بلوچستان نئی قیادت نئے امتحانات
ایک انار سو بیمار کا محاورہ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے امیدواروں پر عین صادق آتا ہے۔ جس طرح رئیسانی حکومت ...
ایک انار سو بیمار کا محاورہ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے امیدواروں پر عین صادق آتا ہے۔ جس طرح رئیسانی حکومت میں صوبائی اسمبلی کے 62 اراکین میں سے اکلوتے اپوزیشن رہنما کے سوا، سبھی وزارتوں کے امیدوار تھے، اور تقریباً سبھی وزیر بھی رہے، عین اسی طرح یوں لگتا تھا کہ اس بار بلوچستان سے منتخب ہونے والا ہر رکن اسمبلی وزارت اعلیٰ کا امیدوار ہے۔ بالخصوص جب ن لیگ کی صوبائی قیادت نے معاملے کو الجھا دیا تو چند ایسے نام بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے، جنہیں سن کر ہی لوگ کانوں کو ہاتھ لگانے لگتے تھے۔ ایک آدھ نام تو ایسا بھی تھا، کہ جس کی ممکنہ وزارت اعلیٰ کا سن کر کاروباری احباب نے کوئٹہ سے اپنا بوریا بستر باندھنے کا ارادہ تک کر لیا تھا۔
گفت و شنید کے ایک تھکا دینے والے مسلسل عمل کے بعد بالآخر یہ قرعہ فال بلوچستان کی پہلی غیر قبائلی شخصیت کے نام نکل ہی آیا۔ بلوچستان کے واحد غیر قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے لیے نامزدگی بلاشبہ کئی معنوں میں ایک نئی تاریخ ہے۔ باقی سب باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ان کے نام کے ساتھ سردار اور نواب کے کسی لاحقے کے نہ ہوتے ہوئے، بلوچستان کا وزیر اعلیٰ نامزد ہونا ہی کسی معجزے سے کم نہیں۔ بلوچستان کی سیاسی اور پارلیمانی جدوجہد کا یہ ایک یادگار موڑ ہے۔ اسے کسی طور معمول کے واقعے کے بطور نہیں دیکھا جا سکتا۔ وہ لوگ جنہوں نے کسی قبائلی سردار کے ماتحت زندگی کا ایک دن نہ گزارا ہو، جنھوں نے کسی نواب کی قبائلی ریاست میں بطور رعایا زندگی نہ بتائی ہو، وہ نہ اس عذاب کا تصور کر سکتے ہیں، نہ اس خوشی کا سبب جان سکتے ہیں۔
ڈاکٹر مالک بلوچ کا اپنا انتخابی حلقہ مکران، قبائلی اثرات سے پاک ہونے کے باعث قبائلیت کی بربریت کا وہ ادراک نہیں رکھتا، جس کا اندازہ بلوچستان کے دیگر قبائلی حلقوں کے عوام کو ہے۔ شاید اسی لیے ان کے وزیر اعلیٰ نامزد ہونے کی خوشی مکران سے زیادہ بلوچستان کے دیگر حصوں میں پائی جاتی ہے۔ بلوچستان کے دانش مند طبقے کی اکثریت اس عمل کو قبائلیت کی دیوار میں پہلی دراڑ کے طور پر دیکھتی ہے۔ وہ جمہوری جدوجہد جس کی خشتِ اول یوسف عزیز مگسی اور ان کے رفقا نے رکھی، عوامی سیاست کی جس مشعل کو میر غوث بخش بزنجو نے روشن رکھا... تاریکیوں کے ایک طویل دور کے بعد آج اس کے روشن ہونے کے امکان پھر نظر آئے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کی جدوجہد، عارضی طور پر ہی سہی، رنگ لائی ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب بلوچستان کے تمام مسائل پلک جھپکتے میں حل ہو جائیں گے، بلوچستان میں لگی آگ بجھ جائے گی، معروف معنوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی اور امن و امان کا دور دورہ ہو گا۔ بلوچستان کے حقیقی مسئلے کے حل کی توقع رکھنے والے سبھی اہل درد کو یہ جان لینا چاہیے کہ نہ تو وزارت اعلیٰ پر اہل آدمی کا ہونا اصل مسئلہ ہے اور نہ ہی اس اہل قیادت کے پاس اصل مسئلے کے حل کا مینڈیٹ ہے۔ نیشنل پارٹی تو خود اب تک، پارٹی کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جانے والے مولا بخش دشتی سے لے کر نسیم جنگیان جیسے کارکن کے، مسلح قوتوں کے ہاتھوں قتل کا جواز پوچھتی پھر رہی ہے۔
