہ تو تا حیات مراعات اور صوابدیدی ثمرات لے کر چلے گئے، انکم سپورٹ، ویلکم سپورٹ اور طرح طرح کے سپورٹ بانٹ کر تازہ دم ہونے کے لیے محو استراحت ہو گئے لیکن جن کو یہ رقومات مع سود کے ادا کرنی ہیں وہ اپنے قرضہ جات کے ساتھ نہ جانے کتنی نسلوں تک اس عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ایک اور ٹپہ سنیے
ستا یارانے خواگہ راہ کڑل
حلق بہ مے تریخ تر زنکدنہ پورے وینہ
یعنی تمہارے یارانے نے مجھے مٹھاس نہیں کڑاوہٹ ہی کڑواہٹ دی ہے، اب میرا حلق مرتے دم تک کڑوا رہے گا، وہ عاشق پھر بھی خوش نصیب تھا کہ اس کی تلخی صرف مرتے دم تک تھی لیکن یہاں تو وہ ہمیں ایسی تلخی دے گئے جو آیندہ نہ جانے کتنی نسلوں کی ہڈیاں تک کڑوی رہیں گی اور تلخی کے بعد زہر غم بھی تو بنے گی،
رگ و پے میں جب اترے زہر غم پھر دیکھیے کیا ہو
ابھی تو تلخی کام و دہن کی آزمائش ہے
یعنی ابھی تو صرف منہ اور حلق ہی کڑوا ہوا، نیچے اتر کر جب یہ کڑواہٹ زہر بن کر رگ و پے میں سرایت کرے گی، پھر پتہ چلے گا، اگر یہ کوئی ایک نسل دو نسلوں کا سلسلہ ہوتا تو پھر بھی غنیمت ہوتا لیکن یہ تو ''یافتگان'' اور ''زدگان'' کا مستقل سلسلہ ہے، ابھی ابھی جو مراعات یافتگان چلے گئے ہیں اور ''زدگان'' کو مقروض کر گئے اگر بات یہیں پر ختم ہوتی ہے تو چلیے بے چارے مراعات زدگان ۔۔۔ ان مراعات یافتہ کے چڑھائے ہوئے قرضے ایک دو نسلوں میں چکا ہی ڈالتے کیوں کہ ان ''زدگان'' کی جان و تن میں خون اور پسینے کے چشمے بہتے ہیں، ان سے سب کچھ چھین بھی لیا جائے تو پھر بھی خون پسینے تو ان کے پاس ہوتے ہیں
ابھی تو بدن میں لہو ہے بہت
قلم چھین لے روشنائی نہ دے
لیکن غضب تو یہ ہے کہ مراعات یافتگان کی بھی اگلی نسل پھر آئے گی اور وہ بھی اپنے حصے کی مراعات ضرور حاصل کرے گی اور یہ تو طے ہے کہ ان مراعات کا قرضہ بھی زدگان کو ہی چکانا ہوتا ہے، گویا مراعات کی یہ ''یافتگی'' اور ''زدگی'' آگے بھی نہ جانے کتنی نسلوں تک چلتی رہے گی کیوں کہ
دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ''ناخن'' نہ بڑھ آویں گے کیا
اگر اب تک حاصل کی گئی مراعات کے زخم زدگان کی دو چار نسلوں میں مندمل ہو بھی جائیں تو مراعات یافتہ گان کی نسلیں بھی تو بانجھ نہیں ہوئی ہیں (کاش ایسا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا) جیسے جیسے زدگان کی نسلیں قرضے اتارتی جائیں گی، ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری ...اسی طرح یافتگان کی نسلیں بھی تو پیدا بھی ہو رہی ہیں اور ابھی سے ان کو مراعات یافتگی کے لیے تیار بھی کیا جاتا رہے گا ، پشتو کے درویش شاعر اکرام اللہ گران کا شعر ہے کہ
سو مرہ چہ خیال مے او چیتگی ستا د با مہ سرہ
دو مرہ پہ خکتہ را خوئیگم دھرگامہ سرہ
