کامیابی کا ہما کس کے سر بیٹھے گا

ارکان اسمبلی میں وزارتوں کے لئے دوڑ

فوٹو : فائل

وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی تشکیل کے تمام مراحل بخیروخوبی طے پارہے ہیں،فیصل آبادمیں پہلے رانا ثناء اللہ کا نام سپیکرپنجاب اسمبلی کیلئے زیربحث آتارہا جس سے ان کے حامیوں میں خاصی مایوسی پائی جاتی تھی کیونکہ وہ انہیں پنجاب کابینہ میں فعال وزیرکی صورت میں دیکھناچاہتے تھے۔

رانا ثناء اللہ نے خودبھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا نام سپیکرپنجاب اسمبلی کیلئے زیرغوررہا لیکن پھروزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے انہیں اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا، لیکن رانا اقبال کے بطور سپیکرانتخاب کے بعداطلاعات کے مطابق رانا ثناء اللہ کوسینئرصوبائی وزیربنایا جارہا ہے ،انہیں قانون کے ساتھ وزارت بلدیات کا قلمدان بھی ملنے کا امکان ہے ۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن اسمبلی خلیل طاہرسندھوکوبھی صوبائی وزیراقلیتی اموروانسانی حقوق بنائے جانے کا امکان ہے۔

فیصل آبادکے9 ارکان اسمبلی وزارتوں کی دوڑ میں شامل ہیں اورہرایک کا دعویٰ تھا کہ پارٹی خدمات کی وجہ سے وزارت ان کا حق بنتا ہے۔ رانا ثناء اللہ کے بعد جن ارکان کے وزیربننے کے امکانات ہیں ان میں ملک محمدنواز اورخواجہ اسلام کا نام بڑی شدت سے لیاجارہا ہے۔وزارتوں کی دوڑ میں شریک دیگرارکان میں حاجی الیاس انصاری،میاں طاہرجمیل،جعفرعلی ہوچہ، ظفرناگرہ اوررضا نصراللہ گھمن بھی شامل ہیں۔ان میں سے بعض کواگلے مرحلے میں مشیریا پارلیمانی سیکرٹری بنایاجاسکتا ہے۔

پی پی 71 سے کامیاب ہونے والے ملک محمدنوازتیسری مرتبہ ایم پی اے بنے ہیں،پرویزمشرف کے دورمیں انہوںنے بھی بڑی ثابت قدمی سے پارٹی کا دفاع کیا اورقیادت کے ساتھ اپنی وابستگی قائم رکھی،ان کے بھائی شہزادملک شہرکے واحدٹاؤن ناظم تھے جن کی وابستگی مسلم لیگ ن کے ساتھ تھی اورانہوں نے کامیا بی کے ساتھ ق لیگ کی حکومت کا مقابلہ کیا،ان کے فنڈزبندکیے گئے ،مقدمات بنائے گئے لیکن پھربھی ان کے پا یہ استقلال میں لغزش نہ آئی۔

مشرف دورمیں ہونے والے ضلعی ناظمین کے انتخابات میں ملک نوازاوران کے بھائی شہزادملک نے مسلم لیگ ن کے ضلعی ناظم کے امیدواررانازاہدتوصیف کی کامیابی میں بھی کلیدی کرداراداکیا تھا لیکن زاہدتوصیف ضلعی ناظم بن کر ق لیگ میں چلے گئے مگرملک نوازاوران کے بھائی شہزادملک نے مسلم لیگ ن کے ساتھ اپنی وابستگی برقراررکھی ۔

اب تک اطلاعات کے مطابق انہیں وزارتوں کی دوڑ میں ہارٹ فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ پی پی72 سے کامیاب ہونے والے خواجہ اسلام چوتھی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، وہ 16 سال تک سٹی صدررہے ہیں ، پرویزمشرف کے دورآمریت میں انہوںنے کافی کٹھن وقت گزارا ہے اورپارٹی کیلئے ان کی بڑی خدمات ہیں، پنجاب کابینہ میں نمائندگی کووہ بھی اپناحق سمجھتے ہیں۔


پی پی ۔52 سے کامیاب ہونے والے سابق سپیکرپنجاب اسمبلی چودھری محمدافضل ساہی ق لیگ چھوڑ کر دوبارہ ن لیگ میں آئے ہیں۔ چودھری غلام رسول ساہی کے بھائی کرنل(ر) غلام رسول ساہی بھی علاقے میں مضبوط سیاسی دھڑے کی بنیاد پر اپنے آپ کووزارت کاحقدارسمجھتے ہیں لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت کے اس فیصلے کے بعد کہ دوسری جماعتوں سے آنے والوں کوکابینہ میں شامل نہیں کیاجائے گا شایدچودھری افضل ساہی اس دوڑ سے باہرہوجائیں ۔وزارتوں کے باقی امیدواروں میںپی پی 65 سے کامیاب ہونے والے حاجی الیاس انصاری کا دعویٰ ہے کہ وزارت ان کا حق بنتاہے۔

