این جی اوز ناکام کیوں

7سال گزرگئے، 32کروڑ روپے کی لاگت سے شیلٹر ہوم کی تعمیر مکمل نہ ہوسکی، تمام این جی اوز خاموش تماشائی بن چکی ہیں۔

shabbirarman@yahoo.com

این جی اوز سے مراد نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز ہے یعنی غیر سرکاری تنظیمیں ،ایک زمانہ تھا کہ خدمت خلق اللہ پاک کی رضا کے لیے کی جاتی تھی، تب انسان کو دلی سکون میسر آتا تھا ہرچندکہ یہ سلسلہ متروک نہیں ہوا ہے، اب بھی گاہے بگاہے جاری ہے لیکن جب سے انٹرنیشنل این جی اوزکا تصور پروان چڑھا ہے جس کے اثرات ہم تک بھی پہنچے ہیں انسانیت کی فلاح وبہبود کے کار نیک نے ایک کاروبارکی حیثیت اختیارکرلی ہے،آج کے کسی جدید سماجی کارکن سے یہ کہا جائے کہ فلاح سماجی کام کرنا ہے تو آگے سے یہ جواب ملتا ہے کہ اس میں میراکیا بینیفٹ ہوگا؟

یہ مغربی این جی اوزکا نظریہ ہے جو آہستہ آہستہ ہم میں بھی در آیا ہے جب کہ خدا ترس لوگوں کا آج بھی یہی ایمان ہے کہ اس کار نیک کا جزا اللہ پاک دینے والا ہے اور یہی اصل خدمت خلق کرنے والے لوگ ہیں جو اللہ پاک کی رضا کے لیے دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔مشہور مقولہ ہے نیکی کر دریا میں دال۔

آئیے! جائزہ لیتے ہیں کہ آج کی جدید این جی اوزکی صورت حال کیا ہے؟ ان دنوں کراچی سمیت سندھ بھر میں 36ہزار نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز (این جی اوز ) متعلقہ محکمہ میں رجسٹرڈ ہیں ۔ان میں سے ہر تنظیم کم ازکم 20عہدیدار اور 15مجلسں عاملہ اور 60 ممبران پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ ممبران کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے، ہر تنظیم کا ایک آپریشن ایریا ہوتا ہے، کوئی علاقائی، شہری، صوبائی، وفاقی اور ملک گیر سطح پر ہوتی ہیں یہ سب کے سب عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے دعوے دار ہوتی ہیں یعنی جہاں حکومتی ادارے ناکام ہوتے ہیں۔

وہیں یہ فلاحی ادارے سماجی مسائل حل کرنے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ ان میں سے کوئی اپنی مدد آپ کے تحت تو بعض چندہ اورفنڈزکے ذریعے خدمات انجام دیتی ہیں جب کہ بیشتر این جی اوز ملٹی ملین ڈالرزکے منصوبوں میں کارپوریٹ ادارے کی طرزکا کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں رجسٹرڈ 36ہزار این جی اوز بھی سماجی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں جن میں کراچی کی 12ہزار این جی اوز بھی شامل ہیں ، اتنی ساری این جی اوزکے ہوتے ہوئے بھی ہمارے اردگرد پھیلے ہوئے بے شمار سماجی مسائل ہیں۔

کیوں؟ جب کہ ان میں سے بیشتر این جی اوز سیکڑوں ممبران رکھنے کی دعویدار ہیں جن کو اگر ضلع اور علاقائی سطح پر تقسیم کیا جائے اور ان کے سپرد سماجی کام دیے جائیں تو بہت سے سماجی مسائل حل ہوسکتے ہیں مگر یہ سب کچھ کاغذی ہوتے ہیں یا پھر مجمع اکھٹے کرنے کے کام آتے ہیں۔ ان میں سے 90 فیصد این جی اوزکارپوریٹ کلچرکا شکار ہوچکی ہیں ۔ این جی اوزکو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور انگریزی بولنے والے چاہییں اور پھر ان کی رپورٹس اور شعوروآگہی کی تحریریں بھی شامل ہوتی ہیں وہ انگریزی زبان میں ہوتی ہیں ۔ این جی اوز چلانے والے ٹیکنوکریٹس اورکنسلٹنس کے ساتھ فائیو اسٹار ہوٹلوں کے ہالوں اور بورڈز روم میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ فائیواسٹار ہوٹلوں میں منصوبوں کی افتتاحی تقریب میں خواتین، بچے، معذور افراد اور نوجوان طبقے کو درپیش مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے ۔