پاکستان کے ساتھ برسرپیکار قوتیں جتنی وفاق مخالف ہیں، اتنا ہی ایوان میں موجود قوم پرستوں کو بھی اپنا دشمن سمجھتی ہیں۔ اس لیے یہ توقع ہی عبث ہو گی کہ یہ قیادت، برسر پیکار مسلح قوتوں سے کسی قسم کی مصالحت کر سکے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس قیادت کے پاس (بلکہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی قیادت کے پاس) اس قسم کی مصالحت کا اختیار ہی موجود نہیں۔ جس طرح بلوچستان میں مذاکرات کے لیے حقیقی قوتیں سیاسی جماعتیں نہیں، بلکہ مسلح تنظیمیں ہیں، اسی طرح پاکستان کی سطح پر یہ اختیار سیاسی قوتوں کے پاس نہیں بلکہ عسکری اسٹیبشلمنٹ کے پاس ہے۔ جب تک یہ دونوں قوتیں بات چیت کے لیے آمادہ نہیں ہوتیں، بلوچستان میں جاری شورش پہ قابو پانا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ نہ لاپتہ کارکن بازیاب ہوں گے، نہ لاشوں کا سلسلہ رکے گا۔
تو پھر نومنتخب سیاسی قیادت کو کیا کرنا چاہیے؟ درحقیقت مسلسل نااہل قیادت کے باعث بلوچستان میں عمومی و عوامی مسائل کا ہی اتنا بڑا پہاڑ بن چکا ہے کہ اگر نو منتخب قیادت اسی میں کچھ کمی کر پاتی ہے تو یہ ہی اس کی بڑی کامیابی ہو گی۔ اس سے قبل ایوان میں موجود نمایندوں کو چونکہ اپنی اہلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ موقع نہ ملنے کا قطعی یقین تھا، سو انھوں نے عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے تمام تر توجہ ذاتی مراعات کے حصول پر مرکوز رکھی۔ اس لیے اب نئی قیادت سے عوام کی توقعات زیادہ ہیں۔ عوامی توقعات پر پورا اترنا، اس قیادت کا اہم ترین امتحان ہو گا۔
یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ بلوچستان کی قبائلی قیادت کو پہلی بار جمہوری فورم پر پسپا ہونا پڑا ہے۔ عام آدمی کو کیڑوں مکوڑوں کی سی مخلوق سمجھنے والے سرداروں اور نوابوں کے لیے ایک مڈل کلاس سیاست دان کی قیادت میں کام کرنا، آسان نہ ہو گا۔ خود کو اس 'ذلت' سے بچانے کے لیے جس طرح آخر تک وہ ذلت کی ہر آخری حد تک جانے کو تیار تھے، اسی سے ان کے عزائم کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔ گو کہ وقتی طور پر انھوں نے پارٹی قیادت کا فیصلہ بہ امر مجبوری مان لیا ہے، لیکن ان کی قبائلی اَنا زیادہ دیر تک اس رسوائی کو برداشت نہیں کر پائے گی۔ عین ممکن ہے اس کا ردعمل کچھ ہی دنوں میں سامنے آ جائے۔ اگر انھیں اپنے 'ماسٹرز' کی حکم عدولی کی جرأت نہ ہوئی، تب بھی یہ اس قیادت کو چین سے بیٹھنے نہیں دیں گے۔ اس قبائلی قیادت کی قبائلی اَنا کو رجھائے رکھنا، اس قیادت کو دوسرا اہم ترین امتحان ہو گا۔