پی پی 62 سے کامیاب ہونے والے رضا نصراللہ گھمن فیصل آبادکے دیہی علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔وہ این اے 80 سے الیکشن لڑناچاہتے تھے لیکن پارٹی قیادت نے انہیں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا،انہوںنے پارٹی ڈسپلن کی پابندی کی اوروہ بھی سمجھتے ہیں کہ کابینہ میں شمولیت کیلئے انہیں نظراندازنہیں کیا جائے گا۔

پی پی57 سے کامیاب ہونے والے جعفرعلی ہوچہ بھی وزارت کے امیدوارہیں،ان کا تعلق تاندلیانوالہ سے ہے۔ وہ تواپنی کامیابی کے ساتھ ہی سینکڑوں لوگوں کولے کررانا ثناء اللہ کے ڈیرے پرپہنچ گئے تھے اورپنجاب کابینہ میںشامل کرنے کا مطالبہ کر دیا تھا لیکن ان کے اس مؤقف کوکوئی خاص پذیرائی نہیں مل سکی۔ پی پی64 سے آزاد حیثیت میںکامیاب ہونے والے چودھری ظفراقبال ناگرہ کا کہناہے کہ انہیں ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت پارٹی نے نظراندازکیا حالانکہ 2008 ء میں وہ یہ سیٹ جیت چکے تھے،اپنی کامیابی کے بعد وہ پھربلامشروط مسلم لیگ ن میں شامل ہوچکے ہیں لہٰذا انہیں بھی پنجاب کابینہ میں شامل کیا جانا چاہیے۔

پی پی69سے کامیاب ہونے والے میاں طاہرجمیل کومسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما چودھری عابد شیر علی کی حمایت حاصل ہے انہیں ٹکٹ بھی عابدشیرعلی نے ہی دلوایا تھا۔اس ٹکٹ پر چودھری عابدشیرعلی کا سابق ایم پی اے ڈاکٹرخالدامتیازبلوچ سے جھگڑا بھی ہوا اورڈاکٹرخالدامتیازبلوچ نے عابدشیرعلی کا این اے 84کی سیٹ پربھی مقابلہ کیالیکن وہ دونوں سیٹیں ہار گئے۔ ایم پی اے بننے کے بعد اب وہ عابدشیرعلی کی حمایت سے وزارت کے بھی امیدوارہیں۔

وزارتوں کی دوڑ سے ہٹ کرفیصل آبادکی سیاسی صورتحال کاجائزہ لیاجائے تو تمام نگاہیں اب این اے 83 اور پی پی51 پرہونے والے ضمنی انتخابات پرلگی ہوئی ہیں۔گیارہ مئی کوان سیٹوں پرانتخابات ایک امیدوار امجدربانی کی وفات کی وجہ سے ملتوی ہوگئے تھے۔این اے 83 فیصل آبادشہرکی اہم ترین سیٹ ہے جس پرپاکستان مسلم لیگ ن کے میاں عبدالمنان نے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی ہوئی ہے ۔اس حلقے کی دونوں صوبائی سیٹیں مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے جیت چکی ہے اورتوقع یہی کی جارہی ہے کہ میاں عبدالمنان بھی یہ سیٹ آسانی کے ساتھ جیت جائیں گے۔

گیارہ مئی کے انتخابات میں میاں عبدالمنان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے سابق ایم این اے فیض اللہ کموکا اورپیپلزپارٹی نے ممتازچیمہ کومیدان میں اتارا تھا، اب ضمنی الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ میاں عبدالمنان کے مقابلے میں کون کون میدان میں آتا ہے۔توقع یہی ہے کہ مقابلہ میاں عبدالمنان اورتحریک انصاف کے فیض اللہ کموکا میں ہی ہوگا۔

پی پی51 جس پرضمنی انتخابات ہونا ہیں، این اے 75 کی ذیلی سیٹ ہے ،گیارہ مئی کوقومی اسمبلی کی اس سیٹ پرپاکستان مسلم لیگ ن کے کرنل(ر) غلام رسول ساہی نے کامیابی حاصل کی تھی،گیارہ مئی کے انتخابات میں اس سیٹ پرپاکستان مسلم لیگ ن نے آزادعلی تبسم کوامیدوارنامزدکیاتھا ، تحریک انصاف کی طرف سے اجمل چیمہ جبکہ پیپلزپارٹی کی طر ف سے پارٹی کے ضلعی صدرطارق باجوہ کے بھائی واجدمصطفٰی باجوہ امیدوار تھے، طارق باجوہ این اے 75 کی نشست بری طرح ہارگئے تھے ،اب توانتخابی شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد ہی چلے گا کہ تمام سیاسی جماعتیں کس کس امیدوارکومیدان میں اتارتی ہیں۔
Load Next Story