اس حوالے سے تمام کام کاغذی دستاویزات اور تصاویر میں نظر آتا ہے جب کہ مقامی سطح پر پسماندہ طبقات پر اثرات نظر نہیں آتے، این جی اوز فنڈز ٹھکانے لگانے کے لیے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کرتی ہیں جس میں متعلقہ طبقے سے وابستہ افراد شامل نہیں ہوتے بلکہ تقریبات میں سیاسی شخصیات کو بطور مہمان خصوصی مدعوکیا جاتا ہے اور دیگر شرکاء میں این جی اوزکا مافیا تشریف فرما ہوتا ہے، اس کے علاوہ فوٹو سیشن کے لیے مقامی سطح پر این جی اوز دورے کرتی ہیں اور متعلقہ حکومتی اراکین سے اجلاسوں کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں، بیشتر این جی اوز معاشرے کے مظلوم طبقات کے حقوق کی بحالی کے لیے منصوبے تیار کرتی ہیں اور بیرونی ممالک میں ڈونرز سے فنڈز وصول کرتی ہیں، منصوبے کے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے بغیر ہی مختص فنڈز ختم ہوتے ہی این جی اوز کام بھی بند کردیتی ہیں ، یہ معاشرے کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ این جی اوز کا تعلق لوگوں سے کمزور ہے۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے باعث حکومت اور این جی اوز سماجی مسائل حل نہ ہونے پرایک دوسرے کو مورد الزام ٹہراتے ہیں حکومت کی ناراضگی اور این جی اوزکی رجسٹریشن منسوخ ہونے کا خوف طاری ہوتا ہے، حقیقت میں این جی اوز کا کام حکومتی پالسیوں کی مانیٹرنگ کرنا ، معاشرے میں در پیش مسائل کو اجاگر کرنا اور اس کو حل کرنے کے لیے حکومت کی مدد کرنا ہوتا ہے اور مقامی سطح پر جا کر آگاہی فراہم کرنا شامل ہے۔

یہ سارے بہت اچھے کام ہیں لیکن بیشتر این جی اوز پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے سروس ڈیلیوری پر مامور ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے این جی اوز سیکٹرکمرشل بن چکا ہے جو حکومتی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے سر گرم رہتا ہے اور جیسے ہی فنڈز ختم ہوتا ہے ان اداروں کو لاوارث چھوڑ دیتا ہے اور حکومتی ادارے این جی اوز پر الزام تراشی کرتی ہیں جب کہ این جی اوز فنڈز کی کمی کا مسئلہ بتاتی ہیں ۔کچی آبادیوں میں غربت ، جہالت اور بے روزگاری کے باعث خواتین کو تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے لیکن ان علاقوں میں این جی اوز نہیں جاتی ہیں اگر جاتی بھی ہیںتو محض رسمی طور پر جہاں مقامی سماجی تنظیم کے توسط سے کارنر میٹنگ کی جاتی ہے ، تصویریں بنائی جاتی ہیں جن کی رپورٹ متعلقہ ڈونرزکو ارسال کی جاتی ہے جنھیں بتایا جاتا ہے کہ ہم علاقوں میں سماجی کام کر رہے ہیں پھر اللہ اللہ خیر صلا۔