ترجمہ: جتنا جتنا میرا خیال تیرے بام کی طرف بلند ہوتا جاتا ہے، اتنا ہی میں ہر گام کے ساتھ نیچے پھسلتا جاتا ہوں، مطلب کہنے کا یہ ہے کہ اگر ''زدگان'' یہ سوچ کر مطمئن ہو رہے ہیں کہ چلو یافتگان کی یہ ''زدگی'' تو چار نسلوں میں ختم ہو جائے گی تو اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں، وہاں پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں ''یافتگان'' کی بڑھوتری ہو رہی ہے، انڈوں سے لاروے لاروؤں سے کھوکھے اور کھوکھوں سے کیڑے بن رہے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں وہ بھی اڑ کر خون چوسنے کے قابل ہو جائیں گے اور زدگان ہمیشہ زدگان ہی رہیں گے،
ممکن ہے ''زدگان'' کو آپ پہچان نہیں پا رہے ہوں اور سمجھ رہے ہوں کہ ہم نہ جانے کن ''زدگان'' کی بات کر رہے ہیں تو ان کا بھی ذرا تعارف ہو جائے اگر ملاقات کرنی ہو تو اس کے لیے کہیں دور آنے جانے کی ضرورت نہیں ہے صرف آئینہ دیکھنا ہی کافی ہے، آئینے میں جو منحوس اور خدا ماری شکل آپ کو نظر آ رہی ہے یہی وہ زدگان ہیں کہ پتھر کہیں سے بھی لڑھک کر آئے قیام اس کے سر پر ہی کرے گا، چاہے وہ پتھر کسی بھی صورت میں ہو، ان زدگان کا پہلا شخص جسے اپنی زدگی کا احساس ہو گیا تھا، فارسی کا ایک شاعر انوری تھا،
ہر بلا ئے کہ ز آسمان بود
خانہ انوری تلاش کند
یعنی آسمان سے جو بھی بلا نازل ہوتی ہے وہ زمین پر پہنچ کر انوری کا پتہ پوچھنے لگتی ہے، لیکن انوری پھر بھی خوش نصیب تھا یا وہ زمانہ ہی ایسا رہا ہو گا کہ بلائیں صرف آسمان سے نازل ہوا کرتی تھیں لیکن آج کل تو بلائیں صرف آسمان تک محدود نہیں رہی ہیں، زمینی انسانی سیاسی اور نہ جانے کتنی اور بلائیں بھی ساتھ ہو گئی ہیں اور یہ سب کی سب ''خانہ انوری'' ہی تلاش کرتی ہیں اور اسی کم بخت انوری بلکہ ''انوریوں'' کو آج کل زدگان کہتے ہیں جو ہر لحاظ سے زدہ تھے زدہ ہیں اور زدہ رہیں گے، سیلاب زدگان، زلزلہ زدگان، مہنگائی زدگان، بجلی زدگان، گیس و پٹرولیم زدگان، جہاد زدگان، دہشت گردی زدگان، مراعات زدگان، جن کا دوسرا نام ''نسلی مقروض'' بھی ہے، ان سے زیادہ بدنصیب زدگان اور کیا ہوں گے کہ اگر ان کو پتہ بھی نہیں ہوتا اور مقروض ہوتے چلے جاتے ہیں،
وہ ایک فلم کا قصہ تو ہم نے آپ کو سنایا تھا کہ ہیرو ایک لڑکی کو فون پر چھیڑتا ہے۔ لڑکی اپنی سہیلیوں کے ساتھ اس کی مرمت کا پلان بناتی ہیں اور ہیرو کو ایک ریستوان میں ملنے کے لیے بلاتی ہیں، ہیرو بھی سمجھ جاتا ہے چنانچہ وہ اپنے نوکر کو لے جا کر اس ریستوان میں بٹھاتا ہے اور پہچان کے طے کردہ نشانی کے طور پر اس کی جیب میں سرخ گلاب بھی لگاتا ہے، لڑکیاں آتی ہیں اور اس نوکر پر پل پڑتی ہیں، ساتھ کہتی بھی جاتی ہیں کہ شرم نہیں آتی لڑکیوں کو چھیڑتے ہوئے، بے چارا نوکر بڑی معصومیت سے کہتا ہے کمال ہے میں آپ کو ''چھیڑ'' رہا ہوں اور مجھے پتہ تک نہیں ہے۔