تمام تر الزامات سے قطع نظر یہ حقیقت بھی کھلے دل سے ماننی چاہیے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، اس وقت بلوچستان اسمبلی کی اکثریتی جماعت ہے۔ واضح اکثریت کے باوجود اپنا وزیر اعلیٰ لانے کے بجائے انھوں نے ڈاکٹر مالک کا نام تجویز کیا، تو اس میں سیاسی رواداری کے بجائے سیاسی مصلحت زیادہ کارفرما ہے۔ جس کا واضح اظہار ایک طرف انھوں نے پشتون گورنر کی خواہش کی صورت میں کیا تو دوسرا اظہار جلد ہی ان کی جانب سے اہم وزارتوں کے مطالبے کی صورت میں آئے گا۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی یہ سیاسی مصلحت نو منتخب قیادت کو ایک 'احسان' کی صورت میں، وقتاً فوقتاً یاد دلاتی رہے گی۔ اس 'احسان' کے دباؤ میں نہ آتے ہوئے غیر مقبول فیصلوں سے گریز، نیز اس اہم اور اکثریتی جماعت کو مسلسل راضی رکھنا، نئی قیادت کا ایک کڑا امتحان ہو گا۔
علاوہ ازیں، بلوچستان میں جاری میگا پراجیکٹس، گوادر پورٹ، سینڈک پراجیکٹ، ریکوڈک پراجیکٹ اور گیس پائپ لائن معاہدوں سمیت ایسے اہم ایشوز، جن کا تعلق خطے کے جیو اسٹریٹجک معاملات سے ہے، سے متعلق نہایت سوچ سمجھ کر فیصلے لینے ہوں گے۔ گزشتہ حکمرانوں کی نا اہلی کے باعث سینڈک جیسا اہم پراجیکٹ خاک ہو گیا۔ بلوچستان کی معدنیات کے بے بہا استعمال کے باوجود یہاں کے عوام کی مجموعی حالت میں کسی قسم کی بہتری کا نہ آنا ہی سابق حکمرانوں کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کی طرح بلوچستان میں بھی بیوروکریسی کا شہنشاہی راج ہے جو سیاسی قیادت کے گرد خوشامد کا ایسا جال بُن دیتی ہے، جس سے اس کا نکلنا محال ہو جاتا ہے۔ اور جو اس جال میں نہ آئے، اس کے خلاف پھر سرخ فیتہ حرکت میں آ جاتا ہے۔ نئی سیاسی قیادت کو بیوروکریسی کے ان حربوں سے خود محفوظ بنانا ہو گا۔ خود کو براہِ راست عوامی تک قابل رسائی بنائے بغیر کوئی بھی سیاسی قیادت 'عوامی' ہونے کی اہل نہیں ہو سکتی۔ اٹھارویں اور بیسویں ترمیم کے بعد جس طرح تعلیم و دیگر اہم امور اب براہ راست صوبائی اختیارات میں آ چکے ہیں، اس لیے اس ضمن میں نو منتخب قیادت کو مقبول عام فیصلے لینے ہوں گے۔
مختصراً یہ کہ ایک طویل، کٹھن اور صبر آزما جدوجہد کے بعد نیشنل پارٹی کی قیادت جس منصب پر پہنچی ہے، وہ منزل نہیں محض ایک موڑ ہے، جہاں سستانے کا کوئی موقع نہیں۔ تمام تر خدشات اور خطروں کے باوجود جب تک وہ اس منصب پر رہیں گے، انھیں آگ کے الاؤ کے اوپر تنی ایک ایسی باریک رسی پر چلنا ہے، جہاں ذرا سی غلطی انھیں دہکتی آگ میں جھونک سکتی ہے۔
گفت و شنید کے ایک تھکا دینے والے مسلسل عمل کے بعد بالآخر یہ قرعہ فال بلوچستان کی پہلی غیر قبائلی شخصیت کے نام نکل ہی آیا۔ بلوچستان کے واحد غیر قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے لیے نامزدگی بلاشبہ کئی معنوں میں ایک نئی تاریخ ہے۔ باقی سب باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ان کے نام کے ساتھ سردار اور نواب کے کسی لاحقے کے نہ ہوتے ہوئے، بلوچستان کا وزیر اعلیٰ نامزد ہونا ہی کسی معجزے سے کم نہیں۔ بلوچستان کی سیاسی اور پارلیمانی جدوجہد کا یہ ایک یادگار موڑ ہے۔ اسے کسی طور معمول کے واقعے کے بطور نہیں دیکھا جا سکتا۔ وہ لوگ جنہوں نے کسی قبائلی سردار کے ماتحت زندگی کا ایک دن نہ گزارا ہو، جنھوں نے کسی نواب کی قبائلی ریاست میں بطور رعایا زندگی نہ بتائی ہو، وہ نہ اس عذاب کا تصور کر سکتے ہیں، نہ اس خوشی کا سبب جان سکتے ہیں۔