ایک رپورٹ کے مطابق سندھ بھر میں یوایس ایڈ کی جانب سے خواتین کے صنفی مساوات پروگرام کے 5سالہ منصوبے کے لیے ایک این جی اوزکو 60ملین ڈالرز فراہم کیے گئے، حکومت کے ساتھ ملکر خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے قانون سازی میں تکنیکی مدد فراہم کی لیکن ان قوانین پر عملدر آمد کرانے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا ، جس سے بیشتر قوانین لاگو نہ ہوسکے۔ انھوں نے تشدد کے خاتمے کے لیے رکشا ڈارئیوروں کو بلایا اور رکشوں پر پوسٹر ز لگوا دیے ، خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے ضلع سطح پرکمیٹیاں تشکیل نہیں دی گئیں، خواتین کا صوبائی کمیشن تاحال قائم نہیں ہوسکا، اس ضمن میں بھی حکومت اور این جی اوزکے مابین ایک لابی بن چکی ہے ۔ تھانوں میں کرائسز سیل نہیں بنائے گئے ۔

ضلع سطح پر محفوظ پناہ گاہیں نہیں بنائیں گئیں، صوبے بھر میں غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ کراچی میں خواتین کا سرکاری شیلٹرہومز موجود نہیں ہے ،ایک شیلٹر ہوم درالامان کو بھی این جی اوز کے حوالے کردیا گیا، جہاں خواتین کو معمولی جھگڑوں کی بنا ء پر مشاورت سے صلح کرانے کی بجائے خلع لینے کے لیے قانونی امداد فراہم کی جاتی ہے ۔ خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے سندھ میں تاحال ڈے کیئرسینٹر، ویمن کمپلیکس سینٹر اور ہاسٹل بھی تعمیر نہیں کیے گئے، ان تمام معاملات پر این جی اوز خاموش ہیں ۔کراچی کے 973 سگنلز پر بھکاری بچے بھیک مانگ رہے ہیں، 30 ہزار بچے سڑکوں پر سوتے ہیں جب کہ کراچی میں 5لاکھ سے زائد بچے شاہراہوں اورگلی کوچوں میں گھر والوں کی کفالت کے لیے محنت کرتے ہیں اور شام کو گھر لوٹتے ہیں ۔ یہ بچے علم وہنرکی دولت سے محروم ہیں۔ 7سال گزر نے کے باوجود چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی بھی فعال نہ ہوسکی ۔ سندھ میں سرکاری سطح پر اسٹریٹ چلڈرن کا کوئی شیلٹر نہیں ہے۔

7سال گزرگئے، 32کروڑ روپے کی لاگت سے شیلٹر ہوم کی تعمیر مکمل نہ ہوسکی، تمام این جی اوز خاموش تماشائی بن چکی ہیں ،کوئی پریس کانفرنس اور مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے ، ضعیف العمر افراد کی بحالی کے لیے کوئی کام نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی معاشرے میں درپیش مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے چونکہ عالمی سطح پر ڈونرز فنڈز فراہم نہیں کرتے، مستحکم ترقیاتی اہداف کے 17مقاصد جن میں سینئر سٹیزن کا تذکرہ ہی شامل نہیں ہے ۔ آبادی کا 60 فیصد طبقہ نوجوانوں پر مشتمل ہے سات سال گزرگئے یوتھ پالیسی سندھ حکومت نے تاحال منظور نہیں کی اس حوالے سے کافی منصوبے بنے مگر مقصد حاصل نہ ہوسکے ۔ معذور افراد کو ملازمت فراہم کرنے کے دو فیصد کوٹے پر تا حال عملدرآمد نہیں ہوسکا جب کہ دیگر صوبوں میں 5 فیصد ہے ،اسی طرح مظلوم طبقات کو دیگر مسائل درپیش ہیںلیکن بیشتر این جی اوز حکومتی پالیسیوں پر تنقیدکرنے سے گریزاں ہیں۔کیوں ؟
Load Next Story