ڈاکٹر مالک بلوچ کا اپنا انتخابی حلقہ مکران، قبائلی اثرات سے پاک ہونے کے باعث قبائلیت کی بربریت کا وہ ادراک نہیں رکھتا، جس کا اندازہ بلوچستان کے دیگر قبائلی حلقوں کے عوام کو ہے۔ شاید اسی لیے ان کے وزیر اعلیٰ نامزد ہونے کی خوشی مکران سے زیادہ بلوچستان کے دیگر حصوں میں پائی جاتی ہے۔ بلوچستان کے دانش مند طبقے کی اکثریت اس عمل کو قبائلیت کی دیوار میں پہلی دراڑ کے طور پر دیکھتی ہے۔ وہ جمہوری جدوجہد جس کی خشتِ اول یوسف عزیز مگسی اور ان کے رفقا نے رکھی، عوامی سیاست کی جس مشعل کو میر غوث بخش بزنجو نے روشن رکھا... تاریکیوں کے ایک طویل دور کے بعد آج اس کے روشن ہونے کے امکان پھر نظر آئے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کی جدوجہد، عارضی طور پر ہی سہی، رنگ لائی ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب بلوچستان کے تمام مسائل پلک جھپکتے میں حل ہو جائیں گے، بلوچستان میں لگی آگ بجھ جائے گی، معروف معنوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی اور امن و امان کا دور دورہ ہو گا۔ بلوچستان کے حقیقی مسئلے کے حل کی توقع رکھنے والے سبھی اہل درد کو یہ جان لینا چاہیے کہ نہ تو وزارت اعلیٰ پر اہل آدمی کا ہونا اصل مسئلہ ہے اور نہ ہی اس اہل قیادت کے پاس اصل مسئلے کے حل کا مینڈیٹ ہے۔ نیشنل پارٹی تو خود اب تک، پارٹی کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جانے والے مولا بخش دشتی سے لے کر نسیم جنگیان جیسے کارکن کے، مسلح قوتوں کے ہاتھوں قتل کا جواز پوچھتی پھر رہی ہے۔
پاکستان کے ساتھ برسرپیکار قوتیں جتنی وفاق مخالف ہیں، اتنا ہی ایوان میں موجود قوم پرستوں کو بھی اپنا دشمن سمجھتی ہیں۔ اس لیے یہ توقع ہی عبث ہو گی کہ یہ قیادت، برسر پیکار مسلح قوتوں سے کسی قسم کی مصالحت کر سکے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس قیادت کے پاس (بلکہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی قیادت کے پاس) اس قسم کی مصالحت کا اختیار ہی موجود نہیں۔ جس طرح بلوچستان میں مذاکرات کے لیے حقیقی قوتیں سیاسی جماعتیں نہیں، بلکہ مسلح تنظیمیں ہیں، اسی طرح پاکستان کی سطح پر یہ اختیار سیاسی قوتوں کے پاس نہیں بلکہ عسکری اسٹیبشلمنٹ کے پاس ہے۔ جب تک یہ دونوں قوتیں بات چیت کے لیے آمادہ نہیں ہوتیں، بلوچستان میں جاری شورش پہ قابو پانا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ نہ لاپتہ کارکن بازیاب ہوں گے، نہ لاشوں کا سلسلہ رکے گا۔
تو پھر نومنتخب سیاسی قیادت کو کیا کرنا چاہیے؟ درحقیقت مسلسل نااہل قیادت کے باعث بلوچستان میں عمومی و عوامی مسائل کا ہی اتنا بڑا پہاڑ بن چکا ہے کہ اگر نو منتخب قیادت اسی میں کچھ کمی کر پاتی ہے تو یہ ہی اس کی بڑی کامیابی ہو گی۔ اس سے قبل ایوان میں موجود نمایندوں کو چونکہ اپنی اہلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ موقع نہ ملنے کا قطعی یقین تھا، سو انھوں نے عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے تمام تر توجہ ذاتی مراعات کے حصول پر مرکوز رکھی۔ اس لیے اب نئی قیادت سے عوام کی توقعات زیادہ ہیں۔ عوامی توقعات پر پورا اترنا، اس قیادت کا اہم ترین امتحان ہو گا۔
یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ بلوچستان کی قبائلی قیادت کو پہلی بار جمہوری فورم پر پسپا ہونا پڑا ہے۔ عام آدمی کو کیڑوں مکوڑوں کی سی مخلوق سمجھنے والے سرداروں اور نوابوں کے لیے ایک مڈل کلاس سیاست دان کی قیادت میں کام کرنا، آسان نہ ہو گا۔ خود کو اس 'ذلت' سے بچانے کے لیے جس طرح آخر تک وہ ذلت کی ہر آخری حد تک جانے کو تیار تھے، اسی سے ان کے عزائم کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔ گو کہ وقتی طور پر انھوں نے پارٹی قیادت کا فیصلہ بہ امر مجبوری مان لیا ہے، لیکن ان کی قبائلی اَنا زیادہ دیر تک اس رسوائی کو برداشت نہیں کر پائے گی۔ عین ممکن ہے اس کا ردعمل کچھ ہی دنوں میں سامنے آ جائے۔ اگر انھیں اپنے 'ماسٹرز' کی حکم عدولی کی جرأت نہ ہوئی، تب بھی یہ اس قیادت کو چین سے بیٹھنے نہیں دیں گے۔ اس قبائلی قیادت کی قبائلی اَنا کو رجھائے رکھنا، اس قیادت کو دوسرا اہم ترین امتحان ہو گا۔
تمام تر الزامات سے قطع نظر یہ حقیقت بھی کھلے دل سے ماننی چاہیے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، اس وقت بلوچستان اسمبلی کی اکثریتی جماعت ہے۔ واضح اکثریت کے باوجود اپنا وزیر اعلیٰ لانے کے بجائے انھوں نے ڈاکٹر مالک کا نام تجویز کیا، تو اس میں سیاسی رواداری کے بجائے سیاسی مصلحت زیادہ کارفرما ہے۔ جس کا واضح اظہار ایک طرف انھوں نے پشتون گورنر کی خواہش کی صورت میں کیا تو دوسرا اظہار جلد ہی ان کی جانب سے اہم وزارتوں کے مطالبے کی صورت میں آئے گا۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی یہ سیاسی مصلحت نو منتخب قیادت کو ایک 'احسان' کی صورت میں، وقتاً فوقتاً یاد دلاتی رہے گی۔ اس 'احسان' کے دباؤ میں نہ آتے ہوئے غیر مقبول فیصلوں سے گریز، نیز اس اہم اور اکثریتی جماعت کو مسلسل راضی رکھنا، نئی قیادت کا ایک کڑا امتحان ہو گا۔
علاوہ ازیں، بلوچستان میں جاری میگا پراجیکٹس، گوادر پورٹ، سینڈک پراجیکٹ، ریکوڈک پراجیکٹ اور گیس پائپ لائن معاہدوں سمیت ایسے اہم ایشوز، جن کا تعلق خطے کے جیو اسٹریٹجک معاملات سے ہے، سے متعلق نہایت سوچ سمجھ کر فیصلے لینے ہوں گے۔ گزشتہ حکمرانوں کی نا اہلی کے باعث سینڈک جیسا اہم پراجیکٹ خاک ہو گیا۔ بلوچستان کی معدنیات کے بے بہا استعمال کے باوجود یہاں کے عوام کی مجموعی حالت میں کسی قسم کی بہتری کا نہ آنا ہی سابق حکمرانوں کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کی طرح بلوچستان میں بھی بیوروکریسی کا شہنشاہی راج ہے جو سیاسی قیادت کے گرد خوشامد کا ایسا جال بُن دیتی ہے، جس سے اس کا نکلنا محال ہو جاتا ہے۔ اور جو اس جال میں نہ آئے، اس کے خلاف پھر سرخ فیتہ حرکت میں آ جاتا ہے۔ نئی سیاسی قیادت کو بیوروکریسی کے ان حربوں سے خود محفوظ بنانا ہو گا۔ خود کو براہِ راست عوامی تک قابل رسائی بنائے بغیر کوئی بھی سیاسی قیادت 'عوامی' ہونے کی اہل نہیں ہو سکتی۔ اٹھارویں اور بیسویں ترمیم کے بعد جس طرح تعلیم و دیگر اہم امور اب براہ راست صوبائی اختیارات میں آ چکے ہیں، اس لیے اس ضمن میں نو منتخب قیادت کو مقبول عام فیصلے لینے ہوں گے۔
مختصراً یہ کہ ایک طویل، کٹھن اور صبر آزما جدوجہد کے بعد نیشنل پارٹی کی قیادت جس منصب پر پہنچی ہے، وہ منزل نہیں محض ایک موڑ ہے، جہاں سستانے کا کوئی موقع نہیں۔ تمام تر خدشات اور خطروں کے باوجود جب تک وہ اس منصب پر رہیں گے، انھیں آگ کے الاؤ کے اوپر تنی ایک ایسی باریک رسی پر چلنا ہے، جہاں ذرا سی غلطی انھیں دہکتی آگ میں جھونک سکتی ہے۔